Wednesday, November 22, 2006

 

آئو کہ کوئی خواب بنیں



یہ غالبا امرتا پریتم کی ایک کتاب کا عنوان ہے۔ آئو کہ کوئی خواب بنیں۔ مگر مجھے یہ خیال پسند آتا ہے۔ خواب بننا اور وہ بھی لوگوں کے ساتھ مل کر بننا۔
آئو کہ کوئی خواب بنیں۔
کہ ایک بستی ہو چند عام لوگوں کی۔ کہ اس بستی کی خاص بات یہ ہو کہ وہ ہر قسم کے تشدد سے پاک ہو۔ وہ بستی لفظ جرم سے ناآشنا ہو۔ وہاں انسان کو انسان کا ڈر نہ ہو۔ وہاں لوگ گھروں کو تالے نہ لگاتے ہوں۔ وہاں بات کا جواب بات سے دیا جاتا ہوگھونسے یا گولی سے نہیں۔
ایک بستی جہاں مختلف رنگ، نسل، زبان، مذہب، سیاسی خیالات کے لوگ رہتے ہوں۔ وہ باسی اس بنیادی بات پہ اتفاق کرتے ہوں کہ تشدد اور تہذیب دو متضاد خیالات ہیں، کہ ایک مہذب معاشرے میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
کیا اس خواب کو پا لینا ناممکن ہے؟
میں ایسی ہی ایک بستی میں رہنا چاہتا ہوں۔ میں ایسی ہی ایک بستی میں مرنا چاہتا ہوں۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?