Thursday, December 17, 2015

 

ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس








ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو انسٹھ

دسمبر تیرہ، دو ہزار پندرہ


ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس

 

نوگیارہ کے دہشت گردی کے واقعات کے بعد خوف کا کچھ ایسا ماحول ہے کہ مغربی دنیا کے کسی ہوائی اڈے پہ ایک دیسی شخص تصویریں کھینچ رہا ہو تو لوگ اس کو ترچھی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایڈی لیڈ ہوائی اڈے پہ مجھے دھڑا دھڑ تصاویر اتارتے ہوئے بھی ایسی ہی تشویشناک نظروں سے دیکھا گیا تھا، مگر میں اس تشویش سے لاتعلق اپنا کام کیے جارہا تھا۔ میں سفر میں تصاویر اس لیے اتارتا ہوں کہ یہ تصاویر بہت اچھی یادداشت ہوتی ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر کسی خاص دن کا منظر آنکھوں کے سامنے نمودار ہوجاتا ہے اور میرے لیے اس دن کے حالات لکھنا آسان ہوجاتا ہے۔
اگر آپ ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس ہوائی جہاز سے جائیں تو قریبا دو گھنٹوں میں آپ ایلس اسپرنگس پہنچ جاتے ہیں۔ دو گھنٹے کوئی بڑی بات نہیں ہے مگر ان دو گھنٹوں میں زمین کا نقشہ یک دم بدل جاتا ہے۔ آپ آسٹریلیا کی یورپی آبادی والے گنجان علاقے سے بہت دور پہنچ جاتے ہیں۔  نقشہ بدلنے کی واضح تبدیلی ایلس اسپرنگس اور اطراف کے جغرافیے میں ہے۔ آسٹریلیا کے اس علاقے کو لال مرکز یا ریڈ سینٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام اس علاقے کی لال مٹی کی مناسبت سے ہے۔
ایلس اسپرنگس نارتھرن ٹیری ٹوری نامی صوبے میں ہے۔ آسٹریلیا کیونکہ خط استوا کے جنوب میں ہے اس لیے وہاں آپ جیسے جیسے جنوب کی طرف جائیں موسم سرد ہوتا جاتا ہے۔ نارتھرن ٹیری ٹوری میں آپ شمال کی طرف چلتے جائیں تو آپ آسٹریلیا کے شمالی ساحل پہ پہنچ جائیں گے جو خط استوا سے بہت قریب ہے۔ اس طرح ایڈی لیڈ اور جنوبی ساحل کے دوسرے علاقے سرد ہیں اور ہرے بھرے ہیں۔ جب کہ لال مرکز بیابان ہے۔ وہاں آبادی خال خال نظر آتی ہے۔
ہمیں ایلس اسپرنگس کے ہوائی اڈے پہ ہی آسٹریلیا کے مقامی لوگ جنہیں ایب اورجنی کہا جاتا ہے نظر آنے شروع ہوگئے تھے۔ اور اس پہلے مشاہدے میں ان لوگوں کے رہنے کا طریقہ بھی سمجھ میں آنے لگا تھا۔ ان میں سے کئی لوگ ننگے پائوں تھے۔ گو کہ کچھ مقامی لوگ جنوبی ساحل پہ بھی رہتے ہیں مگر ہمیں نہ سڈنی میں، نہ میلبورن میں، اور نہ ہی ایڈی لیڈ میں ایک بھی ایب اورجنی نظر آیا تھا۔ ایلس اسپرنگس  میں یہ لوگ کافی تعداد میں نظر آئے۔ واضح تھا کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندے یورپ سے آنے والے تارکین وطن کے دھکے کھاتے اب کہاں پہنچ گئے ہیں۔
آسٹریلیا میں مہینے بھر کے سفر میں منازل کا چنائو بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ ہم بھی دوسرے کم بجٹ مسافروں کی طرح لونلی پلانٹ نامی ویب سائٹ کا ثورن ٹری فورم استعمال کرتے ہیں۔ اس آن لائن بزم میں کم بجٹ مسافر اپنے تجربات بیان کرتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے کسی خاص سیاحتی مقام کے بارے میں سوال کرسکتے ہیں۔ ثورن ٹری پہ لال مرکز کے بارے میں ہمارا سوال تھا  کہ وہاں کیسے پہنچا جائے۔ اس محفل کے تجربہ کار لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ ہم ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس گاڑی سے نہ جائیں۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم تین دن کے اس طویل راستے کی یکسانی سے بیزار آجائیں گے۔ اور یہی مشورہ مان کر ہم نے ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس اور پھر ایڈی لیڈ واپسی کی جہاز کی بکنگ کروائی تھی۔ مگر اس اہتمام کی وجہ سے اب یہ ہوا تھا کہ ہم دو جگہ گاڑی کا کرایہ بھر رہے تھے۔ ایک گاڑی ایڈی لیڈ میں کھڑی تھی اور دوسری اب ایلس اسپرنگس میں ہمارے استعمال میں تھی۔ وہیں یہ خیال ہوا کہ ہمیں گاڑی سے ہی ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس پہنچنا چاہیے تھا۔ مشورہ دینے والوں نے اپنی طبیعت کے حساب سے مشورہ دیا تھا۔ وہ لوگ یقینا گھنٹوں کی ڈرائیوری سے بیزار ہوجاتے ہوں گے۔ جب کہ ہم طویل مسافت کا ذرا برا نہیں مانتے۔ اس بات میں جان ہے کہ سنو سب کی مگر کرو اپنی۔
ایلس اسپرنگس میں کرائے کی گاڑی لینے کا قصہ بھی خوب ہے۔ وہاں ایک ایسی سرد جنگ شروع ہوئی جو تادم تحریر ای میل کے ذریعے جاری ہے۔ ہوا یوں کہ سفر کی تیاری کے دوران سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے ہمیں ایلس اسپرنگس میں کرائے کی گاڑیوں کے نرخ بہت زیادہ نظر آرہے تھے۔ مگر انٹرنیٹ پہ بہت تلاش کے بعد بالاخر ایک جگہ سے کم قیمت پہ ایک گاڑی مل گئی۔ یا کم از کم ہمارا خیال ہوا کہ ہمیں کم قیمت پہ گاڑی مل گئی ہے۔
ایلس اسپرنگس کے ہوائی اڈے پہ بجٹ کار رینٹل کا کائونٹر سنسان پڑا تھا۔ ہم نے کائونٹر پہ پڑی گھنٹی بجائی تو پیچھے دفتر سے ایک نوجوان سوتی آنکھوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ ہم سے جلدی جلدی کرائے کے معاہدے پہ دستخط لیے گئے اور ہمیں یہ نہ بتایا گیا کہ اسی معاہدے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ سیاحتی مقام ہونے کی علیحدہ فیس اور پھر دفتری کاروائی کا الگ محصول کرائے کی رقم میں شامل کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ آن لائن بکنگ کراتے وقت ان دونوں محصول کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔ پھر نیم خوابیدہ لڑکے نے یہ چالاکی دکھائی کہ ہم سے دستخط کروانے کے بعد وہ معاہدہ ہم سے لے لیا اور ہمیں معاہدے کی نقل نہیں دی۔ چار دن کے بعد ہم نے گاڑی واپس کی تو یہ دونوں محصول کرائے کی رقم میں شامل کیے گئے تھے۔ ہم نے ادائیگی تو کردی مگر ساتھ اس زیادتی کی شکایت کی۔ وہ جھگڑا اس وقت تک ای میل کے ذریعے جاری ہے۔



Labels: , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?