Thursday, December 31, 2015

 

وہ مقدس لال چٹان







ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اکسٹھ

دسمبر ستائیس، دو ہزار پندرہ


وہ مقدس لال چٹان


ایلس اسپرنگس ایک سیاحتی مقام ہے۔ یہاں لوگ قدرت کے نظارے دیکھنے آتے ہیں۔ اور یہاں قدرت کا سب سے بڑا نظارہ یہاں کا جغرافیہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کروڑوں سال پہلے سمندر تھا اور آج ہم لال مرکز کی جس زمین پہ چلتے پھرتے ہیں وہ کبھی گہرے سمندر کی زمین تھی۔ اور اس سے بھی پرانی بات یہ ہے کہ پانی کے بہائو سے آنے والی مٹی، ٹیلوں کی صورت میں یہاں موجود تھی۔ بہت عرصے بعد یہ ٹیلے قدرتی طاقتوں کے دبائو سے وہ چٹانیں بن گئے جو آج اس علاقے میں موجود ہیں۔ شاید کبھی یہ ٹیلے آپس میں جڑے ہوتے ہوں گے مگر پھر ان کے درمیان نرم مٹی کو پانی بہا کر دوسری جگہ لے گیا۔ اور آج ہمیں لال مرکز کا موجودہ جغرافیہ نظر آتا ہے جس میں حد نظر پھیلا لال مٹی کا ویرانہ ہے اور اس ویرانے میں دور دور عجیب و غریب ہئیت کی بڑی بڑی چٹانیں پہاڑیوں کی صورت کھڑی ہیں۔ یہ چٹانیں عام پہاڑوں کی چٹانوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ انہیں دیکھ کر آدمی چونک جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا ان چٹانوں کو مقدس خیال کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ ان ہی پہاڑیوں میں ایک پہاڑی ایرزراک کہلاتی ہے۔ ہم اسی مشہور زمانہ چٹان کو دیکھنے کے لیے ایلس اسپرنگس پہنچے تھے۔
ہم نے ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس کے لیے جہاز کی جو بکنگ کرائی تھی اس کے ساتھ ہی ہمیں ایلس اسپرنگس میں ہوٹل ارزاں نرخ پہ مل گیا تھا۔ مگر ایلس اسپرنگس اور ایرز راک کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ ہم ایلس اسپرنگس میں ٹہرتے ہوئے دن ہی دن میں ایرز راک کا چکر لگا کر واپس ایلس اسپرنگس نہیں آسکتے تھے۔  ایرز راک دیکھنے کے لیے وہاں رات بسر کرنا لازم تھا۔ ایرز راک کے قریب ہی ایک بستی اولورو نام کی ہے۔ دراصل ایرز راک کو آسٹریلیا کے مقامی باشندے اولورو ہی کہتے ہیں۔ اس بستی میں رات گزارنے کا انتظام کرنے کے دوران ہی یہ بات سمجھ میں آئی کہ مغربی سیاحتی اداروں نے قابل دید مقامات کو سختی سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ جس قدر ممکن ہو آپ کی جیب کو ہلکا کردیں۔ اولورو کو ہی دیکھیں۔ یہ پوری بستی ایک ہی کمپنی کی ملکیت ہے۔ اس بستی میں خیمہ گاڑنے کی جگہ بھی ہے، اپنی آروی یا ریکریشینل وہیکل کھڑے کرنے کا میدان بھی، اور انتہائی شاندار ہوٹل بھی۔ یعنی ہر بجٹ کے سیاح سے رقم اینٹھنے کا مکمل سامان ہے۔ کیونکہ رہائش کی یہ تمام جگہیں ایک ہی کمپنی کی ملکیت ہیں اور دور دور تک کوئی اور آبادی نہیں ہے اس لیے یہ کمپنی ایرز راک آنے والوں سے منہ مانگے دام وصول کرتی ہے۔ ہم نے طوعا و کرہا اولورو میں ایک کمرے کی بکنگ کروائی اور ایلس اسپرنگس سے نکل پڑے۔ ایلس اسپرنگس سے ایرز راک کا سفر پانچ گھنٹے کا تھا۔ اس راستے میں ہمیں ایرز راک جیسی ایک اور چٹان نظر آئی مگر وہاں رکنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ اولورو سے کچھ ہی فاصلے پہ ایرز راک ہوائی اڈہ بھی پڑا۔ اگر آپ کے پاس پیسہ زیادہ ہواور آپ جلدی جلدی دنیا بھر کے خاص خاص سیاحتی مقامات دیکھنا چاہیں تو ایرز راک دیکھنے کے لیے سیدھا ایرز راک ہوائی اڈے پہنچیں اور چند ہی منٹ کی گاڑی کی سواری سے ایرز راک پہنچ جائیں۔
ہم اولورو پہنچے تو بستی کے واحد استقبالیے پہ طویل قطار دیکھی۔ ہر بجٹ کے مسافر کو اس کی مالی استعداد کے حساب سے اس کی رہائش کی طرف روانہ کیا جارہا تھا۔ اس وقت تک سہ پہر ہوچکی تھی۔ ہم سامان کمرے میں دھرنے کے بعد فورا ایرز راک پہنچ گئے۔ ایرز راک سے کچھ فاصلے پہ ہم نے بہت سی گاڑیوں کو ایک لمبی صف میں کھڑا دیکھا۔ یہ سیاح ایرز راک پہ ڈوبتے سورج کا نظارہ کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔ بات ہماری سمجھ میں بھی آئی کہ پہلے کچھ فاصلے سے ایرز راک کو دیکھو اور پھر اندھیرا ہونے سے پہلے چٹان کا قریب سے معائنہ کرو۔ جیسے جیسے سورج نیچے جاتا گیا، ایرز راک اپنا رنگ بدلتی گئی۔ پہلے اس کا رنگ چمکیلا لال تھا، پھر اس میں سرمئی رنگ بڑھتا گیا اور سورج ڈھلنے کے ساتھ پورا پہاڑ گہرے سرمئی رنگ کا نظر آنے لگا۔ اس نظارے کی ڈھیر ساری تصاویر اتارنے کے بعد ہم فورا پہاڑ تک پہنچ گئے۔ اس وقت تک اندھیرا گہرا ہونا شروع ہوگیا تھا اور ایرز راک کا پیدل طواف کرنا ممکن نہ تھا۔ ہم نے چٹان کو جگہ جگہ چھو کر دیکھا کہ آیا وہ واقعی دبائوشدہ مٹی کے ذرات سے بنی تھی۔ ہمیں ایسا ہی معلوم دیا۔ اعتقادات کے مقابلے میں سائنس کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ سوال کا در کھلا رکھتی ہے۔ آپ بڑے سے بڑے رائج سائنسی نظریے کے متعلق بھی آزادی سے سوال کرسکتے ہیں۔
اولورو بستی میں ٹہرنے والے ہر قماش کے سیاح رات کے وقت استقبالیے سے متصل ریستوراں اور اس کے آس پاس جمع ہوگئے تھے۔ وہاں ایک بڑا باورچی خانہ سیاحوں کے استعمال کے لیے تھا۔ کچھ سیاح خود اپنا کھانا تیار کررہے تھے، کچھ ریستوراں سے کھانا خرید کر کھا رہے تھے۔ ہم نے ریستوراں کے مینیو پہ نظر کی تو وہاں کینگرو کو موجود پایا۔ یوں تو کینگرو کا گوشت آسٹریلیا میں خوردونوش کی دکانوں میں بھی نظر آیا تھا مگر ایرز راک پہ کینگرو کھانے کا اور مزا تھا۔ ہم نے فورا اس گوشت کی فرمائش کردی۔ اتفاق سے ہمارے حصے میں کینگرو کا آخری لوتھڑا آیا، یعنی ریستوراں کچھ دیر میں پہنچے ہوتے تو کینگرو نکل چکا ہوتا۔ کینگرو کا وہ گوشت ہمیں کچا دیا گیا۔ ہمیں اس گوشت کو اپنی مرضی سے بھوننا تھا۔ ہم فورا اس کام میں مصروف ہوگئے۔ گوشت بھوننے کے دوران ہی ہم نے آس پاس کی آوازوں پہ کان دھرے تو بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں۔ وہاں فرانسیسی بھی بولی جارہی تھی، ہسپانوی بھی، چینی اور جاپانی بھی۔ یہ مغرب کے سیاحتی اداروں کا کمال ہے کہ وہ کسی بھی ایک مقام کی ایسی زوردار تشہیرکرتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ اگر انہوں نے وہ مقام نہ دیکھا تو کچھ نہ دیکھا۔ اور پھر یہ سیاحتی ادارے ان ہی یاتریوں سے خوب پیسے بناتے ہیں۔ ہمارے علاقے یعنی جنوبی ایشیا میں یہ کام پہلے کچھ مختلف انداز سے کیا جاتا تھا۔ یاتریوں سے پیسے بٹورنے کے لیے عرس اور میلے تھے اور اب بھی ہوتے ہیں۔ کسی گزر جانے والے بزرگ کے ایسے اعلی اوصاف، ایسی محیرالعقل کرامات بیان کرو، اس مزار کی یوں تزئین کرو کہ لوگ دور دور سے جوق در جوق اس پیر کی قبر کا دیدار کرنے چلے آئیں۔ لوگ آٗئیں گے تو صدقہ بھی کریں گے، کھانا بھی کھائیں گے، اور خاص خاص سوغات خرید کر بھی لے جائیں گے۔  چھن چھن چھن چھن؛ چھن چھن چھن چھن۔


Labels: , , , , , ,


Comments:
کرنے گا Share جناب سم طور صاحب آپ کا سفرنامہ بہت ہی عمدہ لکھا ھے پڑھ کر مزہ آگیا ۔ شکریہ
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?