Thursday, December 24, 2015
ایلس اسپرنگس
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو ساٹھ
دسمبر
اٹھارہ، دو ہزار پندرہ
ایلس اسپرنگس
لال مرکز سحر انگیز ہے۔ آپ ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس پہنچیں تو لگتا ہے کہ
آپ کسی دوسرے ملک آگئے ہیں۔ لال مرکز کا تاحد نظر پھیلا سرخ بیاباں آپ کو دعوت
دیتا ہے کہ آپ اس جگہ کو دریافت کرنے کے لیے پیدل نکل جائیں، کسی بھی رخ چل پڑیں،
کچھ کچھ فاصلے پہ رک کر وہاں موجود زمین کو اور دور دور اگی جھاڑیوں کو دیکھیں،
گزرنے والے جانوروں کے پائوں کے نشانات دیکھ کر جانور کی شناخت کرنے کی کوشش کریں،
اور کچھ سستانے کے بعد آگے بڑھ جائیں۔
یورپ سے آنے والے تارکین وطن کی آسٹریلیا آمد سے پہلے ایب اورجنی بہت سادہ
زندگی گزارتے تھے۔ دراصل پرانی دنیا سے ان کا تعلق قریبا چالیس ہزار سال پہلے
منقطع ہوگیا تھا۔ اگر انسان اپنی موجودہ شکل میں افریقہ میں پروان چڑھا تو یہ لوگ
آسٹریلیا کیسے پہنچے؟ شاید آسٹریلیا کے یہ قدیم باشندے اس علاقے سے جو اس وقت
ملائیشیا ہے پیدل چلتے ہوئے آسٹریلیا پہنچے تھے اور ایسا اس لیے ممکن ہو پایا
کیونکہ اس وقت دنیا ایک برفانی دور سے گزر رہی تھی۔ دنیا کا زیادہ تر پانی قطبین
پہ جمع تھا اور سمندر اتھلے ہوگئے تھے۔ اور اسی وجہ سے موجودہ ملائیشیا سے
آسٹریلیا تک ایک زمینی پل موجود تھا۔ شاید اسی پل پہ چلتے ہوئے یہ قدیم لوگ
آسٹریلیا پہنچے۔ ان کے آسٹریلیا پہنچنے کے ہزاروں سال بعد جب برفانی دور ختم
ہوا، سمندروں میں پانی بڑھا، ملائیشیا سے آسٹریلیا کے درمیان کا علاقہ زیرآب
آگیا، اور صرف اونچے مقامات انڈونیشیا کے جزائر کی صورت میں بچ گئے تو یہ لوگ
پرانی دنیا سے کٹ گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انسان شکاری،بٹوریا یا ہنٹر گیدرر
ہوا کرتا تھا۔ ہماری واحد کامیابی یہ تھی کہ ہم نے آگ کو قابو کرلیا تھا۔ انسان
نے نہ تو زراعت ایجاد کی تھی اور نہ ہی جانور پالنے کا فن سیکھا تھا۔ آسٹریلیا
میں ان لوگوں کو کھانے پینے کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ شکار کے لیے بہت سے جانور موجود
تھے اور بٹورنے کے لیے کثیر تعداد میں پھل اور پودے۔ اور اسی وجہ سے قریبا چار سو
سال پہلے جب یورپی مہم جو آسٹریلیا پہنچے تو وہ ان لوگوں کو دیکھ کر بہت حیران
ہوئے۔ کیا کھیت کھلیان، کیا مویشی، کیا پہیہ، کیا سونا اور تانبہ اور کیا رسم
الخط، بظاہر ان لوگوں کے پاس یورپ سے آنے والوں کو دکھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اور
اسی وجہ سے بہت عرصے تک یورپی، آسٹریلیا کے ان مقامی لوگوں کو انسان خیال نہیں
کرتے تھے بلکہ انہیں انسان نما جانور کے زمرے میں ڈالتے تھے۔
اگر دو ایسے انسانی گروہوں کا سامنا ہو جو زندگی کو بہت مختلف طریقے سے دیکھتے
ہوں تو ان کے درمیان چپقلش ناگزیر ہے۔
یورپی تارکین وطن اور آسٹریلیا کے پرانے باسیوں کے درمیان ایسی چپقلش آج
تک موجود ہے۔
ایب اورجنی ہمیں ایلس اسپرنگس کے مرکز شہر میں خوردونوش اسٹور کے آس پاس بے
مصرف ٹہلتے نظر آتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ لوگ نئے دور کی اس زندگی سے
سمجھوتہ نہیں کر پائے ہیں جو مغربی دنیا کی دین ہے۔ یورپ سے آنے والا شخص مقامی
آدمی کو بتا رہا ہے کہ صبح صبح اٹھنا ہوتا ہے، پھر سارا دن کام کرنا ہوتا ہے، پھر
دو ہفتے کے بعد تنخواہ ملتی ہے جس سے سارے بل چکانے ہوتے ہیں، اور وہ مقامی شخص
حیران ہے کہ یہ نئے طرز کی زندگی کیسی ہے جس میں زندگی جینے پہ سب سے کم توجہ ہے۔
یہ کیسی زندگی ہے جس میں انسان مستقل کسی مشین کا پرزہ بنا کام کررہا ہے؟ وہ مقامی
شخص سوچتا ہےکہ یورپیوں کے آنے سے پہلے تو ایسا نہ تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ نہ ہمارے
پاس پختہ گھر تھے، نہ سڑکیں تھیں، نہ گاڑیاں تھیں، مگر ہم آرام سے اپنی زندگی تو
جیتے تھے، ہر پل کے خوب مزے تو لوٹتے تھے۔ ہمارے پاس نہ پیسہ تھا اور نہ ہی کسی بل
کی ادائیگی کی ضرورت۔ پانی کا بل، بجلی کا بل، فون کا بل، انٹرنیٹ کا بل، کریڈٹ
کارڈ کی ادائیگی، گاڑی کا خرچہ، کرایہ، مورگیج، ان یورپیوں کے آنے کے بعد ہم کس
جنجال میں پھنس گئے ہیں۔ صبح سے شام کام کرنا، پھر تنخواہ ملنے پہ خریداری کر کے
زندگی گزارنا کتنا عجیب ہے۔ پہلے کتنی آسانی تھی۔ بھوک لگتی تھی تو اس کو مٹانے
کا براہ راست انتظام کرتے تھے۔ اور یہ انتظام کرنا اتنا مشکل نہ تھا۔ جنگل میں جا
کر کھانے کے قابل پھلوں اور پتوں کو جمع کرنا تھا، یا پھر گھات لگا کر کسی جانور
کا شکار کرنا تھا۔ اس کام میں کچھ وقت تو لگتا تھا مگر پھر دن کا بقیہ حصہ زندگی
کو بھرپور طریقے سے جینے میں گزرتا تھا۔ اس زندگی کا وہی سادہ مقصد تھا جو کسی
درخت کا ہوتا ہے، جی داری سے زندگی گزارنا، نسل آگے بڑھانا اور ایک دن مرجانا۔
مجھے ایب اورجنی لوگوں سے ہمدردی ہے اور میں خود بھی اسی طرح سوچتا ہوں کہ
زندگی گزارنا ایک گنجلک معاملہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی میں جس قدر سادگی ہو،
اتنا اچھا ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ وقت کی ہوا کسی اور رخ چل رہی ہے۔ نئے دور کا
انسان زندگی سے پریشان ضرور ہے مگر اس کی آسائشیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
یورپ سے آنے والے لوگوں کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی تھی اور مہلک ہتھیار۔ ایب
اورجنی اس جدید ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہ کرپائے۔ وہ پسپا ہوگئے۔ جو جگہیں یورپی
نوواردوں نے اپنے رہنے کے لیے چنیں ان جگہوں پہ ایب اورجنی کا صفایا ہوگیا۔ اور
لال مرکز ان لوگوں کا خاص گڑھ بن گیا۔ شکست خوردہ لوگوں کی ایسی آماجگاہ جہاں وہ
دوسروں کے بنائے گئے اصولوں کے حساب سے زندگی تو گزار رہے ہیں مگر بہت زیادہ خوش
نہیں ہیں۔
Labels: Aborigines, Alice Springs, Australia, Red Centre, Uluru