Sunday, July 09, 2017
سندربن اور غربت سے نکلنے کی تدبیر
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار تین سو بائیس
مئی دو، دو ہزار سترہ
سندربن اور غربت سے نکلنے کی تدبیر
سندربن زندگی سے بھرپور تھا۔ وہ خوبصورت جنگل انواع و اقسام کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا اور یہ آوازیں ایک دوسرے میں یوں مدغم تھیں کہ ایک آواز کو دوسری آواز سے الگ کر کے سننا ممکن نہ تھا۔ جنگل میں طرح طرح کے پرندے اور حشرات الارض موجود تھے۔ ہم نے ایک مگرمچھ بھی دیکھا۔ کشتی کی سواری کے دوران ہمیں کئی ڈالفن بھی نظر آئیں۔ بہت دیر تو یوں ہوا کہ پانی پہ چلتے ہمیں لگتا کہ کوئی چیز ہمارے دائیں یا بائیں پانی سے نکل کر باہر آئی اور پھر فورا ہی پانی کے اندر چلی گئی، مگر ہم اس طرف نظر ڈالتے تو وہاں کچھ نہ پاتے۔ مگر کچھ ہی دیر میں یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی۔ ایک ڈالفن کشتی سے کچھ ہی آگے پانی سے نکل کی ہوا میں اچھلی اور پھر پانی میں ڈبکی لگا کر گم ہوگئی۔
سندربن میں چمرنگ کے علاوہ سنداری درخت بھی کثیر تعداد میں تھے۔ اس درخت کی لکڑی بجلی کے کھمبوں کے علاوہ بحری جہازوں میں اور ریل پٹری کے تختوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں سنداری درخت کاٹے جارہے تھے اور ہم نے دل میں سوچا کہ کاش وہ کام قانونی طور پہ ہورہا ہو۔
ہم جب کشتی کی سواری سے اکتا گئے تو کشتی کو ایک جگہ ٹھہرایا اور جنگل میں کچھ دور چہل قدمی کی۔ وہاں زمین نرم تھی اور اس میں جگہ جگہ گول سوراخ تھے۔ ہم جس طرف بڑھتے، چھوٹے چھوٹے کیکڑے ہم سے بھاگتے ہوئے زمین میں موجود سوراخوں میں غائب ہوجاتے۔
دن کے آخر میں کشتی سے واپس جاتے ہوئے ہمیں ایک جگہ بندروں کا ایک غول نظر آیا۔ وہ بندر ہمیں دیکھتے ہی جنگل میں بھاگ گئے۔
مگر سارے جانور ایک طرف، اصل بات یہ کہ ہمیں شیر بنگال نظر نہ آیا۔ اور نظر بھی کیسے آتا؟ سندربن کے بادشاہوں اور ملکائوں کی آبادی مستقل کم ہورہی ہے۔ ایک عرصے سے جنگل سمٹ رہا ہے اور انسان آگے بڑھتا ہوا جنگلی حیات کو پیچھے دھکیل رہا ہے۔
یہ دنیا اس قدر پرانی ہے کہ اس کے جغرافیائی خطے بہت سے مختلف ادوار سے گزرے ہیں۔ آج جہاں خشکی ہے بہت پہلے وہ جگہ سمندر کی تہہ میں ہوا کرتی تھی۔ سندربن بھی بہت پرانا ہے۔ انسان سے بھی پرانا۔
انسان اپنے شروع زمانے میں خوراک کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا تھا۔ خوراک کی اس تلاش میں اس کا مقابلہ خونخوار جانوروں سے ہوتا تھا۔ جن جانوروں کا شکار کر کے انسان انہیں کھانا چاہتا تھا، وہی جانور شیروں، بھیڑیوں، اور گیدڑوں کی بھی غذا تھے۔
پھر زراعت ایجاد ہوئی اور جنگل اور جنگلی جانور برے سمجھے جانے لگے۔ ترقی کے یہ معنی خیال کیے جاتے تھے کہ جنگل کا صفایا کیا جائے، جنگلی جانوروں کو ختم کیا جائے، اور صاف کی جانے والی جگہ پہ انسان کو بسایا جائے یا وہاں کھیت کھلیان ہوں۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب دنیا کی آبادی چند کروڑ سے زیادہ نہ تھی۔ اور اس قلیل انسانی آبادی کے کسی حصے میں اگر کسی وبا سے یا جنگ میں ہزاروں لاکھوں لوگ مرجائیں تو دنیا کی آبادی پہ شدید گزند لگتی تھی۔ دنیا کی انسانی آبادی اچانک کم ہوجاتی تھی اور اس بات کا امکان پیدا ہوجاتا تھا کہ دنیا سے انسان ناپید ہوجائے گا۔ مگر آج ایسا نہیں ہے۔ اس وقت عالمی انسانی آبادی سات ارب سے زیادہ ہے۔ اس وقت انسان کو سب سے بڑا خطرہ خود اپنے آپ سے ہے۔ اس نوع کا براہ راست خطرہ تو کم ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ میں آبادی کا قلع قمع ہوجائے گا مگر اس بات کا بھرپور امکان موجود ہے کہ انسان اپنے ماحول کو اس قدر تباہ کردے گا کہ وہ ماحول انسان کی پرورش نہ کرپائے گا۔ انسانی وجود قدرتی ماحول کے مرہون منت تو ہے۔ یہ ہوا اگر سانس لینے کے قابل نہ رہی، یہ مٹی اگر خوراک اگانے کے قابل نہ رہی، یہ پانی اگر پینے کے قابل نہ رہا، تو ہمارا کیا بنے گا؟
ہمیں تیزی سے ختم ہوتے ہوئے جنگلات کی ضرورت ہے اور وہاں موجود جنگلی جانوروں کی ضرورت ہے۔ اور یہ سنہری موقع ہے ان تمام ممالک کے لیے جنہوں نے ترقی کے زور میں اپنے ماحول کو تباہ نہیں کردیا ہے۔ وہ اپنے اس اصل جغرافیے سے سیاحتی رقم بنا سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی صحت کے معاملے میں پیچھے جانا چاہتے ہیں؛ اس جگہ جہاں صنعتی سرگرمی اس نوعیت کی ہو کہ دھواں کم اٹھے، غیر مشینی نقل و حرکت زیادہ ہو، اور درخت خوب ہوں۔
بنگلہ دیش جیسے ممالک اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تو کیوں نہ سندربن کے قریب بہت بڑے رقبے کو مختص کر کے وہاں نیچر ٹریل بنا دی جائیں۔ وہاں تمام صنعتی ترقی روک دی جائے اور دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچا جائے کہ وہ سیاح ایسی جگہ آئیں جہاں کوئی گاڑی نہیں چلتی، کوئی دھواں نہیں اٹھتا۔ شاید اس حکمت عملی سے اچھی آمدنی ہو سکے۔
ملک سنگاپور کی کہانی بہت خوب اور سبق آموز ہے، کہ جس طرح غریب ممالک اپنی قسمت بدل سکتے ہیں، اسی طرح غریب لوگ بھی اپنی عقل سے اپنی قسمت بدل سکتے ہیں۔ سنگاپور کے پاس نہ تیل کے کنویں ہیں، نہ ہی اتنی زمین ہے کہ اپنے لوگوں کے لیے خوراک اگانے کا کام کرسکے، مگر اس کے باوجود سنگاپور نے فیکٹریاں کھول کر، دوسرے لوگوں سے کام لے کر، اپنا کام چلا لیا۔ اور اس کے مقابلے میں پاکستان جیسے ممالک ہیں جہاں خوب زمین ہے، دریا بھی کئی ہیں، مگر اس کے باوجود ہم اپنی غربت کا رونا روتے ہیں؛ چند مہینے پانی کی کمیابی کی شکایت کرتے ہیں اور کچھ ماہ بعد سیلاب میں بہے جاتے ہیں اور پانی کی زیادتی سے نالاں ہوتے ہیں۔
کالم شمار تین سو بائیس
مئی دو، دو ہزار سترہ
سندربن اور غربت سے نکلنے کی تدبیر
سندربن زندگی سے بھرپور تھا۔ وہ خوبصورت جنگل انواع و اقسام کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا اور یہ آوازیں ایک دوسرے میں یوں مدغم تھیں کہ ایک آواز کو دوسری آواز سے الگ کر کے سننا ممکن نہ تھا۔ جنگل میں طرح طرح کے پرندے اور حشرات الارض موجود تھے۔ ہم نے ایک مگرمچھ بھی دیکھا۔ کشتی کی سواری کے دوران ہمیں کئی ڈالفن بھی نظر آئیں۔ بہت دیر تو یوں ہوا کہ پانی پہ چلتے ہمیں لگتا کہ کوئی چیز ہمارے دائیں یا بائیں پانی سے نکل کر باہر آئی اور پھر فورا ہی پانی کے اندر چلی گئی، مگر ہم اس طرف نظر ڈالتے تو وہاں کچھ نہ پاتے۔ مگر کچھ ہی دیر میں یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی۔ ایک ڈالفن کشتی سے کچھ ہی آگے پانی سے نکل کی ہوا میں اچھلی اور پھر پانی میں ڈبکی لگا کر گم ہوگئی۔
سندربن میں چمرنگ کے علاوہ سنداری درخت بھی کثیر تعداد میں تھے۔ اس درخت کی لکڑی بجلی کے کھمبوں کے علاوہ بحری جہازوں میں اور ریل پٹری کے تختوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں سنداری درخت کاٹے جارہے تھے اور ہم نے دل میں سوچا کہ کاش وہ کام قانونی طور پہ ہورہا ہو۔
ہم جب کشتی کی سواری سے اکتا گئے تو کشتی کو ایک جگہ ٹھہرایا اور جنگل میں کچھ دور چہل قدمی کی۔ وہاں زمین نرم تھی اور اس میں جگہ جگہ گول سوراخ تھے۔ ہم جس طرف بڑھتے، چھوٹے چھوٹے کیکڑے ہم سے بھاگتے ہوئے زمین میں موجود سوراخوں میں غائب ہوجاتے۔
دن کے آخر میں کشتی سے واپس جاتے ہوئے ہمیں ایک جگہ بندروں کا ایک غول نظر آیا۔ وہ بندر ہمیں دیکھتے ہی جنگل میں بھاگ گئے۔
مگر سارے جانور ایک طرف، اصل بات یہ کہ ہمیں شیر بنگال نظر نہ آیا۔ اور نظر بھی کیسے آتا؟ سندربن کے بادشاہوں اور ملکائوں کی آبادی مستقل کم ہورہی ہے۔ ایک عرصے سے جنگل سمٹ رہا ہے اور انسان آگے بڑھتا ہوا جنگلی حیات کو پیچھے دھکیل رہا ہے۔
یہ دنیا اس قدر پرانی ہے کہ اس کے جغرافیائی خطے بہت سے مختلف ادوار سے گزرے ہیں۔ آج جہاں خشکی ہے بہت پہلے وہ جگہ سمندر کی تہہ میں ہوا کرتی تھی۔ سندربن بھی بہت پرانا ہے۔ انسان سے بھی پرانا۔
انسان اپنے شروع زمانے میں خوراک کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا تھا۔ خوراک کی اس تلاش میں اس کا مقابلہ خونخوار جانوروں سے ہوتا تھا۔ جن جانوروں کا شکار کر کے انسان انہیں کھانا چاہتا تھا، وہی جانور شیروں، بھیڑیوں، اور گیدڑوں کی بھی غذا تھے۔
پھر زراعت ایجاد ہوئی اور جنگل اور جنگلی جانور برے سمجھے جانے لگے۔ ترقی کے یہ معنی خیال کیے جاتے تھے کہ جنگل کا صفایا کیا جائے، جنگلی جانوروں کو ختم کیا جائے، اور صاف کی جانے والی جگہ پہ انسان کو بسایا جائے یا وہاں کھیت کھلیان ہوں۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب دنیا کی آبادی چند کروڑ سے زیادہ نہ تھی۔ اور اس قلیل انسانی آبادی کے کسی حصے میں اگر کسی وبا سے یا جنگ میں ہزاروں لاکھوں لوگ مرجائیں تو دنیا کی آبادی پہ شدید گزند لگتی تھی۔ دنیا کی انسانی آبادی اچانک کم ہوجاتی تھی اور اس بات کا امکان پیدا ہوجاتا تھا کہ دنیا سے انسان ناپید ہوجائے گا۔ مگر آج ایسا نہیں ہے۔ اس وقت عالمی انسانی آبادی سات ارب سے زیادہ ہے۔ اس وقت انسان کو سب سے بڑا خطرہ خود اپنے آپ سے ہے۔ اس نوع کا براہ راست خطرہ تو کم ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ میں آبادی کا قلع قمع ہوجائے گا مگر اس بات کا بھرپور امکان موجود ہے کہ انسان اپنے ماحول کو اس قدر تباہ کردے گا کہ وہ ماحول انسان کی پرورش نہ کرپائے گا۔ انسانی وجود قدرتی ماحول کے مرہون منت تو ہے۔ یہ ہوا اگر سانس لینے کے قابل نہ رہی، یہ مٹی اگر خوراک اگانے کے قابل نہ رہی، یہ پانی اگر پینے کے قابل نہ رہا، تو ہمارا کیا بنے گا؟
ہمیں تیزی سے ختم ہوتے ہوئے جنگلات کی ضرورت ہے اور وہاں موجود جنگلی جانوروں کی ضرورت ہے۔ اور یہ سنہری موقع ہے ان تمام ممالک کے لیے جنہوں نے ترقی کے زور میں اپنے ماحول کو تباہ نہیں کردیا ہے۔ وہ اپنے اس اصل جغرافیے سے سیاحتی رقم بنا سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی صحت کے معاملے میں پیچھے جانا چاہتے ہیں؛ اس جگہ جہاں صنعتی سرگرمی اس نوعیت کی ہو کہ دھواں کم اٹھے، غیر مشینی نقل و حرکت زیادہ ہو، اور درخت خوب ہوں۔
بنگلہ دیش جیسے ممالک اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تو کیوں نہ سندربن کے قریب بہت بڑے رقبے کو مختص کر کے وہاں نیچر ٹریل بنا دی جائیں۔ وہاں تمام صنعتی ترقی روک دی جائے اور دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچا جائے کہ وہ سیاح ایسی جگہ آئیں جہاں کوئی گاڑی نہیں چلتی، کوئی دھواں نہیں اٹھتا۔ شاید اس حکمت عملی سے اچھی آمدنی ہو سکے۔
ملک سنگاپور کی کہانی بہت خوب اور سبق آموز ہے، کہ جس طرح غریب ممالک اپنی قسمت بدل سکتے ہیں، اسی طرح غریب لوگ بھی اپنی عقل سے اپنی قسمت بدل سکتے ہیں۔ سنگاپور کے پاس نہ تیل کے کنویں ہیں، نہ ہی اتنی زمین ہے کہ اپنے لوگوں کے لیے خوراک اگانے کا کام کرسکے، مگر اس کے باوجود سنگاپور نے فیکٹریاں کھول کر، دوسرے لوگوں سے کام لے کر، اپنا کام چلا لیا۔ اور اس کے مقابلے میں پاکستان جیسے ممالک ہیں جہاں خوب زمین ہے، دریا بھی کئی ہیں، مگر اس کے باوجود ہم اپنی غربت کا رونا روتے ہیں؛ چند مہینے پانی کی کمیابی کی شکایت کرتے ہیں اور کچھ ماہ بعد سیلاب میں بہے جاتے ہیں اور پانی کی زیادتی سے نالاں ہوتے ہیں۔