Monday, July 10, 2017

 

آزادی کے بعد خوشحالی کا سفر

ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو تئیس

 مئی نو، دو ہزار سترہ


آزادی کے بعد خوشحالی کا سفر


بنگلہ دیش میں ہمیں کھانے پینے کا یوں تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر لگتا تھا کہ ہمارے علاقے کے مقابلے میں وہاں لوگوں کا پیٹ پوجا کی طرف کم دھیان تھا۔ ہمیں دودھ حاصل کرنے میں خاص طور سے مشکل ہوتی تھی۔  تو کھلنا پہنچ کر یہی ہوا۔ خواہش ہوئی کہ دودھ پیا جائے مگر دودھ کسی بھی دکان میں موجود نہ تھا۔ ایک حلوائی کی دکان سے مشٹی دئی [میٹھا دہی] خرید کر کام چلایا۔
اس وقت تک [سنہ پچانوے] بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم بہت اچھی نہ سمجھی جاتی تھی۔ مگر نوآبادیاتی دور کے اثر سے بنگلہ دیش میں کرکٹ کے شائقین ہر جگہ موجود تھے۔ ان دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم بیرون ملک دورے پہ تھی۔ ایک آدمی سے بات ہوئی تو پاکستان کا نام سن کر اس نے فورا ہمیں بتایا کہ، ’’تمھاری ٹیم نے تو آج میزبان ٹیم کی خوب مار لگائی ہے۔‘‘ ہم کچھ دیر کے لیے یوں خوش ہوگئے جیسے والدین اپنی آوارہ اولاد کے متعلق کوئی مثبت بات سن کر تھوڑی دیر کےلیے خوش ہوجاتے ہیں۔
اس رات کھلنا میں ہمارے ہوٹل کے باہر ایک سیاسی جلسہ ہورہا تھا جس میں شیخ حسینہ کی پارٹی کا ایک نیتا زوردار تقریر کررہا تھا۔ ہم بنگالی میں ہونے والی اس تقریر کو سننے کی کوشش کررہے تھے اور بمشکل ایک آدھ لفظ ہی سمجھ پاتے تھے۔ اس کم فہمی کے باوجود ہمیں اندازہ ہوگیا کہ اس تقریر میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا حال بیان کیا جارہا تھا۔
اور صبح کے وقت ہم نے جب کشتی کے ناخدا سے اردو میں بات کی تھی اور یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ آیا اسے ہماری زبان سمجھ میں آرہی تھی تو اس نے بہت اطمینان سے کہا تھا، ’’بنگلہ، اردو ایک چیز۔ نو پرابلم۔‘‘
کیا؟ بنگلہ، اردو، کوئی مسئلہ ہی نہیں؟ پھر ان لسانی فسادات کا کیا بنا جو اردو زبان کے خلاف ہوئے تھے؟
اسی رات ہمیں اپنے ایک پاکستانی مسلمان دوست کا خیال آیا جس نے ایک بھارتی ہندو لڑکی سے شادی کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ، ’’مذہب تو ایک ثانوی معاملہ ہے۔ اصل میں تو ہم سب انسان ہیں۔‘‘ ارے، دو قومی نظریے کے ساتھ ایسا سلوک؟
وہ کون لوگ ہیں جو انسان کو انسان سے متنفر کرتے ہیں؟ ان کے نفرت انگیز خیالات کیسے عام ہو جاتے ہیں؟  لوگ اگر بغور اپنے آپ کو اور دوسروں کو دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ انسان مختلف پیراہنوں میں رہتا ہے۔ ان سب پردوں کے پیچھے جو انسان چھپا ہے، وہ تو بس ایک معصوم جانور ہے۔ اپنی حیوانی جبلت سے اسے وہی سب کچھ چاہیے جو ایک جانور کو چاہیے: کھانا پینا، حفاظت سے رہنا، اور سر چھپانے کا ٹھکانہ۔ پھر اس کے بعد اس جانور کی پہچان مختلف طریقوں سے ہے: اس کے لباس سے، انداز رہن سہن سے، زبان سے، مذہب سے۔
جو لوگ سیاست کرتے ہیں، حکومت کرنا چاہتے ہیں، اقتدار کی خواہش رکھتے ہیں، وہ حیوانی جبلت سے اوپر کے اس پیراہن کو سیاست کا نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ اصل اہمیت تو اس مخصوص لباس کی ہے جو اس معصوم جانور کے اوپر پڑا ہے۔
بیس سال بعد کسی سفر کا حال لکھنے میں یہ آسانی ہے کہ آپ کے سامنے بہت سی نئی چیزیں موجود ہوتی ہیں جن کو آپ اس سفرنامے کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ سنہ دو ہزار سترہ کے پانچویں مہینے کی نو تاریخ ہے۔ امریکی معاشرے میں جو تبدیلی آرہی ہے اس کا سیاسی نتیجہ ہم نے پچھلے امریکی انتخابات میں دیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کو یورپ سے آنے والے لوگوں نے بنایا۔ یقینا امریکہ میں قدیم وقتوں سے سرخ ہندی رہ رہے تھے مگر ہم آج جس امریکہ سے واقف ہیں اسے سرخ ہندیوں نے نہیں بنایا، وہ یورپ سے آنے والوں کا بنایا ہوا ہے۔ یورپ سے آنے والے والوں نے اس جگہ کو ایک ملک بنایا، اس ملک کو ایک دستور دیا، ایک مضبوط جمہوری نظام دیا، یہاں ریلوے اور سڑکوں کا جال بچھایا، اور ملک میں جدید مواصلاتی نظام قائم کیا۔ سرخ ہندی اس علاقے میں ایسی ہی زندگی گزار رہے تھے جیسی زندگی کوئی پھلدار درخت گزارتا ہے؛ اس زندگی کا مقصد صرف اپنی زندگی کی حفاظت کرنا اور اپنی نسل کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ یورپی نوواردوں کی سوچ سرخ ہندیوں کی سوچ سے کہیں زیادہ وسیع تھی اور نئے آنے والوں کے پاس بہتر ٹیکنالوجی بھی تھی۔ اسی سوچ اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے یورپ سے آنے والے امریکہ کے مقامی لوگوں پہ حاوی ہوگئے۔ اور پھر اگلے قریبا دو سو سال یورپ سے آنے والوں کی امریکہ میں بالادستی رہی۔ اس بالادستی کے دوران افریقہ سے لائے جانے والے لوگ غلام تھے اور امریکہ میں آکر بس جانے کا حق صرف یورپی لوگوں کو حاصل تھا۔ اسی بالادستی کے دوران سوچ میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ باضمیر لوگوں کو احساس ہوا کہ اپنے جیسے ایک دوسرے انسان کی آزادی سلب کرنا اور اسے غلام رکھنا برا ہے۔ غلامی ختم کرنے کی جدوجہد شروع ہوئی۔ امریکہ میں یورپی مہاجرین دو حصوں میں بٹ گئے۔ کچھ لوگ غلامی برقرار رکھنا چاہتے تھے، دوسرے غلامی کی روایت ختم کرنا چاہتے تھے۔ اور پھر یہ دو گروہ آپس میں لڑ پڑے۔ فتح اس گروہ کی ہوئی جو غلامی کا ادارہ منسوخ کرنا چاہتا تھا۔ واضح رہے کہ غلامی کی روایت ختم کرنے کے لیے یہ جنگ غلاموں نے شروع نہیں کی، بلکہ بہت سے غلام اپنے ان آقائوں کے ساتھ مل کر لڑے جو غلامی برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اور یوں کاغذ پہ غلامی ختم ہوگئی مگر ذہنوں میں پرانے خیالات قائم رہے اور انہیں خیالات کی وجہ سے گہرے رنگ والے لوگوں کے لیے یورپی مہاجرین کے ذہنوں میں نفرت قائم رہی۔ نعرہ لگایا گیا کہ برابر مگر الگ [ایکوئل بٹ سپیریٹ] یعنی کہ ہم مانتے ہیں کہ کالے ہم سے کمتر نہیں ہیں مگر سفید فام لوگوں کو سیاہ فام لوگوں سے بالکل الگ رہنے کا حق حاصل ہے۔ اس سوچ کے تحت نسلی تفریق کے قوانین بنائے گئے: کالے الگ علاقوں میں رہتے تھے اور سفید الگ جگہ؛ بسوں میں کالے پیچھے بیٹھتے تھے اور چٹے آگے؛ کالے اور گوروں کے لیے پانی کی سبیلیں الگ الگ تھیں۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چلا۔ ایک شام ریاست الاباما  کے شہر مونٹگمری میں روزا پارکس نامی ایک افریقی نژاد عورت بس میں چڑھی اور ایک نشست پہ بیٹھ گئی۔ اگلے اسٹاپ پہ کئی سفید فام لوگ بس میں چڑھے۔ بس میں کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ بس کا ڈرائیور  اپنی سیٹ سے اٹھ کر پیچھے آیا اور روزا پارکس سے کہا کہ وہ سفید فام مسافروں کے لیے کرسی چھوڑ دے۔ روزا پارکس نے نشست چھوڑنے سے انکار کردیا۔ پھر اگلا منظر یہ ہے کہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں فسادات ہورہے ہیں۔ سیاہ فام لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔ بہت سے باضمیر سفید فام لوگ ان سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ہیں۔ نسلی برتری کے قوانین کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں۔ ہم انسان ہیں، ہمیں انسان سمجھو؛ ہمیں عزت سے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ دس سال سے اوپر چلا اور بالاخر تمام نسل پرست قوانین ختم ہوئے۔ اور جب نسلی تفریق کے دوسرے قوانین ختم ہوئے تو ساتھ ہی دھیان تارکین وطن سے متعلق قانون کی طرف گیا۔ صرف یورپ کے تارکین وطن کو امریکہ میں بسنے کا حق کیوں حاصل ہونا چاہیے؟ دنیا میں جہاں سے چاہے لوگ آئیں؛ اگر وہ اچھے لوگ ہیں، معاشرے کے لیے فائدہ مند ہیں تو انہیں یہاں آنے دیا جائے۔ یہ ہے وہ تاریخ جس کے نتیجے میں ہم جیسے بہت سے لوگ آج امریکہ میں موجود ہیں۔ مگر تارکین وطن کی بڑھتی آبادی کے سبب کھیل یورپی نژاد امریکیوں کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ کیلی فورنیا یورپی نژاد لوگوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے؛ یہاں غیر یورپی نژاد لوگوں کی آبادی یورپی نژاد لوگوں کی آبادی سے بڑھ گئی ہے۔ اگلے پندرہ بیس سالوں میں یہی معاملہ پورے امریکہ میں ہونے والا ہے۔ بہت سے یورپی نژاد امریکی پریشان ہیں۔ وہ تخت چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اور اسی سوچ کا نتیجہ تارکین وطن سے نفرت ہے۔ تارکین وطن سے کہا جارہا ہے کہ تمھارے ملک میں زرخیز زمین ہے، وہاں دریا بہتے ہیں، وہاں معدنیات ہیں، سورج نکلتا ہے اور ڈوبتا ہے تو پھر تم یہاں کیوں آئے ہو، تم اپنے وطن کو رہنے کے قابل کیوں نہیں بناتے؟ یہ ملک تو ہمارے جد نے بنایا ہے۔ جن لوگوں نے پروانہ آزادی [ڈیکلیریشن آف انڈیپینڈینس] پہ دستخط کیے تھے ان کی شکلیں دیکھو۔ کیا تمھاری شکل ان سے ملتی ہے؟ نہیں۔ وہ ہمارے آبا و اجداد تھے۔ یہ ملک ان کی میراث ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ تم کیوں آگئے اس ترکے میں اپنا حصہ تلاش کرنے کے لیے؟
اور یہ بہت تکلیف دہ سوال ہے جس پہ صرف شرمندگی سے نظریں جھکائی جا سکتی ہیں کہ واقعی ہم نالائق ہیں، ہمیں اپنے علاقے کا نظام چلانا نہیں آتا، ہمیں درخت لگانے نہیں آتے، ہمیں تو صرف یہ آتا ہے کہ بھاگ کر ایسی جگہ چلے جائیں جہاں پہلے سے درخت لگے ہوں اور ہم ان درختوں پہ لگے پھلوں پہ ٹوٹ پڑیں۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?