Thursday, December 31, 2015

 

وہ مقدس لال چٹان







ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اکسٹھ

دسمبر ستائیس، دو ہزار پندرہ


وہ مقدس لال چٹان


ایلس اسپرنگس ایک سیاحتی مقام ہے۔ یہاں لوگ قدرت کے نظارے دیکھنے آتے ہیں۔ اور یہاں قدرت کا سب سے بڑا نظارہ یہاں کا جغرافیہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کروڑوں سال پہلے سمندر تھا اور آج ہم لال مرکز کی جس زمین پہ چلتے پھرتے ہیں وہ کبھی گہرے سمندر کی زمین تھی۔ اور اس سے بھی پرانی بات یہ ہے کہ پانی کے بہائو سے آنے والی مٹی، ٹیلوں کی صورت میں یہاں موجود تھی۔ بہت عرصے بعد یہ ٹیلے قدرتی طاقتوں کے دبائو سے وہ چٹانیں بن گئے جو آج اس علاقے میں موجود ہیں۔ شاید کبھی یہ ٹیلے آپس میں جڑے ہوتے ہوں گے مگر پھر ان کے درمیان نرم مٹی کو پانی بہا کر دوسری جگہ لے گیا۔ اور آج ہمیں لال مرکز کا موجودہ جغرافیہ نظر آتا ہے جس میں حد نظر پھیلا لال مٹی کا ویرانہ ہے اور اس ویرانے میں دور دور عجیب و غریب ہئیت کی بڑی بڑی چٹانیں پہاڑیوں کی صورت کھڑی ہیں۔ یہ چٹانیں عام پہاڑوں کی چٹانوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ انہیں دیکھ کر آدمی چونک جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا ان چٹانوں کو مقدس خیال کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ ان ہی پہاڑیوں میں ایک پہاڑی ایرزراک کہلاتی ہے۔ ہم اسی مشہور زمانہ چٹان کو دیکھنے کے لیے ایلس اسپرنگس پہنچے تھے۔
ہم نے ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس کے لیے جہاز کی جو بکنگ کرائی تھی اس کے ساتھ ہی ہمیں ایلس اسپرنگس میں ہوٹل ارزاں نرخ پہ مل گیا تھا۔ مگر ایلس اسپرنگس اور ایرز راک کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ ہم ایلس اسپرنگس میں ٹہرتے ہوئے دن ہی دن میں ایرز راک کا چکر لگا کر واپس ایلس اسپرنگس نہیں آسکتے تھے۔  ایرز راک دیکھنے کے لیے وہاں رات بسر کرنا لازم تھا۔ ایرز راک کے قریب ہی ایک بستی اولورو نام کی ہے۔ دراصل ایرز راک کو آسٹریلیا کے مقامی باشندے اولورو ہی کہتے ہیں۔ اس بستی میں رات گزارنے کا انتظام کرنے کے دوران ہی یہ بات سمجھ میں آئی کہ مغربی سیاحتی اداروں نے قابل دید مقامات کو سختی سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ جس قدر ممکن ہو آپ کی جیب کو ہلکا کردیں۔ اولورو کو ہی دیکھیں۔ یہ پوری بستی ایک ہی کمپنی کی ملکیت ہے۔ اس بستی میں خیمہ گاڑنے کی جگہ بھی ہے، اپنی آروی یا ریکریشینل وہیکل کھڑے کرنے کا میدان بھی، اور انتہائی شاندار ہوٹل بھی۔ یعنی ہر بجٹ کے سیاح سے رقم اینٹھنے کا مکمل سامان ہے۔ کیونکہ رہائش کی یہ تمام جگہیں ایک ہی کمپنی کی ملکیت ہیں اور دور دور تک کوئی اور آبادی نہیں ہے اس لیے یہ کمپنی ایرز راک آنے والوں سے منہ مانگے دام وصول کرتی ہے۔ ہم نے طوعا و کرہا اولورو میں ایک کمرے کی بکنگ کروائی اور ایلس اسپرنگس سے نکل پڑے۔ ایلس اسپرنگس سے ایرز راک کا سفر پانچ گھنٹے کا تھا۔ اس راستے میں ہمیں ایرز راک جیسی ایک اور چٹان نظر آئی مگر وہاں رکنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ اولورو سے کچھ ہی فاصلے پہ ایرز راک ہوائی اڈہ بھی پڑا۔ اگر آپ کے پاس پیسہ زیادہ ہواور آپ جلدی جلدی دنیا بھر کے خاص خاص سیاحتی مقامات دیکھنا چاہیں تو ایرز راک دیکھنے کے لیے سیدھا ایرز راک ہوائی اڈے پہنچیں اور چند ہی منٹ کی گاڑی کی سواری سے ایرز راک پہنچ جائیں۔
ہم اولورو پہنچے تو بستی کے واحد استقبالیے پہ طویل قطار دیکھی۔ ہر بجٹ کے مسافر کو اس کی مالی استعداد کے حساب سے اس کی رہائش کی طرف روانہ کیا جارہا تھا۔ اس وقت تک سہ پہر ہوچکی تھی۔ ہم سامان کمرے میں دھرنے کے بعد فورا ایرز راک پہنچ گئے۔ ایرز راک سے کچھ فاصلے پہ ہم نے بہت سی گاڑیوں کو ایک لمبی صف میں کھڑا دیکھا۔ یہ سیاح ایرز راک پہ ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔ بات ہماری سمجھ میں بھی آئی کہ پہلے کچھ فاصلے سے ایرز راک کو دیکھو اور پھر اندھیرا ہونے سے پہلے چٹان کا قریب سے معائنہ کرو۔ جیسے جیسے سورج نیچے جاتا گیا، ایرز راک اپنا رنگ بدلتی گئی۔ پہلے اس کا رنگ چمکیلا لال تھا، پھر اس میں سرمئی رنگ بڑھتا گیا اور سورج ڈھلنے کے ساتھ پورا پہاڑ گہرے سرمئی رنگ کا نظر آنے لگا۔ اس نظارے کی ڈھیر ساری تصاویر اتارنے کے بعد ہم فورا پہاڑ تک پہنچ گئے۔ اس وقت تک اندھیرا گہرا ہونا شروع ہوگیا تھا اور ایرز راک کا پیدل طواف کرنا ممکن نہ تھا۔ ہم نے چٹان کو جگہ جگہ چھو کر دیکھا کہ آیا وہ واقعی دبائوشدہ مٹی کے ذرات سے بنی تھی۔ ہمیں ایسا ہی معلوم دیا۔ اعتقادات کے مقابلے میں سائنس کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ سوال کا در کھلا رکھتی ہے۔ آپ بڑے سے بڑے رائج سائنسی نظریے کے متعلق بھی آزادی سے سوال کرسکتے ہیں۔
اولورو بستی میں ٹہرنے والے ہر قماش کے سیاح رات کے وقت استقبالیے سے متصل ریستوراں اور اس کے آس پاس جمع ہوگئے تھے۔ وہاں ایک بڑا باورچی خانہ سیاحوں کے استعمال کے لیے تھا۔ کچھ سیاح خود اپنا کھانا تیار کررہے تھے، کچھ ریستوراں سے کھانا خرید کر کھا رہے تھے۔ ہم نے ریستوراں کے مینیو پہ نظر کی تو وہاں کینگرو کو موجود پایا۔ یوں تو کینگرو کا گوشت آسٹریلیا میں خوردونوش کی دکانوں میں بھی نظر آیا تھا مگر ایرز راک پہ کینگرو کھانے کا اور مزا تھا۔ ہم نے فورا اس گوشت کی فرمائش کردی۔ اتفاق سے ہمارے حصے میں کینگرو کا آخری لوتھڑا آیا، یعنی ریستوراں کچھ دیر میں پہنچے ہوتے تو کینگرو نکل چکا ہوتا۔ کینگرو کا وہ گوشت ہمیں کچا دیا گیا۔ ہمیں اس گوشت کو اپنی مرضی سے بھوننا تھا۔ ہم فورا اس کام میں مصروف ہوگئے۔ گوشت بھوننے کے دوران ہی ہم نے آس پاس کی آوازوں پہ کان دھرے تو بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں۔ وہاں فرانسیسی بھی بولی جارہی تھی، ہسپانوی بھی، چینی اور جاپانی بھی۔ یہ مغرب کے سیاحتی اداروں کا کمال ہے کہ وہ کسی بھی ایک مقام کی ایسی زوردار تشہیرکرتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ اگر انہوں نے وہ مقام نہ دیکھا تو کچھ نہ دیکھا۔ اور پھر یہ سیاحتی ادارے ان ہی یاتریوں سے خوب پیسے بناتے ہیں۔ ہمارے علاقے یعنی جنوبی ایشیا میں یہ کام پہلے کچھ مختلف انداز سے کیا جاتا تھا۔ یاتریوں سے پیسے بٹورنے کے لیے عرس اور میلے تھے اور اب بھی ہوتے ہیں۔ کسی گزر جانے والے بزرگ کے ایسے اعلی اوصاف، ایسی محیرالعقل کرامات بیان کرو، اس مزار کی یوں تزئین کرو کہ لوگ دور دور سے جوق در جوق اس پیر کی قبر کا دیدار کرنے چلے آئیں۔ لوگ آٗئیں گے تو صدقہ بھی کریں گے، کھانا بھی کھائیں گے، اور خاص خاص سوغات خرید کر بھی لے جائیں گے۔  چھن چھن چھن چھن؛ چھن چھن چھن چھن۔


Labels: , , , , , ,


Thursday, December 24, 2015

 

ایلس اسپرنگس






ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ساٹھ

دسمبر اٹھارہ، دو ہزار پندرہ


ایلس اسپرنگس


لال مرکز سحر انگیز ہے۔ آپ ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس پہنچیں تو لگتا ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک آگئے ہیں۔ لال مرکز کا تاحد نظر پھیلا سرخ بیاباں آپ کو دعوت دیتا ہے کہ آپ اس جگہ کو دریافت کرنے کے لیے پیدل نکل جائیں، کسی بھی رخ چل پڑیں، کچھ کچھ فاصلے پہ رک کر وہاں موجود زمین کو اور دور دور اگی جھاڑیوں کو دیکھیں، گزرنے والے جانوروں کے پائوں کے نشانات دیکھ کر جانور کی شناخت کرنے کی کوشش کریں، اور کچھ سستانے کے بعد آگے بڑھ جائیں۔
یورپ سے آنے والے تارکین وطن کی آسٹریلیا آمد سے پہلے ایب اورجنی بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ دراصل پرانی دنیا سے ان کا تعلق قریبا چالیس ہزار سال پہلے منقطع ہوگیا تھا۔ اگر انسان اپنی موجودہ شکل میں افریقہ میں پروان چڑھا تو یہ لوگ آسٹریلیا کیسے پہنچے؟ شاید آسٹریلیا کے یہ قدیم باشندے اس علاقے سے جو اس وقت ملائیشیا ہے پیدل چلتے ہوئے آسٹریلیا پہنچے تھے اور ایسا اس لیے ممکن ہو پایا کیونکہ اس وقت دنیا ایک برفانی دور سے گزر رہی تھی۔ دنیا کا زیادہ تر پانی قطبین پہ جمع تھا اور سمندر اتھلے ہوگئے تھے۔ اور اسی وجہ سے موجودہ ملائیشیا سے آسٹریلیا تک ایک زمینی پل موجود تھا۔ شاید اسی پل پہ چلتے ہوئے یہ قدیم لوگ آسٹریلیا پہنچے۔ ان کے آسٹریلیا پہنچنے کے ہزاروں سال بعد جب برفانی دور ختم ہوا، سمندروں میں پانی بڑھا، ملائیشیا سے آسٹریلیا کے درمیان کا علاقہ زیرآب آگیا، اور صرف اونچے مقامات انڈونیشیا کے جزائر کی صورت میں بچ گئے تو یہ لوگ پرانی دنیا سے کٹ گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انسان شکاری،بٹوریا یا ہنٹر گیدرر ہوا کرتا تھا۔ ہماری واحد کامیابی یہ تھی کہ ہم نے آگ کو قابو کرلیا تھا۔ انسان نے نہ تو زراعت ایجاد کی تھی اور نہ ہی جانور پالنے کا فن سیکھا تھا۔ آسٹریلیا میں ان لوگوں کو کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ شکار کے لیے بہت سے جانور موجود تھے اور بٹورنے کے لیے کثیر تعداد میں پھل اور پودے۔ اور اسی وجہ سے قریبا چار سو سال پہلے جب یورپی مہم جو آسٹریلیا پہنچے تو وہ ان لوگوں کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ کیا کھیت کھلیان، کیا مویشی، کیا پہیہ، کیا سونا اور تانبہ اور کیا رسم الخط، بظاہر ان لوگوں کے پاس یورپ سے آنے والوں کو دکھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اور اسی وجہ سے بہت عرصے تک یورپی، آسٹریلیا کے ان مقامی لوگوں کو انسان خیال نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں انسان نما جانور کے زمرے میں ڈالتے تھے۔
اگر دو ایسے انسانی گروہوں کا سامنا ہو جو زندگی کو بہت مختلف طریقے سے دیکھتے ہوں تو ان کے درمیان چپقلش ناگزیر ہے۔  یورپی تارکین وطن اور آسٹریلیا کے پرانے باسیوں کے درمیان ایسی چپقلش آج تک موجود ہے۔
ایب اورجنی ہمیں ایلس اسپرنگس کے مرکز شہر میں خوردونوش اسٹور کے آس پاس بے مصرف ٹہلتے نظر آتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ لوگ نئے دور کی اس زندگی سے سمجھوتہ نہیں کر پائے ہیں جو مغربی دنیا کی دین ہے۔ یورپ سے آنے والا شخص مقامی آدمی کو بتا رہا ہے کہ صبح صبح اٹھنا ہوتا ہے، پھر سارا دن کام کرنا ہوتا ہے، پھر دو ہفتے کے بعد تنخواہ ملتی ہے جس سے سارے بل چکانے ہوتے ہیں، اور وہ مقامی شخص حیران ہے کہ یہ نئے طرز کی زندگی کیسی ہے جس میں زندگی جینے پہ سب سے کم توجہ ہے۔ یہ کیسی زندگی ہے جس میں انسان مستقل کسی مشین کا پرزہ بنا کام کررہا ہے؟ وہ مقامی شخص سوچتا ہےکہ یورپیوں کے آنے سے پہلے تو ایسا نہ تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ نہ ہمارے پاس پختہ گھر تھے، نہ سڑکیں تھیں، نہ گاڑیاں تھیں، مگر ہم آرام سے اپنی زندگی تو جیتے تھے، ہر پل کے خوب مزے تو لوٹتے تھے۔ ہمارے پاس نہ پیسہ تھا اور نہ ہی کسی بل کی ادائیگی کی ضرورت۔ پانی کا بل، بجلی کا بل، فون کا بل، انٹرنیٹ کا بل، کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی، گاڑی کا خرچہ، کرایہ، مورگیج، ان یورپیوں کے آنے کے بعد ہم کس جنجال میں پھنس گئے ہیں۔ صبح سے شام کام کرنا، پھر تنخواہ ملنے پہ خریداری کر کے زندگی گزارنا کتنا عجیب ہے۔ پہلے کتنی آسانی تھی۔ بھوک لگتی تھی تو اس کو مٹانے کا براہ راست انتظام کرتے تھے۔ اور یہ انتظام کرنا اتنا مشکل نہ تھا۔ جنگل میں جا کر کھانے کے قابل پھلوں اور پتوں کو جمع کرنا تھا، یا پھر گھات لگا کر کسی جانور کا شکار کرنا تھا۔ اس کام میں کچھ وقت تو لگتا تھا مگر پھر دن کا بقیہ حصہ زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے میں گزرتا تھا۔ اس زندگی کا وہی سادہ مقصد تھا جو کسی درخت کا ہوتا ہے، جی داری سے زندگی گزارنا، نسل آگے بڑھانا اور ایک دن مرجانا۔
مجھے ایب اورجنی لوگوں سے ہمدردی ہے اور میں خود بھی اسی طرح سوچتا ہوں کہ زندگی گزارنا ایک گنجلک معاملہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی میں جس قدر سادگی ہو، اتنا اچھا ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ وقت کی ہوا کسی اور رخ چل رہی ہے۔ نئے دور کا انسان زندگی سے پریشان ضرور ہے مگر اس کی آسائشیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
یورپ سے آنے والے لوگوں کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی تھی اور مہلک ہتھیار۔ ایب اورجنی اس جدید ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہ کرپائے۔ وہ پسپا ہوگئے۔ جو جگہیں یورپی نوواردوں نے اپنے رہنے کے لیے چنیں ان جگہوں پہ ایب اورجنی کا صفایا ہوگیا۔ اور لال مرکز ان لوگوں کا خاص گڑھ بن گیا۔ شکست خوردہ لوگوں کی ایسی آماجگاہ جہاں وہ دوسروں کے بنائے گئے اصولوں کے حساب سے زندگی تو گزار رہے ہیں مگر بہت زیادہ خوش نہیں ہیں۔

Labels: , , , ,


Thursday, December 17, 2015

 

ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس








ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو انسٹھ

دسمبر تیرہ، دو ہزار پندرہ


ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس

 

نوگیارہ کے دہشت گردی کے واقعات کے بعد خوف کا کچھ ایسا ماحول ہے کہ مغربی دنیا کے کسی ہوائی اڈے پہ ایک دیسی شخص تصویریں کھینچ رہا ہو تو لوگ اس کو ترچھی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایڈی لیڈ ہوائی اڈے پہ مجھے دھڑا دھڑ تصاویر اتارتے ہوئے بھی ایسی ہی تشویشناک نظروں سے دیکھا گیا تھا، مگر میں اس تشویش سے لاتعلق اپنا کام کیے جارہا تھا۔ میں سفر میں تصاویر اس لیے اتارتا ہوں کہ یہ تصاویر بہت اچھی یادداشت ہوتی ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر کسی خاص دن کا منظر آنکھوں کے سامنے نمودار ہوجاتا ہے اور میرے لیے اس دن کے حالات لکھنا آسان ہوجاتا ہے۔
اگر آپ ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس ہوائی جہاز سے جائیں تو قریبا دو گھنٹوں میں آپ ایلس اسپرنگس پہنچ جاتے ہیں۔ دو گھنٹے کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر ان دو گھنٹوں میں زمین کا نقشہ یک دم بدل جاتا ہے۔ آپ آسٹریلیا کی یورپی آبادی والے گنجان علاقے سے بہت دور پہنچ جاتے ہیں۔  نقشہ بدلنے کی واضح تبدیلی ایلس اسپرنگس اور اطراف کے جغرافیے میں ہے۔ آسٹریلیا کے اس علاقے کو لال مرکز یا ریڈ سینٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام اس علاقے کی لال مٹی کی مناسبت سے ہے۔
ایلس اسپرنگس نارتھرن ٹیری ٹوری نامی صوبے میں ہے۔ آسٹریلیا کیونکہ خط استوا کے جنوب میں ہے اس لیے وہاں آپ جیسے جیسے جنوب کی طرف جائیں موسم سرد ہوتا جاتا ہے۔ نارتھرن ٹیری ٹوری میں آپ شمال کی طرف چلتے جائیں تو آپ آسٹریلیا کے شمالی ساحل پہ پہنچ جائیں گے جو خط استوا سے بہت قریب ہے۔ اس طرح ایڈی لیڈ اور جنوبی ساحل کے دوسرے علاقے سرد ہیں اور ہرے بھرے ہیں۔ جب کہ لال مرکز بیابان ہے۔ وہاں آبادی خال خال نظر آتی ہے۔
ہمیں ایلس اسپرنگس کے ہوائی اڈے پہ ہی آسٹریلیا کے مقامی لوگ جنہیں ایب اورجنی کہا جاتا ہے نظر آنے شروع ہوگئے تھے۔ اور اس پہلے مشاہدے میں ان لوگوں کے رہنے کا طریقہ بھی سمجھ میں آنے لگا تھا۔ ان میں سے کئی لوگ ننگے پائوں تھے۔ گو کہ کچھ مقامی لوگ جنوبی ساحل پہ بھی رہتے ہیں مگر ہمیں نہ سڈنی میں، نہ میلبورن میں، اور نہ ہی ایڈی لیڈ میں ایک بھی ایب اورجنی نظر آیا تھا۔ ایلس اسپرنگس  میں یہ لوگ کافی تعداد میں نظر آئے۔ واضح تھا کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے یورپ سے آنے والے تارکین وطن کے دھکے کھاتے اب کہاں پہنچ گئے ہیں۔
آسٹریلیا میں مہینے بھر کے سفر میں منازل کا چنائو بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ ہم بھی دوسرے کم بجٹ مسافروں کی طرح لونلی پلانٹ نامی ویب سائٹ کا ثورن ٹری فورم استعمال کرتے ہیں۔ اس آن لائن بزم میں کم بجٹ مسافر اپنے تجربات بیان کرتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے کسی خاص سیاحتی مقام کے بارے میں سوال کرسکتے ہیں۔ ثورن ٹری پہ لال مرکز کے بارے میں ہمارا سوال تھا  کہ وہاں کیسے پہنچا جائے۔ اس محفل کے تجربہ کار لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ ہم ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس گاڑی سے نہ جائیں۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم تین دن کے اس طویل راستے کی یکسانی سے بیزار آجائیں گے۔ اور یہی مشورہ مان کر ہم نے ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس اور پھر ایڈی لیڈ واپسی کی جہاز کی بکنگ کروائی تھی۔ مگر اس اہتمام کی وجہ سے اب یہ ہوا تھا کہ ہم دو جگہ گاڑی کا کرایہ بھر رہے تھے۔ ایک گاڑی ایڈی لیڈ میں کھڑی تھی اور دوسری اب ایلس اسپرنگس میں ہمارے استعمال میں تھی۔ وہیں یہ خیال ہوا کہ ہمیں گاڑی سے ہی ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس پہنچنا چاہیے تھا۔ مشورہ دینے والوں نے اپنی طبیعت کے حساب سے مشورہ دیا تھا۔ وہ لوگ یقینا گھنٹوں کی ڈرائیوری سے بیزار ہوجاتے ہوں گے۔ جب کہ ہم طویل مسافت کا ذرا برا نہیں مانتے۔ اس بات میں جان ہے کہ سنو سب کی مگر کرو اپنی۔
ایلس اسپرنگس میں کرائے کی گاڑی لینے کا قصہ بھی خوب ہے۔ وہاں ایک ایسی سرد جنگ شروع ہوئی جو تادم تحریر ای میل کے ذریعے جاری ہے۔ ہوا یوں کہ سفر کی تیاری کے دوران سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے ہمیں ایلس اسپرنگس میں کرائے کی گاڑیوں کے نرخ بہت زیادہ نظر آرہے تھے۔ مگر انٹرنیٹ پہ بہت تلاش کے بعد بالاخر ایک جگہ سے کم قیمت پہ ایک گاڑی مل گئی۔ یا کم از کم ہمارا خیال ہوا کہ ہمیں کم قیمت پہ گاڑی مل گئی ہے۔
ایلس اسپرنگس کے ہوائی اڈے پہ بجٹ کار رینٹل کا کائونٹر سنسان پڑا تھا۔ ہم نے کائونٹر پہ پڑی گھنٹی بجائی تو پیچھے دفتر سے ایک نوجوان سوتی آنکھوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ ہم سے جلدی جلدی کرائے کے معاہدے پہ دستخط لیے گئے اور ہمیں یہ نہ بتایا گیا کہ اسی معاہدے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ سیاحتی مقام ہونے کی علیحدہ فیس اور پھر دفتری کاروائی کا الگ محصول کرائے کی رقم میں شامل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ آن لائن بکنگ کراتے وقت ان دونوں محصول کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔ پھر نیم خوابیدہ لڑکے نے یہ چالاکی دکھائی کہ ہم سے دستخط کروانے کے بعد وہ معاہدہ ہم سے لے لیا اور ہمیں معاہدے کی نقل نہیں دی۔ چار دن کے بعد ہم نے گاڑی واپس کی تو یہ دونوں محصول کرائے کی رقم میں شامل کیے گئے تھے۔ ہم نے ادائیگی تو کردی مگر ساتھ اس زیادتی کی شکایت کی۔ وہ جھگڑا اس وقت تک ای میل کے ذریعے جاری ہے۔



Labels: , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?