Friday, July 14, 2017

 

جرم و سزا کی تاریخ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو  ستائیس

 جون بارہ، دو ہزار سترہ

جرم و سزا کی تاریخ


معاشروں میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام افراد اس سماجی معاہدے کی پاسداری کریں جس پہ سب کا اتفاق ہے۔ کیونکہ معاشرے کے بیشتر لوگ سماجی معاہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے اس لیے معاشرہ ان لوگوں کو انعام دینے کے بجائے جو معاہدے کے حساب سے چل رہے ہیں، ان دوسرے لوگوں کو سزا دینا زیادہ آسان سمجھتا ہے جو معاہدے کی خلاف ورزی کریں۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا سے دو مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں: اول، خلاف ورزی کرنے والے کی اصلاح ہو سکے، اور دوئم، معاشرے کے دوسرے لوگ اس سزا سے سبق حاصل کریں اور معاہدے کی خلاف ورزی کی خواہش رکھنے والے افراد اپنے ارادے سے باز آجائیں۔
مجرم کا پروفائل
اکثر فوجداری جرائم کرنے کے لیے جسمانی طاقت درکار ہوتی ہے۔ اور اسی وجہ سے اکثر فوجداری جرائم کے پیچھے جوان مرد ہوتے ہیں۔ عورتیں شاذ و نادر ہی جرائم میں ملوث پائی جاتی ہیں؛ اور اسی طرح بچے اور بوڑھے بھی اکثر جرائم کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اکثر مجرم اٹھارہ سے پنتیس سال کے مرد ہوتے ہیں۔
جرائم کی قسمیں
بعض جرائم صرف ایک شخص کو یا ایک گروہ کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ دوسرے جرائم سے پورے معاشرے کو، یا معاشرے کے بڑے حصے کو نقصان پہنچتا ہے۔ بہت سی صورتوں میں ان جرائم کو بھی جس میں فرد واحد کو نقصان پہنچتا ہے پورے معاشرے کا نقصان دیکھا جاسکتا ہے۔
جرائم کی سزا
جرائم معمولی سے سنگین نوعیت تک کے ہوسکتے ہیں۔ جمہوریت میں لوگوں کا نمائندہ قانون ساز ادارہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس جرم کی کیا سزا مقرر کی جائے۔ قتل یا سخت جسمانی نقصان والے جرائم سب سے زیادہ سنگین تصور کیے جاتے ہیں اور اسی لیے ان جرائم کی سزا سب سے سخت مقرر کی جاتی ہے۔
قتل اور خودکشی
معاشرے اپنے اندر موجود تمام لوگوں کے باہمی لین دین سے چلتے ہیں۔ اسی لیے کسی فرد کا معاشرے سے چلا جانا پورے معاشرے کا نقصان ہے۔ کسی ایک شخص کا قتل دراصل پورے معاشرے کے خلاف ایک جرم ہے۔ اور اسی لیے خود کشی جو بظاہر ایک ذاتی فیصلہ معلوم دیتی ہے، پورے معاشرے کے خلاف ایک جرم ہے۔ پورے معاشرے کی مرضی کے بغیر کسی شخص کو اپنی جان لینے کا بھی حق نہیں ہے۔
سزائے موت
تمام سزائوں میں سزائے موت سب سے سنگین تصور کی جاتی ہے۔ سزائے موت صرف اسی وقت دی جانی چاہیے جب مجرم کی اصلاح ممکن نہ ہو، یا یہ خیال ہو کہ ریاست عمر قید سے وابستہ اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ سزائے موت کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے:  معاشرے کے تمام افراد کو جرم کی سنگینی کا یقین دلانا اور ان کو ایک شخص کی سزائے موت کے ذریعے خوفزدہ کر کے قوانین کی پاسداری کے لیے تیار کرنا۔
کم سن مجرم
اگر اٹھارہ برس سے کم عم کوئی بچہ کسی جرم کا ارتکاب کرے تو انصاف کے اداروں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ  مجرم اب تک بلوغت تک نہیں پہنچا ہے، وہ زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، اور نہ ہی اپنے اعمال کے نتائج کے بارے میں گہرائی سے سوچ سکتا ہے۔ اور اسی وجہ سے کم سن مجرموں کو بالغ مجرموں کے مقابلے میں کسی قدر رعایت دی جاتی ہے۔ گو کہ ہر فرد بلوغت تک ایک منفرد وقت میں پہنچتا ہے مگر اکثر معاشرے اٹھارہ سال سے اوپر افراد کو بالغ تصور کرتے ہیں۔
جدید معاشرے میں انصاف کا نظام
جدید معاشرے میں انصاف کا نظام اس طرح کام کرتا ہے کہ بات ایک الزام سے شروع ہوتی ہے۔ ایک شخص، ایک گروہ، یا ریاست کسی پہ الزام لگاتی ہے کہ فلاں شخص، یا فلاں فلاں لوگ ایک جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس موقع پہ یہ بیان محض ایک الزام تصور کیا جاتا ہے۔ یہ مقدمہ ایک عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ عدالت میں دو فریق ہوتے ہیں: ملزم اور اس کا وکیل صفائی، اور استغاثہ اور اس کا وکیل۔ استغاثہ قاضی کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ملزم پہ جو الزام لگایا جارہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے؛ ملزم واقعی جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ جب کہ وکیل صفائی استغاثہ کے بیان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور قاضی کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملزم پہ الزام بے بنیاد ہے اور ملزم بے قصور ہے۔ عدالتی کاروائی کے دوران گواہوں کو پیش کیا جاتا ہے اور شواہد عدالت کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ تمام بیانات، گواہی، شواہد، اور جرح کے بعد عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ آیا ملزم واقعی قصور وار ہے۔ اگر جرم ثابت ہوجائے تو ملزم مجرم قرار پاتا ہے۔ قانون کی کتاب دیکھ کر جرم کی سزا کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
عموما جرائم کی سزا قید ہوتی ہے اور قید کی مدت تعزیرات سے طے کی جاتی ہے۔ زندگی کا سب سے خوبصورت تحفہ آزادی ہے، اور آزادی کا سب سے خوبصورت پہلو، حرکت میں آزادی ہے۔ آپ اپنی مرضی سے کہیں بھی جا سکیں، یہ آپ کی آزادی کا سب سے اہم اظہار ہے۔ مجرم کو سزا دینے میں اس کی یہ آزادی چھین لی جاتی ہے۔ مجرم کو ایک جیل خانے میں قید رکھا جاتا ہے۔ اس قید خانے میں ایسے انتظامات کیے جاتے ہیں جن سے مجرم کی اصلاح ہوسکے، مجرم سماجی معاہدے کو اچھی طرح سمجھے، اور قید کی مدت ختم ہونے پہ معاشرے کا باعزت شہری بن سکے۔
مگر انصاف کاجدید نظام بہت منصف نہیں ہے کیونکہ یہ مجرم کے ساتھ، غیرارادی طور پہ، مجرم کے متعلقین کو بھی سزا دیتا ہے۔ مجرم کو جب قیدخانے بھیجا جاتا ہے تو مجرم کے گھر میں اس کی غیرموجودگی کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ مجرم جن لوگوں کے لیے مالی یا نفسیاتی سہارا تھا وہ لوگ اس سہارے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس سہارے کی عدم موجودگی میں اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد اور خاص طور پہ کچے ذہن نوجوان غلط راستے پہ نکل جائیں گے۔ اس طرح ایک شخص کو سزا دینے پہ مستقبل کے دوسرے مجرم تیار ہوتے ہیں۔
ہم انصاف کے جدید نظام میں ایسی تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں جہاں مجرم کے ساتھ اس کے متعلقین کو سزا نہ ملے۔

Thursday, July 13, 2017

 

دنیا میں انسان کے وجود کی مختصر تاریخ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو  چھبیس

 جون تین، دو ہزار سترہ

دنیا میں انسان کے وجود کی مختصر تاریخ


دنیا میں انسان کے وجود کی ایک کہانی تو وہ ہے جو مذہبی کتابوں یا قدیم نظموں میں ملتی ہے۔ ایک دوسری کہانی مستقل سائنسی جستجو کے نتیجے میں جنم لے رہی ہے۔ اس دوسری کہانی کے پیچھے فوسل ریکارڈ ہیں۔
فوسل کیا ہوتے ہیں؟ فوسل پرانے وقتوں کے جانوروں اور نباتات کی وہ باقیات ہیں جو کسی طرح محفوظ رہ گئی ہیں۔ فوسل میں جانوروں کی ہڈیاں اور دانت، اور درختوں کی پتھرائی شکل میں رہ جانے والی باقیات شامل ہیں۔ کوئی بھی فوسل کس قدر پرانا ہے، اس کا تعین کاربن ڈیٹنگ نامی ایک ترکیب سے کیا جاسکتا ہے۔ کاربن ڈیٹنگ کیسے کی جاتی ہے، یہ جاننے سے پہلے کاربن ایٹم کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ تمام جاندار، نباتات و حیوانات، ہائڈرو کاربن کا مجموعہ ہوتے ہیں، یعنی ان کے جسم میں ہائڈروجن اور کاربن پہ مشتمل خلیے ہوتے ہیں۔ کاربن ایک ایسا ایٹم ہے جس کے مرکز [نیوکلیس] میں چھ پروٹون اور چھ نیوٹرون ہوتے ہیں۔ مگر تمام کاربن ایٹم ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ ایسے کاربن ایٹم بھی پائے جاتے ہیں جن کے نیوکلیس میں سات یا آٹھ نیوٹرون موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کاربن کی تین شکلوں کو کاربن ۱۲، کاربن ۱۳، اور کاربن ۱۴ کہا جاتا ہے۔ ہمارے قدرتی ماحول میں کاربن ۱۲ کی تعداد کاربن ۱۳ اور کاربن ۱۴ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ ہم نے تجربے سے معلوم کیا ہے کہ ہوا کے کسی بھی نمونے میں اگر ایک ہزار کاربن ۱۲ ایٹم ہیں، تو ساتھ صرف ایک کاربن ۱۴ ایٹم ہوتا ہے۔ تو پھر کاربن ۱۲ اور کاربن ۱۴ کا یہ تناسب ان تمام جاندار میں پایا جائے گا جو ہوا کو سانس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب ایک اچھی بات یہ ہے کہ کاربن ۱۴ تابکار ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ کاربن ۱۴، ایک نائٹروجن ایٹم بن جاتا ہے۔ کاربن ۱۴ کی یہی تابکاری خصوصیت ہمارے معاون ہے۔ فرض کریں کہ کاربن ۱۴ اپنے تابکاری اثر سے پانچ ہزار سال بعد ایک نائٹروجن ایٹم بن جاتا ہے۔ اب اگر آپ مجھے ایک ہڈی کا نمونہ لا کر دیں جس میں کاربن ۱۲ اور کاربن  ۱۴ کا تناسب ایک ہزار بٹا ایک ہو تو میں سمجھ جائوں کہ یہ ہڈی بالکل نئی ہے کیونکہ اس کے اندر کاربن ۱۲ اور کاربن ۱۴ کا تناسب وہی ہے جو فضا میں ہے۔ لیکن اگر آپ مجھے ایک ایسی ہڈی لا کر دیں جس میں ایک ہزار کاربن ۱۲ ایٹم ہوں مگر ایک بھی کاربن ۱۴ ایٹم نہ ہو تو میں اندازہ کروں گا کہ یہ ہڈی پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ پانچ ہزار سال پہلے اس ہڈی میں کاربن ۱۲ اور کاربن ۱۴ کا وہی تناسب تھا جو فضا میں ہے مگر وقت کے ساتھ کاربن  ۱۴ ایٹم، نائٹروجن میں تبدیل ہوگیا اور اب اس نمونے میں صرف کاربن ۱۲ ایٹم بچے ہیں۔ اس طرح کسی بھی فوسل کی قدامت کا تخمینہ کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔

نظریہ ارتقا کیا ہے؟ بہت سادہ الفاظ میں نظریہ ارتقا کہتا ہے کہ پودوں اور جانوروں میں قدرتی اور مصنوعی چنائو سے نسل در نسل تبدیلی آتی ہے۔
ارتقا میں قدرتی چنائو کا نظریہ۔ قدرتی چنائو کا نظریہ کہتا ہے کہ کسی بھی ماحول میں وہ پودے اور جانور زندہ بچ جاتے ہیں جو اس ماحول میں پنپ پاتے ہیں۔ جن پودوں اور جانوروں کو ایک مخصوص ماحول راس نہیں آتا، وہ مر جاتے ہیں اور یوں اپنی نسل آگے بڑھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
ارتقا میں مصنوعی چنائو کا نظریہ۔ مصنوعی چنائو کے نظریے کے مطابق جانور یا انسان اپنی مداخلت سے بعض پودوں اور جانوروں کی بقا کا انتظام کرتے ہیں جب کہ وہ دوسری طرح کے پودوں اور جانوروں کا خاتمہ کرتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ ختم کیے جانے والے یا زندہ رکھے جانے والے وہ جانور اور پودے اپنے ماحول میں پنپنے کی کس قدر صلاحیت رکھتے ہیں۔ مصنوعی چنائو کی ایک مثال گیہوں ہے۔ گیہوں قدرتی طور پہ پائی جانے والے دوسری گھاس سے مختلف نہیں ہے مگر انسان نے ہزاروں سال میں مصنوعی چنائو سے گیہوں کو یوں بدلا ہے کہ اگائی جانے والی گیہوں کا خوشہ دانوں سے خوب بھرا ہوتا ہے جب کہ قدرتی گھاس کے خوشے میں آپ کو اتنے زیادہ دانے نظر نہیں آئیں گے۔

نظریہ ارتقا دنیا میں پودوں اور جانوروں کی تاریخ سمجھنے کا سب سے عمدہ سائنسی نظریہ ہے اور یہ نظریہ ہمیں آج بھی کام کرتا نظر آتا ہے۔ مثلا ہر سال فلو کا ایک نیا وائرس سامنے آتا ہے۔ انسان فلو کے وائرس کی ایک خاص دوا بناتا ہے جو ایک خاص قسم کے وائرس پہ کارگر ہوتی ہے۔ وائرس کی وہ نسل ختم ہوجاتی ہے مگر جس نسل پہ یہ دوا اثر نہیں کرتی وہ نسل بچ جاتی ہے اور اگلے سال وائرس کی وہ نسل ہم پہ حملہ کرتی ہے۔ یہ ارتقا میں مصنوعی چنائو کی ایک مثال ہے۔

دنیا میں انسان کی تاریخ کی ایک کہانی فوسل ریکارڈ کی مدد سے سمجھی جاسکتی ہے۔ یہ کہانی مستقل ہجرت کی کہانی ہے۔ اصل ہجرت قریبا دس لاکھ سال پہلے افریقہ سے ہوئی۔ انسان جب وہاں سے نکلا تو تقریبا ستر فی صد اس جسمانی ساخت کا تھا جیسا آج کا انسان ہے۔ انسان افریقہ سے نکل کر خوراک کی تلاش میں دنیا کے چپے چپے میں پھیل گیا۔ قریبا چالیس ہزار سال پہلے انسانوں کا ایک گروہ خوراک کی تلاش میں چلتا چلتا براعظم ایشیا کے اس شمال مشرقی کونے تک پہنچ گیا جو آج کل سائبریریا کہلاتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب آخری برفانی دور اپنے اخری مراحل میں تھا اور دنیا کا زیادہ تر پانی دونوں قطبین پہ جمع تھا جس کی وجہ سے سمندروں کی سطح کم ہوگئی تھی۔ سمندر میں پانی کی اسی کمی کی وجہ سے ایشیا کے شمال مشرقی ساحل سے براعظم شمالی امریکہ کے شمال مغربی ساحل تک ایک زمینی راستہ بنا ہوا تھا۔ انسان اسی زمینی پل پہ چلتا ہوا شمالی امریکہ پہنچا اور پھر نیچے جنوبی امریکہ تک پھیل گیا۔ آج سے قریبا تیس ہزار سال پہلے جب برفانی دور رفتہ رفتہ ختم ہوا، سمندر میں پانی کی سطح بلند ہوئی تو ایشیا کے شمال مشرقی ساحل سے براعظم شمالی امریکہ کے شمال مغربی ساحل تک موجود پل زیر آب آگیا۔ انسانی نسل دو حصوں میں بٹ گئی: ایک بڑا گروہ وہ جو افریقہ، ایشیا، اور یورپ میں موجود تھا اور دوسرا چھوٹا گروہ جو شمالی اور جنوبی امریکہ میں تھا۔ انسان کے یہ دو گروہ کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے سے پہلے ایک دوسرے کی موجودگی سے بے خبر ارتقا کی منازل طے کرتے رہے۔
جب انسان افریقہ سے نکلا تو وہ شکاری بٹوریا [ہنٹر گیدرر] تھا۔ وہ یا تو جانوروں کا شکار کرتا یا پھر خودرو اگنے والے پودوں میں سے کھانے کے قابل پودوں، پھلوں کو جمع کر کے اپنی بھوک مٹاتا۔ آج سے قریبا دس ہزار سال پہلے انسان نے حادثاتی طور پہ زراعت ایجاد کی اور پھر رفتہ رفتہ خوراک حاصل کرنے کا یہ طریقہ مقبول ہوتا گیا۔ اب غذا کی تلاش میں مارے مارے پھرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی؛ خود اگائو، خود کھائو۔ انسان نے جنگلی کتے کو زراعت ایجاد کرنے سے پہلے سدھا لیا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ دوسرے جانور سدھائے گئے اور خاص طور پہ وہ جانور جنہیں کاٹ کر کھایا جاسکتا تھا۔ زراعت کے رائج ہونے سے بہت پہلے مرغ بھی سدھایا جا چکا تھا۔ اب ہر طرح کی غذا انسان کے پاس تھی: اناج، گوشت، دودھ، انڈے۔ زراعت کی ایجاد کے بعد انسان ٹھہر گیا اور انسانی گروہ بستیوں کی شکل میں رہنے لگے۔


نسل
جب انسان نے افریقہ سے ہجرت کی تو انسان صرف ایک طرح کے ہوتے تھے۔ ان سب کی شکلیں ایک جیسی تھیں،قد و قامت بھی، اور جلد کا رنگ بھی ایک جیسا تھا۔ پھر آج انسان مختلف نسلوں میں بٹا کیوں نظر آتا ہے؟ دراصل انسان کی یہ ظاہری تبدیلی بہت نئی ہے اور اس کا تعلق زراعت سے ہے۔ زراعت کی ایجاد کے بعد جب انسان بستوں کی شکل میں بسا تو ایک جگہ کا جغرافیہ اس پہ نسل در نسل اثر انداز ہونے لگا۔ کھال کے رنگ کا تعلق سورج کی تمازت اور روشنی سے ہے؛ اسی طرح چہرے کے نقوش کا تعلق گرم یا سرد آب و ہوا سے ہے؛ ناک کی موٹائی کا تعلق اس ہوا سے ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں؛ اور ہمارے قد کا تعلق ہماری غذا سے ہے۔ اگر آپ کا خاندان ایک جگہ ہزاروں برس رہا ہو تو اس جگہ کی آب و ہوا، اس جگہ کا موسم، وہاں اگنے والا کھانا آپ کی نسل کا تعین کردے گا۔ نسل کوئی منجمد خاصیت نہیں ہے بلکہ مستقل تبدیل ہورہی ہے۔ اس تبدیلی کا مشاہدہ اس صورت میں باآسانی دیکھا جاسکتا ہے جہاں ایک نسل کے لوگ دوسرے علاقے میں رہنا شروع ہوجائیں۔


Wednesday, July 12, 2017

 

ایک پرانے سفر کا حال



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو پچیس

 مئی اٹھائیس، دو ہزار سترہ


ایک پرانے سفر کا حال

 
بہت عرصہ بیت گیا ہے مگر کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔ ایک ٹرین ہے جو ملک کی مغربی سرحد کی طرف چلی جارہی ہے۔ وہ ریل گاڑی کچھ کچھ فاصلے پہ ایسے اسٹیشنوں پہ رکتی ہے جو مسافر کے لیے بالکل اجنبی ہیں اور اپنے ناموں سے کسی دیومالائی کہانی کا حصہ معلوم دیتی ہیں۔ یہ بات ہے سنہ ۱۹۹۴ کی۔ سفر ہے کراچی سے مشہد کا۔
اس وقت کے سیاسی حالات یہ تھے کہ افغانستان میں طویل عرصے کی خانہ جنگی کے بعد طالبان آگے بڑھنا شروع ہوئے تھے۔ ایران عراق جنگ تو بہت پہلے ختم ہوگئی تھی؛ پھر امریکہ عراق جنگ بھی ختم ہوچکی تھی مگر صدام حسین اب تک برسراقتدار تھا۔ ایران خامنہ ای کی سرپرستی میں چل رہا تھا۔  پاکستان میں بے نظیر کی حکومت تھی اور سندھ حکومت ایم کیو ایم کی صفائی کے لیے کام کررہی تھی جس کی وجہ سے کراچی میں خوب خون خرابہ تھا۔ میرے اپنے حالات یہ تھے کہ میں سنہ بانوے کے آخر میں یورپ اور مشرقی افریقہ کی خاک چھاننے کے بعد پاکستان پہنچا تھا۔ میں نے کراچی میں ایک مشوراتی کمپنی کی بنیاد رکھی تھی مگر کاروبار میں جان نہیں تھی۔ پھر اس کے ساتھ میں کراچی کے حالات سے بددل تھا۔ ہر موقع تلاش کرتا تھا کہ کسی طرح اس شہروحشت سے نجات ملے۔
سچ پوچھیے تو ایران کے اس سفر کی بہت زیادہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ بس ہمیں کہیں جانا تھا۔ ایران کا ویزا حاصل کرنا آسان تھا۔ کراچی سے وہ ویزا لیا اور زمینی راستے سے ایران کے لیے روانہ ہوگئے۔
کراچی سے کوئٹہ جانے والی بس سبزی منڈی سے چلتی تھی۔ یہ بس ایک ایسی جگہ کھڑی ہوتی تھی جہاں ہر طرف کچرا پڑا ہوتا تھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے بکریوں کے ریوڑ، اور چیل کوے اس کچرے سے حسب توفیق مستفید ہوتے تھے۔

کوئٹہ جانے والی  بس شام کے وقت سبزی منڈی سے چلی  اور پوری رات کے سفر کے بعد صبح کوئٹہ پہنچی۔ کوئٹہ پہنچتے پہنچتے ہمیں کئی گانے یاد ہوگئے جو پوری رات بس میں زور زور سے بجتے رہے تھے۔ شاید وہ مستقل شور ڈرائیور کو نیند کی آغوش میں جانے سے بچانے کے لیے تھا۔ یہ کوشش کامیاب رہی تھی۔
بس آدھی رات کے وقت کسی غیر معروف جگہ رکی تھی جہاں ایک جھونپڑی میں بہت ہلکی روشنی ہورہی تھی۔ وہاں پانی کے بڑے بڑے گھڑے رکھے تھے۔ اس جگہ موجود لوگ گھنی داڑھی اور مونچھوں والے تھے۔ وہ ایسی جگہ تھی جہاں میں تنہا ہرگز نہ جاتا۔
کوئٹہ میں ہمارا صرف ایک کام تھا، پاکستان ایران کے سرحدی قصبے تفتان کے لیے ٹرین کا ٹکٹ خریدنا۔ ہمیں اپنے مطلب کی نشستیں ایک دن بعد کی ملیں اور ہم ٹرین سے سرحد کے لیے روانہ ہوگئے۔ سر آب، مستونگ، نوشکی، نوک کنڈی، جیسے ناموں والے اسٹیشن راستے میں پڑے۔ یوں تو وہ ٹرین ہماری منزل مراد یعنی زاہدان تک جارہی تھی مگر معلوم ہوا کہ سرحد پہ ٹرین کی تلاشی میں بہت وقت لگے گا اور بہتر یہ ہوگا کہ ہم تفتان پہ اتر کر خود سرحد پار کریں۔
کوہ تفتان ایک گرد اڑاتی سرحدی چوکی تھی۔ اس چوکی پہ ہمارے علاوہ زائرین موجود تھے جو مقام مقدسہ کی زیارت کے لیے ایران اور عراق جارہے تھے۔ ایک نوجوان یورپی جوڑا بھی نظر آیا جو سائیکلوں پہ تھا۔ وہ یورپ سے ایران سائیکل سے آئے تھے اور اب پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔
اپنی مفلسی میں ایران کی سرحدی چوکی میرجاوہ، پاکستان کی چوکی سے بہت زیادہ مختلف نہ تھی۔ وہاں سرسری طور پہ ہمارے پاسپورٹ کی جانچ ہوئی اور ہمیں ایران میں داخلے کی اجازت مل گئی۔
پاکستان اور ایران کی باہمی سرحد کے قریب ڈاٹسن ٹرک چلانے کا رواج تھا۔ ایسے ہی ایک ٹرک سے ہم زاہدان پہنچے تھے۔ مگر ایران میں داخل ہوتے ہی سڑکوں کی حالت بہت بہتر ہوگئی تھی۔ خیال ہوا کہ ہم ایک ترقی پذیر ملک سے نکل کر کسی ترقی یافتہ ملک آگئے ہیں۔ ایران میں آزاد راہوں [ہائی وے یا فری وے] کا جال رضا شاہ پہلوی کے دور میں امریکی ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈالا گیا تھا۔ مگر اچھی بات یہ تھی کہ انقلاب ایران کے بعد، امریکہ سے دشمنی کے باوجود ایران نے اپنے وسائل سے سڑکوں کے اس عمدہ نظام کو نہ صرف اچھی حالت میں رکھا بلکہ کام کو آگے بڑھایا۔
زاہدان پہنچ کر احساس ہوا کہ ہم واقعی ایک دوسرے ملک آگئے تھے۔ زیادہ تر سائن فارسی میں تھے اور انگریزی بہت کم نظر آرہی تھی۔ زاہدان کی سڑکیں بھی اسی طرح بڑی بڑی اور ویران نظر آتی تھیں جسی کہ ہمیں مشرقی یورپ میں نظر آئی تھیں۔ مگر یہاں کھانے پینے کی اشیا فراوانی سے تھیں۔ زاہدان کا مرکزی مقام چھارراہ رسولی تھا۔ ہمارا قیام اسی علاقے کے ایک غریب نواز ہوٹل میں تھا۔ ہمیں ایران کی اپنی بنی ہوئی دھات کی اشیا دیکھ کر خوشی ہوئی۔ شاید ایران کو اقتصادی پابندیوں کا فائدہ ہی ہوا تھا اور اب ایران ایسی چیزیں بنا رہا تھا جنہیں تجارتی پابندیوں کی غیرموجودگی میں بیرون ملک سے درآمد کرنا بہتر سودا ہوتا۔
ہم زاہدان میں موجود پاکستانی کنسولگری [پاکستانی قونصل خانے] بھی گئے۔ وہ قونصل خانہ مفلوک الحالی کا نقشہ پیش کرتا تھا۔ قونصل خانے کا اسٹاف  سیمنٹ کی دیوار میں موجود آہنی جنگلے کے پیچھے سے لوگوں کے سوالات کے جوابات دے رہا تھا۔  وہاں ایک افغان باشندہ پاکستانی ویزے کا طلب گار تھا اور قونصل خانے والے اسے سمجھا رہے تھے کہ افغان شہریوں کے لیے پاکستانی ویزا مکمل طور سے بند تھا۔ ہم نے دل میں سوچا کہ اس افغان کو ویزے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یا شاید وہ افغانستان سے ایران آکر پھنس گیا تھا۔ افغانستان میں ہوتا تو کسی سے اجازت حاصل کیے بغیر پاکستان میں داخل ہوجاتا۔ افغانستان کے ہر پڑھے لکھے شخص کی دلچسپی پاکستان آنے میں اس لیے ہوتی تھی کیونکہ یہاں سے امریکی ویزا حاصل کر کے آگے نکلا جاسکتا تھا۔
زاہدان سے مشہد کا بس کا سفر قریبا دس گھنٹے کا تھا۔ یہ پورا راستہ چٹیل پہاڑوں کا تھا مگر مشہد قریب آیا تو کچھ سبزہ نظر آنا شروع ہوا۔
ایران عراق جنگ میں ایران نے بہت سے جوانوں کو کھویا تھا مگر اس کے باوجود سڑک کے ساتھ لگے سائن لوگوں کو تلقین کررہے تھے کہ فرزند کمتر، نعمت بیشتر [کم بچے، خوشحال گھرانہ]۔
مشہد کا مرکزی چوراہا فلکہ آب نام کا تھا جس کے قریب امام رضا کا مقبرہ ہے۔ یہاں پاکستان سے شیعہ زائرن بڑی تعدا میں آئے ہوئے تھے اور ان لوگوں میں بوہری مرد اور عورتیں اپنے خاص لباس کی وجہ سے نمایاں تھے۔
ہم ہرجگہ اپنی کچی فارسی کے باوجود لوگوں سے بات کرتے۔ اغذیا فخارنامی ریستوراں پہ کام کرنے والے نوجوان سے ہم نے پوچھا کہ اسے ایران میں رہنا کیسا لگتا تھا۔ اس نے فورا جواب دیا، ایران خوب نیست۔ وہ امریکہ جانا چاہتا تھا۔ یہ بھی خوب ہے کہ جہاں جہاں یہ نام نہاد اسلامی نظام آیا، لوگ وہاں سے نکل کر بھاگنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح فردوسی بازار جاتے ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے بات چیت ہوئی جس کا کہنا تھا کہ ایران میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہاں شراب نہیں ملتی حالانکہ ہفتے میں ایک بار پینا اچھا ہوتا ہے۔
ایران میں ڈالر کا نرخ خوب چڑھا ہوا تھا اور سرکاری اور بلیک مارکیٹ نرخ میں بہت نمایاں فرق تھا۔ اس کے علاوہ مغربی دنیا کی بنی ہوئی چیزوں کی بھی خوب مانگ تھی۔ مشہد میں رات کو ٹہلتے ہوئے ایک بچہ ساعت ساعت کہتا ہوا ہمارے پیچھے لگ گیا۔ وہ ہم سے ہماری گھڑی چاہتا تھا۔ اس نے گھڑی کے بدلےسو ریال دینے کی پیشکش بھی کی۔
مشہد سے زاہدان واپسی ہوئی تو زاہدان پہنچتے ہی شدید گرمی کا احساس ہوا۔ سورج صحرا کو اچھی طرح گرم کر کے ڈھلتا تھا۔
ان دنوں ایران سے جو چیزیں اسمگل ہوکر پاکستان آتی تھیں ان میں تیل [گیسولین] کے علاوہ ایران کے بنے واٹر کولر بھی تھے۔ ہم جس ٹرین سے کوئٹہ گئے اس میں یہ اسمگل شدہ کولر بڑی تعداد میں موجود تھے۔ کئی جگہ چیکنگ کے باوجود یہ کولر بچ کر نکل آئے اور کوئٹہ کے اسٹیشن سے کچھ پہلے گاڑی رکنے پہ یہ کولر وہاں دھڑا دھڑ اتارے گئے۔
کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے پی آئی کے جہاز میں حسب توقع افراتفری تھی۔ ہم اپنی نشست پہ پہنچے تو وہاں ایک صاحب پہلے سے براجمان تھے۔ ہم نے اپنا بورڈنگ پاس دکھایا تو انہوں نے پیشکش کی ہم ان کی نشست پہ بیٹھ جائیں کیونکہ وہ پہلے ہی ہماری نشست پہ بیٹھے تھے۔ ہم نے معذرت چاہی اور انہیں بتایا کہ ہم اپنی ہی نشست پہ بیٹھنا چاہتے تھے۔ وہ صاحب طوعا و کرہا وہاں سے اٹھے۔


Tuesday, July 11, 2017

 

واپسی

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو چوبیس

 مئی پندرہ، دو ہزار سترہ


واپسی



بات ہورہی تھی ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کی۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ مغربی ممالک میں بہت سے لوگ پسماندہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کے خلاف ہوگئے ہیں۔ اس صورت میں ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکیں۔
اگر کہا جائے کہ کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ تہذیب یافتہ ہیں تو بائیں بازو کے حلقوں میں اس بات کا برا مانا جاتا ہے۔ اس طرح کے بیان سے اس پاکیزہ خیال کو ٹھیس پہنچتی ہے جس کی رو سے دنیا کے تمام انسان برابر ہیں۔ خیال پاکیزہ ہونے کے باوجود غلط ہے۔ یقینا دنیا کے تمام انسان اپنی حیوانی جبلت میں مماثل ہیں، اور ان کے بنیادی حقوق بھی یکساں ہیں، مگر تعلیم اور تہذیب کے معاملے میں دنیا کے تمام لوگ برابر نہیں ہیں۔ کچھ لوگ زیادہ تہذیب یافتہ ہیں اور کچھ کم۔ کسی بھی دور میں لوگوں کا ایک گروہ تمام دنیا کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے۔ یہ ہراول دستہ نئی مادی اور فکری منازل طے کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی منہ سے اقرار کرے یا نہ کرے، اسی گروہ کی تہذیب ارفع مانی جاتی ہے۔ اگر اس بارے میں کسی کو ذرہ برابر بھی شک ہو تو صرف ساٹھ سال پہلے کی دنیا پہ غور کریں کہ جب دنیا کے بعض کونوں میں آدم خوری کی روایت قائم تھی۔ یہ چند ہی قبائل تھے جو اپنے جیسے انسان کو مار کر کھا جاتے تھے۔ باقی دنیا میں اگر کہیں آدم خوری رہی تھی تو وہ بہت پہلے متروک ہوچکی تھی۔ تو صرف ساٹھ سال پہلے باقی دنیا اپنے آپ کو تہذیب یافتہ خیال کرتی تھی اور ان آدم خوروں کے متعلق خیال کرتی تھی کہ وہ تہذیب کی سیڑھی پہ کہیں بہت نیچے کھڑے ہیں۔ تہذیب یافتہ دنیا نے ان پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو آدم خوری چھوڑنے پہ مجبور کیا اور تہذیب کے اس معیار پہ لے آئی جس پہ باقی دنیا کھڑی تھی۔ واضح ہے کہ کسی بھی وقت دنیا میں تمام لوگ تہذیب کی ایک منزل پہ نہیں ہوتے بلکہ کچھ زیادہ تہذیب یافتہ ہوتے ہیں اور کچھ کم۔ اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے آس پاس کی دنیا صنعتی انقلاب کے ثمرات سے وجود میں آئی ہے اور اسی زور پہ تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ جن علاقوں میں صنعتی انقلاب آیا اور جن لوگوں نے سرعت سے صنعتی انقلاب کو گلے لگایا وہی لوگ تہذیب کے اعلی مقام پہ ہیں اور باقی دنیا ان کی نقل کر کے وہاں تک پہنچنا چاہتی ہے۔ دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک کے سامنے یہ چیلنچ ہے کہ وہ اپنی زبان، اپنی روایات کےساتھ کس طرح مغربی ممالک کی روش پہ چلے۔
ڈھاکہ سے کراچی روانگی سے ایک روز پہلے معلوم ہوا کہ اگلے روز ہڑتال ہے۔ ہم کراچی کی ہڑتالوں کے مارے ہوئے تھے، وہ ہڑتالیں جو پرتشدد ہوتی ہیں اور اسلحے کے زور پہ کامیاب کرائی جاتی ہیں۔ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ ڈھاکہ کے حالات ابھی تک اتنے خراب نہیں ہوئے ہیں کیونکہ غیرقانونی اسلحہ وہاں محدود ہے۔ ہڑتال ضرور ہوگی مگر چوری چھپے کام بھی چلتا رہے گا۔ ایک سائیکل رکشے والے نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ صبح کے وقت ہمیں ہمارے ہوٹل سے اٹھا لے گا اور ذیلی سڑکوں پہ سائیکل دوڑاتا ہوا ہمیں  ہوائی اڈے پہنچا دے گا۔


گھر واپسی پہ لکھے جانے والے خیالات
کئی ماہ کے سفر کے بعد گھر پہنچنا اچھا لگا۔  دوران سفر ہم اکثر ایسی جگہوں پہ ٹھہرے جہاں بہت شور رہتا تھا۔ بیشتر جگہ ہمارا قیام ایسے ہوٹلوں میں ہوا جو مرکز شہر میں تھے اور جہاں شہر کی گہماگہمی مستقل سنائی دیتی تھی۔ یہاں کراچی میں ہمارا گھر ایک نسبتا پرسکون علاقے میں ہے۔ اس وقت مجھے کوئوں کی کائیں کائیں سنائی دے رہی ہے اور کان لگانے پہ دور بڑی سڑک پہ ٹریفک کا شور سنائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مکمل خاموش ہے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد ایک ٹھہر جانے کا احساس ہے۔ شاید اس احساس میں اس خاموشی کا دخل ہے۔ پھر یہ بھی کہ دوران سفر ہم لوگ مستقل متحرک رہتے تھے۔ صبح اٹھتے تو ناشتے کے لیے باہر دوڑتے؛ اور پھر دن بھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔
گھر پہنچنے کے بعد یہ دوڑ دھوپ ختم ہوئی۔ شاید اس وجہ سے بھی ٹھہر جانے کا احساس ہے۔ نومبر کا وسط ہونے کی وجہ سے اس وقت کراچی میں موسم نسبتا اچھا ہے۔ اس وقت وہ پریشان کن گرمی نہیں ہے جو کراچی کا خاصہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ سروں کی جو فصل اترنی تھی وہ اتر چکی؛ اس شہر کو کچھ قرار آیا ہے۔
دنیا میں کسی جگہ کو یہی چیزیں تو دل کش بناتی ہیں۔ وہاں امن ہو اور لوگ محبت کرنے والے ہوں؛ ساتھ اگر آب و ہوا اچھی ہو تو کیا کہنے۔ اس مختصر زندگی میں آپ کو اس سے زیادہ کیا چاہیے؟   

Monday, July 10, 2017

 

آزادی کے بعد خوشحالی کا سفر

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو تئیس

 مئی نو، دو ہزار سترہ


آزادی کے بعد خوشحالی کا سفر


بنگلہ دیش میں ہمیں کھانے پینے کا یوں تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر لگتا تھا کہ ہمارے علاقے کے مقابلے میں وہاں لوگوں کا پیٹ پوجا کی طرف کم دھیان تھا۔ ہمیں دودھ حاصل کرنے میں خاص طور سے مشکل ہوتی تھی۔  تو کھلنا پہنچ کر یہی ہوا۔ خواہش ہوئی کہ دودھ پیا جائے مگر دودھ کسی بھی دکان میں موجود نہ تھا۔ ایک حلوائی کی دکان سے مشٹی دئی [میٹھا دہی] خرید کر کام چلایا۔
اس وقت تک [سنہ پچانوے] بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم بہت اچھی نہ سمجھی جاتی تھی۔ مگر نوآبادیاتی دور کے اثر سے بنگلہ دیش میں کرکٹ کے شائقین ہر جگہ موجود تھے۔ ان دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم بیرون ملک دورے پہ تھی۔ ایک آدمی سے بات ہوئی تو پاکستان کا نام سن کر اس نے فورا ہمیں بتایا کہ، ’’تمھاری ٹیم نے تو آج میزبان ٹیم کی خوب مار لگائی ہے۔‘‘ ہم کچھ دیر کے لیے یوں خوش ہوگئے جیسے والدین اپنی آوارہ اولاد کے متعلق کوئی مثبت بات سن کر تھوڑی دیر کےلیے خوش ہوجاتے ہیں۔
اس رات کھلنا میں ہمارے ہوٹل کے باہر ایک سیاسی جلسہ ہورہا تھا جس میں شیخ حسینہ کی پارٹی کا ایک نیتا زوردار تقریر کررہا تھا۔ ہم بنگالی میں ہونے والی اس تقریر کو سننے کی کوشش کررہے تھے اور بمشکل ایک آدھ لفظ ہی سمجھ پاتے تھے۔ اس کم فہمی کے باوجود ہمیں اندازہ ہوگیا کہ اس تقریر میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا حال بیان کیا جارہا تھا۔
اور صبح کے وقت ہم نے جب کشتی کے ناخدا سے اردو میں بات کی تھی اور یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ آیا اسے ہماری زبان سمجھ میں آرہی تھی تو اس نے بہت اطمینان سے کہا تھا، ’’بنگلہ، اردو ایک چیز۔ نو پرابلم۔‘‘
کیا؟ بنگلہ، اردو، کوئی مسئلہ ہی نہیں؟ پھر ان لسانی فسادات کا کیا بنا جو اردو زبان کے خلاف ہوئے تھے؟
اسی رات ہمیں اپنے ایک پاکستانی مسلمان دوست کا خیال آیا جس نے ایک بھارتی ہندو لڑکی سے شادی کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ، ’’مذہب تو ایک ثانوی معاملہ ہے۔ اصل میں تو ہم سب انسان ہیں۔‘‘ ارے، دو قومی نظریے کے ساتھ ایسا سلوک؟
وہ کون لوگ ہیں جو انسان کو انسان سے متنفر کرتے ہیں؟ ان کے نفرت انگیز خیالات کیسے عام ہو جاتے ہیں؟  لوگ اگر بغور اپنے آپ کو اور دوسروں کو دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ انسان مختلف پیراہنوں میں رہتا ہے۔ ان سب پردوں کے پیچھے جو انسان چھپا ہے، وہ تو بس ایک معصوم جانور ہے۔ اپنی حیوانی جبلت سے اسے وہی سب کچھ چاہیے جو ایک جانور کو چاہیے: کھانا پینا، حفاظت سے رہنا، اور سر چھپانے کا ٹھکانہ۔ پھر اس کے بعد اس جانور کی پہچان مختلف طریقوں سے ہے: اس کے لباس سے، انداز رہن سہن سے، زبان سے، مذہب سے۔
جو لوگ سیاست کرتے ہیں، حکومت کرنا چاہتے ہیں، اقتدار کی خواہش رکھتے ہیں، وہ حیوانی جبلت سے اوپر کے اس پیراہن کو سیاست کا نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ اصل اہمیت تو اس مخصوص لباس کی ہے جو اس معصوم جانور کے اوپر پڑا ہے۔
بیس سال بعد کسی سفر کا حال لکھنے میں یہ آسانی ہے کہ آپ کے سامنے بہت سی نئی چیزیں موجود ہوتی ہیں جن کو آپ اس سفرنامے کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ سنہ دو ہزار سترہ کے پانچویں مہینے کی نو تاریخ ہے۔ امریکی معاشرے میں جو تبدیلی آرہی ہے اس کا سیاسی نتیجہ ہم نے پچھلے امریکی انتخابات میں دیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کو یورپ سے آنے والے لوگوں نے بنایا۔ یقینا امریکہ میں قدیم وقتوں سے سرخ ہندی رہ رہے تھے مگر ہم آج جس امریکہ سے واقف ہیں اسے سرخ ہندیوں نے نہیں بنایا، وہ یورپ سے آنے والوں کا بنایا ہوا ہے۔ یورپ سے آنے والے والوں نے اس جگہ کو ایک ملک بنایا، اس ملک کو ایک دستور دیا، ایک مضبوط جمہوری نظام دیا، یہاں ریلوے اور سڑکوں کا جال بچھایا، اور ملک میں جدید مواصلاتی نظام قائم کیا۔ سرخ ہندی اس علاقے میں ایسی ہی زندگی گزار رہے تھے جیسی زندگی کوئی پھلدار درخت گزارتا ہے؛ اس زندگی کا مقصد صرف اپنی زندگی کی حفاظت کرنا اور اپنی نسل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ یورپی نوواردوں کی سوچ سرخ ہندیوں کی سوچ سے کہیں زیادہ وسیع تھی اور نئے آنے والوں کے پاس بہتر ٹیکنالوجی بھی تھی۔ اسی سوچ اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے یورپ سے آنے والے امریکہ کے مقامی لوگوں پہ حاوی ہوگئے۔ اور پھر اگلے قریبا دو سو سال یورپ سے آنے والوں کی امریکہ میں بالادستی رہی۔ اس بالادستی کے دوران افریقہ سے لائے جانے والے لوگ غلام تھے اور امریکہ میں آکر بس جانے کا حق صرف یورپی لوگوں کو حاصل تھا۔ اسی بالادستی کے دوران سوچ میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ باضمیر لوگوں کو احساس ہوا کہ اپنے جیسے ایک دوسرے انسان کی آزادی سلب کرنا اور اسے غلام رکھنا برا ہے۔ غلامی ختم کرنے کی جدوجہد شروع ہوئی۔ امریکہ میں یورپی مہاجرین دو حصوں میں بٹ گئے۔ کچھ لوگ غلامی برقرار رکھنا چاہتے تھے، دوسرے غلامی کی روایت ختم کرنا چاہتے تھے۔ اور پھر یہ دو گروہ آپس میں لڑ پڑے۔ فتح اس گروہ کی ہوئی جو غلامی کا ادارہ منسوخ کرنا چاہتا تھا۔ واضح رہے کہ غلامی کی روایت ختم کرنے کے لیے یہ جنگ غلاموں نے شروع نہیں کی، بلکہ بہت سے غلام اپنے ان آقائوں کے ساتھ مل کر لڑے جو غلامی برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اور یوں کاغذ پہ غلامی ختم ہوگئی مگر ذہنوں میں پرانے خیالات قائم رہے اور انہیں خیالات کی وجہ سے گہرے رنگ والے لوگوں کے لیے یورپی مہاجرین کے ذہنوں میں نفرت قائم رہی۔ نعرہ لگایا گیا کہ برابر مگر الگ [ایکوئل بٹ سپیریٹ] یعنی کہ ہم مانتے ہیں کہ کالے ہم سے کمتر نہیں ہیں مگر سفید فام لوگوں کو سیاہ فام لوگوں سے بالکل الگ رہنے کا حق حاصل ہے۔ اس سوچ کے تحت نسلی تفریق کے قوانین بنائے گئے: کالے الگ علاقوں میں رہتے تھے اور سفید الگ جگہ؛ بسوں میں کالے پیچھے بیٹھتے تھے اور چٹے آگے؛ کالے اور گوروں کے لیے پانی کی سبیلیں الگ الگ تھیں۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چلا۔ ایک شام ریاست الاباما  کے شہر مونٹگمری میں روزا پارکس نامی ایک افریقی نژاد عورت بس میں چڑھی اور ایک نشست پہ بیٹھ گئی۔ اگلے اسٹاپ پہ کئی سفید فام لوگ بس میں چڑھے۔ بس میں کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ بس کا ڈرائیور  اپنی سیٹ سے اٹھ کر پیچھے آیا اور روزا پارکس سے کہا کہ وہ سفید فام مسافروں کے لیے کرسی چھوڑ دے۔ روزا پارکس نے نشست چھوڑنے سے انکار کردیا۔ پھر اگلا منظر یہ ہے کہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں فسادات ہورہے ہیں۔ سیاہ فام لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔ بہت سے باضمیر سفید فام لوگ ان سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ہیں۔ نسلی برتری کے قوانین کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں۔ ہم انسان ہیں، ہمیں انسان سمجھو؛ ہمیں عزت سے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ دس سال سے اوپر چلا اور بالاخر تمام نسل پرست قوانین ختم ہوئے۔ اور جب نسلی تفریق کے دوسرے قوانین ختم ہوئے تو ساتھ ہی دھیان تارکین وطن سے متعلق قانون کی طرف گیا۔ صرف یورپ کے تارکین وطن کو امریکہ میں بسنے کا حق کیوں حاصل ہونا چاہیے؟ دنیا میں جہاں سے چاہے لوگ آئیں؛ اگر وہ اچھے لوگ ہیں، معاشرے کے لیے فائدہ مند ہیں تو انہیں یہاں آنے دیا جائے۔ یہ ہے وہ تاریخ جس کے نتیجے میں ہم جیسے بہت سے لوگ آج امریکہ میں موجود ہیں۔ مگر تارکین وطن کی بڑھتی آبادی کے سبب کھیل یورپی نژاد امریکیوں کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ کیلی فورنیا یورپی نژاد لوگوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے؛ یہاں غیر یورپی نژاد لوگوں کی آبادی یورپی نژاد لوگوں کی آبادی سے بڑھ گئی ہے۔ اگلے پندرہ بیس سالوں میں یہی معاملہ پورے امریکہ میں ہونے والا ہے۔ بہت سے یورپی نژاد امریکی پریشان ہیں۔ وہ تخت چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اور اسی سوچ کا نتیجہ تارکین وطن سے نفرت ہے۔ تارکین وطن سے کہا جارہا ہے کہ تمھارے ملک میں زرخیز زمین ہے، وہاں دریا بہتے ہیں، وہاں معدنیات ہیں، سورج نکلتا ہے اور ڈوبتا ہے تو پھر تم یہاں کیوں آئے ہو، تم اپنے وطن کو رہنے کے قابل کیوں نہیں بناتے؟ یہ ملک تو ہمارے جد نے بنایا ہے۔ جن لوگوں نے پروانہ آزادی [ڈیکلیریشن آف انڈیپینڈینس] پہ دستخط کیے تھے ان کی شکلیں دیکھو۔ کیا تمھاری شکل ان سے ملتی ہے؟ نہیں۔ وہ ہمارے آبا و اجداد تھے۔ یہ ملک ان کی میراث ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ تم کیوں آگئے اس ترکے میں اپنا حصہ تلاش کرنے کے لیے؟
اور یہ بہت تکلیف دہ سوال ہے جس پہ صرف شرمندگی سے نظریں جھکائی جا سکتی ہیں کہ واقعی ہم نالائق ہیں، ہمیں اپنے علاقے کا نظام چلانا نہیں آتا، ہمیں درخت لگانے نہیں آتے، ہمیں تو صرف یہ آتا ہے کہ بھاگ کر ایسی جگہ چلے جائیں جہاں پہلے سے درخت لگے ہوں اور ہم ان درختوں پہ لگے پھلوں پہ ٹوٹ پڑیں۔


Sunday, July 09, 2017

 

سندربن اور غربت سے نکلنے کی تدبیر

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو بائیس

 مئی دو، دو ہزار سترہ


سندربن اور غربت سے نکلنے کی تدبیر


سندربن زندگی سے بھرپور تھا۔ وہ خوبصورت جنگل انواع و اقسام کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا اور یہ آوازیں ایک دوسرے میں یوں مدغم تھیں کہ ایک آواز کو دوسری آواز سے الگ کر کے سننا ممکن نہ تھا۔ جنگل میں طرح طرح کے پرندے اور حشرات الارض موجود تھے۔ ہم نے ایک مگرمچھ بھی دیکھا۔ کشتی کی سواری کے دوران ہمیں کئی ڈالفن بھی نظر آئیں۔ بہت دیر تو یوں ہوا کہ پانی پہ چلتے ہمیں لگتا کہ کوئی چیز ہمارے دائیں یا بائیں پانی سے نکل کر باہر آئی اور پھر فورا ہی پانی کے اندر چلی گئی، مگر ہم اس طرف نظر ڈالتے تو وہاں کچھ نہ پاتے۔ مگر کچھ ہی دیر میں یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی۔ ایک ڈالفن کشتی سے کچھ ہی آگے پانی سے نکل کی ہوا میں اچھلی اور پھر پانی میں ڈبکی لگا کر گم ہوگئی۔
سندربن میں چمرنگ کے علاوہ سنداری درخت بھی کثیر تعداد میں تھے۔ اس درخت کی لکڑی بجلی کے کھمبوں کے علاوہ بحری جہازوں میں اور ریل پٹری کے تختوں کے لیے  استعمال ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں سنداری درخت کاٹے جارہے تھے اور ہم نے دل میں سوچا کہ کاش وہ کام قانونی طور پہ ہورہا ہو۔
ہم جب کشتی کی سواری سے اکتا گئے تو کشتی کو ایک جگہ ٹھہرایا اور جنگل میں کچھ دور چہل قدمی کی۔ وہاں زمین نرم تھی اور اس میں جگہ جگہ گول سوراخ تھے۔ ہم جس طرف بڑھتے، چھوٹے چھوٹے کیکڑے ہم سے بھاگتے ہوئے زمین میں موجود سوراخوں میں غائب ہوجاتے۔
دن کے آخر میں کشتی سے واپس جاتے ہوئے ہمیں ایک جگہ بندروں کا ایک غول نظر آیا۔ وہ بندر ہمیں دیکھتے ہی جنگل میں بھاگ گئے۔
مگر سارے جانور ایک طرف، اصل بات یہ کہ ہمیں شیر بنگال نظر نہ آیا۔ اور نظر بھی کیسے آتا؟ سندربن کے بادشاہوں اور ملکائوں کی آبادی مستقل کم ہورہی ہے۔ ایک عرصے سے جنگل سمٹ رہا ہے اور انسان آگے بڑھتا ہوا جنگلی حیات کو پیچھے دھکیل رہا ہے۔

یہ دنیا اس قدر پرانی ہے کہ اس کے جغرافیائی خطے بہت سے مختلف ادوار سے گزرے ہیں۔ آج جہاں خشکی ہے بہت پہلے وہ جگہ سمندر کی تہہ میں ہوا کرتی تھی۔ سندربن بھی بہت پرانا ہے۔ انسان سے بھی پرانا۔
انسان اپنے شروع زمانے میں خوراک کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا تھا۔ خوراک کی اس تلاش میں اس کا مقابلہ خونخوار جانوروں سے ہوتا تھا۔ جن جانوروں کا شکار کر کے انسان انہیں کھانا چاہتا تھا، وہی جانور شیروں، بھیڑیوں، اور گیدڑوں کی بھی غذا تھے۔
پھر زراعت ایجاد ہوئی اور جنگل اور جنگلی جانور برے سمجھے جانے لگے۔ ترقی کے یہ معنی خیال کیے جاتے تھے کہ جنگل کا صفایا کیا جائے، جنگلی جانوروں کو ختم کیا جائے، اور صاف کی جانے والی جگہ پہ انسان کو بسایا جائے یا  وہاں کھیت کھلیان ہوں۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب دنیا کی آبادی چند کروڑ سے زیادہ نہ تھی۔ اور اس قلیل انسانی آبادی کے کسی حصے میں اگر کسی وبا سے یا جنگ میں ہزاروں لاکھوں لوگ مرجائیں تو دنیا کی آبادی پہ شدید گزند لگتی تھی۔ دنیا کی انسانی آبادی  اچانک کم ہوجاتی تھی اور اس بات کا امکان پیدا ہوجاتا تھا کہ دنیا سے انسان ناپید ہوجائے گا۔  مگر آج ایسا نہیں ہے۔ اس وقت عالمی انسانی آبادی سات ارب سے زیادہ ہے۔ اس وقت انسان کو سب سے بڑا خطرہ خود اپنے آپ سے ہے۔ اس نوع کا براہ راست خطرہ تو کم ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ میں آبادی کا قلع قمع ہوجائے گا مگر اس بات کا بھرپور امکان موجود ہے کہ انسان اپنے ماحول کو اس قدر تباہ کردے گا کہ وہ ماحول انسان کی پرورش نہ کرپائے گا۔ انسانی وجود قدرتی ماحول کے مرہون منت تو ہے۔ یہ ہوا اگر سانس لینے کے قابل نہ رہی، یہ مٹی اگر خوراک اگانے کے قابل نہ رہی، یہ پانی اگر پینے کے قابل نہ رہا، تو ہمارا کیا بنے گا؟
ہمیں تیزی سے ختم ہوتے ہوئے جنگلات کی ضرورت ہے اور وہاں موجود جنگلی جانوروں کی ضرورت ہے۔ اور یہ سنہری موقع ہے ان تمام ممالک کے لیے جنہوں نے ترقی کے زور میں اپنے ماحول کو تباہ نہیں کردیا ہے۔ وہ اپنے اس اصل جغرافیے سے سیاحتی رقم بنا سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی صحت کے معاملے میں پیچھے جانا چاہتے ہیں؛ اس جگہ جہاں صنعتی سرگرمی اس نوعیت کی ہو کہ دھواں کم اٹھے، غیر مشینی نقل و حرکت زیادہ ہو، اور درخت خوب ہوں۔
بنگلہ دیش جیسے ممالک اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تو کیوں نہ سندربن کے قریب بہت بڑے رقبے کو مختص کر کے وہاں نیچر ٹریل بنا دی جائیں۔ وہاں تمام صنعتی ترقی روک دی جائے اور دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچا جائے کہ وہ سیاح ایسی جگہ آئیں جہاں کوئی گاڑی نہیں چلتی، کوئی دھواں نہیں اٹھتا۔ شاید اس حکمت عملی سے اچھی آمدنی ہو سکے۔
ملک سنگاپور کی کہانی بہت خوب اور سبق آموز ہے، کہ جس طرح غریب ممالک اپنی قسمت بدل سکتے ہیں، اسی طرح غریب لوگ بھی اپنی عقل سے اپنی قسمت بدل سکتے ہیں۔ سنگاپور کے پاس نہ تیل کے کنویں ہیں، نہ ہی اتنی زمین ہے کہ اپنے لوگوں کے لیے خوراک اگانے کا کام کرسکے، مگر اس کے باوجود سنگاپور نے فیکٹریاں کھول کر، دوسرے لوگوں سے کام لے کر، اپنا کام چلا لیا۔ اور اس کے مقابلے میں پاکستان جیسے ممالک ہیں جہاں خوب زمین ہے، دریا بھی کئی ہیں، مگر اس کے باوجود ہم اپنی غربت کا رونا روتے ہیں؛ چند مہینے پانی کی کمیابی کی شکایت کرتے ہیں اور کچھ ماہ بعد سیلاب میں بہے جاتے ہیں اور پانی کی زیادتی سے نالاں ہوتے ہیں۔



 

سندربن


ایک فکر کے سلسلے کا کالم



کالم شمار تین سو اکیس


 اپریل چوبیس، دو ہزار سترہ



سندربن



سلہٹ سے ڈھاکہ

سلہٹ مزاج میں برصغیر کے دوسرے چھوٹے شہروں کی طرح تھا جہاں کوئی ایک بڑی صنعت اس شہر کو بین الاقوامی معیشت سے جوڑتی ہے۔ ایسے کسی چھوٹے قصبے میں ایک بازار ہوتا ہے جس میں خوب افراتفری ہوتی ہے؛ اور وہیں ایک مقدس مذہبی مقام بھی ہوتا ہے۔ سلہٹ کی بڑی صنعت چائے ہے، بازار عاطف سینٹر کے اردگرد ہے اور مذہبی مقام درگاہ شاہ جلال ہے۔ سلہٹ میں ہمارا بیشتر وقت اسی علاقے میں گزرا تھا اور اب سلہٹ سے روانگی تھی۔

ٹرین سلہٹ سے ڈھاکہ کے لیے چلی تو سری منگل کے اسٹیشن پہ جا کر کھڑی ہوگئی۔ انتظار میں ڈھائی گھنٹہ نکل گیا۔ معلوم ہوا کہ آگے مال گاڑی کا حادثہ ہوا تھا۔ ٹرین چل رہی ہو تو بہت شور مچاتی ہے اور کہیں کھڑی ہوجائے تو سناٹا چھا جاتا ہے۔ ایسے موقع پہ پہلی دفعہ مسافر ایک دوسرے کو غور سے دیکھتے ہیں۔



ڈھاکہ سے روانگی

ہمیں اندازہ نہ تھا کہ ڈھاکہ سے ہماری یوں دوستی ہوجائے گی کہ جب سلہٹ سے واپس ڈھاکہ پہنچیں گے تو لگے گا کہ اپنے ٹھکانے پہ واپس آگئے ہیں۔ مگر ڈھاکہ سے اس شناسائی کے باوجود ڈھاکہ پہنچنے پہ سندربن جانے کی تیاری تھی۔ یوں تو ڈھاکہ سے زمینی راستے سے بھی سندربن جایا جا سکتا تھا مگر پانی کے جہاز کی سواری کا شوق پورا کرنے کے لیے سندربن جانے کا راستہ یہ سمجھ میں آیا کہ بحری جہاز سے ڈھاکہ سے مونگلا جائیں۔ اور پھر وہاں سے سندربن۔



دو بڑے دریائوں کا سنگم

دریائے گنگا کشمیر سے شروع ہوتا ہے اور مشرق کی طرف بہتا ہوا، پورے بھارت سے گزرنے کے بعد بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں اسی دریا کو پدما کہا جاتا ہے۔  اس طرح گنگا کے ذریعے بنگلہ دیش کا تعلق جنوبی ایشیا کے شمال مغربی علاقے سے ہے۔

بنگلہ دیش کا دوسرا بڑا دریا برہم پترا بھارت کے شمال مشرق میں چین کے پہاڑوں سے شروع ہوتا ہے اور مغرب کی طرف بہتا ہو، بھارت کی مشرقی ریاستوں کو سیراب کرتا ہوا بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں داخل ہونے کے بعد بھی اس دریا کا یہی نام رہتا ہے۔  برہم پترا کی وجہ سے بنگلہ دیش کا تعلق جنوبی ایشیا کے شمال مشرقی علاقے سے ہے۔ اور یوں اپنے بڑے دو دریائوں کے توسط سے بنگلہ دیش اس پانی سے فیضیاب ہوتا ہے جو مغرب سے مشرق تک جنوبی ایشیا کے بہت بڑے علاقے کو سیراب کر کے بنگلہ دیش پہنچتا ہے۔

بنگلہ دیش میں پدما اور برہم پترا کے ملاپ کے بعد اس دریا کو پدما ہی کہا جاتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں دریائوں کے دو بڑے دہانے [ڈیلٹا] ہیں، ایک گنگا دہانہ اور دوسرا سندھ دہانہ۔ ایک وقت تھا کہ جنوبی ایشیا کے ان دونوں بڑے دہانوں پہ پاکستان کا جھنڈا لہراتا تھا۔



مونگلا

ہم نے مونگلا جانے کے لیے جس بحری جہاز کا انتخاب کیا اس کا نام ایم وی مسعود تھا۔ ایم وی مسعود ایک پیڈل جہاز تھا یعنی اس کے پیچھے ایسا پہیا لگا تھا جو جہاز کے انجن کے زور سے پانی میں گھومتا تھا اور اس پہیے کی مدد سے پانی کو دھکا دینے کی وجہ سے جہاز آگے بڑھتا تھا۔ یہ پرانے وقتوں کی ٹیکنالوجی تھی۔ یہ ٹیکنالوجی انگریز کے ساتھ اس خطے میں آئی تھی۔ جب تک انگریز اس علاقے میں رہا، یورپ اور مغربی دنیا میں پرورش پانے والی ٹیکنالوجی ہمارے خطے میں فورا پہنچ جاتی تھی۔ مگر انگریز کے جانے کے بعد یہ سفر کسی قدر تھم گیا۔

لمبی مسافت کی وجہ سے ایم وی مسعود میں کھانے پینے کا مکمل انتظام تھا۔ ایم وی مسعود کو ڈھاکہ سے چل کر کھلنا پہنچنا تھا مگر ہمیں کھلنا سے پہلے مونگلا میں اتر جانا تھا۔ جہاز کو ڈھاکہ سے روانہ ہوئے کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ کھانے کا وقت ہوگیا۔ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ کھانے میں پائے تھے۔ بس پھر کیا تھا ہم تھے اور پائے، روٹی، اور چائے۔



سندربن

مونگلا ایک چھوٹا قصبہ تھا۔ ہم وہاں سے مزید جنوب میں سندربن دیکھنے گئے۔

ترقی پذیر ملک میں پیدا ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ہم بلا مروت اپنے ملک کی، اپنے علاقے کی خرابیاں بیان کرسکتے ہیں۔ ایسی تنقید پہ ہمیں ان نظروں سے نہیں دیکھا جاتا جن نظروں سے مغرب سے تعلق رکھنے والے کسی ایسے شخص کو دیکھا جاتا ہے جو ترقی پذیر معاشروں کی خرابیاں بیان کرے۔ اس تمہید کا ایک مقصد ہے۔ ہم یہ حقیقت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بہت سے غریب لوگ اس لیے غریب ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے پاس موجود دولت کو دیکھ نہیں پاتے۔ اور اس مشاہدے کا اطلاق ممالک پہ بھی ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش پہنچ کر ہمیں یہ بات یوں سمجھ میں آئی کہ دنیا سندربن دیکھنے کے لیے تڑپ رہی تھی اور بنگلہ دیش میں سندربن جنگل دیکھنے کے مواقع بہت کم تھے۔ سندربن جیسا جنگل دنیا میں کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ اسی کلومیٹر چوڑی ساحلی پٹی پہ پھیلے چمرنگ [مین گروو] اور اڑتیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے کا حامل یہ وسیع و عریض جنگل، مگر بنگلہ دیش اس دولت کو سمجھنے سے قاصر۔

ہم جس راستے سے سندربن پہنچے وہاں جنگل کے اندر ہرن پوائنٹ نامی ایک مقام تھا؛  مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ جنگلی جانور ہرن پوائنٹ کی اصلیت سمجھ چکے تھے اور اب اس جگہ کے قریب بھی نہ پھٹکتے تھے۔

یقینا سندربن افریقہ کے جنگلات سے مختلف ہے اور اس کی دلدلی زمین پہ گاڑی چلانا مشکل ہے مگر سیاحوں کو اس جنگل کی سیر کرانے کے لیے کچھ نہ کچھ  انتظامات تو کیے جاسکتے تھے۔

ہم جنگل کے اندر جانے کے لیے گائڈ کی خدمات حاصل کرسکتے تھے مگر ہمیں معلوم ہوا کہ گائڈ آپ کو جنگل میں بہت زیادہ اندر لے کر نہیں جاتے کیونکہ وہ جنگل سے خوف کھاتے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے طور پہ سندربن دیکھیں گے اور شمال سے جنگل میں داخل ہوں گے۔

سندربن کی سیر کے لیے ہم نے ایک کشتی کرائے پہ لی اور جنگل کے اندر جانے کے لیے آبی راستوں کا انتخاب کیا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح سندربن دیکھنے میں جنگلی حیات کے ملنے کا امکان بہت کم تھا۔

سب سے پہلے تو کشتی میں چڑھنا ہی اپنے طور پہ ایک چیلنج تھا۔ مغرب میں یہ انتظام ہوتا ہے کہ ہر کشتی کسی آبی مچان [پئیر] کے ساتھ بندھی ہوتی ہے اور آپ آبی مچان پہ چلتے ہوئے کشتی تک جاتے ہیں اور پھر براہ راست آبی مچان سے کشتی میں سوار ہوجاتے ہیں۔ مونگلا بندرگاہ کی آبی مچان اس قدر چھوٹی تھی کہ چند کشتیاں ہی اس کے ساتھ بندھی تھیں جبکہ دوسری کشتیاں ان کشتیوں کے ساتھ بندھی تھیں۔ یہ بہت ساری کشتیاں ایک گچھے کی صورت میں آبی مچان کے اطراف جمع تھیں۔ ہم نے جو کشتی کرائے پہ لی تھی وہ چوتھی صف میں تھی؛ ہم دوسری کشتیوں سے ہوتے ہوئے اپنی کشتی تک پہنچے۔

پھر یہ ہوا کہ جب کشتی چلی تو اس کے انجن نے آسمان سر پہ کھڑا کردیا۔ ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ہمارے لیے سندربن کی جنگلی حیات دیکھنے کا امکان اور بھی معدوم ہوگیا تھا۔

جنگل میں داخلے سے پہلے ایک اور مرحلہ درپیش تھا۔ ہمیں محکمہ جنگلات سے سندربن میں گھسنے کی اجازت حاصل کرنی تھی۔ محمکہ جنگلات کے دفتر کے باہر ایک احاطے میں ہرن بند تھے۔ جتنی دیر میں سرکاری کاروائی مکمل ہوئی ہم نے ان ہرن کی تصاویر لیں کہ شاید اس سے آگے کوئی جانور دیکھنے کو نہ ملے۔

سندربن میں داخلے کی اجازت دیتے ہوئے ہمیں تنبیہ کی گئی کہ ہم جنگل کے اندر بہت دور نہ جائیں۔ کیوں؟ وہاں خطرہ تھا۔ کیسا خطرہ؟ ہم نے اعتماد سے کہا کہ ہمیں جنگلی جانوروں سے بالکل ڈر نہیں لگتا۔ بتایا گیا کہ نہیں جنگلی حیات کا خطرہ نہیں بلکہ جنگل میں ڈاکوئوں کا خطرہ تھا۔

ہم سوچتے رہے کہ جنگل میں پناہ لینے والے ڈاکوئوں کو یہ کون سمجھا سکتا ہے کہ وہ اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے جنگلی حیات کو مار کر نہ کھا جائیں۔ افریقی ملک زائر میں تو ایسا ہی ہوا تھا۔ جب وہاں کے حکمراں مبوتو نے فوج کو تنخواہ نہ دی تو اسلحہ بردار فوجی جنگل میں گھس گئے اور جو جانور نظر آیا اسے شکار کر کے کھانا شروع کردیا۔



 

سلہٹ کے پتھر دائرے




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو بیس

 فروری اٹھائیس، دو ہزار سترہ


سلہٹ کے پتھر دائرے


ڈھاکہ پہنچنے پہ وہی جنوبی ایشیا کے شناسا چہرے۔  مگر اس کے ساتھ اپنے علاقوں کا شورشرابہ، بے ہنگم ٹریفک، اور وہی پیسے کے لیے اندھی دوڑ۔ اس دوڑ کا پہلا مشاہدہ ڈھاکہ ہوئی اڈے پہنچنے پہ ہوا تھا جہاں ہم امیگریشن سے باہر نکلے تو چھوٹے چھوٹے کھوکھوں میں موجود منی چینجر اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور رقم کی تبدیلی کے لیے ہمیں اپنی طرف بلانے لگے۔ ہمیں ان لوگوں کا، روزی کی خواہش میں اس طرح اپنی خودداری اور وقار کو مجروح کرنا برا لگا۔

کیا بنگلہ دیش صرف بنگالیوں کا ہے؟
ایشیا اور افریقہ میں لوگ اپنے اپنے علاقوں میں طویل عرصے سے رہ رہے ہیں۔ جب لوگ کسی ایک مخصوص جگہ بہت عرصہ رہیں تو ان کا علاقہ ان کی پہچان بن جاتا ہے۔ یورپی نوآبادیتی تجربے کے بعد  ایشیا اور افریقہ میں بننے والے ممالک اس گھمبیر مسئلے کا شکار ہیں کہ رنگ برنگ مختلف پہچان کے لوگوں کو ایک ملک کے جھنڈے تلے کیسے متحد رکھیں۔ سنہ اکہتر کی جنگ میں بہت سے پاکستانیوں کا یہ خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کے سارے لوگ بنگالی ہیں جو غیربنگالیوں سے اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مگر موجودہ بنگلہ دیش میں صرف بنگالی نہیں رہتے۔ بنگلہ دیش کے وہ علاقے جو برما سے لگتے ہیں یا وہ جو آسام کے نزدیک ہیں، بہت سی مختلف ، غیربنگالی، پہچان کے گروہوں کے گڑھ ہیں۔ ہم سلہٹ پہنچ کر بنگلہ دیش کے ایک ایسے ہی علاقے میں آ گئے تھے۔ مگر اس سفر کا پہلا تجربہ تو بے انتہا غربت کا مشاہدہ تھا۔ ٹرین ڈھاکہ سے نکلی تو دور تک ایسی جھونپڑیوں کے درمیان چلی جو پٹری سے اس قدر قریب تھیں کہ انہیں ٹرین کی کھڑکی سے ہاتھ نکال کر چھوا جا سکتا تھا۔ ان جھونپڑیوں کے باسی کون تھے جو اس قدر مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے پہ مجبور تھے؟ ان لوگوں کا ترقی پذیر ممالک میں ناہموار ترقی، شہروں کی طرف دوڑ، اور آبادی میں تیزی سے اضافے جیسے عوامل سے کیا رشتہ ہے؟ کیا کبھی ان جھگی والوں کے دن بھی پلٹیں گے؟ یا یہ لوگ نسل در نسل اسی مفلسی کی زندگی گزارتے رہیں گے؟

آثار قدیمہ
اس دنیا میں انسان کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر لکھائی ایجاد ہوئے بمشکل ساڑھے پانچ ہزار سال ہوئے ہیں۔ اور ان ساڑھے پانچ ہزار سالوں میں بھی انسانی تاریخ لکھنا بہت نیا معاملہ ہے۔ چنانچہ ہمیں گزرے لوگوں کی بعض ایسی نشانیاں ملتی ہیں کہ ہم انہیں دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ آخر وہ چیزیں کس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہوں گی۔
پرانے لوگوں کے چھوڑے ایسے ہی آثار قدیمہ میں وہ عمارتی ڈھانچے بھی ہیں جو بڑے بڑے پتھروں کی مدد سےبنائے گئے ہیں۔ ان ڈھانچوں کو آپ پتھر دائرے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ترتیب یہ ہے کہ عظیم الجثہ پتھروں کو ایک دائرے کی شکل دے دی گئی ہے۔
ان پتھر دائروں کی کیا افادیت تھی؟ اتنے وزنی پتھروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے پہنچایا جاتا تھا اور کیسے سیدھا کھڑا کیا جاتا تھا؟ کیا یہ پتھر دائرے پرانے وقتوں کے منادر ہیں؟ ان پتھر دائروں میں پرانے وقتوں کے لوگ کیا رسومات ادا کرتے تھے؟ ظاہر سی بات ہے کہ کسی قسم کا لکھا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس بارے میں محض قیاس آرائی ہی کرسکتے ہیں۔
آپ ان پتھر دائروں کے بارے میں جو چاہے تصور کریں، یہ حقیقت ہے کہ ایسے پتھر دائرے یورپ سے لے کر ایشیا تک مختلف جگہوں پہ پائے جاتے ہیں۔
سلہٹ میں قیام کے دوران سیاحت کا بہترین تجربہ جینتاپور جانے کا تھا جہاں کی خاص بات وہاں کا ایک پتھر دائرہ ہے۔


جینتا پور کا پتھر دائرہ دیکھنے پہ ایک دفعہ پھر یہ بات سمجھ میں آئی کہ غربت اپنے وسائل کی اہمیت نہ سمجھنے اور انہیں برباد کرنے کا ہی نام ہے۔ انگلستان کے اسٹون ہنج کو لے لیجیے۔ اس پتھر دائرے کی دنیا بھر میں دھوم ہے اور پتھروں کی اس پراسرار ترتیب کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح بھاگے بھاگے انگلستان جاتے ہیں مگر جینتا پور کے اس پتھر دائرے کا کوئی شور نہیں تھا۔ لگتا تھا کہ جینتاپور کے رہنے والوں کے لیے نہ صرف ان پتھروں کی کوئی قدر نہ تھی، بلکہ شاید وہ پتھر دائرہ ان کی راہ میں رکاوٹ ہی ثابت ہورہا تھا۔

غربت کی خرابیاں
جینتا پور سے سلہٹ آتے ہوئے بس میں ہماری بات چیت ایک ایسے شخص سے ہوگئی جو ایک سال پاکستان میں رہ کر آیا تھا۔ وہ کراچی میں لانڈھی کے لال چورنگی نامی مقام پہ رہا کرتا تھا۔ اُس نے کوئٹہ میں بھی کچھ وقت گزارا تھا۔ "آپ کے ملک میں تو ہر چیز بہت سستی ہے اور خوب ملتی ہے۔ چاکری بھی بہت ہے۔ ہر آدمی کو چاکری مل جاتی ہے۔ بنگالی لوگ بہت جھوٹ بولتا ہے۔ آپ کے ملک میں لوگ جھوٹ نہیں بولتا۔ اگر وہ کوئی بات کہے گا تو اُس کا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ یہاں اگر ایک شخص کا جوتا ہلکے سے بھی دوسرے شخص کو لگ جائے تو جھگڑا ہو جاتا ہے۔ وہاں کوئی اتنی سی بات کا برا نہیں مناتا۔" وہ زور زور سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ مجھ سے اردو میں باتیں کرتا اور پھر اُس کا ترجمہ بنگلہ میں کر کے آس پاس کے لوگوں کو سناتا۔ میں سوچتا رہا کہ غربت کتنی بڑی خرابی ہے اور اس خرابی میں چھوٹی چھوٹی دوسری خرابیاں تلاش کرنا کتنا آسان کام ہے۔




Tuesday, July 04, 2017

 

کراچی میں بریل سیکھیے

پاکستان بلائنڈ سینٹر فار بریل


گلشن اقبال کراچی میں واقع پاکستان بلائنڈ سینٹر فار بریل نابینا اور بینا افراد کو اردو اور انگریزی بریل کی تعلیم دیتا ہے۔

آپ ہفتے بھر میں مہارت سے بریل لکھنا اور پڑھنا سیکھ سکتے ہیں۔

بریل کے استاد سید محمد اسماعیل سے بریل سیکھیے۔
ہمارے سینٹر میں مرد اور عورت اساتذہ موجود ہیں۔ ہم بریل کے شوقین تمام لوگوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

مزید معلومات کے لیے ہم سے درج ذیل فون نمبر پہ رابطہ کیجیے۔
0321-8732-102


Labels: , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?