Tuesday, July 11, 2017

 

واپسی

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو چوبیس

 مئی پندرہ، دو ہزار سترہ


واپسی



بات ہورہی تھی ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کی۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ مغربی ممالک میں بہت سے لوگ پسماندہ ممالک سے آنے والے مہاجرین کے خلاف ہوگئے ہیں۔ اس صورت میں ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکیں۔
اگر کہا جائے کہ کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ تہذیب یافتہ ہیں تو بائیں بازو کے حلقوں میں اس بات کا برا مانا جاتا ہے۔ اس طرح کے بیان سے اس پاکیزہ خیال کو ٹھیس پہنچتی ہے جس کی رو سے دنیا کے تمام انسان برابر ہیں۔ خیال پاکیزہ ہونے کے باوجود غلط ہے۔ یقینا دنیا کے تمام انسان اپنی حیوانی جبلت میں مماثل ہیں، اور ان کے بنیادی حقوق بھی یکساں ہیں، مگر تعلیم اور تہذیب کے معاملے میں دنیا کے تمام لوگ برابر نہیں ہیں۔ کچھ لوگ زیادہ تہذیب یافتہ ہیں اور کچھ کم۔ کسی بھی دور میں لوگوں کا ایک گروہ تمام دنیا کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے۔ یہ ہراول دستہ نئی مادی اور فکری منازل طے کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی منہ سے اقرار کرے یا نہ کرے، اسی گروہ کی تہذیب ارفع مانی جاتی ہے۔ اگر اس بارے میں کسی کو ذرہ برابر بھی شک ہو تو صرف ساٹھ سال پہلے کی دنیا پہ غور کریں کہ جب دنیا کے بعض کونوں میں آدم خوری کی روایت قائم تھی۔ یہ چند ہی قبائل تھے جو اپنے جیسے انسان کو مار کر کھا جاتے تھے۔ باقی دنیا میں اگر کہیں آدم خوری رہی تھی تو وہ بہت پہلے متروک ہوچکی تھی۔ تو صرف ساٹھ سال پہلے باقی دنیا اپنے آپ کو تہذیب یافتہ خیال کرتی تھی اور ان آدم خوروں کے متعلق خیال کرتی تھی کہ وہ تہذیب کی سیڑھی پہ کہیں بہت نیچے کھڑے ہیں۔ تہذیب یافتہ دنیا نے ان پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو آدم خوری چھوڑنے پہ مجبور کیا اور تہذیب کے اس معیار پہ لے آئی جس پہ باقی دنیا کھڑی تھی۔ واضح ہے کہ کسی بھی وقت دنیا میں تمام لوگ تہذیب کی ایک منزل پہ نہیں ہوتے بلکہ کچھ زیادہ تہذیب یافتہ ہوتے ہیں اور کچھ کم۔ اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے آس پاس کی دنیا صنعتی انقلاب کے ثمرات سے وجود میں آئی ہے اور اسی زور پہ تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ جن علاقوں میں صنعتی انقلاب آیا اور جن لوگوں نے سرعت سے صنعتی انقلاب کو گلے لگایا وہی لوگ تہذیب کے اعلی مقام پہ ہیں اور باقی دنیا ان کی نقل کر کے وہاں تک پہنچنا چاہتی ہے۔ دنیا کے ہر ترقی پذیر ملک کے سامنے یہ چیلنچ ہے کہ وہ اپنی زبان، اپنی روایات کےساتھ کس طرح مغربی ممالک کی روش پہ چلے۔
ڈھاکہ سے کراچی روانگی سے ایک روز پہلے معلوم ہوا کہ اگلے روز ہڑتال ہے۔ ہم کراچی کی ہڑتالوں کے مارے ہوئے تھے، وہ ہڑتالیں جو پرتشدد ہوتی ہیں اور اسلحے کے زور پہ کامیاب کرائی جاتی ہیں۔ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ ڈھاکہ کے حالات ابھی تک اتنے خراب نہیں ہوئے ہیں کیونکہ غیرقانونی اسلحہ وہاں محدود ہے۔ ہڑتال ضرور ہوگی مگر چوری چھپے کام بھی چلتا رہے گا۔ ایک سائیکل رکشے والے نے ہم سے وعدہ کیا کہ وہ صبح کے وقت ہمیں ہمارے ہوٹل سے اٹھا لے گا اور ذیلی سڑکوں پہ سائیکل دوڑاتا ہوا ہمیں  ہوائی اڈے پہنچا دے گا۔


گھر واپسی پہ لکھے جانے والے خیالات
کئی ماہ کے سفر کے بعد گھر پہنچنا اچھا لگا۔  دوران سفر ہم اکثر ایسی جگہوں پہ ٹھہرے جہاں بہت شور رہتا تھا۔ بیشتر جگہ ہمارا قیام ایسے ہوٹلوں میں ہوا جو مرکز شہر میں تھے اور جہاں شہر کی گہماگہمی مستقل سنائی دیتی تھی۔ یہاں کراچی میں ہمارا گھر ایک نسبتا پرسکون علاقے میں ہے۔ اس وقت مجھے کوئوں کی کائیں کائیں سنائی دے رہی ہے اور کان لگانے پہ دور بڑی سڑک پہ ٹریفک کا شور سنائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مکمل خاموش ہے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد ایک ٹھہر جانے کا احساس ہے۔ شاید اس احساس میں اس خاموشی کا دخل ہے۔ پھر یہ بھی کہ دوران سفر ہم لوگ مستقل متحرک رہتے تھے۔ صبح اٹھتے تو ناشتے کے لیے باہر دوڑتے؛ اور پھر دن بھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔
گھر پہنچنے کے بعد یہ دوڑ دھوپ ختم ہوئی۔ شاید اس وجہ سے بھی ٹھہر جانے کا احساس ہے۔ نومبر کا وسط ہونے کی وجہ سے اس وقت کراچی میں موسم نسبتا اچھا ہے۔ اس وقت وہ پریشان کن گرمی نہیں ہے جو کراچی کا خاصہ ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ سروں کی جو فصل اترنی تھی وہ اتر چکی؛ اس شہر کو کچھ قرار آیا ہے۔
دنیا میں کسی جگہ کو یہی چیزیں تو دل کش بناتی ہیں۔ وہاں امن ہو اور لوگ محبت کرنے والے ہوں؛ ساتھ اگر آب و ہوا اچھی ہو تو کیا کہنے۔ اس مختصر زندگی میں آپ کو اس سے زیادہ کیا چاہیے؟   

Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?