Monday, July 04, 2011
کچھ حال شمالی کوریا کے دورے کا
جون پچیس، دو ہزار گیارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار انتالیس
کچھ حال شمالی کوریا کے دورے کا
میں کبھی کسی سے تذکرہ کروں کہ مجھے شمالی کوریا جا کر بے حد مزا آیا تھا تو میرے سامعین میری طرف تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ شک کرتے ہیں کہ کہیں میں ایسا کٹر اشتراکی تو نہیں جو ایک اشتراکی نظام میں رہنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ میرے بزرگ سرپرست اور پاکستان کے مشہور وکیل عابد حسن منٹو فخر سے اپنے آپ کو اشتراکی اور مارکسسٹ کہتے ہیں مگر اشتراکیت ہو، ملاءیت ہو یا کینزیاتی سرمایہ داری نظام، میں کبھی کسی آءیڈیالوجی کو بلا تنقید دل و جان سے قبول نہ کر پایا۔ مجھے شمالی کوریا جا کر اس لیے مزا آیا تھا کیونکہ ایک خاص قسم کا معاشی و سیاسی نظام جو سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ میرے خیال میں میرے مشاہدے سے ہمیشہ کے لیے کھو گیا تھا، وہ نظام مجھے شمالی کوریا میں مجھے دیکھنے کو مل گیا۔
سرمایہ داری نظام سے مخالف ایک متبادل معاشی نظام کو دیکھنے کی خواہش دراصل میرے بچپن کے چند تجربات سے جڑی ہوءی ہے۔ میں جب بہت چھوٹا تھا تو کسی رشتہ دار نے مجھے دنیا کا سیاسی نظام اس مختصر بیان سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ "بیٹا، بات دراصل یہ ہے کہ دنیا میں دو ہی عالمی طاقتیں ہیں۔ ایک امریکہ اور دوسرا سوویت یونین۔ یہ دو عالمی طاقتیں اپنے حساب سے دنیا کے دوسرے ممالک کو چلاتی رہتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک تو اس عالمی بساط پہ محض شطرنج کے پیادوں کی طرح ہیں۔ ہماری حیثیت ہی کیا ہے؟ یہ دو طاقتیں جوچاہیں ہمارے ساتھ سلوک کریں۔" اس اجمال سے میرے ذہن میں سوویت یونین کا ایک بہت مظبوط تصور ابھرا گو کہ مجھے نظر آتا تھا کہ امریکہ سے آگہی حاصل کرنا آسان تھا جب کہ سوویت یونین کے معاملات میں کچھ راز و نیاز نظر آتا تھا۔ مثلا امریکی فلمیں اور ٹی وی پروگرام باآسانی پاکستان میں دستیاب تھے جب کہ سوویت یونین کی طرف سے اس قسم کی کوءی ثقافتی یلغار نہ تھی۔ میں نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا تو میرا داخلہ ڈی جے کالج میں ہوگیا۔ ڈی جے کالج جاتے ہوءے بس ایمپریس مارکیٹ سے گزرتی تھی۔ میں ہمیشہ بس کی کھڑکی سے لگ کر بیٹھتا تھا اور چلتی بس کے باہر ہوتا ہوا تماشہ غور سے دیکھتا تھا۔ جب بس ایمپریس مارکیٹ سے گزرتی تو مجھے ان ٹھیلوں پہ جو لنڈے کے کپڑے بیچتے تھے سفید فام لوگ مول تول کرتے نظر آتے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی پہلی اسٹیل مل روس کے تعاون سے بن رہی تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ لنڈے کے کپڑے خریدنے والے وہ لوگ روسی ہیں جو اسٹیل مل بنانے کے لیے پاکستان آءے ہوءے ہیں اور چھٹی کا وقت نکال کر ایمرپیس مارکیٹ آتے ہیں اور امریکہ سے آنے والی جینز اور دوسرے کپڑے ہنسی خوشی خریدتے ہیں۔ اس مشاہدے سے میرے دل میں سوویت یونین کی مضبوطی سے متعلق خیال کو کچھ دھچکا لگا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ کس قسم کی عالمی طاقت ہے جس کے شہری اپنے ہم پلہ دوسری عالمی طاقت کے شہریوں کے اترے ہوءے کپڑے پہنتے ہیں۔ دو سال کا کالج ختم ہوا تو ایک طویل چھٹیاں شروع ہوگءیں۔ اس وقت تک مجھے اتنی انگریزی آگءی تھی کہ میں انگریزی کی کتابیں پڑھ لیتا تھا۔ ان طویل چھٹیوں میں جہاں میں نے اور بہت سی کتابیں پڑھیں وہیں جیمز ہیڈلے چیز کے ناول بھی پڑھے۔ ان ناولوں میں مشرقی یورپ اور بالخصوص مشرقی المانیہ (جرمنی) کا تذکرہ عجیب الفاظ میں ہوتا تھا۔ ان ناولوں کا ایک کردار جب مغربی برلن سے مشرقی برلن جاتا تھا تو اشتراکی نظام پہ بہت ناک بھوں چڑھاتا تھا۔ اس کردار کو مشرقی یورپ میں بہت سی خرابیاں نظر آتیں۔ اسے وہاں کی نوکرشاہی نہ بھاتی۔ وہ اپنی گاڑی کو نہایت صاف ستھرا رکھنا چاہتا تھا۔ مگر یہ صفاءی اور نفاست اسے مشرقی یورپ میں میسر نہ آتی۔
میری روح میں جہاں نوردی کا جو شوق جنون کی حد تک حلول ہے وہ بہت سے محسنین کی صحبت کا تحفہ ہے۔ میں نے آوارہ گردی کی اسی خواہش میں سوچا تھا کہ ایک دن سوویت یونین ضرور جاءوں گا۔ اس لیے نہیں کیونکہ میں سوویت یونین کو اشتراکیت کا منبع اور نگاہ خیرہ کرنے والا ہیرا سمجھتا تھا بلکہ اس لیے کہ میں سوویت یونین جا کر سرمایہ داری نظام کے متبادل ایک نظام کے سب سے وسیع تجربے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ مگرسوویت یونین میں اشتراکیت کا وہ تجربہ جھوٹ پہ چل رہا تھا۔ مزدوروں، کسانوں، اور دوسرے محنت کشوں کے نام پہ لایا جانے والا انقلاب ان جفا کشوں کو ان کا جاءز حصہ دینے سے قاصر رہا تھا اور انقلاب کے علم بردار وہی اشرافیہ بن چکے تھے جس اشرافیہ سے جان چھڑانے کا وعدہ کر کے انہوں نے محنت کشوں کو اپنے ساتھ ملایا تھا اور انقلاب کے لیے اکسایا تھا۔ سوویت یونین ایک جھوٹ تھا اور یہ جھوٹ بہت دیر نہ چل پایا۔ میں ابھی زیر تعلیم ہی تھا کہ سوویت یونین ٹوٹا اور کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے پہ دنیا کا سیاسی نقشہ یکا یک بدلا اور اشتراکیت کے تجربات کرنے والے کءی ممالک اشتراکیت کے سحر سے اور ایک جھوٹ سے باہر آگءے۔ پورے مشرقی یورپ کی کایا پلٹ ہوگءی۔ دو ایسے ممالک جو معاشی نظریات کی بنیاد پہ دو لخت ہوءے تھے پھر مل گءے۔ مشرقی المانیہ مغربی المانیہ سے ملا اور شمالی یمن جنوبی یمن سے۔ دنیا میں اشتراکی جوھڑ تیزی سے خشک ہو رہے تھے۔
سیاحت میں میرا پہلا اشتراکی ملک کیوبا تھا۔ اس وقت تک میں ملک شام جا چکا تھا جو ایک زمانے میں سوویت یونین کا زبردست حلیف تھا۔ شام کے مقابلے میں کیوبا اشتراکی تجربے سے متعلق میرے ذہنی خاکے سے قریب تر معلوم دیا مگر یہاں بھی وہ راز و نیاز والی بات نہیں ملی جو سوویت یونین کے بارے میں سننے میں آتی تھی۔ تب ہی مجھے معلوم ہوا کہ دنیا میں صرف ایک ملک بچا ہے جہاں صحیح معنوں میں اشتراکی تجربہ اس حساب سے عمل پذیر ہے جس حساب سے پچاس کی دہاءی میں دنیا کے بہت سے کونوں میں یہ تجربہ شروع ہوا تھا۔ تب ہی میں نے ارادہ کیا کہ میں شمالی کوریا جاءوں اور جس قدر جلد ممکن ہو وہاں پہنچ جاءوں، اس سے پہلے کہ یہ خالص اشتراکی ملک سوویت یونین کی طرح ختم ہوجاءے۔ اور یوں سنہ ۲۰۰۷ میں شمالی کوریا جا کر میری آتما کو سکون آگیا۔ جیسا سنا تھا اس ملک کو ویسا ہی پایا۔ ہم لوگ ایک گروپ کی صورت میں پیویانگ پہنچے تھے۔ اس سفر کے لیے ہمیں شمالی کوریا کی حکومتی سیاحتی ایجنسی سے اجازت لینی پڑی تھی۔ ہمارا پورا سفر شمالی کوریا کی حکومت ہی نے تیار کیا تھا۔ کس دن کس وقت کونسا سیاحتی مقام ہمیں دکھایا جاءے گا، یہ سب انہوں ہی نے طے کیا تھا۔ ہمارے گروپ کے ساتھ دو مترجمین ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ وہ صبح ہمارے اٹھنے سے پہلے ہمارے ہوٹل پہ موجود ہوتے اور رات ہمارے سونے پہ ہی روانہ ہوتے تھے۔ ہم پہ پابندی تھی کہ ہم شمالی کوریا کے عام لوگوں سے نہیں مل سکتے تھے۔ اور نہ ہی ہم اپنے مترجمین کی اجازت کے بغیر کسی مقام یا کسی شخص کی تصویر کھینچ سکتے تھے۔ ہم پہ لازم تھا کہ ہم کم ال سنگ کے ہر مجسمے کو دیکھ کر اس کے سامنے جھک کر کورنش بجا لاءیں۔ اس دورے کے پہلے روز جب ایک مجسمے پہ مترجم نے ہم سے جھکنے کو کہا تو ہم نے بہانہ کیا کہ ہم مجسمے کو دیکھ کر پہلے ہی جھک چکے ہیں۔ مترجم نے کہا کہ ایسے نہیں، ہم باجماعت جھکیں گے۔ پھر گروپ کے سارے لوگوں کو ایک قطار میں کھڑا کیا گیا۔ جب مترجم نے اطمینان کر لیا کہ تمام لوگ ایک سیدھی لکیر میں مجسمے کے سامنے کھڑے ہیں اور آداب بجا لانے کے لیے تیار ہیں تو حکم آیا، جھکو۔ ہم سب باجماعت مجسمے کے سامنے جھکے اور پھر بات آگے بڑھی۔
ہفتہ بھر شمالی کوریا میں گزارنے کے بعد وہاں سے نکل کر میں نے اپنے اس تجربے کے بارے میں بہت سوچا۔ مجھے یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ نہ جانے شمالی کوریا کے شہری کس دباءو کے تحت زندگی گزارتے ہوں گے۔ ان کی آزادی کس طرح سلب ہے کہ وہ حکام اعلی کو بتاءے بغیر ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جا سکتے۔ ایک ایسا ملک جہاں سارا زور ایک ہوے کو قاءم رکھنے پہ ہے۔ کہ ملک کو کسی طرح اچھی سے اچھی روشنی میں پیش کیا جاءے۔ ملک کی عزت پہ حرف نہ آءے۔ کہ اگر کوءی براءی ہے تو اسے چھپا لیا جاءے۔ ظاہر کہ شمالی کوریا کا یہ نظام بہت عرصہ نہ چل پاءے گا۔ مگر اس کے ساتھ مجھے شمالی کوریا میں یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ بقیہ دنیا جس طرح ایک رنگ میں ڈھلتی جارہی ہے، شمالی کوریا اس علت سے آزاد ہے۔ اب دنیا کے کسی بھی بڑے شہر چلے جاءیے آپ کو وہاں کثیرالاقوامی کمپنیوں کے ایک طرح کے ساءن اور ایک طرح کی چیزیں نظر آءیں گی۔ مگر شمالی کوریا میں ایسا نہیں ہے۔ پورا ملک یوں لگتا ہے کہ جیسے سنہ پچاس میں ٹہر گیا تھا اور اب اسی جگہ جما کھڑا ہے۔ اور یوں شمالی کوریا ہم جیسے تنوع کے طلب گاروں کے لیے ایک بہترین سیاحتی مقام ہے۔
Labels: कुछ हाल उत्तर कोरा के डोरे का