Monday, July 04, 2011
سعودی عرب اور دبءی کے دوروں پہ چند خیالات
جولاءی چار، دو ہزار گیارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار چالیس
سعودی عرب اور دبءی کے دوروں پہ چند خیالات
ہم ایک اچھے دور میں پیدا ہوءے ہیں۔ وہ سارے لوگ جو اپنی اپنی جگہ معاشرے میں بہت قوی مقام پہ نہیں ہیں آج ایک ایسے اچھے دور میں زندہ ہیں اور انہیں اپنی خوش قسمتی پہ فخر کرنا چاہیے۔ ماضی میں کمزور کی زندگی ذلت کی زندگی تھی۔ دنیا بھر کے انسان چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں کن بنیادی انسانی حقوق کے حقدار ہیں، اس بارے میں کوءی اتفاق راءے نہ تھا۔ طاقتور کمزور کو جس طرح چاہے دبا لے، اس بارے میں مکمل آزادی تھی۔ آج بھی دنیا میں بہت سی جگہوں پہ اسی طرح کا نظام راءج ہے مگر ان جگہوں پہ اس طرح کےغیر منصف نظام کے وجود کو ایک مہذب معاشرے، قانون کی حکمرانی سے منسلک فلسفے کی طرف سے شدید خطرہ ہے۔
ماضی میں جہاں ایک جگہ کے طاقتور شخص یا اشخاص کو آزادی تھی کہ وہ اپنے سے کمزور لوگوں سے جس طرح چاہے سلوک کریں وہیں یہ معاملہ من حیث الگروہ قوموں کے ساتھ بھی تھا۔ طاقتور قوم کمزور قوم کو جس طرح چاہے دبا لے، محکوم کو جس طرح چاہے غلام بنا لے، شکست خوردہ لوگوں کی عورتوں کو جس طرح چاہے اپنے حرم کا حصہ بنا لے، اس سلسلے میں مکمل آزادی تھی اور اپنی فتح کا اظہار مفتوح کی تذلیل کے ساتھ کرنے میں کسی قسم کی نفسیاتی خلش کا سوال بھی نہ پیدا ہوتا تھا۔
تبدیلی دنیا کا ایک ناقابل انحراف اصول ہے۔ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔ کمزور کے دن بدلتے ہیں اور طاقت اس کے ہاتھ آجاتی ہے۔ طاقتور کبھی کھیل کے اصول نہیں بدلنا چاہتا کیونکہ وہ تو جیت رہا ہوتا ہے۔ کھیل کے اصول بدلنے کی خواہش، دنیا کو منصف بنانے کی خواہش تو کمزور کے دل میں ہوتی ہے۔ ماضی میں بہت دفعہ ایسا ہوا کہ جب کمزور نے طاقتور کو اکھاڑ کر اعلی منصب پہ قبضہ کر لیا تو اس نے دنیا کو منصف بنانے کی خواہش ترک کر دی اور وہی طور طریقے اپنا لیے جو اس سے پہلے طاقتور لوگوں کے تھے۔ مگر پھر ایسا بھی ہوا کہ کءی جگہ نءے حکام نے اپنے اوپر پڑنے والا کڑا وقت یاد رکھا، پرانے طریقے چھوڑے اور معاشرے کو قانون اور انصاف کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ ہم خوش قسمتی سے آج ایک ایسی ہی دنیا میں رہتے ہیں جہاں پچھلے دو ہزار سالوں میں کءی ایسے انقلابات آءے جن سے جنم لینے والے خیالات نے دنیا کو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے فلسفے کی طرف مبذول کیا۔
یورپ میں صنعتی انقلاب کے نمو پہ تواناءی کے ذخاءر کی تلاش زور پکڑ گءی۔ کوءلے کی شکل میں موجود کروڑہا سال پرانے مدفون جنگلات کی کان کنی تو ایک عرصے سے ہورہی تھی، زیر زمین تیل اور گیس کے ذخاءر بھی انسان کی دسترس میں آگءے۔ مشین کی مدد سے تواناءی کے ایسے ذخاءر دریافت کیے گءے جن سے مزید مشینیں چل سکیں اور مزید کان کنی کی جا سکے۔ بیسویں صدی کے اواءل میں مشرق وسطی میں تیل کے ذخاءر دریافت ہونا شروع ہوءے۔ اس وقت تک دنیا میں اتنی تہذیب آچکی تھی کہ طاقتور کی طرف سے کھلی لوٹ مار ممکن نہ تھی۔ یورپی ممالک اور امریکہ یہ نہ کر پاءے کہ جہاں جہاں تیل کے ذخاءر دریافت ہوءے تھے وہاں مقامی لوگوں کو مار پیٹ کر ایک طرف کرتے اور ان خزانوں پہ قبضہ کر لیتے۔ اس متروک حکمت عملی کے بجاءے نوآبادیاتی نظام کا وہ طریقہ واردات استعمال کیا گیا جس میں علاقے کے طاقتور کو اپنے فاءدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ طریقہ کہ علاقے کے سب سے بڑے بدمعاش کو اپنے ساتھ ملایا جاءے، اپنا الو سیدھا کیا جاءے، اور بدمعاش جس طرح چاہے مقامی آبادی کے ساتھ سلوک کرے اسے ایسا کرنے دیا جاءے۔ یہ وہ تاریخی پس منظر ہے جس کی روشنی میں پاکستان کی موجودہ مذہبی شدت پسندی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ساٹھ اور ستر کی دہاءی میں جب مشرق وسطی میں عرب شیخوں نے نوحصول دولت کی مدد سے اپنے علاقوں کو سنوارنے کا کام شروع کیا تو انہیں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے بڑے پیمانے پہ مزدوروں اور ہنر مند لوگوں کی ضرورت پڑی۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک سے لوگ جوق در جوق مشرق وسطی پہنچنے لگے۔ ترقیاتی منصوبوں کا خیال اور خاکہ پیش کرنے والے یورپی اور امریکی منصوبہ ساز تھے، رقم شیخ کی تھی، اور محنت پاکستان و ہندوستان سمیت بہت سے غریب ممالک کے مزدوروں کی تھی۔ جیسے جیسے مشرق وسطی کے ان ممالک کی سڑکیں بنتی گءیں اور وہاں اونچی اونچی روشن عمارتیں کھڑی ہوتی گءیں یہ ممالک اپنی مادی ترقی میں بظاہر ترقی یافتہ مغربی ممالک کی طرح ہوتے گءے۔ ہمارے لوگوں کے اگلے جتھے جب اسی اور نوے کی دہاءیوں میں وہاں گءے تو انہوں نے سعودی عرب اور مشرق وسطی کے دوسرے ممالک میں یہ چکاچوند مناظر دیکھے کہ وہاں صاف ستھری اور چوڑی سڑکیں ہیں، فلک بوس عمارتیں ہیں، شیخ اور مقامی آبادی سے نیچے قانون کی حکمرانی ہے، کھانے پینے کی فراوانی ہے اور اس کے ساتھ متووں کی ایک فوج ہے جو نماز کے وقت صلاة صلاة کہہ کر دکانیں بند کرواتی ہے اور عورتوں کو چھڑیاں مار کر نقاب گرانے کو کہتی ہے۔ اور ہمہ وقت دستیاب بجلی اور پانی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں اور جمعے کی نماز کے بعد قاتلوں کے سر قلم کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک سے جانے والے بہت سے لوگوں کو اور خاص طور سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے مغربی دنیا نہیں دیکھی تھی مشرق وسطی میں مغربی دنیا کی یہ سطحءی اور ادھوری نقل بہت پسند آءی۔ ان لوگوں کو خیال ہوا کہ کہ یہ ہے قابل تقلید "اسلام"۔ یہ خیال ہوا کہ جزیرہ نما عرب میں جو فرسودہ خیالات "اسلام" کے نام پہ لوگوں پہ ٹھونسے جا رہے ہیں ان کا اور جدیدیت کا آپس میں کوءی ٹکراءو نہیں ہے۔ مغربی ممالک کی یہ خرابی تھی کہ انہوں نے ایک گھٹیا نظام کو جسے مشرق وسطی کے اصحاب اثر " اسلام" کا نام دیتے تھے قاءم رہنے دیا اور نءی دولت کی مدد سے اس کمتر اور دقیانوسی نظام کے اوپر جدیدیت کا چمکدار ملمع چڑھ گیا، اور بہت سے بھولے لوگوں کو"اسلامی نظام" کا یہ مکمل پیکج بھا گیا۔ یہ نسخہ پاکستان جیسے نظریاتی ملک کے لیے زہر ہلاہل ثابت ہوا۔ عقل حیران ہے کہ ہم اب اس جال سے کیسے نکلیں گے ۔
Labels: सौदी अरब और दुबई के डोरों पह चाँद खियालात