Friday, July 14, 2017
جرم و سزا کی تاریخ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار تین سو ستائیس
جون بارہ، دو ہزار سترہ
جرم و سزا کی تاریخ
معاشروں میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام افراد اس سماجی معاہدے کی پاسداری کریں جس پہ سب کا اتفاق ہے۔ کیونکہ معاشرے کے بیشتر لوگ سماجی معاہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے اس لیے معاشرہ ان لوگوں کو انعام دینے کے بجائے جو معاہدے کے حساب سے چل رہے ہیں، ان دوسرے لوگوں کو سزا دینا زیادہ آسان سمجھتا ہے جو معاہدے کی خلاف ورزی کریں۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا سے دو مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں: اول، خلاف ورزی کرنے والے کی اصلاح ہو سکے، اور دوئم، معاشرے کے دوسرے لوگ اس سزا سے سبق حاصل کریں اور معاہدے کی خلاف ورزی کی خواہش رکھنے والے افراد اپنے ارادے سے باز آجائیں۔
مجرم کا پروفائل
اکثر فوجداری جرائم کرنے کے لیے جسمانی طاقت درکار ہوتی ہے۔ اور اسی وجہ سے اکثر فوجداری جرائم کے پیچھے جوان مرد ہوتے ہیں۔ عورتیں شاذ و نادر ہی جرائم میں ملوث پائی جاتی ہیں؛ اور اسی طرح بچے اور بوڑھے بھی اکثر جرائم کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اکثر مجرم اٹھارہ سے پنتیس سال کے مرد ہوتے ہیں۔
جرائم کی قسمیں
بعض جرائم صرف ایک شخص کو یا ایک گروہ کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ دوسرے جرائم سے پورے معاشرے کو، یا معاشرے کے بڑے حصے کو نقصان پہنچتا ہے۔ بہت سی صورتوں میں ان جرائم کو بھی جس میں فرد واحد کو نقصان پہنچتا ہے پورے معاشرے کا نقصان دیکھا جاسکتا ہے۔
جرائم کی سزا
جرائم معمولی سے سنگین نوعیت تک کے ہوسکتے ہیں۔ جمہوریت میں لوگوں کا نمائندہ قانون ساز ادارہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس جرم کی کیا سزا مقرر کی جائے۔ قتل یا سخت جسمانی نقصان والے جرائم سب سے زیادہ سنگین تصور کیے جاتے ہیں اور اسی لیے ان جرائم کی سزا سب سے سخت مقرر کی جاتی ہے۔
قتل اور خودکشی
معاشرے اپنے اندر موجود تمام لوگوں کے باہمی لین دین سے چلتے ہیں۔ اسی لیے کسی فرد کا معاشرے سے چلا جانا پورے معاشرے کا نقصان ہے۔ کسی ایک شخص کا قتل دراصل پورے معاشرے کے خلاف ایک جرم ہے۔ اور اسی لیے خود کشی جو بظاہر ایک ذاتی فیصلہ معلوم دیتی ہے، پورے معاشرے کے خلاف ایک جرم ہے۔ پورے معاشرے کی مرضی کے بغیر کسی شخص کو اپنی جان لینے کا بھی حق نہیں ہے۔
سزائے موت
تمام سزائوں میں سزائے موت سب سے سنگین تصور کی جاتی ہے۔ سزائے موت صرف اسی وقت دی جانی چاہیے جب مجرم کی اصلاح ممکن نہ ہو، یا یہ خیال ہو کہ ریاست عمر قید سے وابستہ اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ سزائے موت کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے: معاشرے کے تمام افراد کو جرم کی سنگینی کا یقین دلانا اور ان کو ایک شخص کی سزائے موت کے ذریعے خوفزدہ کر کے قوانین کی پاسداری کے لیے تیار کرنا۔
کم سن مجرم
اگر اٹھارہ برس سے کم عم کوئی بچہ کسی جرم کا ارتکاب کرے تو انصاف کے اداروں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مجرم اب تک بلوغت تک نہیں پہنچا ہے، وہ زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، اور نہ ہی اپنے اعمال کے نتائج کے بارے میں گہرائی سے سوچ سکتا ہے۔ اور اسی وجہ سے کم سن مجرموں کو بالغ مجرموں کے مقابلے میں کسی قدر رعایت دی جاتی ہے۔ گو کہ ہر فرد بلوغت تک ایک منفرد وقت میں پہنچتا ہے مگر اکثر معاشرے اٹھارہ سال سے اوپر افراد کو بالغ تصور کرتے ہیں۔
جدید معاشرے میں انصاف کا نظام
جدید معاشرے میں انصاف کا نظام اس طرح کام کرتا ہے کہ بات ایک الزام سے شروع ہوتی ہے۔ ایک شخص، ایک گروہ، یا ریاست کسی پہ الزام لگاتی ہے کہ فلاں شخص، یا فلاں فلاں لوگ ایک جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس موقع پہ یہ بیان محض ایک الزام تصور کیا جاتا ہے۔ یہ مقدمہ ایک عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ عدالت میں دو فریق ہوتے ہیں: ملزم اور اس کا وکیل صفائی، اور استغاثہ اور اس کا وکیل۔ استغاثہ قاضی کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ملزم پہ جو الزام لگایا جارہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے؛ ملزم واقعی جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ جب کہ وکیل صفائی استغاثہ کے بیان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور قاضی کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ملزم پہ الزام بے بنیاد ہے اور ملزم بے قصور ہے۔ عدالتی کاروائی کے دوران گواہوں کو پیش کیا جاتا ہے اور شواہد عدالت کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ تمام بیانات، گواہی، شواہد، اور جرح کے بعد عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ آیا ملزم واقعی قصور وار ہے۔ اگر جرم ثابت ہوجائے تو ملزم مجرم قرار پاتا ہے۔ قانون کی کتاب دیکھ کر جرم کی سزا کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
عموما جرائم کی سزا قید ہوتی ہے اور قید کی مدت تعزیرات سے طے کی جاتی ہے۔ زندگی کا سب سے خوبصورت تحفہ آزادی ہے، اور آزادی کا سب سے خوبصورت پہلو، حرکت میں آزادی ہے۔ آپ اپنی مرضی سے کہیں بھی جا سکیں، یہ آپ کی آزادی کا سب سے اہم اظہار ہے۔ مجرم کو سزا دینے میں اس کی یہ آزادی چھین لی جاتی ہے۔ مجرم کو ایک جیل خانے میں قید رکھا جاتا ہے۔ اس قید خانے میں ایسے انتظامات کیے جاتے ہیں جن سے مجرم کی اصلاح ہوسکے، مجرم سماجی معاہدے کو اچھی طرح سمجھے، اور قید کی مدت ختم ہونے پہ معاشرے کا باعزت شہری بن سکے۔
مگر انصاف کاجدید نظام بہت منصف نہیں ہے کیونکہ یہ مجرم کے ساتھ، غیرارادی طور پہ، مجرم کے متعلقین کو بھی سزا دیتا ہے۔ مجرم کو جب قیدخانے بھیجا جاتا ہے تو مجرم کے گھر میں اس کی غیرموجودگی کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ مجرم جن لوگوں کے لیے مالی یا نفسیاتی سہارا تھا وہ لوگ اس سہارے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس سہارے کی عدم موجودگی میں اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد اور خاص طور پہ کچے ذہن نوجوان غلط راستے پہ نکل جائیں گے۔ اس طرح ایک شخص کو سزا دینے پہ مستقبل کے دوسرے مجرم تیار ہوتے ہیں۔
ہم انصاف کے جدید نظام میں ایسی تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں جہاں مجرم کے ساتھ اس کے متعلقین کو سزا نہ ملے۔