Thursday, April 28, 2016
آک لینڈ میں پہلا دن
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو اٹھتر
اپریل
تئیس، دو ہزار سولہ
آک لینڈ میں
پہلا دن
آپ کسی اجنبی
جگہ ہوں۔ وہاں صبح ہی صبح اٹھ کر ایک نامانوس ہوائی اڈے پہنچنا ہو، اور ایک انجان
جگہ پہ کرائے کی گاڑی واپس کر کے جہاز میں سوار ہونا ہو، تو آپ پہ اضطراب تو طاری
ہوگا ہی۔ اسی اضطراب میں ہم رات کو گاڑی کا ٹینک بھروا کر سوئے تھے۔ ہم سویرے
الارم بجنے سے پہلے اٹھ گئے اور رات کی تاریکی میں ہوٹل چھوڑ کر سڑک پہ آگئے۔
ہمیں اندازہ تھا
کہ ہم جس رخ پہ ہوائی اڈے کی طرف جارہے تھے وہاں ہمیں صبح کام پہ جانے والے دفتری
ملازمین کا رش ملے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔
گاڑی ایم فائو شاہ راہ پہ پہنچی تو مرکز شہر جانے والوں کے رش میں پھنس گئی۔ ٹریفک
چلنے کا انداز وہ تھا جسے رک چل ڈھب کہا جاتا ہے، یعنی سب ایک دم سے چلنا شروع ہوں
گے اور بہت رفتار سے کچھ فاصلہ طے کریں گے، پھر سب کے سب ایک دم سے رک جائیں گے۔
کسی کو معلوم نہ ہوگا کہ آگے کیا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کو ایک دم چلنے کا اشارہ
ملتا ہے، اور پھر کیا ہوتا ہے کہ سب دم سادھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہم بے چینی سے
گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ جہاز نکل گیا تو بہت برا ہوگا۔ نیوزی لینڈ کا سفر بہت
جلدی کا تھا۔ ہم اس سفر کا ایک دن بھی ضائع نہیں کرسکتے تھے۔ مگر ذہن پہ یہ ساری
پریشانیاں لادنا بے سود ثابت ہوا۔ ہم جہاز چلنے سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہوائی اڈے پہنچ
گئے۔ اس وقت ایک پرانا سبق یاد آیا۔ کبھی مشکل میں ہو تو اس لمحے، اس وقت پہ سے
دھیان ہٹا کر بہت دور مستقبل کے بارے میں سوچو کہ فردا کے اس لمحے سے پریشانی کا
یہ ماضی کس قدر بے معنی معلوم دے گا۔
سفر کے دوران
دنیا کے گول ہونے کا ثبوت بار بار ملتا ہے۔ زمین جس طرح دونوں قطبین کی طرف تیزی
سے خم کھاتی ہے اس کی وجہ سے قطب جنوبی سے قربت رکھنے والے شہر مختلف براعظم میں
واقع ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ سڈنی سے آک لینڈ جانے والی لین
ائیرلائنز کی پرواز کی اصل منزل سان تیاگو، چلے تھی۔ اسے راستے میں آک لینڈ رک کر
مسافروں کو اتارنا اور چڑھانا تھا۔
یورپ سے تعلق
رکھنے والے مہم جوئوں نے جو نئی جگہیں ’دریافت‘ کیں ان کے نام اپنے وطن میں موجود
جگہوں کی مطابقت سے رکھے۔ جنوبی بحرالکاہل میں انگریزوں سے پہلے ولندیزی مہم جو
منڈلا رہے تھے۔ اولاند کا ایک حصہ یوں ہے جیسے خشکی کو کاٹ کر سمندر میں ڈال دیا
گیا ہو۔اسی مناسب سے اولاند کا وہ حصہ سی لینڈ یا زی لینڈ کہلاتا ہے۔ جس طرح شمالی امریکہ میں نیا یارک، نیا
انگلستان، اور نیا جرسی ہے اسی طرح جنوبی بحرالکاہل میں ولندیزیوں کا دریافت کردہ
نیا زی لینڈ ہے۔ اب ہم اس نئے زی لینڈ کے شمالی جزیرے پہ جارہے تھے۔ نیوزی لینڈ
دراصل دو بڑے جزیروں کا ملک ہے، شمالی جزیرہ جو خط استوا کے رخ پہ ہے، اور جنوبی
جزیرہ جو قطب جنوبی سے زیادہ قریب ہے۔ نیوزی لینڈ کے شہری ایک دوسرے کو اسی تقسیم
سے جانتے ہیں کہ کون جنوبی جزیرے کا ہے اور کون شمالی کا۔
ایک دفعہ پھر
انٹرنیٹ تحقیق سے یہ ثابت ہوا تھا کہ نیوزی لینڈ میں کرائے کی گاڑی کا استعمال
سیاحت کے لیے سب سے سود مند راستہ تھا۔ ہم نے آک لینڈ میں کرائے کی جو گاڑی بک
کروائی تھی اس کا دفتر ہوائی اڈے سے کچھ فاصلے پہ تھا۔ ہم نے ایک عوامی فون
استعمال کر کے کرائے کی گاڑی والوں کو بتایا کہ ہم آک لینڈ پہنچ چکے تھے۔ انہوں
نے ہدایات دیں کہ ہم ہوائی اڈے کے کس دروازے سے باہر نکل کر کس جگہ ان کی شٹل کا
انتظار کریں۔
ہمارا ہوٹل مرکز
شہر میں تھا۔ کچھ ہی دیر میں ہم نئی جگہ پہنچنے کی خوشی سے سرشار گاڑی چلاتے ہوئے
مرکز شہر کی طرف چلے جارہے تھے۔ ہم سڑک کے ساتھ چلنے پھرنے والے لوگوں کو غور سے
دیکھ رہے تھے۔ ملک بدلا تھا مگر چہرے مہرے زیادہ تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ البتہ ایک
اول مشاہدہ یہ تھا کہ یہاں آسٹریلیا کے مقابلے میں چینی کم اور دیسی زیادہ تھے۔
ہوٹل کے کمرے میں
ٹی وی پہ کارٹون مائوری زبان میں چل رہے تھے۔ اندازہ ہوا کہ یہاں کے مقامی باشندے
سیاسی طور پہ آسٹریلیا کے ایب اورجنی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور تھے۔
اب شام ہوچلی
تھی۔ ہم شہر کا چکر لگانے کے لیے پیدل نکل کھڑے ہوئے۔
آک لینڈ وار
میموریل میوزیم شہر کے بیچ میں ایک پہاڑی پہ واقع ہے۔ ہمارے میوزیم پہنچنے تک
میوزیم بند ہوچکا تھا۔ اس عجائب گھر میں نیوزی لینڈ کے سپاہیوں کی مہمات اور
قربانیوں کی داستانیں محفوظ ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ایک عرصے تک تاج
برطانیہ کا حصہ رہے ہیں۔ پچھلی صدی کے پہلے نصف میں ہونے والی دونوں بڑی جنگوں میں
ان دونوں ممالک نے شانہ بشانہ برطانیہ کا ساتھ دیا۔ آج بھی دنیا بھر میں پھیلے
انگلستان کے یہ بچے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ جس جنگ میں امریکہ کودے، اس میں
آپ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور نیوزی لینڈ کو امریکہ کے ساتھ پائیں گے۔ جس
وقت جارج واشنگٹن امریکہ کی آزادی کے لیے برطانیہ سے لڑرہا تھا اس وقت اس کے وہم
و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ایک دن امریکہ اتنا طاقتور ہوجائے گا کہ وہ اپنے ماضی
کے نوآبادیاتی مالک کو اپنے اشاروں پہ نچائے گا۔
جنگ یادگاری
عجائب گھر کی عمارت کا ایک چکر لگانے کے بعد ہم ٹہلتے ہوئے شہر کی بارونق سڑک کوئن
اسٹریٹ پہنچ گئے۔ رات بہت ہوچلی تھی مگر
کوئن اسٹریٹ پہ کھانے پینے کی جگہیں خوب چل رہی تھیں۔ کوئن اسٹریٹ پہ چہل قدمی
کرتے ہم دیکھ سکتے تھے کہ دوسرے بڑے مغربی شہروں کی طرح آک لینڈ میں بھی بھانت
بھانت کے لوگ موجود تھے۔ عرب نوجوانوں کا ایک بڑا گروہ ہمارے پاس سے گزرا۔ وہ زور زور سے عربی میں باتیں کررہے تھے اور ہنستے
جاتے تھے۔
کباب آن کوئنز
نامی دکان میں ہم نے کباب بنانے والے سے پوچھا کہ اس کا تعلق کہاں سےتھا۔ اس نے
بتایا کہ وہ ہریانہ سے دو سال پہلے پڑھنے کے لیے آک لینڈ پہنچا تھا۔
وینڈیز نامی
امریکی ریستوراں میں کائونٹر کے پیچھے لوگ تیزی تیزی کام کرتے نظر آرہے تھے۔ وہاں
آنے والے گاہک ایک قطار میں ایک دوسرے سے کافی فاصلہ رکھ کر کھڑے تھے۔ پھر ایک
بوڑھا شخص دکان میں داخل ہوا۔ اس نے اپنا جھریوں بھرا چہرہ اٹھا کر کائونٹر سے
اوپر لگے مینیو کو غور سے دیکھا؛ اس کا آگے کا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا۔ اس کی قمیض
پتلون سے باہر نکلی ہوئی تھی اور اس کی جیکٹ سے باہر لٹکی نظر آ رہی تھی۔ کائونٹر
پہ موجود گاہک جب اپنا آرڈر دے کر ہٹا تو یہ بوڑھا قطار میں لگے اگلے شخص کو
نظرانداز کرتا ہوا فورا کائونٹر پہ پہنچ گیا۔ کائونٹر کے دوسری طرف موجود چھوٹے قد
کی غیرملکی لڑکی نے بوڑھے کی اس حرکت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کا آرڈر لینا
شروع کردیا۔ قطار میں لگے لوگ اس بات پہ خاموش نہ رہ سکے۔ انہوں نے بوڑھے کو کھری
کھری سنائیں۔ بوڑھے نے خفگی سے پلٹ کر ان لوگوں کی طرف دیکھا۔ غالبا اس کا خیال
تھا کہ اس کی پیران سالی کی وجہ سے اسے خاص رعایت ملنی چاہیے تھی اور قطار توڑنا
اس کا حق تھا۔ مگر اپنے اس جائز خیال کے باوجود اگر وہ دوسروں سے اجازت لے کر قطار
میں آگے جاتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ اسے کون منع کرتا؟ کیا چیز کس کا جائز حق ہے
یہ آگہی سب کو ہونے کے بعد حقدار اپنا حق لے تو کیا برا ہے؟
Labels: Auckland War Memorial Museum, New Zealand, Queen Street