Thursday, April 28, 2016
آک لینڈ میں پہلا دن
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو اٹھتر
اپریل
تئیس، دو ہزار سولہ
آک لینڈ میں
پہلا دن
آپ کسی اجنبی
جگہ ہوں۔ وہاں صبح ہی صبح اٹھ کر ایک نامانوس ہوائی اڈے پہنچنا ہو، اور ایک انجان
جگہ پہ کرائے کی گاڑی واپس کر کے جہاز میں سوار ہونا ہو، تو آپ پہ اضطراب تو طاری
ہوگا ہی۔ اسی اضطراب میں ہم رات کو گاڑی کا ٹینک بھروا کر سوئے تھے۔ ہم سویرے
الارم بجنے سے پہلے اٹھ گئے اور رات کی تاریکی میں ہوٹل چھوڑ کر سڑک پہ آگئے۔
ہمیں اندازہ تھا
کہ ہم جس رخ پہ ہوائی اڈے کی طرف جارہے تھے وہاں ہمیں صبح کام پہ جانے والے دفتری
ملازمین کا رش ملے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔
گاڑی ایم فائو شاہ راہ پہ پہنچی تو مرکز شہر جانے والوں کے رش میں پھنس گئی۔ ٹریفک
چلنے کا انداز وہ تھا جسے رک چل ڈھب کہا جاتا ہے، یعنی سب ایک دم سے چلنا شروع ہوں
گے اور بہت رفتار سے کچھ فاصلہ طے کریں گے، پھر سب کے سب ایک دم سے رک جائیں گے۔
کسی کو معلوم نہ ہوگا کہ آگے کیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کو ایک دم چلنے کا اشارہ
ملتا ہے، اور پھر کیا ہوتا ہے کہ سب دم سادھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہم بے چینی سے
گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جہاز نکل گیا تو بہت برا ہوگا۔ نیوزی لینڈ کا سفر بہت
جلدی کا تھا۔ ہم اس سفر کا ایک دن بھی ضائع نہیں کرسکتے تھے۔ مگر ذہن پہ یہ ساری
پریشانیاں لادنا بے سود ثابت ہوا۔ ہم جہاز چلنے سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہوائی اڈے پہنچ
گئے۔ اس وقت ایک پرانا سبق یاد آیا۔ کبھی مشکل میں ہو تو اس لمحے، اس وقت پہ سے
دھیان ہٹا کر بہت دور مستقبل کے بارے میں سوچو کہ فردا کے اس لمحے سے پریشانی کا
یہ ماضی کس قدر بے معنی معلوم دے گا۔
سفر کے دوران
دنیا کے گول ہونے کا ثبوت بار بار ملتا ہے۔ زمین جس طرح دونوں قطبین کی طرف تیزی
سے خم کھاتی ہے اس کی وجہ سے قطب جنوبی سے قربت رکھنے والے شہر مختلف براعظم میں
واقع ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ سڈنی سے آک لینڈ جانے والی لین
ائیرلائنز کی پرواز کی اصل منزل سان تیاگو، چلے تھی۔ اسے راستے میں آک لینڈ رک کر
مسافروں کو اتارنا اور چڑھانا تھا۔
یورپ سے تعلق
رکھنے والے مہم جوئوں نے جو نئی جگہیں ’دریافت‘ کیں ان کے نام اپنے وطن میں موجود
جگہوں کی مطابقت سے رکھے۔ جنوبی بحرالکاہل میں انگریزوں سے پہلے ولندیزی مہم جو
منڈلا رہے تھے۔ اولاند کا ایک حصہ یوں ہے جیسے خشکی کو کاٹ کر سمندر میں ڈال دیا
گیا ہو۔اسی مناسب سے اولاند کا وہ حصہ سی لینڈ یا زی لینڈ کہلاتا ہے۔ جس طرح شمالی امریکہ میں نیا یارک، نیا
انگلستان، اور نیا جرسی ہے اسی طرح جنوبی بحرالکاہل میں ولندیزیوں کا دریافت کردہ
نیا زی لینڈ ہے۔ اب ہم اس نئے زی لینڈ کے شمالی جزیرے پہ جارہے تھے۔ نیوزی لینڈ
دراصل دو بڑے جزیروں کا ملک ہے، شمالی جزیرہ جو خط استوا کے رخ پہ ہے، اور جنوبی
جزیرہ جو قطب جنوبی سے زیادہ قریب ہے۔ نیوزی لینڈ کے شہری ایک دوسرے کو اسی تقسیم
سے جانتے ہیں کہ کون جنوبی جزیرے کا ہے اور کون شمالی کا۔
ایک دفعہ پھر
انٹرنیٹ تحقیق سے یہ ثابت ہوا تھا کہ نیوزی لینڈ میں کرائے کی گاڑی کا استعمال
سیاحت کے لیے سب سے سود مند راستہ تھا۔ ہم نے آک لینڈ میں کرائے کی جو گاڑی بک
کروائی تھی اس کا دفتر ہوائی اڈے سے کچھ فاصلے پہ تھا۔ ہم نے ایک عوامی فون
استعمال کر کے کرائے کی گاڑی والوں کو بتایا کہ ہم آک لینڈ پہنچ چکے تھے۔ انہوں
نے ہدایات دیں کہ ہم ہوائی اڈے کے کس دروازے سے باہر نکل کر کس جگہ ان کی شٹل کا
انتظار کریں۔
ہمارا ہوٹل مرکز
شہر میں تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم نئی جگہ پہنچنے کی خوشی سے سرشار گاڑی چلاتے ہوئے
مرکز شہر کی طرف چلے جارہے تھے۔ ہم سڑک کے ساتھ چلنے پھرنے والے لوگوں کو غور سے
دیکھ رہے تھے۔ ملک بدلا تھا مگر چہرے مہرے زیادہ تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ البتہ ایک
اول مشاہدہ یہ تھا کہ یہاں آسٹریلیا کے مقابلے میں چینی کم اور دیسی زیادہ تھے۔
ہوٹل کے کمرے میں
ٹی وی پہ کارٹون مائوری زبان میں چل رہے تھے۔ اندازہ ہوا کہ یہاں کے مقامی باشندے
سیاسی طور پہ آسٹریلیا کے ایب اورجنی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور تھے۔
اب شام ہوچلی
تھی۔ ہم شہر کا چکر لگانے کے لیے پیدل نکل کھڑے ہوئے۔
آک لینڈ وار
میموریل میوزیم شہر کے بیچ میں ایک پہاڑی پہ واقع ہے۔ ہمارے میوزیم پہنچنے تک
میوزیم بند ہوچکا تھا۔ اس عجائب گھر میں نیوزی لینڈ کے سپاہیوں کی مہمات اور
قربانیوں کی داستانیں محفوظ ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ایک عرصے تک تاج
برطانیہ کا حصہ رہے ہیں۔ پچھلی صدی کے پہلے نصف میں ہونے والی دونوں بڑی جنگوں میں
ان دونوں ممالک نے شانہ بشانہ برطانیہ کا ساتھ دیا۔ آج بھی دنیا بھر میں پھیلے
انگلستان کے یہ بچے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ جس جنگ میں امریکہ کودے، اس میں
آپ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ کو امریکہ کے ساتھ پائیں گے۔ جس
وقت جارج واشنگٹن امریکہ کی آزادی کے لیے برطانیہ سے لڑرہا تھا اس وقت اس کے وہم
و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ایک دن امریکہ اتنا طاقتور ہوجائے گا کہ وہ اپنے ماضی
کے نوآبادیاتی مالک کو اپنے اشاروں پہ نچائے گا۔
جنگ یادگاری
عجائب گھر کی عمارت کا ایک چکر لگانے کے بعد ہم ٹہلتے ہوئے شہر کی بارونق سڑک کوئن
اسٹریٹ پہنچ گئے۔ رات بہت ہوچلی تھی مگر
کوئن اسٹریٹ پہ کھانے پینے کی جگہیں خوب چل رہی تھیں۔ کوئن اسٹریٹ پہ چہل قدمی
کرتے ہم دیکھ سکتے تھے کہ دوسرے بڑے مغربی شہروں کی طرح آک لینڈ میں بھی بھانت
بھانت کے لوگ موجود تھے۔ عرب نوجوانوں کا ایک بڑا گروہ ہمارے پاس سے گزرا۔ وہ زور زور سے عربی میں باتیں کررہے تھے اور ہنستے
جاتے تھے۔
کباب آن کوئنز
نامی دکان میں ہم نے کباب بنانے والے سے پوچھا کہ اس کا تعلق کہاں سےتھا۔ اس نے
بتایا کہ وہ ہریانہ سے دو سال پہلے پڑھنے کے لیے آک لینڈ پہنچا تھا۔
وینڈیز نامی
امریکی ریستوراں میں کائونٹر کے پیچھے لوگ تیزی تیزی کام کرتے نظر آرہے تھے۔ وہاں
آنے والے گاہک ایک قطار میں ایک دوسرے سے کافی فاصلہ رکھ کر کھڑے تھے۔ پھر ایک
بوڑھا شخص دکان میں داخل ہوا۔ اس نے اپنا جھریوں بھرا چہرہ اٹھا کر کائونٹر سے
اوپر لگے مینیو کو غور سے دیکھا؛ اس کا آگے کا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کی قمیض
پتلون سے باہر نکلی ہوئی تھی اور اس کی جیکٹ سے باہر لٹکی نظر آ رہی تھی۔ کائونٹر
پہ موجود گاہک جب اپنا آرڈر دے کر ہٹا تو یہ بوڑھا قطار میں لگے اگلے شخص کو
نظرانداز کرتا ہوا فورا کائونٹر پہ پہنچ گیا۔ کائونٹر کے دوسری طرف موجود چھوٹے قد
کی غیرملکی لڑکی نے بوڑھے کی اس حرکت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کا آرڈر لینا
شروع کردیا۔ قطار میں لگے لوگ اس بات پہ خاموش نہ رہ سکے۔ انہوں نے بوڑھے کو کھری
کھری سنائیں۔ بوڑھے نے خفگی سے پلٹ کر ان لوگوں کی طرف دیکھا۔ غالبا اس کا خیال
تھا کہ اس کی پیران سالی کی وجہ سے اسے خاص رعایت ملنی چاہیے تھی اور قطار توڑنا
اس کا حق تھا۔ مگر اپنے اس جائز خیال کے باوجود اگر وہ دوسروں سے اجازت لے کر قطار
میں آگے جاتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ اسے کون منع کرتا؟ کیا چیز کس کا جائز حق ہے
یہ آگہی سب کو ہونے کے بعد حقدار اپنا حق لے تو کیا برا ہے؟
Labels: Auckland War Memorial Museum, New Zealand, Queen Street
Thursday, April 21, 2016
سڈنی کا ہزارہ ٹائون
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو ستتر
اپریل
سترہ، دو ہزار سولہ
سڈنی کا
ہزارہ ٹائون
پاکستان میں
اسلام کے نام پہ جو فساد مچا ہوا ہے اس کے اثرات دور دور تک نظر آتے ہیں۔ ہم
آسٹریلیا پہنچے تو ٹی وی پہ سب سے بڑی خبر ان کشتیوں کی تھی جو غیرقانونی تارکین
وطن کو انڈونیشیا سے آسٹریلیا پہنچانے کا کام کررہی تھیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ ان
کشتیوں میں دوسرے ممالک کے علاوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی موجود ہوتے
ہیں۔
ہم نے کراچی
ہوائی اڈے پہ آسٹریلیا کے سفارت خانے کی طرف سے لگایا جانے والا وہ پوسٹر دیکھا
تھا جس میں سختی سے تاکید کی گئی تھی کوئی بھی شخص ہرگز آسٹریلیا کا رخ یہ سوچ کر
نہ کرے کہ وہاں غیرقانونی طریقے سے پہنچنے کے باوجود آسٹریلیا میں مستقل رہائش کا
کوئی نہ کوئی انتظام ہوجائے گا۔
ہم جانتے تھے کہ
آسٹریلیا کی اس تنبیہ کا کوئی خاص اثر ان لوگوں پہ نہیں ہورہا جو پاکستان میں
رہتے ہوئے اپنی جان کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں کوئٹہ میں رہنے
والے ہزارہ سب سے آگے ہیں۔
اب جب کہ ہم
آسٹریلیا میں موجود تھے، ہم وہاں پہنچنے والے ہزارہ لوگوں سے ملنا چاہتے تھے۔ اس
سلسلے میں نوشی گیلانی اور سعید خان نے ہماری مدد کی۔ ان دونوں کی دوستی کوئٹہ سے
تعلق رکھنے والے صادق صبا نامی شاعر سے تھی۔ ہمیں صادق صبا صاحب سے متعارف کرادیا
گیا۔
وہ رمضان کا
مہینہ تھا۔ ہم نے صادق صبا سے فون پہ بات کی تو انہوں نے افطار پہ مدعو کیا۔ جہاں
یہ لوگ جمع ہوتے تھے وہاں رمضان کی مجالس بھی جاری تھیں۔ ہم نے صادق صبا سے مجلس
کے اختتام پہ ملاقات کی اجازت چاہی جو انہوں نے کمال مہربانی سے دے دی۔
جس وقت ہم ریڈ گم
سینٹر پہنچے تو مجلس ختم ہونے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ صادق
صبا ہم سے تپاک سے ملے اور ہمیں اندر لے گئے جہاں مولانا صاحب کی باتوں کو سن کر
اندازہ ہوا کہ ان باتوں کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ صاحب سادہ سے
سادہ سوال کا اس قدر لمبا اور پیچیدہ جواب دیتے کہ وہاں موجود ہر شخص کنکھیوں سے
دیوار پہ لگا گھڑیال دیکھنے لگتا۔ مگر اہل مجلس سوال پوچھنے کا شوق بھی رکھتے تھے۔
چنانچہ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک سوال ایسا بھی کیا گیا جس کا تعلق براہ
راست ہزارہ لوگوں کی نسل کشی سے تھا۔ سوال تھا کہ کن حالات میں صبر کرنا چاہیے اور
کب ہتھیار اٹھا کر مزاحمت کرنی چاہیے۔ مولانا صاحب کا تعلق کراچی سے لگتا تھا۔ اس
سوال کے پس منظر کو سمجھے بغیر وہ بہت دیر تک ادھر ادھر کی ہانکتے رہے۔
اللہ اللہ کر کے
سوالات ختم ہوئے اور مجلس برخاست ہوئی۔ صادق صبا نے چند نوجوانوں کو ہم سے ملا
دیا۔ ان میں سے دو، خادم نوری اور غلام رضا، ہم سے بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتے
تھے۔
خادم نوری سنہ
انیس سو ننانوے میں آسٹریلیا پہنچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی وقت بہت سے ہزارہ
آسٹریلیا پہنچنا شروع ہوئے تھے۔ خادم نوری کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک کتاب میں
یہ سارے حالات لکھے ہیں کہ لوگ کس طرح کوئٹہ سے آسٹریلیا تک کا سفر طے کرتے ہیں۔
غلام رضا چار سال
پہلے ہی آسٹریلیا پہنچے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کام کرنے والے ایجنٹ
پاکستان سے انڈونیشیا تک کا سفر طے کرواتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں پاکستان سے نکل کر
سری لنکا پہنچا جاتا ہے۔ ایجنٹ سری لنکا میں انڈونیشیا کے ویزے کا انتظام کرتے ہیں
اور اس طرح تارکین وطن جکارتہ پہنچتے ہیں۔ جکارتہ پہنچانے پہ پہلے ایجنٹ کا کام
ختم ہوجاتا ہے۔
تارک وطن کو
انڈونیشیا سے آسٹریلیا پہنچانا ایک دوسرے ایجنٹ کا کام ہے۔ آسٹریلیا جانے کی
کوشش میں صرف ہزارہ ہی انڈونیشیا نہیں پہنچتے بلکہ ان تارکین وطن میں شام، عراق،
افغانستان، صومالیہ، اور دوسری جگہوں کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔
اس موقع پہ مجھے
یہ سوچ کر اپنے آپ پہ غصہ آیا کہ جب میں ایک سال پہلے انڈونیشیا گیا تھا تو میں
نے کیوں سن گن نہیں لی کہ انڈونیشیا سے آسٹریلیا پہنچانے والے ایجنٹ کہاں ملتے
ہیں۔ مجھے ان ایجنٹوں سے مل کر کہانی کے اس سرے کو ٹٹولنا چاہیے تھا اور دیکھنا
چاہیے تھا کہ آسٹریلیا جانے والے ان تارکین وطن لوگوں کو یہ ایجنٹ کہاں ٹہراتے
ہیں اور کس طرح اس جزیرے تک پہنچاتے ہیں جہاں سے کشتی آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوتی
ہے۔
غلام رضا نے
بتایا کہ انڈونیشیا سے چلنے والی کشتی کے ناخدا کشتی کو آسٹریلیا کے ساحل تک نہیں
پہنچاتے بلکہ صرف آسٹریلیا کے پانیوں میں جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ آسٹریلیا کے کوسٹ
گارڈ انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ اس کشتی کے لوگوں کو کھلے سمندر سے اٹھا کر ساحل
تک لے جاتے ہیں۔
انڈونیشیا سے
چلنے والی یہ تمام کشتیاں تارکین وطن سے خطرناک حد تک بھری ہوتی ہیں۔ اسی لیے میں
نے غلام رضا سے پوچھا کہ آیا ایسی کشتیوں کے مسافر صرف مرد ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا
تھا کہ ایسی کشتیوں میں زیادہ تو مرد ہوتے ہیں مگر انہوں نے جس کشتی میں سفر کیا
اس میں دو خانوادے بیوی بچوں والے بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے پیاروں کو پیچھے
چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کشتی ڈوبی تو کوئی غم نہیں،
ساتھ جینا ہے اور ساتھ مرنا ہے۔
غلام رضا نے
بتایا کہ انڈونیشیا پہنچنے والے تمام لوگوں کو اچھے ایجنٹ میسر نہیں آتے۔ غلام
رضا کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ سالوں وہیں انڈونیشیا میں ٹکے رہتے ہیں۔ مجھے خیال
ہوا کہ شاید اتنا عرصہ وہاں رہنے کے بعد ایسے تارکین وطن انڈونیشیا میں مقامی
لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہوں۔
رات بہت ہوچلی
تھی۔ میں غلام رضا، خادم نوری، اور صادق صبا صاحبان سے رخصت لے کر واپس لوٹ گیا۔
میں راستے بھر اس گفتگو کے بارے میں سوچتا رہا؛ میں نے ان معصوم لوگوں کا کرب
محسوس کیا۔ میں نے ہزارہ پہ بنی ایک فلم
دیکھی تھی جس میں ایک نوجوان نے پریاسیت لہجے میں بتایا تھا کہ اس دنیا میں اس کا
سب سے قریبی دوست اس کا بھائی تھا۔ دونوں بھائی ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ پھر ایک دن
کسی نے نشانہ بنا کر اس کے بھائی کو قتل کردیا۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ بھائی کے
مرنے کے بعد اب اس کے لیے زندگی میں کوئی لطف باقی نہ رہا تھا۔ میں دیکھ سکتا تھا
کہ وہ یہ بات بہت دل سے کہہ رہا تھا۔ شاید میری طرح اس نوجوان کی نظروں کے سامنے
بھی یہ منظر بار بار دوڑتا ہو کہ کس طرح اس کے بھائی پہ گولی چلاتے ہوئے قاتل نے
کافر، کافر، شیعہ کافر کا نعرہ لگایا ہوگا اور جب زخمی نوجوان کے سر سے خون کا
فوارہ ابلا ہوگا تو موٹر سائیکل آگے بڑھانے سے پہلے قاتل نے چلا کر نعرہ تکبیر،
اللہ اکبر کہا ہوگا۔
Labels: Australia, Ghulam Raza, Hazara Town, Khadim Noori, Sadiq Saba, Sectarian killings in Pakistan, Sydney
Thursday, April 14, 2016
نیلی پہاڑیاں
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو چھتر
اپریل دس،
دو ہزار سولہ
نیلی پہاڑیاں
اب آسٹریلیا کا سفر اپنے آخری مراحل میں تھا۔ نیوزی لینڈ روانگی سے پہلے
واپس سڈنی پہنچنا تھا مگر وہاں کرائے کی گاڑی واپس کرنے میں ابھی چند دن باقی تھے۔
جب ہم مہینہ بھر پہلے آسٹریلیا پہنچے تھے تو سڈنی شہر کے ڈارلنگ ہرسٹ نامی علاقے
میں ٹہرے تھے۔ اب کرائے کی گاڑی کے ساتھ اس گہما گہمی والے
علاقے میں ٹہرنا مشکل تھا۔
وہ ایک سبق جو سیانوں نے بہت پہلے ہمیں سکھایا تھا، ہمیں یاد رہتا ہے۔ سبق
یہ ہے کہ راحت سے جیت تک کا راستہ تو سب کو سمجھ میں آتا ہے، کسی مشکل کو پلٹ کر
اس سے فائدہ حاصل کرلینا اصل کمال ہے۔ ہم نے بھی پارکنگ کی اس مشکل سے اپنے لیے
فائدہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچا۔ اگر ہم شہر سے دور، بلو مائونٹینس
نامی سیاحتی مقام کے راستے میں کہیں ٹہریں تو ہوٹل کا کرایہ کم ہوگا، پارکنگ کا
مسئلہ نہ ہوگا، اور بلو مائونٹینس جانے کی سہولت بھی ہوجائے گی۔ ہم نے انٹرنیٹ پہ
ایسی ہی ایک جگہ تلاش کرلی۔ ہم ایمو پلینس نام کے اس ذیلی
قصبے میں ہالی ڈے پارک نامی ریزارٹ میں ٹہرے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں پہ مشتمل اس پارک
میں کچھ لوگ ہمارے جیسے سیاح تھے، جب کہ بہت سے لوگ یہاں کے طویل عرصے کے باسی نظر
آتے تھے۔ ہمیں صبح گھروں سے بچے اسکول جاتے بھی نظر آئے۔
آج کے زمانے میں پانی اور بجلی کے ساتھ انٹرنیٹ کا کنکشن جدید زندگی کی
اہم ضرورت ہے۔ ہمیں جو کیبن کرائے پہ ملا تھا اس میں انٹرنیٹ کا رابطہ نہیں
ہوپارہا تھا۔ ہم ہالی ڈے پارک کے استقبالیے پہ پہنچے اور اپنی مشکل بیان کی۔ وہاں
موجود جو این نامی فربہ عورت نے بہت غور سے ہماری بات سنی۔ مگر ساتھ ہی اس نے
لجلجائے لہجے میں ہم سے معذرت کرلی۔
’’مجھے معلوم ہے کہ انٹرنیٹ کا نہ ہونا کتنا بڑا مسئلہ ہے مگر میں تمھاری
کوئی مدد نہیں کرسکتی کیونکہ یہاں انٹرنیٹ کی سہولت ٹامی زون والے فراہم کرتے ہیں۔
میں زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہوں کہ ان کو فون کردوں اور کہہ دوں کہ وہ
آکردیکھیں کہ تمھارے کیبن میں انٹرنیٹ کا کیا مسئلہ ہے۔‘‘
ہمارے تین دن قیام کے دوران ٹامی زون کو کئی بار فون کیا گیا مگر ٹامی زون
کے کرتا دھرتا ذرا ٹس سے مس نہ ہوئے۔
بھلا ہو مغربی ممالک کا جن کے انتظامات راست سوچ رکھنے والے اچھے لوگ
چلاتے ہیں۔ ان معاشروں میں قدم قدم پہ چنگھاڑتی، شورمچاتی مساجد تو نہیں ہیں مگر
پرامن،علم دوست، اور غریب پرور لائبریریاں جگہ جگہ موجود ہیں۔ ہم نے جی پی ایس کی
مدد سے قریبی لائبریری کو ڈھونڈ نکالا۔ اس لائبریری میں بیٹھ کر ہم مفت انٹرنیٹ
استعمال کرسکتے تھے۔ اسکول کی چھٹی ہونے پہ وہ کتب خانہ کم عمر لڑکے لڑکیوں سے بھر
جاتا تھا۔ وہ بچے ایک دوسرے کو چپ کرانے اور لائبریری کے دوسرے صارفین کا خیال
رکھنے کی تلقین کرنے میں ہی کافی شور مچاتے تھے مگر یہ شور ہمارے کام میں ذرا حائل
نہ ہوتا تھا۔ اسی لائبریری میں بیٹھ کر ہم سفر کے اگلے کئی دنوں کی منصوبہ بندی
کرتے رہے۔
جب سڈنی آنے والے سیاح مرکز شہر کے سیاحتی مقامات
کو نمٹا لیتے ہیں تو بلو مائونٹینس کا رخ کرتے ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کی شروعات سڈنی
مرکز شہر سے قریبا سو کلومیٹر کے فاصلے پہ ہوتی ہے۔ جب ہم ایمو پلینس سے بلو
مائونٹینس کی طرف چلے تو ہم نے اپنے جی پی ایس پہ بلو مائونٹینس نیشنل پارک کا پتہ
ڈالا تھا۔ اچھا ہوا کہ ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ جن تفریحی مقامات پہ ہم جانا
چاہتے تھے وہ کاٹومبا نامی قصبے کے ساتھ ہی تھے چنانچہ جب ہائی وے پہ کاٹومبا کا
نشان نظر آیا تو ہم نے جی پی ایس کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی وہاں موڑ
لی۔ اس طرح جب ہم ایکو پوائنٹ نامی جگہ پہنچے تو سیاحتی معلومات کے دفتر سے بات کر
کے یہ واضح ہوگیا ہم بالکل صحیح جگہ پہنچ گئے تھے۔
مگر موسم سرما کا وہ دن اپنے اندر شدت رکھتا تھا۔
جولائی کے اس روز ایکو پوائنٹ پہ بلا کی سردی تھی۔ وقفے وقفے سے بارش ہورہی تھی۔
سرد ہوا کپڑوں کو کاٹتی ہوئی ہڈیوں تک پہنچتی تھی۔ ہم سیاحتی دفتر سے معلومات حاصل
کر کے فورا گاڑی میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر پارک میں گاڑی ادھر سے ادھر دوڑائی اور
پھرآبشار کاٹومبا کے قریب گاڑی کھڑی کر کے آبشار کی طرف چلے۔ مگر آبشار تک پہنچ
کر سخت مایوس ہوئے۔ سیاحتی مواد میں موجود آبشار کاٹومبا کی تصاویر یقینا موسم
گرما میں لی گئیں تھیں جب آبشار پورے پانی کے ساتھ چل رہی تھی۔ سردیوں میں معاملہ
کچھ اور تھا۔ آبشار کے چوڑے پردے پہ موجود پتلی دھار کو تلاش کرنے میں ہمیں یقینا
کچھ وقت لگا۔
ہم ایک دفعہ پھر ایکو پوائنٹ پہنچے۔ اب کی بار سردی
سے لڑنے کا بھرپور ارادہ تھا۔ ایکو پوائنٹ پہ سیاحوں کی شکلیں دیکھ کر ہم سوچ رہے
تھے کہ اس تفریحی مقام پہ اگر معلوماتی سائن چینی زبان میں ہوتے تو ہمارے جیسے
گنتی کے اکا دکا سیاحوں کو ہی مشکل ہوتی؛ اکثریت شےشے کہہ کر تالیاں بجاتی۔
ہم پیدل چلتے ہوئے تین بہنیں نامی مقام تک گئے۔ تین
بہنیں دراصل تین اونچی چٹانیں ہیں جن کے اطراف کے پتھر صدیوں کے آبی کٹائو سے ختم
ہوچکے ہیں۔ ہم جس پہاڑی راستے پہ چل رہے تھے وہ ایک پتلے پل سے گزرتا پہلی چٹان تک
جاتا تھا۔ اس پل کو ہنی مون پل کہتے ہیں۔ آپ اس پل سے نیچے دیکھیں تو سینکڑوں فٹ
گہری کھائی دیکھ کر جھرجھری آتی ہے۔
ہم پل پہ چلتے ہوئے پہلی بہن تک پہنچ گئے اور وہاں بیٹھ کر اپنے پیچھے آنے والے سیاحوں کو دیکھنے لگے۔ ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا اور پیچھے آنے والی چینی خواتین میں سے ایک کی ٹوپی اڑتے اڑتے بچی۔ وہ سر پہ ٹوپی تھام کر زور سے چیخی۔ پھر سب اس کی اس ڈرامائی چیخ پہ دیر تک ہنستے رہے۔
ہم پل پہ چلتے ہوئے پہلی بہن تک پہنچ گئے اور وہاں بیٹھ کر اپنے پیچھے آنے والے سیاحوں کو دیکھنے لگے۔ ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا اور پیچھے آنے والی چینی خواتین میں سے ایک کی ٹوپی اڑتے اڑتے بچی۔ وہ سر پہ ٹوپی تھام کر زور سے چیخی۔ پھر سب اس کی اس ڈرامائی چیخ پہ دیر تک ہنستے رہے۔
Labels: Australia, Blue Mountains, Sydney