Sunday, July 09, 2017

 

سلہٹ کے پتھر دائرے




ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار تین سو بیس

 فروری اٹھائیس، دو ہزار سترہ


سلہٹ کے پتھر دائرے


ڈھاکہ پہنچنے پہ وہی جنوبی ایشیا کے شناسا چہرے۔  مگر اس کے ساتھ اپنے علاقوں کا شورشرابہ، بے ہنگم ٹریفک، اور وہی پیسے کے لیے اندھی دوڑ۔ اس دوڑ کا پہلا مشاہدہ ڈھاکہ ہوئی اڈے پہنچنے پہ ہوا تھا جہاں ہم امیگریشن سے باہر نکلے تو چھوٹے چھوٹے کھوکھوں میں موجود منی چینجر اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اور رقم کی تبدیلی کے لیے ہمیں اپنی طرف بلانے لگے۔ ہمیں ان لوگوں کا، روزی کی خواہش میں اس طرح اپنی خودداری اور وقار کو مجروح کرنا برا لگا۔

کیا بنگلہ دیش صرف بنگالیوں کا ہے؟
ایشیا اور افریقہ میں لوگ اپنے اپنے علاقوں میں طویل عرصے سے رہ رہے ہیں۔ جب لوگ کسی ایک مخصوص جگہ بہت عرصہ رہیں تو ان کا علاقہ ان کی پہچان بن جاتا ہے۔ یورپی نوآبادیتی تجربے کے بعد  ایشیا اور افریقہ میں بننے والے ممالک اس گھمبیر مسئلے کا شکار ہیں کہ رنگ برنگ مختلف پہچان کے لوگوں کو ایک ملک کے جھنڈے تلے کیسے متحد رکھیں۔ سنہ اکہتر کی جنگ میں بہت سے پاکستانیوں کا یہ خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کے سارے لوگ بنگالی ہیں جو غیربنگالیوں سے اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مگر موجودہ بنگلہ دیش میں صرف بنگالی نہیں رہتے۔ بنگلہ دیش کے وہ علاقے جو برما سے لگتے ہیں یا وہ جو آسام کے نزدیک ہیں، بہت سی مختلف ، غیربنگالی، پہچان کے گروہوں کے گڑھ ہیں۔ ہم سلہٹ پہنچ کر بنگلہ دیش کے ایک ایسے ہی علاقے میں آ گئے تھے۔ مگر اس سفر کا پہلا تجربہ تو بے انتہا غربت کا مشاہدہ تھا۔ ٹرین ڈھاکہ سے نکلی تو دور تک ایسی جھونپڑیوں کے درمیان چلی جو پٹری سے اس قدر قریب تھیں کہ انہیں ٹرین کی کھڑکی سے ہاتھ نکال کر چھوا جا سکتا تھا۔ ان جھونپڑیوں کے باسی کون تھے جو اس قدر مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے پہ مجبور تھے؟ ان لوگوں کا ترقی پذیر ممالک میں ناہموار ترقی، شہروں کی طرف دوڑ، اور آبادی میں تیزی سے اضافے جیسے عوامل سے کیا رشتہ ہے؟ کیا کبھی ان جھگی والوں کے دن بھی پلٹیں گے؟ یا یہ لوگ نسل در نسل اسی مفلسی کی زندگی گزارتے رہیں گے؟

آثار قدیمہ
اس دنیا میں انسان کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر لکھائی ایجاد ہوئے بمشکل ساڑھے پانچ ہزار سال ہوئے ہیں۔ اور ان ساڑھے پانچ ہزار سالوں میں بھی انسانی تاریخ لکھنا بہت نیا معاملہ ہے۔ چنانچہ ہمیں گزرے لوگوں کی بعض ایسی نشانیاں ملتی ہیں کہ ہم انہیں دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ آخر وہ چیزیں کس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہوں گی۔
پرانے لوگوں کے چھوڑے ایسے ہی آثار قدیمہ میں وہ عمارتی ڈھانچے بھی ہیں جو بڑے بڑے پتھروں کی مدد سےبنائے گئے ہیں۔ ان ڈھانچوں کو آپ پتھر دائرے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ترتیب یہ ہے کہ عظیم الجثہ پتھروں کو ایک دائرے کی شکل دے دی گئی ہے۔
ان پتھر دائروں کی کیا افادیت تھی؟ اتنے وزنی پتھروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے پہنچایا جاتا تھا اور کیسے سیدھا کھڑا کیا جاتا تھا؟ کیا یہ پتھر دائرے پرانے وقتوں کے منادر ہیں؟ ان پتھر دائروں میں پرانے وقتوں کے لوگ کیا رسومات ادا کرتے تھے؟ ظاہر سی بات ہے کہ کسی قسم کا لکھا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس بارے میں محض قیاس آرائی ہی کرسکتے ہیں۔
آپ ان پتھر دائروں کے بارے میں جو چاہے تصور کریں، یہ حقیقت ہے کہ ایسے پتھر دائرے یورپ سے لے کر ایشیا تک مختلف جگہوں پہ پائے جاتے ہیں۔
سلہٹ میں قیام کے دوران سیاحت کا بہترین تجربہ جینتاپور جانے کا تھا جہاں کی خاص بات وہاں کا ایک پتھر دائرہ ہے۔


جینتا پور کا پتھر دائرہ دیکھنے پہ ایک دفعہ پھر یہ بات سمجھ میں آئی کہ غربت اپنے وسائل کی اہمیت نہ سمجھنے اور انہیں برباد کرنے کا ہی نام ہے۔ انگلستان کے اسٹون ہنج کو لے لیجیے۔ اس پتھر دائرے کی دنیا بھر میں دھوم ہے اور پتھروں کی اس پراسرار ترتیب کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح بھاگے بھاگے انگلستان جاتے ہیں مگر جینتا پور کے اس پتھر دائرے کا کوئی شور نہیں تھا۔ لگتا تھا کہ جینتاپور کے رہنے والوں کے لیے نہ صرف ان پتھروں کی کوئی قدر نہ تھی، بلکہ شاید وہ پتھر دائرہ ان کی راہ میں رکاوٹ ہی ثابت ہورہا تھا۔

غربت کی خرابیاں
جینتا پور سے سلہٹ آتے ہوئے بس میں ہماری بات چیت ایک ایسے شخص سے ہوگئی جو ایک سال پاکستان میں رہ کر آیا تھا۔ وہ کراچی میں لانڈھی کے لال چورنگی نامی مقام پہ رہا کرتا تھا۔ اُس نے کوئٹہ میں بھی کچھ وقت گزارا تھا۔ "آپ کے ملک میں تو ہر چیز بہت سستی ہے اور خوب ملتی ہے۔ چاکری بھی بہت ہے۔ ہر آدمی کو چاکری مل جاتی ہے۔ بنگالی لوگ بہت جھوٹ بولتا ہے۔ آپ کے ملک میں لوگ جھوٹ نہیں بولتا۔ اگر وہ کوئی بات کہے گا تو اُس کا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ یہاں اگر ایک شخص کا جوتا ہلکے سے بھی دوسرے شخص کو لگ جائے تو جھگڑا ہو جاتا ہے۔ وہاں کوئی اتنی سی بات کا برا نہیں مناتا۔" وہ زور زور سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ مجھ سے اردو میں باتیں کرتا اور پھر اُس کا ترجمہ بنگلہ میں کر کے آس پاس کے لوگوں کو سناتا۔ میں سوچتا رہا کہ غربت کتنی بڑی خرابی ہے اور اس خرابی میں چھوٹی چھوٹی دوسری خرابیاں تلاش کرنا کتنا آسان کام ہے۔




Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?