Sunday, November 19, 2006

 

قحط



اپنے آس پاس نظر اٹھا کر دیکھیں۔ یہ بجلی کے قمقمے، یہ تیزی سے دوڑتی ہوئی گاڑیاں، یہ برق رفتار ہوائی جہاز، یہ ٹیلی فون، یہ ٹیلی وڎن، یہ کمپیوٹر، یہ انٹرنیٹ۔ یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ اس قدر کارآمد یہ ساری چیزیں کن لوگوں نے ایجاد کی ہیں۔ آپ کو جواب ملے گا کہ آج کی جدید دنیا میں ایک شخص عام طور پہ جو سہولیات استعمال کرتا ہے ان کی ایجاد کا سہرا بمشکل دو سو لوگوں کے سر ہے۔ پھر ایک اور کام کیجیے۔ صرف ایجادات کو ان کی موجودہ شکل میں مت دیکھیے، بلکہ ان ایجادات کے پیش رو کا مطالعہ کیجیے اور ان ذہین لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کیجیے جن کا کسی نہ کسی قسم کا کردار اس پورےتخلیقی عمل میں رہا ہے۔ مثلاً ہوائی جہاز کے پیش رو ہیں آئی سی انجن، علم دھات سازی، پہیہ وغیرہ۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر ان سارے لوگوں کا بھی شمار کیجیے جو ایجادات کی موجودہ شکل کے پیچھے کسی نہ کسی موقع پہ اپنا کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں تو آپ کا جواب چند ہزار افراد سے اوپر نہ جا پائے گا۔ کس قدر عجیب بات ہے۔ اس وقت دنیا میں چھ ارب سے اوپر لوگ رہتے ہیں اور آٹھ ہزار قبل مسیح سے لے کر اب تک ایک اندازے کے مطابق پچاس ارب لوگ اس دنیا سے گزر چکے ہیں۔ پچاس ارب لوگوں میں چند ہزار کارآمد، زر خیز ذہن لوگوں کی تعداد کس قدر کم ہے۔ اب ایک اور تحقیق کیجیے۔ یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان چند ہزار لوگوں کا تعلق کن خطوں سے رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ تقریباً پانچ سو سال پہلے تک دنیا کے مختلف علاقے ایسے کارآمد لوگ پیدا کرتے رہے تھے جنہوں نے اپنی سوچ، اپنی اختراع سے ہم سب کی زندگیاں سہل بنا دیں۔ مگر پچھلے پانچ سو سالوں میں جس نئی سوچ نے، جن نئی ایجادات نے جنم لیا ہے وہ تقریباً ساری ہی یورپ اور شمالی امریکہ میں پرورش پائی ہیں۔ اب اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ ایسا کیوں ہے۔ کیا یورپ اور شمالی امریکہ کے علاوہ باقی ساری دنیا ذہنی طور پہ بانجھ ہو چکی ہے؟ میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا ہے اور چند نتیجوں پہ بھی پہنچا ہوں۔ میں آپ کے سامنے وہ خیالات ضرور پیش کروں گا۔ مگر اس سے پہلے میں آپ کے جوابات جاننا چاہوں گا۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?