Wednesday, November 29, 2006

 

وادی سلیکن عمل



لوگ حیران ہیں کہ یہ وادی سلیکن میں کیا ہو رہا ہے؟ کمپیوٹر سے متعلق یہ کیسے نت نئے تماشے جنم لے رہے ہیں؟ کیسے نئی نئی کمپنیاں کھل رہی ہیں؟ لوگ راتوں رات کیسے امیر بن رہے ہیں؟
ہر دور میں انسان نے اپنی زندگی آسان بنانا چاہی ہے۔ اکثر لوگ زندگی کو آسان بنانے کی ایسی خواہشات دل میں رکھتے ہیں۔ موجد جو اپنی تخلیقی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے نئی چیزیں بنائیں ہمیشہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ وادی سلیکن عمل یہ ہے کہ ایجادات کے عمل کو لالچ کا زوردار چابک مارا جا رہا ہے جس سے یہ گھوڑا بگٹٹ دوڑ رہا ہے۔ عمل یہ ہے کہ ایک شخص کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آتا ہے۔ وہ شخص اپنے اس خیال کو وضاحت سے لکھتا ہے اور متمول لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اگر سرمایہ کاروں کو خیال پسند آتا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ زیر نظر اختراع سے بہت سا پیسہ بنایا جا سکے گا تو اس خیال پہ سرمایہ لگایا جاتا ہے۔ ایک نئی کمپنی بنتی ہے جس میں خیال پیش کرنے والا شخص کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں۔ پھر دوڑ شروع ہو جاتی ہے خیال کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کی۔ خیال عمل میں آ جائے اور ایجاد ہونے والی شے یا ٹیکنالوجی مارکیٹ میں فروخت ہونے لگے تو کمپنی کے حصص منڈی میں بیچے جاتے ہیں جس سے سرمایہ کار، خیال پیش کرنے والا شخص اور اس کی ٹیم سب ہی پیسے بناتے ہیں۔
گوکہ وادی سلیکن عمل اب تک زیادہ تر کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے وابستہ ایجادات سے متعلق رہا ہے مگر نئی دوائیں، طبی ٹیکنالوجی اور متبادل توانائی ایجادات میں بھی یہ عمل آگے بڑھ رہا ہے۔
اس عمل کا بلا واسطہ فائدہ یقیناً دنیا کے سارے لوگوں کو پہنچ رہا ہے کہ کوئی ایجاد اگر سرمائے کی کمی یا اکیلے آدمی کے کام سے اگر سالوں میں پایہ تکمیل تک پہنچتی تو وہ اب مہینوں میں بن جاتی ہے۔


Tuesday, November 28, 2006

 

کامیابی



اکثر صورتوں میں کامیابی شکست کے ہلکے سے پردے کے پیچھے چھپی مسکرارہی ہوتی ہے۔ یہ ان ہزاروں لوگوں کو دیکھتی ہے جو پردے تک پہنچ کر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ گنتی کے چند ہی ایسے سورما ہوتے ہیں جو آگے تک آتے ہیں اور پردے کو چاک کر کے کامیابی کا منہ چوم لیتے ہیں۔


Monday, November 27, 2006

 

چینی صدر کا دورہ پاکستان


جمعہ، نومبر ۲۴، ۲۰۰۶
چینی صدر ہو جنتائو بھارت کے چار روزہ دورے کے بعد اب پاکستان میں ہیں جہاں چین اور پاکستان کی حکومتیں تجارتی معاہدے کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کی درآمدات پہ عائد ڈیوٹی بتدریج ہٹانے کی بات کر رہی ہیں۔ پاکستانی حکومت ان تجارتی معاہدوں پہ بہت خوش نظر آتی ہے ۔
ہو جنتائو کے پاکستانی دورے پہ سب سے پہلا تبصرہ تو یہ ہے کہ چین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ گئی ہے کہ معاشی طاقت میں فوجی طاقت پنہاں ہے۔ پھر یہ بات بھی واضح نظر آتی ہے کہ عالمی طاقتوں کے حکمراں بھارت کے دورے کے بعد پاکستان ضرور جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ کرنے سے پاکستان احساس محرومی کا شکار نہ ہو جائے۔
موجودہ امریکی حکومت کی طرح چین بھی پاکستان میں جاری طالبان حمایتیوں کے خلاف فوجی کاروائی سے خوش ہے۔ چین کے مغربی صوبے شنجیانگ میں گو کہ ایک عرصے سے بغاوت کی آواز سنائی نہیں دی ہے مگر جس زمانے میں پاکستان کے شمال میں اور افغانستان میں مذہبی شدت پسندوں کا زور بڑھ تھا چین کو یہ خطرہ ہو گیا تھا کہ شنجیانگ کے علیحدگی پسندوں کو کہیں یہ نئی ہوا نہ لگ جائے۔
چین پاکستان کے ساتھ درآمدات پہ جس طرح کی پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے اور جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا ہے اس میں پاکستان کا سراسر نقصان ہے۔ یہ ایک یکطرفہ معاہدہ ہے۔ سستی چینی مصنوعات کی پاکستان میں درآمد سے مقامی صنعتوں کو لا تلافی نقصان پہنچے گا۔ کسی بھی صنعت کی باریکیاں سمجھنے والے لوگ ایک علاقے سے اگر مکمل طور پہ ختم ہو جائیں تو اس صنعت کا بیج دوبارہ سے اس زمین میں لگانا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ چین کی سستی مصنوعات کی درآمد سے پاکستانی صنعتیں تباہ ہو گئیں اور پھر مستقبل میں چین نے اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیں تو پاکستان کے پاس مہنگی قیمت ادا کرنےکے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو گا۔
تیسری بات یہ کھ چین اور بھارت کے تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ چین نے سکم کو بھارت کا حصہ مان لیا ہے اور چاہتا ہے کہ بھارت کشمیر کے شمال میں واقع علاقوں پر دعوے سے دستبردار ہو جائے۔ چین یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت تبتی مذہبی قیادت کی حمایت ترک کر دے۔ آثار بتاتے ہیں کہ بھارت چین سے بہتر تجارتی تعلقات کی خواہش میں چین کی یہ ساری باتیں ماننے کو تیار ہے۔ اگر چین اور بھارت کے تعلقات اسی طرح مستحکم ہوتے رہے تو چین کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی اہمیت بتدریج کم ہوتی جائے گی۔ اور اگر پاکستان نے اپنی معیشت، اپنی تعلیم، اپنے سیاسی استحکام کےذریعے اپنے اندر طاقت پیدا نہ کی تو دوسری عالمی طاقتوں کی طرح چین کے لیے بھی پاکستان کی عزت کرنے کا کوئی جواز باقی نہ رہے گا۔


Sunday, November 26, 2006

 

ہم اس قدر مزے میں کیوں ہیں؟



میں اکثر اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ مغربی ممالک میں موجود ہم تارکین وطن اس قدر مزے میں کیوں ہیں؟
ہم اس جگہ پہنچ کر یہاں کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ یہ چمکدار سڑکیں اور ان پہ لگے یہ واضح نشانات راہ، یہ مواصلات کا جدید ترین نظام، یہ پانی بجلی کی ہمہ وقت دستیابی، یہ دفاتر، یہ کارخانے اور روزی کمانے کے بے انتہا امکانات، یہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بے پناہ مواقع، یہ آسانیاں، یہ فلاحی معاشرہ کہ آپ بے روزگار ہوں تو آپ کو سرکار کی طرف سے مشاہرہ ملے، کہ آپ بہت زیادہ غریب ہوں تو آپ کا کم قیمت علاج ہو سکے۔ اور پھر ان سب سے اوپر یہ ہموار سیاسی نظام کہ جس سے مستقل قیادت بدلتی رہتی ہے، ایک ایسا سیاسی نظام جو جمہور کی مرضی کا تابع ہے۔
ہم اس موجودہ سبک رفتار نظام کی جادوگری سے متاثر ہیں اور اس کے پیچھے لگی سالوں کی شدید محنت کو نہیں دیکھتے۔ ہم ایک ایسے ملک پہنچ گئے ہیں جہاں ایک بنا بنایا نظام سہولت سے کام کر رہا ہے۔ ہم نہایت خوشی سے ان درختوں کی چھائوں میں بیٹھ گئے جو تناور ہیں، سایہ دار ہیں، اور مستقل پھل دیتے ہیں۔ کہ جن پہ وہ کڑا وقت گزر گیا کہ جب پودے کی مستقل دیکھ بھال کرنا تھی۔ جب مستقل دھڑکا لگا رہتا تھا کہ پودا چل بھی پائے گا یا نہیں۔ ہم اس وقت یہاں نہیں تھے۔ ہم پنیری لگنے اور پھر پودے کے مضبوط درخت بننے کے عمل میں رکھوالوں کے کام میں شریک نہ تھے۔ ہم تو اصل کام ختم ہونے کے بعد ، مشکل وقت گزرنے کے بعد یہاں پہنچے ہیں۔ اب وقت آسان ہے۔ اب اس تناور درخت کو خاص اوقات پہ پانی اور کھاد ڈالنا ہے اور پھر خاص وقت پہ درخت سے پھل اتارنا ہے۔
اور پھر ہم اتراتے ہیں یوں کہ جیسے یہ سب ہم نے بنایا ہو۔ ہم اس سبک رفتار نظام کا مقابلہ ان ملکوں کے نظام سے کرتے ہیں جہاں سے ہم آئے ہیں اور ہم اپنی چھوڑی گئی ان جگہوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کی شکست پہ ہنستے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ دراصل ہم اپنا مذاق اڑا رہے ہیں، دراصل ہم اپنی شکست پہ ہنس رہے ہیں۔

سمندطور


Saturday, November 25, 2006

 

کر بھلا، ہو بھلا



خوف خدا رکھنے والوں کی ایک روایت رہی ہے کہ وہ روز خیرات نکالا کرتے ہیں۔

انٹرنیٹ معلومات کا ایسا خزانہ ہے جوہر دن ہر لحظہ بڑھتا جارہا ہے اور جس سے لاکھوں [شاید کروڑوں] لوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ آپ اگرانٹر نیٹ پہ لوگوں کی پہنچائی ہوئی معلومات سے مستفید ہوتے ہیں تو آپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ اس خزانے میں آپ بھی اپنا فیض شامل کر دیں۔ اور اگر یہ خیرات روز نکالی جائے تو کیا ہی کہنا۔


Thursday, November 23, 2006

 

ہزار برکتیں، لکھوکھا احسانات



زندگی کی دوڑ میں بہت آسان ہے کئی واضح باتیں بھلا دینا۔ یہ بھول جانا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں، کہ ہم پہ ہزارہا برکتوں کی بارش مستقل ہو رہی ہے، کہ نہ جانے کتنے لوگ ہیں جن کے احسانات کا سہارا لیے ہم آج اس مقام پہ پہنچے ہیں۔ بہت آسان ہے یہ ساری باتیں بھلا دینا اور پھر قسمت سے گلہ کرنا کہ ہمیں وہ کچھ نہیں ملا جو ہم نے چاہا تھا۔ بہت آسان ہے شکایت کرنا اور ان ساری چیزوں کی خواہش کرنا جو ہماری دسترس سے بہت دور ہیں۔
میں مستقل برکتوں کی بارش میں جیتا ہوں۔ میں نے مستقل لوگوں سے ان کے احسانات کی بھیک مانگی ہے۔ اور نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو میرے بھیک مانگنے سے پہلے مجھے اپنی محبت سے نوازتے ہیں۔ میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ برکتوں کا ساون گزر گیا اور لوگوں نے مجھے اپنی مہربانی کی بھیک ڈالنا بند کر دی تو میں کہیں کا نہ رہوں گا۔ میں ڈرتا ہوں ایسی خشک سالیء الفت کے موسم سے۔
[تھینکس گونگ ۲۰۰۶ کے موقع پہ]

Wednesday, November 22, 2006

 

آئو کہ کوئی خواب بنیں



یہ غالبا امرتا پریتم کی ایک کتاب کا عنوان ہے۔ آئو کہ کوئی خواب بنیں۔ مگر مجھے یہ خیال پسند آتا ہے۔ خواب بننا اور وہ بھی لوگوں کے ساتھ مل کر بننا۔
آئو کہ کوئی خواب بنیں۔
کہ ایک بستی ہو چند عام لوگوں کی۔ کہ اس بستی کی خاص بات یہ ہو کہ وہ ہر قسم کے تشدد سے پاک ہو۔ وہ بستی لفظ جرم سے ناآشنا ہو۔ وہاں انسان کو انسان کا ڈر نہ ہو۔ وہاں لوگ گھروں کو تالے نہ لگاتے ہوں۔ وہاں بات کا جواب بات سے دیا جاتا ہوگھونسے یا گولی سے نہیں۔
ایک بستی جہاں مختلف رنگ، نسل، زبان، مذہب، سیاسی خیالات کے لوگ رہتے ہوں۔ وہ باسی اس بنیادی بات پہ اتفاق کرتے ہوں کہ تشدد اور تہذیب دو متضاد خیالات ہیں، کہ ایک مہذب معاشرے میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
کیا اس خواب کو پا لینا ناممکن ہے؟
میں ایسی ہی ایک بستی میں رہنا چاہتا ہوں۔ میں ایسی ہی ایک بستی میں مرنا چاہتا ہوں۔


Tuesday, November 21, 2006

 

برلن



وہ کون تھا؟
بیرو، بیرو، بیرو، بیرو، بیرو،
بیرو، بیرو، بیرو، بیرو، بیرو،
بیرو، بیرو، بیرو، بیو۔ بے رو۔ بے رو
وہ ٹرین میں برلن کے اس حصے سے سوار ہوتا جو دیوار کے گرنے سے پہلے شہر کے مغربی نصف میں تھا۔ اس کے گلے میں گٹار ہوتا جسے وہ بجاتا اور ساتھ بہت درد سے گاتا،
بیرو، بیرو، بیرو، بیرو، بیرو،
بیرو، بیرو، بیرو، بیرو، بیرو،
بیرو، بیرو، بیرو، بیو۔ بے رو۔ بے رو
گانے کی اور سطور بھی تھیں مگر مجھے بس اتنا حصہ ہی یاد رہا ہے۔
ہر اسٹیشن پہ مسافر ٹرین میں چڑھتے، کچھ اترتے۔ لوگ اس گانے والے پہ ایک طائرانہ نظر ڈالتے اور پھر کسی دوسری طرف دیکھنے لگتے۔ کبھی کوئی بھلا مانس گانے والے کی طرف چند سکے بھی بڑھا دیتا۔ میری رہائش مشرقی برلن میں ایک ایسے گھر میں تھی جہاں غریب مسافر پڑائو کرتے تھے۔ وہ شخص میرے اسٹیشن سے ایک اسٹیشن پہلے اترتا تھا۔ وہاں اتر کر وہ نہ جانے کہاں جاتا تھا۔ کیا وہ مخالف سمت میں جانے والی ٹرین میں سوار ہو جاتا اور وہاں پلٹ جاتا جہاں سے وہ سوار ہوا تھا؟
میں تھوڑا عرصہ برلن میں گزارنے کے بعد آگے روانہ ہو گیا مگر مجھے وہ آدمی یاد رہا۔ اور وہ مجھے اس لیے یاد رہا کیونکہ اس کے گانے ميں بلا کی موسیقیت تھی۔ ایسی موسیقیت کہ جب ایک خاص قسم کا موسم ہو، آپ ایک خاص قسم کی ترنگ میں ہوں تو وہ موسیقی ہر پوشیدہ کونے سے پھوٹ پڑے۔
وہ کون تھا؟ کس زبان میں گاتا تھا؟ اسے کیا غم تھا؟


 

ضیاع


آج سارا دن دوڑتے بھاگتے، یا پھر وائرلیس نیٹ ورک سے کشتی لڑتے گزر گیا۔ کس قدر فضول ہیں وہ دن کہ جب آپ کسی قسم کا کوئی تخلیقی کام نہ کر پائیں۔

Sunday, November 19, 2006

 

قحط



اپنے آس پاس نظر اٹھا کر دیکھیں۔ یہ بجلی کے قمقمے، یہ تیزی سے دوڑتی ہوئی گاڑیاں، یہ برق رفتار ہوائی جہاز، یہ ٹیلی فون، یہ ٹیلی وڎن، یہ کمپیوٹر، یہ انٹرنیٹ۔ یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ اس قدر کارآمد یہ ساری چیزیں کن لوگوں نے ایجاد کی ہیں۔ آپ کو جواب ملے گا کہ آج کی جدید دنیا میں ایک شخص عام طور پہ جو سہولیات استعمال کرتا ہے ان کی ایجاد کا سہرا بمشکل دو سو لوگوں کے سر ہے۔ پھر ایک اور کام کیجیے۔ صرف ایجادات کو ان کی موجودہ شکل میں مت دیکھیے، بلکہ ان ایجادات کے پیش رو کا مطالعہ کیجیے اور ان ذہین لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کیجیے جن کا کسی نہ کسی قسم کا کردار اس پورےتخلیقی عمل میں رہا ہے۔ مثلاً ہوائی جہاز کے پیش رو ہیں آئی سی انجن، علم دھات سازی، پہیہ وغیرہ۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر ان سارے لوگوں کا بھی شمار کیجیے جو ایجادات کی موجودہ شکل کے پیچھے کسی نہ کسی موقع پہ اپنا کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں تو آپ کا جواب چند ہزار افراد سے اوپر نہ جا پائے گا۔ کس قدر عجیب بات ہے۔ اس وقت دنیا میں چھ ارب سے اوپر لوگ رہتے ہیں اور آٹھ ہزار قبل مسیح سے لے کر اب تک ایک اندازے کے مطابق پچاس ارب لوگ اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔ پچاس ارب لوگوں میں چند ہزار کارآمد، زر خیز ذہن لوگوں کی تعداد کس قدر کم ہے۔ اب ایک اور تحقیق کیجیے۔ یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان چند ہزار لوگوں کا تعلق کن خطوں سے رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ تقریباً پانچ سو سال پہلے تک دنیا کے مختلف علاقے ایسے کارآمد لوگ پیدا کرتے رہے تھے جنہوں نے اپنی سوچ، اپنی اختراع سے ہم سب کی زندگیاں سہل بنا دیں۔ مگر پچھلے پانچ سو سالوں میں جس نئی سوچ نے، جن نئی ایجادات نے جنم لیا ہے وہ تقریباً ساری ہی یورپ اور شمالی امریکہ میں پرورش پائی ہیں۔ اب اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ ایسا کیوں ہے۔ کیا یورپ اور شمالی امریکہ کے علاوہ باقی ساری دنیا ذہنی طور پہ بانجھ ہو چکی ہے؟ میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا ہے اور چند نتیجوں پہ بھی پہنچا ہوں۔ میں آپ کے سامنے وہ خیالات ضرور پیش کروں گا۔ مگر اس سے پہلے میں آپ کے جوابات جاننا چاہوں گا۔

Saturday, November 18, 2006

 

برطانوی شہری مرزا طاہر حسین کی پاکستانی قید سے رہائی



برطانوی شہری مرزا طاہر حسین کو پاکستانی عدالت نے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی ۔ اسے کچھ عرصے پہلے پھانسی پہ چڑھایا جانا تھا مگر انہیں دنوں برطانوی شاہی خاندان کے چند افراد کی پاکستانی دورے کی وجہ سے یہ پھانسی موخر کر دی گئی تھی ۔ آج کی خبر ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے مرزا طاہر حسین کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کیونکہ طاہر پچھلے اٹھارہ سال سے قید میں ہے اس لیے وہ اپنی عمر قید بھگتا چکا ہے اور رہا کر دیا گیا ہے۔
اور اب تبصرہ۔
مرزا طاہر حسین صرف اس لیے موت کے منہ میں جانے سے بچ گیا کیونکہ وہ ایک معاشی طور پہ طاقتور، مضبوط ملک کا شہری تھا۔ اگر وہ صرف پاکستانی شہری ہوتا تو پھانسی کے پھندے سے ہرگز نہ بچ پاتا۔
مغربی ممالک میں بسنے والے بہت سے پاکستانی وطن آنے جانے میں آسانی کی وجہ سے دہری شہریت رکھنا چاہتے ہیں۔ مرزا طاہر حسین کی دہری شہریت نے اسے تقریبا موت کے منہ میں جھونک دیا تھا کیونکہ اگر وہ صرف برطانوی شہری ہوتا تو برطانوی حکومت پاکستان سے اس کی بازیابی کا مطالبہ کر سکتی تھی۔


 

کل لاہور میں ہونے والا بم دھماکہ



لاہور میں جمعہ کے روز ہونے والے بم دھماکے میں بیسیوں افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ دہشت گردی کی یہ واردات جنرل پرویز مشرف کے لاہور کے دورے سے ایک دن پہلے کی گئی ہے۔ دھماکہ خیز مواد ایک کوڑے کے ڈبے میں ڈالا گیا تھا۔
موجودہ پاکستانی حکومت نے اس وقت اپنے لیے کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ شمالی پاکستان میں طالبان کے حمایتیوں کے خلاف فوجی مہم جاری ہے، پھر ساتھ ہی بلوچستان میں قوم پرستوں کے خلاف بھی کاروائی ہو رہی ہے۔ ان دونوں داخلی محاذوں کے ساتھ بیرونی طور پہ ہندوستان سے کشمیر کے معاملے پہ مستقل ایک کشمکش کی کیفیت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت بیک وقت اتنے بحرانوں سے نبرد آزما ہونے میں کیسے کامیاب ہوتی ہے۔




Friday, November 17, 2006

 

بڑا ظلم



اس دنیا میں ہزارقسم کی ناانصافیاں ہیں۔ بے گناہ لوگ نہ جانے کن کن حالات میں پستے رہتے ہیں۔ ظلم کی داستانیں بہتیری ہیں۔ مگر موجودہ دور میں ایک بڑی نا انصافی، بڑا ظلم ایسا ہے جو باقی ہر ظلم پہ حاوی ہے اور جس کا شکار کروڑوں لوگ ہیں۔ لوگوں کو اس بات کی سزا دینا کہ وہ ایک ترقی پذیر ملک میں کیوں پیدا ہوئے، وہ ایسے حکمرانوں کے دیس میں کیوں رہتے ہیں جو ملک کے لیے اچھے، دانا فیصلے نہیں کرتے، ہمارے عہد کی سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ دنیا میں گنتی کے چند ممالک ہیں جہاں عوام سکھ کی بانسری بجاتے ہیں، باقی ہر جگہ لوگ حکمرانوں سے اور ان کے احمقانہ فیصلوں سے عاجز ہیں۔ ان جگہوں پہ کم فہم حکمرانوں نے معاشرے کو ایسی سمت میں لگا دیا ہے جہاں عوام کے لیے معاشی اور ذہنی عذاب کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
کوئی ہے جو ان بے گناہوں کی داد رسی کرے؟




 

پاکستان میں ہڈی توڑ بخار [ڈ ینگی بخار] کا وبائی حملہ



یہ ایک پرانا مضمون ہے جو چند ہفتے پہلے آزاد کراچی ریڈیو کے ایک پروگرام میں پڑھا گیا تھا۔
پچھلے چند ہفتوں میں پاکستان میں ہڈی توڑ بخار سے بڑی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔ ماہرین صحت عامہ کے مطابق ہڈی توڑ بخار کی خاص علامت یہ ہے کہ مریض کو بخار کے ساتھ جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔ اور اگر مریض کی ناک یا کسی اور جگہ سے خون بہنا شروع ہو جائے تو بخار اپنی اگلی منزل یعنی دماغی بخار کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہڈی توڑ بخار ایک خاص قسم کے دھاری دار مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ اور مچھروں کی طرح یہ مچھر بھی گندگی میں افزائش کرتا ہے۔ ہڈی توڑ بخار سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ صاف ستھرے ماحول میں رہا جائے جہاں کوڑا ڈھانپ کر رکھا جاتا ہو اور فضلہ کھلے میں نہ بہے۔ کوشش کی جائے کہ زیادہ تر وقت اندرون خانہ گزارا جائے جہاں کھڑکی دروازے مچھر محفوظ ہوں۔ سوتے وقت مچھر دانی کے اندر سویا جائے۔ اور بخار آنے کی صورت میں فوری طور پہ معالج سے رجوع کیا جا ئے۔
یہ تو تھے پاکستان میں پھیلنے والی اس وبا سے متعلق چند حقائق۔ اور اب تبصرہ۔
یوں لگتا ہے کہ غریب ہونا ایک جرم ہے۔ آپ غریب ملک کے شہری ہوں تو ہر مصیبت ایک قہر بن کر آپ پر نازل ہوتی ہے۔ پاکستان میں بارش نہ ہو تو لوگ خشک سالی کے خوف سے باران رحمت کی دعا مانگتے ہیں۔ اور جب بارشیں ہوں تو پورے ملک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ سیلاب آتے ہیں اور گائوں کے گائوں تباہ ہو جاتے ہیں۔
بات لے دے کر پھر وہیں پہنچتی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کا ذمہ حاکم وقت پہ ہے۔ اگر حکام ملک کی صحیح سمت متعین نہیں کر سکتے، اگر وہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتے تو پھر انہیں ملک پہ حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

Thursday, November 16, 2006

 

پاکستان میں صوبائی خود مختاری پہ جاری مذاکرات


بلوچستان میں جاری شورش کے دبائو میں آ کر پاکستانی حکومت نے صوبائی خود مختاری پہ بحث اور حزب اختلاف اور بلوچ سیاسی جماعتوں سے بات چیت شروع کرنا چاہی ہے۔ مگر یہ گفتگو آغاز میں ہی التوا کا شکار ہو گئی ہے کیونکہ بلوچ جماعتوں نے مذاکرات کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے۔
خرابی کی جڑ پھر وہی بنیادی ہے کہ جب لوگوں کو احساس ہو کہ سب سے اعلی سطح پہ ہونے والی حکومتی فیصلوں میں ان کی کوئی مرضی شامل نہیں ہے تو پھر وہ ایسی غیر نمائندہ حکومت کے ہر قدم کو شک کی نظر ہی سے دیکھتے ہیں۔ صرف ایک جمہوری حکومت ہی صوبائی خود مختاری پہ مذاکرات کی اہل ہو سکتی ہے۔

 

تجویز ۸۷ کیوں رد ہوئی؟


حالیہ کیلی فورنیا انتخابات میں تجویز ۸۷ کے رد ہونے پہ دوسرے ماحولیات دانوں کی طرح میں بھی افسردہ ہوں۔ تجویز ۸۷ یہ تھی کہ کیلی فورنیا سے تیل نکالنے والی کمپنیوں پہ اضافی ٹیکس لگایا جائے اور اس آمدنی سے متبادل توانائی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔ اس تجویز کے حمایتی ماحولیات داں اور متبادل توانائی ٹیکنالوجی پہ کام کرنے والے ادارے تھے اور مخالفین میں وہ لوگ تھے جن کے مالی مفاد پہ تجویز ۸۷ کے پاس ہونے پہ ضرب پڑتی تھی۔ مخالفین میں سب سے آگے تیل کی کمپنی شیوران تھی۔ شیوران نے کسی طرح ریاست کے آگ بجھییوں کو ساتھ ملا کر ٹی وی پہ تجویز ۸۷ کے خلاف ایک زوردار اشتہاری مہم شروع کی۔ اس اشتہاری مہم کی خاص بات یہ تھی کہ تجویز ۸۷ کی برائی ایک وردی پوش آگ بجھییے سے کروائی جاتی تھی جب کہ شیوران کا نام اشتہار کے آخر میں باریک حروف میں لکھا آتا تھا جس کو پڑھنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور تھا۔
مختلف حکومتی اور شہری اداروں میں آگ بجھییوں کو سب سے زیادہ عوامی ہمدردی حاصل ہوتی ہے۔ کہ جب آپ کے گھر میں آگ لگی ہو اور کچھ لوگ آئیں اور آگ بجھا کر چلے جائیں اور پھر آپ کی اگلی مصیبت تک آپ کو نظر نہ آئیں تو آخر آپ کے دل میں ان کے لیے نرم جذبات کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔
مختصر یہ کہ شیوران کی آگ بجھییوں کو ساتھ ملانے کی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی اور جمہور نے تجویز ۸۷ رد کر دی۔ شیوران کی طرف سے ٹی وی پہ چلائی جانے والی مہم تجویز ۸۷ میں دو بڑے کیڑے نکالتی تھی۔ ایک یہ کہ تجویز ۸۷ میں احتساب کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ کہ تیل نکالنے والے اداروں پہ ٹیکس لگانے سے جو آمدنی ہو گی وہ واقعی متبادل توانائی ٹیکنالوجی پہ خرچ ہو گی اور نتائج پیدا کرے گی۔ اشتہاری مہم کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اس تجویز کے منظور ہو جانے پہ ایندھن کی قیمتیں اور چڑھ جائیں گی۔ اشتہار میں یہ بات نہیں کہی جاتی تھی مگر اس دوسرے نکتے کی بنیاد یہ تھی کہ تیل نکالنے والے اداروں پہ جب اضافی ٹیکس لگے گا تو وہ کم نفع پہ آرام سے نہیں بیٹھ جائیں گے بلکہ نفع میں اپنے اس نقصان کو صارف کو مہنگا تیل بیچ کر پورا کریں گے۔ یہ دوسرا نکتہ اہم ہے کیونکہ عام صارف تیل کی گرانی سے پہلے ہی تنگ ہے اور مزید مہنگائی نہیں چاہتا۔
تجویز ۸۷ کے لکھنے، اس کو انتخابات میں عام کے سامنے پیش کرنے، اور پھر اس کی ناکامی سے ماحولیات دانوں کو تین اہم باتیں سیکھنی چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ عام آدمی ماحولیاتی مسائل کا ادراک ضرور رکھتا ہے اور ان کو حل ہوتا بھی دیکھنا چاہتا ہے مگر وہ اپنی جیب سے اس مد میں کوئی رقم خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے ان کے مالی مفاد پہ ضرب لگانا آسان نہیں ہے۔ وہ اپنے پیسے سے آپ کے ہر وار کی کاٹ کرنا جانتے ہیں۔
اور تیسری بات یہ کہ آئندہ جو بھی ماحول پسند تجویز عوام کے سامنے پیش کی جائے وہ ہر قسم کے جھول سے عاری ہو۔

 

امریکہ کی بدلتی سمت


یہ اور اگلے دو مضامین ڈیڑھ ہفتہ پہلے لکھے گئے تھے اور آزاد کراچی ریڈیو کے پروگرام شمار سات کے لیے ریکارڈ کیے گئے تھے۔
ہر دور کے اپنے مخصوص مسائل ہوتے ہیں۔ انتخابات ہوں تو لوگ ان امیدواروں کو ووٹ دینا چاہتے ہیں جو لوگوں کے اعصاب پہ سوار سب سے بڑے مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کریں۔ کسی دور کا کلیدی مسئلہ معیشت ہوتا ہے، کبھی انصاف کی تلاش، اور کبھی جنگ۔ پچھلے منگل کو ہونے والے امریکی انتخابات میں جو بات امریکی عوام کے ذہنوں پہ بری طرح سوار تھی وہ تھی عراق میں جاری جنگ۔
ان انتخابات کے نتائج دیکھ کر جان کیری یقینا تاسف سے ہاتھ مل رہے ہوں گے۔ یہ جان کیری کی خرابی قسمت ہے کہ دو سال پہلے صدارتی انتخابات کے وقت عراق میں حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے کہ آج ہیں۔

امریکہ کے عالمی طاقت ہونے کے ناتے یہاں کے انتخابات کو پوری دنیا بہت غور سے دیکھتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ فوجی حکومت بھی امریکہ میں بدلتی ہوئی ہوا کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہوگی۔ اگر اگلے دو سال صدر بش نو قدامت پسندوں کے مشوروں پہ عمل کرتے رہے اور امریکہ عراق میں پھنسا رہا تو ۲۰۰۸ کے انتخابات میں ایک ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کی کامیابی کے کافی امکانات ہوں گے اور یہ بات موجودہ عراقی، افغانستانی، اور پاکستانی انتظامیہ کے لیے تشویش ناک ہو گی۔

Wednesday, November 15, 2006

 

دنیا بھر میں پھیلے امریکہ کے نوکر



ایک دکان نے اشتہار لگایا تھا کہ ہر کپڑا چالیس فیصد یا زیادہ رعایت پہ دستیاب ہے۔ وہاں چلا گیا تھا۔ بہت بڑی تعداد میں کپڑے چین کے بنے ہوئے تھے۔ بہت سے کپڑے وسطی اور جنوبی امریکہ اور کیریبین کے ممالک میں بنے تھے۔ کچھ اردن کے تیار شدہ سوئیڑ بھی نظر آئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بنی ہوئی چیزیں اکا دکا ہی نظر آئیں۔
دوپہر میں ضرورت پڑی ایک کریڈٹ کارڈ کو فون کرنے کی۔ وہاں ایک خاتون نے جانے پہچانے لہجے میں میرے سوالات کے جوابات دیے۔ پھر فون رکھنے سے پہلے پوچھا کہ 'کیا آپ کوئی اور سوال پوچھنا چاہتے ہیں؟'۔ میں نے کہا کہ بی بی یہ بتادو کہ تم جس کال سینٹر سے بات کر رہی ہو اس کا وقوع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ، 'میں اے پی سے بول رہی ہوں۔' میں نے پوچھا کہ، 'حیدرآباد دکن؟' کہنے لگیں، جی ہاں۔
امیر لوگ ہمیشہ اپنے آس پاس نوکروں کی فوج رکھتے ہیں۔ ہماری طرح کے بہت سے لوگ ہیں جو 'گھر نوکر' ہیں۔ [ یہ اصطلاح 'گھر داماد' کی اصطلاح سے متاثر ہو کر گڑھی ہے]۔ مگر ہمارے جیسوں کے علاوہ بھی امریکہ کے بہت سے نوکر ہیں جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔


 

شکرہے



شکر ہے کہ کمپیوٹر کی طبیعت اب صحیح ہے۔ چلتے چلتے بار بار رک نہیں جاتا [جیسا کہ کل سے پہلے تھا۔] اب میں اس کمپیوٹر پہ اردو میں ٹائپنگ بھی کر سکتا ہوں اور اس لکھے کو اپنے بلاگ تک بھی پہنچا سکتا ہوں۔

Friday, November 10, 2006

 

خرابی


میں اس خرابی کمپیوٹر سے اس قدر تنگ ہوں کہ کچھ نہ پوچھیے۔ ونڈوز ایکس پی اور وائرلیس کارڈ کے ڈرائیور کی بالکل نہیں بن رہی اور پس میں رہا ہوں۔ مصیبت یہ ہے کہ بقیہ دو کمپیوٹر سے اردو میں بلاگنگ کر بھی نہیں سکتا۔ اسی کمپیوٹر پہ ایکس پی نصب کیا ہے اور یہیں سے اپنے بلاگ تک پہنچتا ہوں۔

This page is powered by Blogger. Isn't yours?