Thursday, November 16, 2006

 

تجویز ۸۷ کیوں رد ہوئی؟


حالیہ کیلی فورنیا انتخابات میں تجویز ۸۷ کے رد ہونے پہ دوسرے ماحولیات دانوں کی طرح میں بھی افسردہ ہوں۔ تجویز ۸۷ یہ تھی کہ کیلی فورنیا سے تیل نکالنے والی کمپنیوں پہ اضافی ٹیکس لگایا جائے اور اس آمدنی سے متبادل توانائی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔ اس تجویز کے حمایتی ماحولیات داں اور متبادل توانائی ٹیکنالوجی پہ کام کرنے والے ادارے تھے اور مخالفین میں وہ لوگ تھے جن کے مالی مفاد پہ تجویز ۸۷ کے پاس ہونے پہ ضرب پڑتی تھی۔ مخالفین میں سب سے آگے تیل کی کمپنی شیوران تھی۔ شیوران نے کسی طرح ریاست کے آگ بجھییوں کو ساتھ ملا کر ٹی وی پہ تجویز ۸۷ کے خلاف ایک زوردار اشتہاری مہم شروع کی۔ اس اشتہاری مہم کی خاص بات یہ تھی کہ تجویز ۸۷ کی برائی ایک وردی پوش آگ بجھییے سے کروائی جاتی تھی جب کہ شیوران کا نام اشتہار کے آخر میں باریک حروف میں لکھا آتا تھا جس کو پڑھنا ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور تھا۔
مختلف حکومتی اور شہری اداروں میں آگ بجھییوں کو سب سے زیادہ عوامی ہمدردی حاصل ہوتی ہے۔ کہ جب آپ کے گھر میں آگ لگی ہو اور کچھ لوگ آئیں اور آگ بجھا کر چلے جائیں اور پھر آپ کی اگلی مصیبت تک آپ کو نظر نہ آئیں تو آخر آپ کے دل میں ان کے لیے نرم جذبات کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔
مختصر یہ کہ شیوران کی آگ بجھییوں کو ساتھ ملانے کی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی اور جمہور نے تجویز ۸۷ رد کر دی۔ شیوران کی طرف سے ٹی وی پہ چلائی جانے والی مہم تجویز ۸۷ میں دو بڑے کیڑے نکالتی تھی۔ ایک یہ کہ تجویز ۸۷ میں احتساب کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ کہ تیل نکالنے والے اداروں پہ ٹیکس لگانے سے جو آمدنی ہو گی وہ واقعی متبادل توانائی ٹیکنالوجی پہ خرچ ہو گی اور نتائج پیدا کرے گی۔ اشتہاری مہم کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اس تجویز کے منظور ہو جانے پہ ایندھن کی قیمتیں اور چڑھ جائیں گی۔ اشتہار میں یہ بات نہیں کہی جاتی تھی مگر اس دوسرے نکتے کی بنیاد یہ تھی کہ تیل نکالنے والے اداروں پہ جب اضافی ٹیکس لگے گا تو وہ کم نفع پہ آرام سے نہیں بیٹھ جائیں گے بلکہ نفع میں اپنے اس نقصان کو صارف کو مہنگا تیل بیچ کر پورا کریں گے۔ یہ دوسرا نکتہ اہم ہے کیونکہ عام صارف تیل کی گرانی سے پہلے ہی تنگ ہے اور مزید مہنگائی نہیں چاہتا۔
تجویز ۸۷ کے لکھنے، اس کو انتخابات میں عام کے سامنے پیش کرنے، اور پھر اس کی ناکامی سے ماحولیات دانوں کو تین اہم باتیں سیکھنی چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ عام آدمی ماحولیاتی مسائل کا ادراک ضرور رکھتا ہے اور ان کو حل ہوتا بھی دیکھنا چاہتا ہے مگر وہ اپنی جیب سے اس مد میں کوئی رقم خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے ان کے مالی مفاد پہ ضرب لگانا آسان نہیں ہے۔ وہ اپنے پیسے سے آپ کے ہر وار کی کاٹ کرنا جانتے ہیں۔
اور تیسری بات یہ کہ آئندہ جو بھی ماحول پسند تجویز عوام کے سامنے پیش کی جائے وہ ہر قسم کے جھول سے عاری ہو۔

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?