Monday, July 04, 2011

 

دیوار کھوکھلی ہو رہی ہے



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار چھتیس

دیوار کھوکھلی ہو رہی ہے

ملکوں اور قوموں کی ساری طاقت اپنے اندر کی طاقت سے ہوتی ہے جو عسکری طاقت سے کہیں زیادہ قوی شے ہوتی ہے۔ اس طاقت کا منبہ انصاف ہوتا ہے۔ جو معاشرے منصف ہوتے ہیں، جہاں کام قانون کے تحت ہو رہے ہوتے ہیں، اور لوگوں کو انصاف ہوتا نظر آتا ہے وہاں لوگ مطمءن ہوتے ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ محنت سے کام کریں گے اور قانون کے حساب سے چلیں گے تو انہیں کوءی تکلیف نہیں ہوگی۔ عوام کو اپنی حکومت سے کوءی گہری اور بنیادی شکایت نہیں ہوتی۔ عوام اپنے آپ کو ریاست کا جز سمجھتے ہیں اور ریاست کی بقا میں اپنی بقا دیکھتے ہیں۔ اس بات کا امکان بہت کم ہوتا ہے کہ کسی ایسے مضبوط ملک پہ کوءی باہر سے آکر حملہ کرے اور اس پہ قبضہ کر کے عوام کو غلام بنا لے۔ اس کے مقابلے میں تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ عظیم الشان تہاذیب، وسیع و عریض رقبے کا محاکمہ کرتے ممالک پہلے اندر سے کمزور ہوءے اور پھر کسی بیرونی طاقت نے گرتی ہوءی دیوار کو آخری دھکا دینے کا کام کر دیا۔ ہم نے اپنی زندگی میں سوویت یونین جیسے بڑے ملک کو ذلیل و خوار ہو کر ٹوٹتا بکھرتا دیکھا ہے۔ سوویت یونین افغانستان میں اپنی ہار کی وجہ سے نہیں ٹوٹا بلکہ اس لیے ٹوٹا کیونکہ وہ اندر سے کھوکھلا تھا۔ افغانستان کی جنگ تو محض گرتی ہوءی دیوار کے لیے آخری دھکا ثابت ہوءی۔ افغانستان کی جنگ کی وجہ سے سوویت یونین سنہ ۸۹ میں ٹوٹ گیا۔ اگر افغانستان کی جنگ نہ ہوتی تو شاید سوویت یونین کچھ سال اور چل جاتا، مگر وہ ملک جس قسم کے تضادات اور ناانصافیوں کا حامل تھا اس کا بہت عرصے چلنا ممکن نہ تھا۔ افغانستان پہ امریکی قبضے کی واجبی وجہ امریکی افواج کا تیس ہزار فٹ کی بلندی سے بم گرانا تھا، اصل وجہ زمین پہ شمالی اتحاد کی موجودگی تھی۔ اور خود ہمارے ملک کی تاریخ دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش ہندوستان کی فوجی کارواءی کی وجہ سے نہیں بنا۔ بلکہ ہندوستان کی فوجی کارواءی تو محض کھوکھلی دیوار کو آخری دھکے کے مترادف تھی۔ دیوار کو تو ہم نے خود کھوکھلا کیا تھا۔
آج پاکستان کے وجود کو ایک بار پھر جو خطرہ ہے وہ اندرونی عناصر سے ہے۔ اگر پاکستانی طالبان یا ان سے منسلک گروہ پاکستانی ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں تو وہ ہمارے ہی لوگ ہیں اور بہت سی وجوہات کی وجہ سے پاکستان سے اتنے نالاں ہیں کہ وہ پاکستان میں کشت و خون کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں اور رہا سہا نظام تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ باہر کے دشمن کو سنبھالنا پھر بھی آسان ہوتا ہے مگر اندر کا آدمی دشمن بن جاءے تو اسے سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔ اندر کے دشمن سے لڑنے کے لیے بہت سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق پی این ایس مہران پہ حملے کے بعد ہونے والی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان بندرگاہ پہ موجود تیل کے ٹینکوں، اور بجلی گھروں وغیرہ کو بھی نشانہ بنانے کا اردہ رکھتے ہیں۔ اگر طالبان کسی حد تک بھی بربادی کے ان ارادوں میں کامیاب ہو گءے تو اس غریب ملک کا کیا بنے گا؟ وہاں تو پہلے ہی بجلی کی شدید قلت ہے اور پورا نظام شکستہ ہے۔ اگر مرکزی نظام بالکل ہی ٹوٹ گیا تو مسلح گروہ اپنے اپنے علاقوں پہ قابض ہو جاءیں گے اور پاکستان صومالیہ جیسی ایک ریاست بن جاءے گا۔
ایک جملے میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ وہاں امریکہ شدت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور پاکستان میں موجود شدت پسند امریکہ کا بال بیکا نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنا غصہ پاکستان پہ نکال رہے ہیں۔ سنہ ۲۰۰۱ میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو جس جنگ میں دھکیل دیا تھا، سنہ ۲۰۰۸ میں جمہوری حکومت کے آنے کے بعد اس جنگ سے باہر نکل آنا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ شدت پسندی سے جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے۔ یہ جنگ پاکستان کو خود اپنے طور پہ لڑنی ہے، بغیر کسی بیرونی مدد کے۔ اس جنگ کو اکیلے لڑنے ہی میں پاکستان کی بقا کا راستہ پوشیدہ ہے ورنہ اس ملک کی شکست و ریخت دیوار پہ لکھی نظر آ رہی ہے۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?