Wednesday, July 12, 2017

 

ایک پرانے سفر کا حال



ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو پچیس

 مئی اٹھائیس، دو ہزار سترہ


ایک پرانے سفر کا حال

 
بہت عرصہ بیت گیا ہے مگر کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔ ایک ٹرین ہے جو ملک کی مغربی سرحد کی طرف چلی جارہی ہے۔ وہ ریل گاڑی کچھ کچھ فاصلے پہ ایسے اسٹیشنوں پہ رکتی ہے جو مسافر کے لیے بالکل اجنبی ہیں اور اپنے ناموں سے کسی دیومالائی کہانی کا حصہ معلوم دیتی ہیں۔ یہ بات ہے سنہ ۱۹۹۴ کی۔ سفر ہے کراچی سے مشہد کا۔
اس وقت کے سیاسی حالات یہ تھے کہ افغانستان میں طویل عرصے کی خانہ جنگی کے بعد طالبان آگے بڑھنا شروع ہوئے تھے۔ ایران عراق جنگ تو بہت پہلے ختم ہوگئی تھی؛ پھر امریکہ عراق جنگ بھی ختم ہوچکی تھی مگر صدام حسین اب تک برسراقتدار تھا۔ ایران خامنہ ای کی سرپرستی میں چل رہا تھا۔  پاکستان میں بے نظیر کی حکومت تھی اور سندھ حکومت ایم کیو ایم کی صفائی کے لیے کام کررہی تھی جس کی وجہ سے کراچی میں خوب خون خرابہ تھا۔ میرے اپنے حالات یہ تھے کہ میں سنہ بانوے کے آخر میں یورپ اور مشرقی افریقہ کی خاک چھاننے کے بعد پاکستان پہنچا تھا۔ میں نے کراچی میں ایک مشوراتی کمپنی کی بنیاد رکھی تھی مگر کاروبار میں جان نہیں تھی۔ پھر اس کے ساتھ میں کراچی کے حالات سے بددل تھا۔ ہر موقع تلاش کرتا تھا کہ کسی طرح اس شہروحشت سے نجات ملے۔
سچ پوچھیے تو ایران کے اس سفر کی بہت زیادہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ بس ہمیں کہیں جانا تھا۔ ایران کا ویزا حاصل کرنا آسان تھا۔ کراچی سے وہ ویزا لیا اور زمینی راستے سے ایران کے لیے روانہ ہوگئے۔
کراچی سے کوئٹہ جانے والی بس سبزی منڈی سے چلتی تھی۔ یہ بس ایک ایسی جگہ کھڑی ہوتی تھی جہاں ہر طرف کچرا پڑا ہوتا تھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے بکریوں کے ریوڑ، اور چیل کوے اس کچرے سے حسب توفیق مستفید ہوتے تھے۔

کوئٹہ جانے والی  بس شام کے وقت سبزی منڈی سے چلی  اور پوری رات کے سفر کے بعد صبح کوئٹہ پہنچی۔ کوئٹہ پہنچتے پہنچتے ہمیں کئی گانے یاد ہوگئے جو پوری رات بس میں زور زور سے بجتے رہے تھے۔ شاید وہ مستقل شور ڈرائیور کو نیند کی آغوش میں جانے سے بچانے کے لیے تھا۔ یہ کوشش کامیاب رہی تھی۔
بس آدھی رات کے وقت کسی غیر معروف جگہ رکی تھی جہاں ایک جھونپڑی میں بہت ہلکی روشنی ہورہی تھی۔ وہاں پانی کے بڑے بڑے گھڑے رکھے تھے۔ اس جگہ موجود لوگ گھنی داڑھی اور مونچھوں والے تھے۔ وہ ایسی جگہ تھی جہاں میں تنہا ہرگز نہ جاتا۔
کوئٹہ میں ہمارا صرف ایک کام تھا، پاکستان ایران کے سرحدی قصبے تفتان کے لیے ٹرین کا ٹکٹ خریدنا۔ ہمیں اپنے مطلب کی نشستیں ایک دن بعد کی ملیں اور ہم ٹرین سے سرحد کے لیے روانہ ہوگئے۔ سر آب، مستونگ، نوشکی، نوک کنڈی، جیسے ناموں والے اسٹیشن راستے میں پڑے۔ یوں تو وہ ٹرین ہماری منزل مراد یعنی زاہدان تک جارہی تھی مگر معلوم ہوا کہ سرحد پہ ٹرین کی تلاشی میں بہت وقت لگے گا اور بہتر یہ ہوگا کہ ہم تفتان پہ اتر کر خود سرحد پار کریں۔
کوہ تفتان ایک گرد اڑاتی سرحدی چوکی تھی۔ اس چوکی پہ ہمارے علاوہ زائرین موجود تھے جو مقام مقدسہ کی زیارت کے لیے ایران اور عراق جارہے تھے۔ ایک نوجوان یورپی جوڑا بھی نظر آیا جو سائیکلوں پہ تھا۔ وہ یورپ سے ایران سائیکل سے آئے تھے اور اب پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔
اپنی مفلسی میں ایران کی سرحدی چوکی میرجاوہ، پاکستان کی چوکی سے بہت زیادہ مختلف نہ تھی۔ وہاں سرسری طور پہ ہمارے پاسپورٹ کی جانچ ہوئی اور ہمیں ایران میں داخلے کی اجازت مل گئی۔
پاکستان اور ایران کی باہمی سرحد کے قریب ڈاٹسن ٹرک چلانے کا رواج تھا۔ ایسے ہی ایک ٹرک سے ہم زاہدان پہنچے تھے۔ مگر ایران میں داخل ہوتے ہی سڑکوں کی حالت بہت بہتر ہوگئی تھی۔ خیال ہوا کہ ہم ایک ترقی پذیر ملک سے نکل کر کسی ترقی یافتہ ملک آگئے ہیں۔ ایران میں آزاد راہوں [ہائی وے یا فری وے] کا جال رضا شاہ پہلوی کے دور میں امریکی ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈالا گیا تھا۔ مگر اچھی بات یہ تھی کہ انقلاب ایران کے بعد، امریکہ سے دشمنی کے باوجود ایران نے اپنے وسائل سے سڑکوں کے اس عمدہ نظام کو نہ صرف اچھی حالت میں رکھا بلکہ کام کو آگے بڑھایا۔
زاہدان پہنچ کر احساس ہوا کہ ہم واقعی ایک دوسرے ملک آگئے تھے۔ زیادہ تر سائن فارسی میں تھے اور انگریزی بہت کم نظر آرہی تھی۔ زاہدان کی سڑکیں بھی اسی طرح بڑی بڑی اور ویران نظر آتی تھیں جسی کہ ہمیں مشرقی یورپ میں نظر آئی تھیں۔ مگر یہاں کھانے پینے کی اشیا فراوانی سے تھیں۔ زاہدان کا مرکزی مقام چھارراہ رسولی تھا۔ ہمارا قیام اسی علاقے کے ایک غریب نواز ہوٹل میں تھا۔ ہمیں ایران کی اپنی بنی ہوئی دھات کی اشیا دیکھ کر خوشی ہوئی۔ شاید ایران کو اقتصادی پابندیوں کا فائدہ ہی ہوا تھا اور اب ایران ایسی چیزیں بنا رہا تھا جنہیں تجارتی پابندیوں کی غیرموجودگی میں بیرون ملک سے درآمد کرنا بہتر سودا ہوتا۔
ہم زاہدان میں موجود پاکستانی کنسولگری [پاکستانی قونصل خانے] بھی گئے۔ وہ قونصل خانہ مفلوک الحالی کا نقشہ پیش کرتا تھا۔ قونصل خانے کا اسٹاف  سیمنٹ کی دیوار میں موجود آہنی جنگلے کے پیچھے سے لوگوں کے سوالات کے جوابات دے رہا تھا۔  وہاں ایک افغان باشندہ پاکستانی ویزے کا طلب گار تھا اور قونصل خانے والے اسے سمجھا رہے تھے کہ افغان شہریوں کے لیے پاکستانی ویزا مکمل طور سے بند تھا۔ ہم نے دل میں سوچا کہ اس افغان کو ویزے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یا شاید وہ افغانستان سے ایران آکر پھنس گیا تھا۔ افغانستان میں ہوتا تو کسی سے اجازت حاصل کیے بغیر پاکستان میں داخل ہوجاتا۔ افغانستان کے ہر پڑھے لکھے شخص کی دلچسپی پاکستان آنے میں اس لیے ہوتی تھی کیونکہ یہاں سے امریکی ویزا حاصل کر کے آگے نکلا جاسکتا تھا۔
زاہدان سے مشہد کا بس کا سفر قریبا دس گھنٹے کا تھا۔ یہ پورا راستہ چٹیل پہاڑوں کا تھا مگر مشہد قریب آیا تو کچھ سبزہ نظر آنا شروع ہوا۔
ایران عراق جنگ میں ایران نے بہت سے جوانوں کو کھویا تھا مگر اس کے باوجود سڑک کے ساتھ لگے سائن لوگوں کو تلقین کررہے تھے کہ فرزند کمتر، نعمت بیشتر [کم بچے، خوشحال گھرانہ]۔
مشہد کا مرکزی چوراہا فلکہ آب نام کا تھا جس کے قریب امام رضا کا مقبرہ ہے۔ یہاں پاکستان سے شیعہ زائرن بڑی تعدا میں آئے ہوئے تھے اور ان لوگوں میں بوہری مرد اور عورتیں اپنے خاص لباس کی وجہ سے نمایاں تھے۔
ہم ہرجگہ اپنی کچی فارسی کے باوجود لوگوں سے بات کرتے۔ اغذیا فخارنامی ریستوراں پہ کام کرنے والے نوجوان سے ہم نے پوچھا کہ اسے ایران میں رہنا کیسا لگتا تھا۔ اس نے فورا جواب دیا، ایران خوب نیست۔ وہ امریکہ جانا چاہتا تھا۔ یہ بھی خوب ہے کہ جہاں جہاں یہ نام نہاد اسلامی نظام آیا، لوگ وہاں سے نکل کر بھاگنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح فردوسی بازار جاتے ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے بات چیت ہوئی جس کا کہنا تھا کہ ایران میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہاں شراب نہیں ملتی حالانکہ ہفتے میں ایک بار پینا اچھا ہوتا ہے۔
ایران میں ڈالر کا نرخ خوب چڑھا ہوا تھا اور سرکاری اور بلیک مارکیٹ نرخ میں بہت نمایاں فرق تھا۔ اس کے علاوہ مغربی دنیا کی بنی ہوئی چیزوں کی بھی خوب مانگ تھی۔ مشہد میں رات کو ٹہلتے ہوئے ایک بچہ ساعت ساعت کہتا ہوا ہمارے پیچھے لگ گیا۔ وہ ہم سے ہماری گھڑی چاہتا تھا۔ اس نے گھڑی کے بدلےسو ریال دینے کی پیشکش بھی کی۔
مشہد سے زاہدان واپسی ہوئی تو زاہدان پہنچتے ہی شدید گرمی کا احساس ہوا۔ سورج صحرا کو اچھی طرح گرم کر کے ڈھلتا تھا۔
ان دنوں ایران سے جو چیزیں اسمگل ہوکر پاکستان آتی تھیں ان میں تیل [گیسولین] کے علاوہ ایران کے بنے واٹر کولر بھی تھے۔ ہم جس ٹرین سے کوئٹہ گئے اس میں یہ اسمگل شدہ کولر بڑی تعداد میں موجود تھے۔ کئی جگہ چیکنگ کے باوجود یہ کولر بچ کر نکل آئے اور کوئٹہ کے اسٹیشن سے کچھ پہلے گاڑی رکنے پہ یہ کولر وہاں دھڑا دھڑ اتارے گئے۔
کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے پی آئی کے جہاز میں حسب توقع افراتفری تھی۔ ہم اپنی نشست پہ پہنچے تو وہاں ایک صاحب پہلے سے براجمان تھے۔ ہم نے اپنا بورڈنگ پاس دکھایا تو انہوں نے پیشکش کی ہم ان کی نشست پہ بیٹھ جائیں کیونکہ وہ پہلے ہی ہماری نشست پہ بیٹھے تھے۔ ہم نے معذرت چاہی اور انہیں بتایا کہ ہم اپنی ہی نشست پہ بیٹھنا چاہتے تھے۔ وہ صاحب طوعا و کرہا وہاں سے اٹھے۔


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?