Thursday, July 13, 2017

 

دنیا میں انسان کے وجود کی مختصر تاریخ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو  چھبیس

 جون تین، دو ہزار سترہ

دنیا میں انسان کے وجود کی مختصر تاریخ


دنیا میں انسان کے وجود کی ایک کہانی تو وہ ہے جو مذہبی کتابوں یا قدیم نظموں میں ملتی ہے۔ ایک دوسری کہانی مستقل سائنسی جستجو کے نتیجے میں جنم لے رہی ہے۔ اس دوسری کہانی کے پیچھے فوسل ریکارڈ ہیں۔
فوسل کیا ہوتے ہیں؟ فوسل پرانے وقتوں کے جانوروں اور نباتات کی وہ باقیات ہیں جو کسی طرح محفوظ رہ گئی ہیں۔ فوسل میں جانوروں کی ہڈیاں اور دانت، اور درختوں کی پتھرائی شکل میں رہ جانے والی باقیات شامل ہیں۔ کوئی بھی فوسل کس قدر پرانا ہے، اس کا تعین کاربن ڈیٹنگ نامی ایک ترکیب سے کیا جاسکتا ہے۔ کاربن ڈیٹنگ کیسے کی جاتی ہے، یہ جاننے سے پہلے کاربن ایٹم کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ تمام جاندار، نباتات و حیوانات، ہائڈرو کاربن کا مجموعہ ہوتے ہیں، یعنی ان کے جسم میں ہائڈروجن اور کاربن پہ مشتمل خلیے ہوتے ہیں۔ کاربن ایک ایسا ایٹم ہے جس کے مرکز [نیوکلیس] میں چھ پروٹون اور چھ نیوٹرون ہوتے ہیں۔ مگر تمام کاربن ایٹم ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ ایسے کاربن ایٹم بھی پائے جاتے ہیں جن کے نیوکلیس میں سات یا آٹھ نیوٹرون موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح کاربن کی تین شکلوں کو کاربن ۱۲، کاربن ۱۳، اور کاربن ۱۴ کہا جاتا ہے۔ ہمارے قدرتی ماحول میں کاربن ۱۲ کی تعداد کاربن ۱۳ اور کاربن ۱۴ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ ہم نے تجربے سے معلوم کیا ہے کہ ہوا کے کسی بھی نمونے میں اگر ایک ہزار کاربن ۱۲ ایٹم ہیں، تو ساتھ صرف ایک کاربن ۱۴ ایٹم ہوتا ہے۔ تو پھر کاربن ۱۲ اور کاربن ۱۴ کا یہ تناسب ان تمام جاندار میں پایا جائے گا جو ہوا کو سانس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب ایک اچھی بات یہ ہے کہ کاربن ۱۴ تابکار ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ کاربن ۱۴، ایک نائٹروجن ایٹم بن جاتا ہے۔ کاربن ۱۴ کی یہی تابکاری خصوصیت ہمارے معاون ہے۔ فرض کریں کہ کاربن ۱۴ اپنے تابکاری اثر سے پانچ ہزار سال بعد ایک نائٹروجن ایٹم بن جاتا ہے۔ اب اگر آپ مجھے ایک ہڈی کا نمونہ لا کر دیں جس میں کاربن ۱۲ اور کاربن  ۱۴ کا تناسب ایک ہزار بٹا ایک ہو تو میں سمجھ جائوں کہ یہ ہڈی بالکل نئی ہے کیونکہ اس کے اندر کاربن ۱۲ اور کاربن ۱۴ کا تناسب وہی ہے جو فضا میں ہے۔ لیکن اگر آپ مجھے ایک ایسی ہڈی لا کر دیں جس میں ایک ہزار کاربن ۱۲ ایٹم ہوں مگر ایک بھی کاربن ۱۴ ایٹم نہ ہو تو میں اندازہ کروں گا کہ یہ ہڈی پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ پانچ ہزار سال پہلے اس ہڈی میں کاربن ۱۲ اور کاربن ۱۴ کا وہی تناسب تھا جو فضا میں ہے مگر وقت کے ساتھ کاربن  ۱۴ ایٹم، نائٹروجن میں تبدیل ہوگیا اور اب اس نمونے میں صرف کاربن ۱۲ ایٹم بچے ہیں۔ اس طرح کسی بھی فوسل کی قدامت کا تخمینہ کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔

نظریہ ارتقا کیا ہے؟ بہت سادہ الفاظ میں نظریہ ارتقا کہتا ہے کہ پودوں اور جانوروں میں قدرتی اور مصنوعی چنائو سے نسل در نسل تبدیلی آتی ہے۔
ارتقا میں قدرتی چنائو کا نظریہ۔ قدرتی چنائو کا نظریہ کہتا ہے کہ کسی بھی ماحول میں وہ پودے اور جانور زندہ بچ جاتے ہیں جو اس ماحول میں پنپ پاتے ہیں۔ جن پودوں اور جانوروں کو ایک مخصوص ماحول راس نہیں آتا، وہ مر جاتے ہیں اور یوں اپنی نسل آگے بڑھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
ارتقا میں مصنوعی چنائو کا نظریہ۔ مصنوعی چنائو کے نظریے کے مطابق جانور یا انسان اپنی مداخلت سے بعض پودوں اور جانوروں کی بقا کا انتظام کرتے ہیں جب کہ وہ دوسری طرح کے پودوں اور جانوروں کا خاتمہ کرتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ ختم کیے جانے والے یا زندہ رکھے جانے والے وہ جانور اور پودے اپنے ماحول میں پنپنے کی کس قدر صلاحیت رکھتے ہیں۔ مصنوعی چنائو کی ایک مثال گیہوں ہے۔ گیہوں قدرتی طور پہ پائی جانے والے دوسری گھاس سے مختلف نہیں ہے مگر انسان نے ہزاروں سال میں مصنوعی چنائو سے گیہوں کو یوں بدلا ہے کہ اگائی جانے والی گیہوں کا خوشہ دانوں سے خوب بھرا ہوتا ہے جب کہ قدرتی گھاس کے خوشے میں آپ کو اتنے زیادہ دانے نظر نہیں آئیں گے۔

نظریہ ارتقا دنیا میں پودوں اور جانوروں کی تاریخ سمجھنے کا سب سے عمدہ سائنسی نظریہ ہے اور یہ نظریہ ہمیں آج بھی کام کرتا نظر آتا ہے۔ مثلا ہر سال فلو کا ایک نیا وائرس سامنے آتا ہے۔ انسان فلو کے وائرس کی ایک خاص دوا بناتا ہے جو ایک خاص قسم کے وائرس پہ کارگر ہوتی ہے۔ وائرس کی وہ نسل ختم ہوجاتی ہے مگر جس نسل پہ یہ دوا اثر نہیں کرتی وہ نسل بچ جاتی ہے اور اگلے سال وائرس کی وہ نسل ہم پہ حملہ کرتی ہے۔ یہ ارتقا میں مصنوعی چنائو کی ایک مثال ہے۔

دنیا میں انسان کی تاریخ کی ایک کہانی فوسل ریکارڈ کی مدد سے سمجھی جاسکتی ہے۔ یہ کہانی مستقل ہجرت کی کہانی ہے۔ اصل ہجرت قریبا دس لاکھ سال پہلے افریقہ سے ہوئی۔ انسان جب وہاں سے نکلا تو تقریبا ستر فی صد اس جسمانی ساخت کا تھا جیسا آج کا انسان ہے۔ انسان افریقہ سے نکل کر خوراک کی تلاش میں دنیا کے چپے چپے میں پھیل گیا۔ قریبا چالیس ہزار سال پہلے انسانوں کا ایک گروہ خوراک کی تلاش میں چلتا چلتا براعظم ایشیا کے اس شمال مشرقی کونے تک پہنچ گیا جو آج کل سائبریریا کہلاتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب آخری برفانی دور اپنے اخری مراحل میں تھا اور دنیا کا زیادہ تر پانی دونوں قطبین پہ جمع تھا جس کی وجہ سے سمندروں کی سطح کم ہوگئی تھی۔ سمندر میں پانی کی اسی کمی کی وجہ سے ایشیا کے شمال مشرقی ساحل سے براعظم شمالی امریکہ کے شمال مغربی ساحل تک ایک زمینی راستہ بنا ہوا تھا۔ انسان اسی زمینی پل پہ چلتا ہوا شمالی امریکہ پہنچا اور پھر نیچے جنوبی امریکہ تک پھیل گیا۔ آج سے قریبا تیس ہزار سال پہلے جب برفانی دور رفتہ رفتہ ختم ہوا، سمندر میں پانی کی سطح بلند ہوئی تو ایشیا کے شمال مشرقی ساحل سے براعظم شمالی امریکہ کے شمال مغربی ساحل تک موجود پل زیر آب آگیا۔ انسانی نسل دو حصوں میں بٹ گئی: ایک بڑا گروہ وہ جو افریقہ، ایشیا، اور یورپ میں موجود تھا اور دوسرا چھوٹا گروہ جو شمالی اور جنوبی امریکہ میں تھا۔ انسان کے یہ دو گروہ کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے سے پہلے ایک دوسرے کی موجودگی سے بے خبر ارتقا کی منازل طے کرتے رہے۔
جب انسان افریقہ سے نکلا تو وہ شکاری بٹوریا [ہنٹر گیدرر] تھا۔ وہ یا تو جانوروں کا شکار کرتا یا پھر خودرو اگنے والے پودوں میں سے کھانے کے قابل پودوں، پھلوں کو جمع کر کے اپنی بھوک مٹاتا۔ آج سے قریبا دس ہزار سال پہلے انسان نے حادثاتی طور پہ زراعت ایجاد کی اور پھر رفتہ رفتہ خوراک حاصل کرنے کا یہ طریقہ مقبول ہوتا گیا۔ اب غذا کی تلاش میں مارے مارے پھرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی؛ خود اگائو، خود کھائو۔ انسان نے جنگلی کتے کو زراعت ایجاد کرنے سے پہلے سدھا لیا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ دوسرے جانور سدھائے گئے اور خاص طور پہ وہ جانور جنہیں کاٹ کر کھایا جاسکتا تھا۔ زراعت کے رائج ہونے سے بہت پہلے مرغ بھی سدھایا جا چکا تھا۔ اب ہر طرح کی غذا انسان کے پاس تھی: اناج، گوشت، دودھ، انڈے۔ زراعت کی ایجاد کے بعد انسان ٹھہر گیا اور انسانی گروہ بستیوں کی شکل میں رہنے لگے۔


نسل
جب انسان نے افریقہ سے ہجرت کی تو انسان صرف ایک طرح کے ہوتے تھے۔ ان سب کی شکلیں ایک جیسی تھیں،قد و قامت بھی، اور جلد کا رنگ بھی ایک جیسا تھا۔ پھر آج انسان مختلف نسلوں میں بٹا کیوں نظر آتا ہے؟ دراصل انسان کی یہ ظاہری تبدیلی بہت نئی ہے اور اس کا تعلق زراعت سے ہے۔ زراعت کی ایجاد کے بعد جب انسان بستوں کی شکل میں بسا تو ایک جگہ کا جغرافیہ اس پہ نسل در نسل اثر انداز ہونے لگا۔ کھال کے رنگ کا تعلق سورج کی تمازت اور روشنی سے ہے؛ اسی طرح چہرے کے نقوش کا تعلق گرم یا سرد آب و ہوا سے ہے؛ ناک کی موٹائی کا تعلق اس ہوا سے ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں؛ اور ہمارے قد کا تعلق ہماری غذا سے ہے۔ اگر آپ کا خاندان ایک جگہ ہزاروں برس رہا ہو تو اس جگہ کی آب و ہوا، اس جگہ کا موسم، وہاں اگنے والا کھانا آپ کی نسل کا تعین کردے گا۔ نسل کوئی منجمد خاصیت نہیں ہے بلکہ مستقل تبدیل ہورہی ہے۔ اس تبدیلی کا مشاہدہ اس صورت میں باآسانی دیکھا جاسکتا ہے جہاں ایک نسل کے لوگ دوسرے علاقے میں رہنا شروع ہوجائیں۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?