Sunday, November 26, 2006
ہم اس قدر مزے میں کیوں ہیں؟
میں اکثر اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ مغربی ممالک میں موجود ہم تارکین وطن اس قدر مزے میں کیوں ہیں؟
ہم اس جگہ پہنچ کر یہاں کے سحر میں گرفتار ہو گئے۔ یہ چمکدار سڑکیں اور ان پہ لگے یہ واضح نشانات راہ، یہ مواصلات کا جدید ترین نظام، یہ پانی بجلی کی ہمہ وقت دستیابی، یہ دفاتر، یہ کارخانے اور روزی کمانے کے بے انتہا امکانات، یہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بے پناہ مواقع، یہ آسانیاں، یہ فلاحی معاشرہ کہ آپ بے روزگار ہوں تو آپ کو سرکار کی طرف سے مشاہرہ ملے، کہ آپ بہت زیادہ غریب ہوں تو آپ کا کم قیمت علاج ہو سکے۔ اور پھر ان سب سے اوپر یہ ہموار سیاسی نظام کہ جس سے مستقل قیادت بدلتی رہتی ہے، ایک ایسا سیاسی نظام جو جمہور کی مرضی کا تابع ہے۔
ہم اس موجودہ سبک رفتار نظام کی جادوگری سے متاثر ہیں اور اس کے پیچھے لگی سالوں کی شدید محنت کو نہیں دیکھتے۔ ہم ایک ایسے ملک پہنچ گئے ہیں جہاں ایک بنا بنایا نظام سہولت سے کام کر رہا ہے۔ ہم نہایت خوشی سے ان درختوں کی چھائوں میں بیٹھ گئے جو تناور ہیں، سایہ دار ہیں، اور مستقل پھل دیتے ہیں۔ کہ جن پہ وہ کڑا وقت گزر گیا کہ جب پودے کی مستقل دیکھ بھال کرنا تھی۔ جب مستقل دھڑکا لگا رہتا تھا کہ پودا چل بھی پائے گا یا نہیں۔ ہم اس وقت یہاں نہیں تھے۔ ہم پنیری لگنے اور پھر پودے کے مضبوط درخت بننے کے عمل میں رکھوالوں کے کام میں شریک نہ تھے۔ ہم تو اصل کام ختم ہونے کے بعد ، مشکل وقت گزرنے کے بعد یہاں پہنچے ہیں۔ اب وقت آسان ہے۔ اب اس تناور درخت کو خاص اوقات پہ پانی اور کھاد ڈالنا ہے اور پھر خاص وقت پہ درخت سے پھل اتارنا ہے۔
اور پھر ہم اتراتے ہیں یوں کہ جیسے یہ سب ہم نے بنایا ہو۔ ہم اس سبک رفتار نظام کا مقابلہ ان ملکوں کے نظام سے کرتے ہیں جہاں سے ہم آئے ہیں اور ہم اپنی چھوڑی گئی ان جگہوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کی شکست پہ ہنستے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ دراصل ہم اپنا مذاق اڑا رہے ہیں، دراصل ہم اپنی شکست پہ ہنس رہے ہیں۔
سمندطور