Sunday, July 09, 2017

 

سندربن


ایک فکر کے سلسلے کا کالم



کالم شمار تین سو اکیس


 اپریل چوبیس، دو ہزار سترہ



سندربن



سلہٹ سے ڈھاکہ

سلہٹ مزاج میں برصغیر کے دوسرے چھوٹے شہروں کی طرح تھا جہاں کوئی ایک بڑی صنعت اس شہر کو بین الاقوامی معیشت سے جوڑتی ہے۔ ایسے کسی چھوٹے قصبے میں ایک بازار ہوتا ہے جس میں خوب افراتفری ہوتی ہے؛ اور وہیں ایک مقدس مذہبی مقام بھی ہوتا ہے۔ سلہٹ کی بڑی صنعت چائے ہے، بازار عاطف سینٹر کے اردگرد ہے اور مذہبی مقام درگاہ شاہ جلال ہے۔ سلہٹ میں ہمارا بیشتر وقت اسی علاقے میں گزرا تھا اور اب سلہٹ سے روانگی تھی۔

ٹرین سلہٹ سے ڈھاکہ کے لیے چلی تو سری منگل کے اسٹیشن پہ جا کر کھڑی ہوگئی۔ انتظار میں ڈھائی گھنٹہ نکل گیا۔ معلوم ہوا کہ آگے مال گاڑی کا حادثہ ہوا تھا۔ ٹرین چل رہی ہو تو بہت شور مچاتی ہے اور کہیں کھڑی ہوجائے تو سناٹا چھا جاتا ہے۔ ایسے موقع پہ پہلی دفعہ مسافر ایک دوسرے کو غور سے دیکھتے ہیں۔



ڈھاکہ سے روانگی

ہمیں اندازہ نہ تھا کہ ڈھاکہ سے ہماری یوں دوستی ہوجائے گی کہ جب سلہٹ سے واپس ڈھاکہ پہنچیں گے تو لگے گا کہ اپنے ٹھکانے پہ واپس آگئے ہیں۔ مگر ڈھاکہ سے اس شناسائی کے باوجود ڈھاکہ پہنچنے پہ سندربن جانے کی تیاری تھی۔ یوں تو ڈھاکہ سے زمینی راستے سے بھی سندربن جایا جا سکتا تھا مگر پانی کے جہاز کی سواری کا شوق پورا کرنے کے لیے سندربن جانے کا راستہ یہ سمجھ میں آیا کہ بحری جہاز سے ڈھاکہ سے مونگلا جائیں۔ اور پھر وہاں سے سندربن۔



دو بڑے دریائوں کا سنگم

دریائے گنگا کشمیر سے شروع ہوتا ہے اور مشرق کی طرف بہتا ہوا، پورے بھارت سے گزرنے کے بعد بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں اسی دریا کو پدما کہا جاتا ہے۔  اس طرح گنگا کے ذریعے بنگلہ دیش کا تعلق جنوبی ایشیا کے شمال مغربی علاقے سے ہے۔

بنگلہ دیش کا دوسرا بڑا دریا برہم پترا بھارت کے شمال مشرق میں چین کے پہاڑوں سے شروع ہوتا ہے اور مغرب کی طرف بہتا ہو، بھارت کی مشرقی ریاستوں کو سیراب کرتا ہوا بنگلہ دیش میں داخل ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں داخل ہونے کے بعد بھی اس دریا کا یہی نام رہتا ہے۔  برہم پترا کی وجہ سے بنگلہ دیش کا تعلق جنوبی ایشیا کے شمال مشرقی علاقے سے ہے۔ اور یوں اپنے بڑے دو دریائوں کے توسط سے بنگلہ دیش اس پانی سے فیضیاب ہوتا ہے جو مغرب سے مشرق تک جنوبی ایشیا کے بہت بڑے علاقے کو سیراب کر کے بنگلہ دیش پہنچتا ہے۔

بنگلہ دیش میں پدما اور برہم پترا کے ملاپ کے بعد اس دریا کو پدما ہی کہا جاتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں دریائوں کے دو بڑے دہانے [ڈیلٹا] ہیں، ایک گنگا دہانہ اور دوسرا سندھ دہانہ۔ ایک وقت تھا کہ جنوبی ایشیا کے ان دونوں بڑے دہانوں پہ پاکستان کا جھنڈا لہراتا تھا۔



مونگلا

ہم نے مونگلا جانے کے لیے جس بحری جہاز کا انتخاب کیا اس کا نام ایم وی مسعود تھا۔ ایم وی مسعود ایک پیڈل جہاز تھا یعنی اس کے پیچھے ایسا پہیا لگا تھا جو جہاز کے انجن کے زور سے پانی میں گھومتا تھا اور اس پہیے کی مدد سے پانی کو دھکا دینے کی وجہ سے جہاز آگے بڑھتا تھا۔ یہ پرانے وقتوں کی ٹیکنالوجی تھی۔ یہ ٹیکنالوجی انگریز کے ساتھ اس خطے میں آئی تھی۔ جب تک انگریز اس علاقے میں رہا، یورپ اور مغربی دنیا میں پرورش پانے والی ٹیکنالوجی ہمارے خطے میں فورا پہنچ جاتی تھی۔ مگر انگریز کے جانے کے بعد یہ سفر کسی قدر تھم گیا۔

لمبی مسافت کی وجہ سے ایم وی مسعود میں کھانے پینے کا مکمل انتظام تھا۔ ایم وی مسعود کو ڈھاکہ سے چل کر کھلنا پہنچنا تھا مگر ہمیں کھلنا سے پہلے مونگلا میں اتر جانا تھا۔ جہاز کو ڈھاکہ سے روانہ ہوئے کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ کھانے کا وقت ہوگیا۔ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ کھانے میں پائے تھے۔ بس پھر کیا تھا ہم تھے اور پائے، روٹی، اور چائے۔



سندربن

مونگلا ایک چھوٹا قصبہ تھا۔ ہم وہاں سے مزید جنوب میں سندربن دیکھنے گئے۔

ترقی پذیر ملک میں پیدا ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ہم بلا مروت اپنے ملک کی، اپنے علاقے کی خرابیاں بیان کرسکتے ہیں۔ ایسی تنقید پہ ہمیں ان نظروں سے نہیں دیکھا جاتا جن نظروں سے مغرب سے تعلق رکھنے والے کسی ایسے شخص کو دیکھا جاتا ہے جو ترقی پذیر معاشروں کی خرابیاں بیان کرے۔ اس تمہید کا ایک مقصد ہے۔ ہم یہ حقیقت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بہت سے غریب لوگ اس لیے غریب ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے پاس موجود دولت کو دیکھ نہیں پاتے۔ اور اس مشاہدے کا اطلاق ممالک پہ بھی ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش پہنچ کر ہمیں یہ بات یوں سمجھ میں آئی کہ دنیا سندربن دیکھنے کے لیے تڑپ رہی تھی اور بنگلہ دیش میں سندربن جنگل دیکھنے کے مواقع بہت کم تھے۔ سندربن جیسا جنگل دنیا میں کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ اسی کلومیٹر چوڑی ساحلی پٹی پہ پھیلے چمرنگ [مین گروو] اور اڑتیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے کا حامل یہ وسیع و عریض جنگل، مگر بنگلہ دیش اس دولت کو سمجھنے سے قاصر۔

ہم جس راستے سے سندربن پہنچے وہاں جنگل کے اندر ہرن پوائنٹ نامی ایک مقام تھا؛  مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ جنگلی جانور ہرن پوائنٹ کی اصلیت سمجھ چکے تھے اور اب اس جگہ کے قریب بھی نہ پھٹکتے تھے۔

یقینا سندربن افریقہ کے جنگلات سے مختلف ہے اور اس کی دلدلی زمین پہ گاڑی چلانا مشکل ہے مگر سیاحوں کو اس جنگل کی سیر کرانے کے لیے کچھ نہ کچھ  انتظامات تو کیے جاسکتے تھے۔

ہم جنگل کے اندر جانے کے لیے گائڈ کی خدمات حاصل کرسکتے تھے مگر ہمیں معلوم ہوا کہ گائڈ آپ کو جنگل میں بہت زیادہ اندر لے کر نہیں جاتے کیونکہ وہ جنگل سے خوف کھاتے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے طور پہ سندربن دیکھیں گے اور شمال سے جنگل میں داخل ہوں گے۔

سندربن کی سیر کے لیے ہم نے ایک کشتی کرائے پہ لی اور جنگل کے اندر جانے کے لیے آبی راستوں کا انتخاب کیا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح سندربن دیکھنے میں جنگلی حیات کے ملنے کا امکان بہت کم تھا۔

سب سے پہلے تو کشتی میں چڑھنا ہی اپنے طور پہ ایک چیلنج تھا۔ مغرب میں یہ انتظام ہوتا ہے کہ ہر کشتی کسی آبی مچان [پئیر] کے ساتھ بندھی ہوتی ہے اور آپ آبی مچان پہ چلتے ہوئے کشتی تک جاتے ہیں اور پھر براہ راست آبی مچان سے کشتی میں سوار ہوجاتے ہیں۔ مونگلا بندرگاہ کی آبی مچان اس قدر چھوٹی تھی کہ چند کشتیاں ہی اس کے ساتھ بندھی تھیں جبکہ دوسری کشتیاں ان کشتیوں کے ساتھ بندھی تھیں۔ یہ بہت ساری کشتیاں ایک گچھے کی صورت میں آبی مچان کے اطراف جمع تھیں۔ ہم نے جو کشتی کرائے پہ لی تھی وہ چوتھی صف میں تھی؛ ہم دوسری کشتیوں سے ہوتے ہوئے اپنی کشتی تک پہنچے۔

پھر یہ ہوا کہ جب کشتی چلی تو اس کے انجن نے آسمان سر پہ کھڑا کردیا۔ ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ہمارے لیے سندربن کی جنگلی حیات دیکھنے کا امکان اور بھی معدوم ہوگیا تھا۔

جنگل میں داخلے سے پہلے ایک اور مرحلہ درپیش تھا۔ ہمیں محکمہ جنگلات سے سندربن میں گھسنے کی اجازت حاصل کرنی تھی۔ محمکہ جنگلات کے دفتر کے باہر ایک احاطے میں ہرن بند تھے۔ جتنی دیر میں سرکاری کاروائی مکمل ہوئی ہم نے ان ہرن کی تصاویر لیں کہ شاید اس سے آگے کوئی جانور دیکھنے کو نہ ملے۔

سندربن میں داخلے کی اجازت دیتے ہوئے ہمیں تنبیہ کی گئی کہ ہم جنگل کے اندر بہت دور نہ جائیں۔ کیوں؟ وہاں خطرہ تھا۔ کیسا خطرہ؟ ہم نے اعتماد سے کہا کہ ہمیں جنگلی جانوروں سے بالکل ڈر نہیں لگتا۔ بتایا گیا کہ نہیں جنگلی حیات کا خطرہ نہیں بلکہ جنگل میں ڈاکوئوں کا خطرہ تھا۔

ہم سوچتے رہے کہ جنگل میں پناہ لینے والے ڈاکوئوں کو یہ کون سمجھا سکتا ہے کہ وہ اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے جنگلی حیات کو مار کر نہ کھا جائیں۔ افریقی ملک زائر میں تو ایسا ہی ہوا تھا۔ جب وہاں کے حکمراں مبوتو نے فوج کو تنخواہ نہ دی تو اسلحہ بردار فوجی جنگل میں گھس گئے اور جو جانور نظر آیا اسے شکار کر کے کھانا شروع کردیا۔



Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?