Thursday, April 14, 2016
نیلی پہاڑیاں
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو چھتر
اپریل دس،
دو ہزار سولہ
نیلی پہاڑیاں
اب آسٹریلیا کا سفر اپنے آخری مراحل میں تھا۔ نیوزی لینڈ روانگی سے پہلے
واپس سڈنی پہنچنا تھا مگر وہاں کرائے کی گاڑی واپس کرنے میں ابھی چند دن باقی تھے۔
جب ہم مہینہ بھر پہلے آسٹریلیا پہنچے تھے تو سڈنی شہر کے ڈارلنگ ہرسٹ نامی علاقے
میں ٹہرے تھے۔ اب کرائے کی گاڑی کے ساتھ اس گہما گہمی والے
علاقے میں ٹہرنا مشکل تھا۔
وہ ایک سبق جو سیانوں نے بہت پہلے ہمیں سکھایا تھا، ہمیں یاد رہتا ہے۔ سبق
یہ ہے کہ راحت سے جیت تک کا راستہ تو سب کو سمجھ میں آتا ہے، کسی مشکل کو پلٹ کر
اس سے فائدہ حاصل کرلینا اصل کمال ہے۔ ہم نے بھی پارکنگ کی اس مشکل سے اپنے لیے
فائدہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچا۔ اگر ہم شہر سے دور، بلو مائونٹینس
نامی سیاحتی مقام کے راستے میں کہیں ٹہریں تو ہوٹل کا کرایہ کم ہوگا، پارکنگ کا
مسئلہ نہ ہوگا، اور بلو مائونٹینس جانے کی سہولت بھی ہوجائے گی۔ ہم نے انٹرنیٹ پہ
ایسی ہی ایک جگہ تلاش کرلی۔ ہم ایمو پلینس نام کے اس ذیلی
قصبے میں ہالی ڈے پارک نامی ریزارٹ میں ٹہرے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں پہ مشتمل اس پارک
میں کچھ لوگ ہمارے جیسے سیاح تھے، جب کہ بہت سے لوگ یہاں کے طویل عرصے کے باسی نظر
آتے تھے۔ ہمیں صبح گھروں سے بچے اسکول جاتے بھی نظر آئے۔
آج کے زمانے میں پانی اور بجلی کے ساتھ انٹرنیٹ کا کنکشن جدید زندگی کی
اہم ضرورت ہے۔ ہمیں جو کیبن کرائے پہ ملا تھا اس میں انٹرنیٹ کا رابطہ نہیں
ہوپارہا تھا۔ ہم ہالی ڈے پارک کے استقبالیے پہ پہنچے اور اپنی مشکل بیان کی۔ وہاں
موجود جو این نامی فربہ عورت نے بہت غور سے ہماری بات سنی۔ مگر ساتھ ہی اس نے
لجلجائے لہجے میں ہم سے معذرت کرلی۔
’’مجھے معلوم ہے کہ انٹرنیٹ کا نہ ہونا کتنا بڑا مسئلہ ہے مگر میں تمھاری
کوئی مدد نہیں کرسکتی کیونکہ یہاں انٹرنیٹ کی سہولت ٹامی زون والے فراہم کرتے ہیں۔
میں زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہوں کہ ان کو فون کردوں اور کہہ دوں کہ وہ
آکردیکھیں کہ تمھارے کیبن میں انٹرنیٹ کا کیا مسئلہ ہے۔‘‘
ہمارے تین دن قیام کے دوران ٹامی زون کو کئی بار فون کیا گیا مگر ٹامی زون
کے کرتا دھرتا ذرا ٹس سے مس نہ ہوئے۔
بھلا ہو مغربی ممالک کا جن کے انتظامات راست سوچ رکھنے والے اچھے لوگ
چلاتے ہیں۔ ان معاشروں میں قدم قدم پہ چنگھاڑتی، شورمچاتی مساجد تو نہیں ہیں مگر
پرامن،علم دوست، اور غریب پرور لائبریریاں جگہ جگہ موجود ہیں۔ ہم نے جی پی ایس کی
مدد سے قریبی لائبریری کو ڈھونڈ نکالا۔ اس لائبریری میں بیٹھ کر ہم مفت انٹرنیٹ
استعمال کرسکتے تھے۔ اسکول کی چھٹی ہونے پہ وہ کتب خانہ کم عمر لڑکے لڑکیوں سے بھر
جاتا تھا۔ وہ بچے ایک دوسرے کو چپ کرانے اور لائبریری کے دوسرے صارفین کا خیال
رکھنے کی تلقین کرنے میں ہی کافی شور مچاتے تھے مگر یہ شور ہمارے کام میں ذرا حائل
نہ ہوتا تھا۔ اسی لائبریری میں بیٹھ کر ہم سفر کے اگلے کئی دنوں کی منصوبہ بندی
کرتے رہے۔
جب سڈنی آنے والے سیاح مرکز شہر کے سیاحتی مقامات
کو نمٹا لیتے ہیں تو بلو مائونٹینس کا رخ کرتے ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کی شروعات سڈنی
مرکز شہر سے قریبا سو کلومیٹر کے فاصلے پہ ہوتی ہے۔ جب ہم ایمو پلینس سے بلو
مائونٹینس کی طرف چلے تو ہم نے اپنے جی پی ایس پہ بلو مائونٹینس نیشنل پارک کا پتہ
ڈالا تھا۔ اچھا ہوا کہ ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ جن تفریحی مقامات پہ ہم جانا
چاہتے تھے وہ کاٹومبا نامی قصبے کے ساتھ ہی تھے چنانچہ جب ہائی وے پہ کاٹومبا کا
نشان نظر آیا تو ہم نے جی پی ایس کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی وہاں موڑ
لی۔ اس طرح جب ہم ایکو پوائنٹ نامی جگہ پہنچے تو سیاحتی معلومات کے دفتر سے بات کر
کے یہ واضح ہوگیا ہم بالکل صحیح جگہ پہنچ گئے تھے۔
مگر موسم سرما کا وہ دن اپنے اندر شدت رکھتا تھا۔
جولائی کے اس روز ایکو پوائنٹ پہ بلا کی سردی تھی۔ وقفے وقفے سے بارش ہورہی تھی۔
سرد ہوا کپڑوں کو کاٹتی ہوئی ہڈیوں تک پہنچتی تھی۔ ہم سیاحتی دفتر سے معلومات حاصل
کر کے فورا گاڑی میں بیٹھ گئے۔ کچھ دیر پارک میں گاڑی ادھر سے ادھر دوڑائی اور
پھرآبشار کاٹومبا کے قریب گاڑی کھڑی کر کے آبشار کی طرف چلے۔ مگر آبشار تک پہنچ
کر سخت مایوس ہوئے۔ سیاحتی مواد میں موجود آبشار کاٹومبا کی تصاویر یقینا موسم
گرما میں لی گئیں تھیں جب آبشار پورے پانی کے ساتھ چل رہی تھی۔ سردیوں میں معاملہ
کچھ اور تھا۔ آبشار کے چوڑے پردے پہ موجود پتلی دھار کو تلاش کرنے میں ہمیں یقینا
کچھ وقت لگا۔
ہم ایک دفعہ پھر ایکو پوائنٹ پہنچے۔ اب کی بار سردی
سے لڑنے کا بھرپور ارادہ تھا۔ ایکو پوائنٹ پہ سیاحوں کی شکلیں دیکھ کر ہم سوچ رہے
تھے کہ اس تفریحی مقام پہ اگر معلوماتی سائن چینی زبان میں ہوتے تو ہمارے جیسے
گنتی کے اکا دکا سیاحوں کو ہی مشکل ہوتی؛ اکثریت شےشے کہہ کر تالیاں بجاتی۔
ہم پیدل چلتے ہوئے تین بہنیں نامی مقام تک گئے۔ تین
بہنیں دراصل تین اونچی چٹانیں ہیں جن کے اطراف کے پتھر صدیوں کے آبی کٹائو سے ختم
ہوچکے ہیں۔ ہم جس پہاڑی راستے پہ چل رہے تھے وہ ایک پتلے پل سے گزرتا پہلی چٹان تک
جاتا تھا۔ اس پل کو ہنی مون پل کہتے ہیں۔ آپ اس پل سے نیچے دیکھیں تو سینکڑوں فٹ
گہری کھائی دیکھ کر جھرجھری آتی ہے۔
ہم پل پہ چلتے ہوئے پہلی بہن تک پہنچ گئے اور وہاں بیٹھ کر اپنے پیچھے آنے والے سیاحوں کو دیکھنے لگے۔ ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا اور پیچھے آنے والی چینی خواتین میں سے ایک کی ٹوپی اڑتے اڑتے بچی۔ وہ سر پہ ٹوپی تھام کر زور سے چیخی۔ پھر سب اس کی اس ڈرامائی چیخ پہ دیر تک ہنستے رہے۔
ہم پل پہ چلتے ہوئے پہلی بہن تک پہنچ گئے اور وہاں بیٹھ کر اپنے پیچھے آنے والے سیاحوں کو دیکھنے لگے۔ ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا اور پیچھے آنے والی چینی خواتین میں سے ایک کی ٹوپی اڑتے اڑتے بچی۔ وہ سر پہ ٹوپی تھام کر زور سے چیخی۔ پھر سب اس کی اس ڈرامائی چیخ پہ دیر تک ہنستے رہے۔
Labels: Australia, Blue Mountains, Sydney