Thursday, April 21, 2016
سڈنی کا ہزارہ ٹائون
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو ستتر
اپریل
سترہ، دو ہزار سولہ
سڈنی کا
ہزارہ ٹائون
پاکستان میں
اسلام کے نام پہ جو فساد مچا ہوا ہے اس کے اثرات دور دور تک نظر آتے ہیں۔ ہم
آسٹریلیا پہنچے تو ٹی وی پہ سب سے بڑی خبر ان کشتیوں کی تھی جو غیرقانونی تارکین
وطن کو انڈونیشیا سے آسٹریلیا پہنچانے کا کام کررہی تھیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ ان
کشتیوں میں دوسرے ممالک کے علاوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی موجود ہوتے
ہیں۔
ہم نے کراچی
ہوائی اڈے پہ آسٹریلیا کے سفارت خانے کی طرف سے لگایا جانے والا وہ پوسٹر دیکھا
تھا جس میں سختی سے تاکید کی گئی تھی کوئی بھی شخص ہرگز آسٹریلیا کا رخ یہ سوچ کر
نہ کرے کہ وہاں غیرقانونی طریقے سے پہنچنے کے باوجود آسٹریلیا میں مستقل رہائش کا
کوئی نہ کوئی انتظام ہوجائے گا۔
ہم جانتے تھے کہ
آسٹریلیا کی اس تنبیہ کا کوئی خاص اثر ان لوگوں پہ نہیں ہورہا جو پاکستان میں
رہتے ہوئے اپنی جان کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں کوئٹہ میں رہنے
والے ہزارہ سب سے آگے ہیں۔
اب جب کہ ہم
آسٹریلیا میں موجود تھے، ہم وہاں پہنچنے والے ہزارہ لوگوں سے ملنا چاہتے تھے۔ اس
سلسلے میں نوشی گیلانی اور سعید خان نے ہماری مدد کی۔ ان دونوں کی دوستی کوئٹہ سے
تعلق رکھنے والے صادق صبا نامی شاعر سے تھی۔ ہمیں صادق صبا صاحب سے متعارف کرادیا
گیا۔
وہ رمضان کا
مہینہ تھا۔ ہم نے صادق صبا سے فون پہ بات کی تو انہوں نے افطار پہ مدعو کیا۔ جہاں
یہ لوگ جمع ہوتے تھے وہاں رمضان کی مجالس بھی جاری تھیں۔ ہم نے صادق صبا سے مجلس
کے اختتام پہ ملاقات کی اجازت چاہی جو انہوں نے کمال مہربانی سے دے دی۔
جس وقت ہم ریڈ گم
سینٹر پہنچے تو مجلس ختم ہونے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ صادق
صبا ہم سے تپاک سے ملے اور ہمیں اندر لے گئے جہاں مولانا صاحب کی باتوں کو سن کر
اندازہ ہوا کہ ان باتوں کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ صاحب سادہ سے
سادہ سوال کا اس قدر لمبا اور پیچیدہ جواب دیتے کہ وہاں موجود ہر شخص کنکھیوں سے
دیوار پہ لگا گھڑیال دیکھنے لگتا۔ مگر اہل مجلس سوال پوچھنے کا شوق بھی رکھتے تھے۔
چنانچہ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک سوال ایسا بھی کیا گیا جس کا تعلق براہ
راست ہزارہ لوگوں کی نسل کشی سے تھا۔ سوال تھا کہ کن حالات میں صبر کرنا چاہیے اور
کب ہتھیار اٹھا کر مزاحمت کرنی چاہیے۔ مولانا صاحب کا تعلق کراچی سے لگتا تھا۔ اس
سوال کے پس منظر کو سمجھے بغیر وہ بہت دیر تک ادھر ادھر کی ہانکتے رہے۔
اللہ اللہ کر کے
سوالات ختم ہوئے اور مجلس برخاست ہوئی۔ صادق صبا نے چند نوجوانوں کو ہم سے ملا
دیا۔ ان میں سے دو، خادم نوری اور غلام رضا، ہم سے بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتے
تھے۔
خادم نوری سنہ
انیس سو ننانوے میں آسٹریلیا پہنچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی وقت بہت سے ہزارہ
آسٹریلیا پہنچنا شروع ہوئے تھے۔ خادم نوری کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک کتاب میں
یہ سارے حالات لکھے ہیں کہ لوگ کس طرح کوئٹہ سے آسٹریلیا تک کا سفر طے کرتے ہیں۔
غلام رضا چار سال
پہلے ہی آسٹریلیا پہنچے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کام کرنے والے ایجنٹ
پاکستان سے انڈونیشیا تک کا سفر طے کرواتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں پاکستان سے نکل کر
سری لنکا پہنچا جاتا ہے۔ ایجنٹ سری لنکا میں انڈونیشیا کے ویزے کا انتظام کرتے ہیں
اور اس طرح تارکین وطن جکارتہ پہنچتے ہیں۔ جکارتہ پہنچانے پہ پہلے ایجنٹ کا کام
ختم ہوجاتا ہے۔
تارک وطن کو
انڈونیشیا سے آسٹریلیا پہنچانا ایک دوسرے ایجنٹ کا کام ہے۔ آسٹریلیا جانے کی
کوشش میں صرف ہزارہ ہی انڈونیشیا نہیں پہنچتے بلکہ ان تارکین وطن میں شام، عراق،
افغانستان، صومالیہ، اور دوسری جگہوں کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔
اس موقع پہ مجھے
یہ سوچ کر اپنے آپ پہ غصہ آیا کہ جب میں ایک سال پہلے انڈونیشیا گیا تھا تو میں
نے کیوں سن گن نہیں لی کہ انڈونیشیا سے آسٹریلیا پہنچانے والے ایجنٹ کہاں ملتے
ہیں۔ مجھے ان ایجنٹوں سے مل کر کہانی کے اس سرے کو ٹٹولنا چاہیے تھا اور دیکھنا
چاہیے تھا کہ آسٹریلیا جانے والے ان تارکین وطن لوگوں کو یہ ایجنٹ کہاں ٹہراتے
ہیں اور کس طرح اس جزیرے تک پہنچاتے ہیں جہاں سے کشتی آسٹریلیا کے لیے روانہ ہوتی
ہے۔
غلام رضا نے
بتایا کہ انڈونیشیا سے چلنے والی کشتی کے ناخدا کشتی کو آسٹریلیا کے ساحل تک نہیں
پہنچاتے بلکہ صرف آسٹریلیا کے پانیوں میں جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ آسٹریلیا کے کوسٹ
گارڈ انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ اس کشتی کے لوگوں کو کھلے سمندر سے اٹھا کر ساحل
تک لے جاتے ہیں۔
انڈونیشیا سے
چلنے والی یہ تمام کشتیاں تارکین وطن سے خطرناک حد تک بھری ہوتی ہیں۔ اسی لیے میں
نے غلام رضا سے پوچھا کہ آیا ایسی کشتیوں کے مسافر صرف مرد ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا
تھا کہ ایسی کشتیوں میں زیادہ تو مرد ہوتے ہیں مگر انہوں نے جس کشتی میں سفر کیا
اس میں دو خانوادے بیوی بچوں والے بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے پیاروں کو پیچھے
چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کشتی ڈوبی تو کوئی غم نہیں،
ساتھ جینا ہے اور ساتھ مرنا ہے۔
غلام رضا نے
بتایا کہ انڈونیشیا پہنچنے والے تمام لوگوں کو اچھے ایجنٹ میسر نہیں آتے۔ غلام
رضا کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ سالوں وہیں انڈونیشیا میں ٹکے رہتے ہیں۔ مجھے خیال
ہوا کہ شاید اتنا عرصہ وہاں رہنے کے بعد ایسے تارکین وطن انڈونیشیا میں مقامی
لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہوں۔
رات بہت ہوچلی
تھی۔ میں غلام رضا، خادم نوری، اور صادق صبا صاحبان سے رخصت لے کر واپس لوٹ گیا۔
میں راستے بھر اس گفتگو کے بارے میں سوچتا رہا؛ میں نے ان معصوم لوگوں کا کرب
محسوس کیا۔ میں نے ہزارہ پہ بنی ایک فلم
دیکھی تھی جس میں ایک نوجوان نے پریاسیت لہجے میں بتایا تھا کہ اس دنیا میں اس کا
سب سے قریبی دوست اس کا بھائی تھا۔ دونوں بھائی ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ پھر ایک دن
کسی نے نشانہ بنا کر اس کے بھائی کو قتل کردیا۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ بھائی کے
مرنے کے بعد اب اس کے لیے زندگی میں کوئی لطف باقی نہ رہا تھا۔ میں دیکھ سکتا تھا
کہ وہ یہ بات بہت دل سے کہہ رہا تھا۔ شاید میری طرح اس نوجوان کی نظروں کے سامنے
بھی یہ منظر بار بار دوڑتا ہو کہ کس طرح اس کے بھائی پہ گولی چلاتے ہوئے قاتل نے
کافر، کافر، شیعہ کافر کا نعرہ لگایا ہوگا اور جب زخمی نوجوان کے سر سے خون کا
فوارہ ابلا ہوگا تو موٹر سائیکل آگے بڑھانے سے پہلے قاتل نے چلا کر نعرہ تکبیر،
اللہ اکبر کہا ہوگا۔
Labels: Australia, Ghulam Raza, Hazara Town, Khadim Noori, Sadiq Saba, Sectarian killings in Pakistan, Sydney