Monday, December 30, 2013
جناح کی سالگرہ، بنگلہ دیش کی پیداءش
دسمبر انتیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو انہتر
جناح کی سالگرہ، بنگلہ دیش
کی پیداءش
یہ مضمون
دسمبر پچیس کو منعقد کی جانے والی ایک محفل میں پڑھا گیا تھا۔
دسمبر کا
مہینہ صرف محمد علی جناح کی پیداءش کا مہینہ ہی نہیں ہے بلکہ سقوط ڈھاکہ کا مہینہ
بھی ہے۔ جہاں جناح کی سالگرہ موجودہ پاکستان کے لیے خوشی کا تہوار ہے وہیں بنگلہ
دیش کی پیداءش پاکستانیوں کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے جس کے تصور ہی سے دل مکدر
ہوجاتا ہے۔ میں بہت عرصے تک اس دشوار حقیقت سے شعوری طور پہ نمٹنے میں ناکام رہا۔
ریاست کیا
ہے، لوگوں کی پہچان کیسے بنتی ہے، اور جدید ریاست کی کامیابی کیا ہے، میں نے ان
موضوعات کے بارے میں سوچا اور انہیں کھنگالا تو میں ہلکا ہوتا گیا۔ دسمبر کا مہینہ
مجھ پہ آسان ہوتا گیا۔ آج کا مختصر مضمون ان ہی خیالات سے متعلق ہے۔
لوگ اپنی
پہچان اپنے رنگ و نسل، اپنے مذہب، اپنی زبان، اپنے جغرافیاءی تعلق سے کرتے ہیں اور
دنیا میں کءی جگہ موجود ایسے درخت جو چار پانچ ہزار سال پرانے ہیں، لوگوں کی اس
پہچان پہ ہنستے ہوں گے۔ اس دنیا میں انسان کی تحریر شدہ تاریخ بمشکل تین ہزار سال
پرانی ہے۔ یہ درخت اس تاریخ سے بہت زیادہ قدیم ہیں۔ لوگوں کی اس پہچان پہ جس پہ یہ
فخر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، ان درختوں نے
اسے اپنے سامنے بنتے، سنورتے، بگڑتے دیکھا ہے۔ اور اس دنیا میں ایسے پہاڑ ہیں
جنہوں نے انسانی ارتقا کی پوری داستان اپنے سامنے رقم ہوتے دیکھی ہے۔ انہوں نے
لوسی کے بچوں کا افریقہ سے نکلنا اور دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جانا دیکھا ہے۔
کچھ لوگوں کا سرد علاقوں میں بس
جانا، اور کچھ کا گرم و مرطوب علاقوں میں رہ جانا۔ اور پھر ان مختلف گروہوں کا ان
جغرافیائی خطوں میں ہزاروں سال رہتے رہنا۔ اور ان جغرافیائی خطوں کی آب و ہوا کا
وہاں رہنے والوں کے جسموں، رنگ و روپ پہ اثرانداز ہونا دیکھا ہے۔ اور یوں چند ہزار
سالوں کے بعد ایک دوسرے سے بچھڑنے پہ لوگوں کا نسلوں میں بٹ جانا۔ اور پھر جب
لوگوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا تو طویل عرصے پہلے اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں
بہنوں کی شکلیں دیکھ کر حیران ہونا۔ یہ پہاڑ نسلی فرق کو لڑائی جھگڑے کا سبب بنانے
والوں کو دیکھ کر یقینا ہنستے ہوں گے۔
اور انہوں نے انسان کا بستیوں کی
صورت میں بسنے کا عمل دیکھا ہے۔ اور انسان کا زراعت دریافت کرنا۔ اور غلہ بانی کے
طریقے جان جانا۔ اور پھر کھانے پینے کا سہارا ہوجانا تو زندگی کا مقصد تلاش کرنا۔
اور پھر اپنی سوچ سے خدا تک پہنچنے کی جستجو کرنا۔ اور سوچ کے ان راستوں کو مختلف
مذاہب کی شکل دینا۔ یہ پہاڑ مذہبی اختلاف پہ ایک دوسرے سے لڑجانے والوں کو دیکھ کر
یقینا ہنستے ہوں گے۔
اور انہوں نے انسان کا دوسرے
جانوروں پہ اس طرح حاوی ہونا کہ منہہ سے نکلنے والی آوازوں کو طرح طرح کی صوتی
شکلیں دینا دیکھا ہے۔ اور پھر انسان کا بولی ایجاد کرنا۔ اور پھر پرتنوع حالات میں
اس ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنا۔ اور پھر ایک انسانی گروہ کا دوسرے انسانی گروہ سے
سامنا ہونا تو زبان کی بنیاد پہ ایک دوسرے سے لڑجانا۔ یہ پہاڑ لسانی معاملات پہ ایک
دوسرے سے لڑجانے والوں کو دیکھ کر یقینا ہنستے ہوں گے۔
اور انہوں نے انسان کو اپنے جسم کو
سردی اور دھوپ سے بچانے کے لیے پتوں سے ڈھانپتے دیکھا ہے۔ اور بزاروں سال کے عمل
سے انسان کا کپڑے ایجاد کرنا۔ اور پھر اپنے اپنے علاقوں کی آب و ہوا کے حساب سے ان
کپڑوں کی تراش خراش کرنا۔ اور پھر اپنے گروہ کو دوسرے گروہ کے حملے سے محفوظ کرنے
کے لیے سیاسی نظام وضع کرنا۔ اور معاشرے میں نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے منفرد
اخلاقی اقدار اختیار کرنا۔ اور پھر زبان، رہن سہن، سیاسی نظام اور اخلاقی اقدار کو
اپنی ثفاقتی پہچان بنا لینا۔ یہ پہاڑ ثقافتی فرق پہ ایک دوسرے سے لڑجانے والوں کو
دیکھ کر یقینا ہنستے ہوں گے۔
ایک اچھی ریاست کیا ہوتی ہے؟ ایک
کامیاب ریاست وہ ہے جہاں لوگ اپنی اپنی منفرد مذہبی، لسانی، علاقاءی پہچان رکھتے
ہوءے امن سے، اچھی زندگی جی سکیں۔ ایک
پسندیدہ ریاست کی شان اس کے چمکدار ہتھیاروں، دلفریب ملی نغموں، اور سجے فوجی دستوں
کی نماءش میں نہیں؛ ایک اچھی ریاست کی شان اس کے پرشکم بچوں اور محفوظ و مطمءن
عوام میں ہے۔ ہم جناح کے پاکستان کے لیے، جو ہمارا وطن ہے، ایسی ہی کامیاب ریاست
کا خواب دیکھتے ہیں۔
Wednesday, December 25, 2013
گریگ گاپمین کو معاف کردو
دسمبر باءیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اڑسٹھ
گریگ گاپمین کو معاف کردو
میں باد صحرا
نامی ٹرین سے سفر کررہا تھا جو مجھے لاس اینجلس سے ڈینور لے جارہی تھی۔ ٹرین لاس
ویگس کے ریلوے اسٹیشن پہ بہت دیر کھڑی رہی۔ میں غور سے پلٹ فارم پہ ادھر ادھر آتے
جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہاں سے ویگس کی اسٹرپ تو نظر نہیں آرہی تھی مگر مجھے
اندازہ تھا کہ اگر میں ٹرین سے اتر کر ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل جاءوں تو ایک
چمکدار ماحول میں پہنچ جاءوں گا۔ وہ چوڑی سڑک جس کے دونوں طرف بڑے بڑے جواخانے اور
ہوٹل بنے ہیں۔ تیز روشنی، جلتی بجھتی بتیاں، جو آپ کو لبھا رہی ہیں، اپنی قسمت
آزمانے کی دعوت دے رہی ہیں۔ پھر ٹرین چلنا شروع ہوءی۔ ارے، یہ کیا ہوا؟ ٹرین ابھی
پلیٹ فارم سے تھوڑا ہی آگے بڑھی تھی کہ منظر بالکل بدل گیا۔ اب پٹریوں کے دونوں
طرف کارڈبورڈ کی جھگیاں تھیں۔ جو مسافر نظاروں سےلطف اندوز ہونے کے خیال سے ٹرین
کی کھڑکیوں سے باہر دیکھ رہے تھے، یہ منظر
دیکھ کر ہکا بکا رہ گءے۔ میرے قریب بیٹھی ایک عمر رسیدہ عورت نے اس منظر سے منہ
پھیر لیا۔ اس کا سر غیریقینی کے تاثر میں ہل رہا تھا۔ اور یہاں یہ عالم تھا کہ
جھگیوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ ان جھونپڑیوں میں یقینا وہ لوگ رہتے
تھے جو جوے میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھے تھے۔ ان ہی کی ہاری ہوءی رقم سے لاس ویگس
اسٹرپ پہ نءے نءے جوا خانے بن رہے تھے اور یہ پٹے ہوءے جواری چمکدار ماحول سے دور
پھینک دیے گءے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ بے گھری امریکہ کا
کتنا بڑا مسءلہ ہے۔
بہت سے لوگ
گریگ گاپمین نامی ایک ٹیکنالوجسٹ کے سخت خلاف ہیں۔ وہ گریگ پہ لعن طعن کررہے ہیں۔
ان کے نزدیک گریگ گاپمین ایک برا آدمی ہے کیونکہ
اپنی ایک ٹوءیٹ میں اس نے سان فرانسسکو کے بے گھر لوگوں کو کچرا قرار دیا
اور تجویز پیش کی کہ اس کچرے کو شہر کے اچھے علاقوں سے دور ہونا چاہیے۔ میں گریگ
گاپمین کو برا آدمی نہیں سمجھتا؛ میں اسے ایک خوشحال مگر اجڈ شخص سمجھتا ہوں جو
ابھی بات کرنے کا سلیقہ سیکھ رہا ہے۔ اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ بے گھر
لوگوں سے متعلق گریگ نے جو بات کہی وہ کس سوچ کی نشاندہی کرتی ہے اور کس طرح گریگ
کی عام تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی ایک واضح مثال ہے۔
سب سے پہلے
تو ایک بات واضح ہوجاءے کہ دنیا بھر میں پھیلے نباتاتی اور حیواناتی نمونے زندگی
سے پیار کرتے ہیں اور موت سے دور بھاگتے ہیں۔ ہر بو، ہر ذاءقہ، ہر نظارہ، ہر آواز،
ہر لمس جو موت کی ترجمان ہے انسان کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ انسان موت کے اس چہرے سے دو
بھاگنا چاہتا ہے۔ موت کے ایسے ہرمظہر سے نفرت انسان کی طبیعت میں شامل ہے۔ انسانی
فضلے کی بو، گندگی کی بو سے نفرت ہمارے خمیر کا حصہ ہے کیونکہ یہ بو بیماری سے،
موت سے متعلق ہے۔ اب آجاءیے گریگ گاپمین کی ٹوءیٹ کی طرف۔ گریگ کو اگر بات کرنے کا
سلیقہ ہوتا تو وہ وضاحت سے کہتا کہ 'مجھے بے گھر لوگوں سے بہت ہمدردی ہے مگر ان کے
پاس سے آنے والی بو مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔' اگر گریگ بات کو اس طرح سمجھاتا تو
یقینا لوگ اس سے ناراض نہ ہوتے۔ لوگ سمجھ جاتے کہ گریگ کو غربت سے نفرت ہے، غریب
سے نہیں۔
میرا اکثر
سان فرانسسکو جانا ہوتا ہے۔ میں یہ سفر ٹرین سے کرنا پسند کرتا ہوں۔ میں جب سوک
سینٹر کے اسٹیشن سے نکل کر باہر شہر کی سڑکوں پہ آتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ
اگر کوءی بے گھر اپنی ریڑھی چلاتا نظر آءے تو میں اس سے اتنے فاصلے سے گزروں کہ اس
کے گرد پھیلے بدبو کے ہیولے سے دو رہوں۔ مجھے بے گھر لوگوں سے بہت ہمدردی ہے مگر
پسینے اور غلاظت کی بدبو سے کراہیت میری طبیعت میں شامل ہے۔ میں بے گھر لوگوں کا
درد سمجھتے ہوءے بھی آپ سے یہ جھوٹ نہیں بول سکتا کہ بے گھر لوگوں سے آنے والی بو
مجھے پسند ہے۔ بے گھر لوگوں کے پاس سے بدبو کیوں آتی ہے؟ اس لیے کیونکہ وہ بے گھر
ہیں؛ ان کے پاس اپنے آپ کو صاف رکھنے کی سہولت موجود نہیں ہے؛ ان کے پاس نہانے کا
کوءی انتظام نہیں ہے۔ اگر آپ سان فرانسسکو لاءبریری کا مشاہدہ اس کے کھلنے اور بند
ہونے کے اوقات میں کریں تو آپ کو میری بات اچھی طرح سمجھ آجاءے گی۔ سان فرانسسکو
پبلک لاءبریری جب صبح کھلتی ہے تو اس لاءبریری میں سب سے پہلے داخل ہونے والے
لوگوں میں یہ بے گھر لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے رات لاءبریری کے آس پاس سڑکوں پہ
گزاری ہوتی ہے اور لاءبریری کھلنے پہ یہ لوگ لاءبریری کی ضرورت گاہ استعمال کرنے
کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
گریگ گاپمین
جیسے بہت سے لوگ ہوں گے جنہیں سان فرانسسکو کی سڑکوں پہ ان بدبودار لوگوں کی
موجودگی پسند نہیں ہے۔ بے گھر لوگوں کا مسءلہ بہت بڑا ہے اور اس کو حل کرنے کے لیے
بڑے وساءل کی ضرورت ہے۔ مگر بے گھری سے وابستہ بدبو دور کرنے کا مسءلہ نسبتا سادہ
ہے۔ سان فرانسسکو میں ایسے غسلخانے کیوں نہیں بناءے جاسکتے جہاں بےگھر لوگ نہا
سکیں؟ معاشرے کا متمول طبقہ اگر بے گھر لوگوں کو سرچھپانے کے ٹھکانے نہیں فراہم
کرسکتا تو کم از کم ان کی جسمانی صفاءی کا تو انتظام کرسکتا ہے۔
Labels: Angelhack, anti-poor, Garbage, Greg Gopman not a jerk, Homeless ruining San Francisco, Homelessness, just uncouth, rant, San Francisco Public Library, tweet
Saturday, December 14, 2013
میری کہانی
دسمبر آٹھ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو سرسٹھ
میری کہانی
آج میں آپ کو
اپنی کہانی سنانا چاہوں گا۔ زندگی بھر کی داستان نہیں بلکہ کہانی کا وہ حصہ جو آج
کے موضوع سے متعلق ہے۔
جب میں نے
سنہ ۸۹ میں جنوبی کیلی فورنیا میں ایک جگہ
کام شروع کیا تو میں کریڈٹ کارڈ قرضوں میں جکڑا ہوا تھا۔ مجھ پہ یہ قرضے اس طرح
چڑھے تھے کہ یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر میں ایک سال قیام کے دوران میری آمدنی
واجبی تھی اور اخراجات اس سے کہیں زیادہ۔ میں نے پی ایچ ڈی کا کوالیفاءر پاس کرلیا
تھا اور اپنے میجر پروفیسر ڈاکٹر کراءڈر کے کام کے ساتھ ان کی تسلیوں سے جڑا تھا
کہ اپنی تحقیق کی سرمایہ کاری کے لیے انہوں نے جو درخواستیں مختلف اداروں کو بھیجی
ہیں ان میں سے کوءی نہ کوءی جلد قبول ہوجاءے گی۔ گرانٹ قبول ہونے کی دیر ہے، پیسے
کی ریل پیل ہوگی اور مجھے بھی تحقیق کے کام کے عوض ماہانہ تنخواہ ملنے لگے گی۔ مگر
ایسا نہ ہوا؛ سال بھر گزر گیا اور کراءڈر کے ہاتھ خالی رہے۔ میں اس عرصے میں کریڈٹ
کارڈ پہ خرچہ کرکے اپنا گزر بسر کرتا رہا اور قرض میں دھنستا چلا گیا۔ کریڈٹ کارڈ
کے قرضوں کے علاوہ میرے اوپر گاڑی کا قرضہ بھی تھا جس کی ماہانہ رقم جاتی تھی۔
میری واجبی آمدنی انڈرگریجویٹ طلبا کے امتحانی پرچوں کی جانچ سے ہوتی تھی۔ کراءڈر
اگر کسی کانفرینس کے سلسلے میں جامعہ سے باہر ہوں تو میں ان کی تھرمو یا ہیٹ
ٹرانسفر کی کلاس بھی پڑھا دیا کرتا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ آمدنی کم اور اخراجات
زیادہ تھے۔ کبھی ایسا ہوا کہ میرے پاس گاڑی کی ماہانہ قسط جمع کرانے کے پیسے نہ
ہوءے تو میں نے ایک کریڈٹ کارڈ پہ کیش ایڈوانس لے کر اسے بینک میں جمع کرایا اور
اس میں سے کچھ رقم سے گاڑی کی قسط ، اور دوسرے کریڈٹ کارڈوں کی ماہانہ کم از کم
رقومات ادا کردیں۔ کچھ ہی عرصے میں قرضوں کا داءرہ میرے گرد تنگ ہونے لگا اور واضح
ہوگیا کہ زیادہ دیر اس طرح کام نہ چلے گا۔ میں نے نوکری کی تلاش شروع کردی۔ جنوبی
کیلی فورنیا کی ایک کمپنی نے مجھے انٹرویو کے لیے بلایا مگر کہہ دیا کہ ہم تمھیں
آنے جانے اور قیام کے پیسے نہیں دے سکتے؛ تم آجاءو تو تمھارا انٹرویو کرلیں گے۔
مختصر یہ کہ میرا انٹرویو ہوا اور میں نے اگست ۸۹ سے وہاں کام شروع کردیا۔ ان سارے
حالات سے گزرنے پہ مجھے اندازہ ہوا کہ مالی تنگدستی کیا ہوتی ہے اور وہ انسان کو
کیسے مجبور بنا دیتی ہے۔ میں نے تہیہ کیا کہ نہ صرف یہ کہ مجھے جلد از جلد قرضوں
سے نجات حاصل کرنی ہے بلکہ زندگی میں آءندہ کبھی ایسا وقت نہیں آنے دینا کہ مجھے
قرض لینا پڑے۔ جنوبی کیلی فورنیا میں کام کرنے کے دوران میرا سارا دھیان بچت پہ
تھا۔ میں نوکری کرنے کے ساتھ مستقل اضافی آمدنی کے طریقے ڈھونڈتا۔ ایک دفعہ کمپنی
کی ایک ملازمہ نے مجھے بتایا کہ اس کو اپنی گاڑی کا ہیڈ لمپ بدلوانا تھا کہ پرانا
والا جل گیا تھا۔ میں نے فورا پیشکش کی میں اس کا یہ کام کم قیمت پہ کردوں گا۔ اس
سے پہلے میں نے کبھی کسی گاڑی کا لمپ نہیں بدلا تھا۔ میں نے قریبی لاءبریری جاکر
ایک کتاب پڑھ کر یہ ہنر سمجھا اور خاتون کی گاڑی کا لمپ بدل کر کچھ پیسے بنالیے۔
اپریل قریب آیا تو میں نے ایک ٹیکس سروس شروع کی اور حسن امیگریشن اینڈ ٹیکس نامی
کمپنی کے کارڈ چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کیے۔ اور یوں ہسپانوی تارکین وطن کے ٹیکس فارم
بھر کر اپنے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ پیدا کیا۔ اس کے ساتھ ہی انجینءیرنگ سلوشنز
نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی تاکہ جو کام دن کے وقت اپنی کمپنی کے لیے کروں اسی
طرح کا کام شام کے وقت یا اختتام ہفتہ پہ دوسروں کے لیے کرسکوں۔ اس ساری محنت کا
یہ نتیجہ نکلا کہ میں سال بھر کے اندر قرضوں سے باہر نکل آیا۔ آمدنی کو دانتوں سے
بھینچ کر خرچ کرتا تھا اس لیے اب رقم جڑنا شروع ہوگءی۔ ڈھاءی سال گزر گءے۔ سنہ ۹۲ میرے
لیے ایک اچھا سال تھا۔ پے درپے دو امتحانات میں کامیابی حاصل کر کے میں نے ریاست
کیلی فورنیا کا انجینءیرنگ لاءسینس حاصل کرلیا۔ میں مشاورتی انجینءیرنگ کے جس کام
سے وابستہ ہوں اس کام میں ریاست کے لاءسینس کی بہت اہمیت ہے۔ لاءسینس حاصل کرنے کے
بعد مجھے آزادی کا احساس ہوا۔ اب میں مشاورتی انجینءیرنگ کا اپنا کام کرسکتا تھا۔ آزادی
کے حصول کے ساتھ میری مالی حیثیت بھی مضبوط ہوگءی تھی۔ مستقل ہاتھ بھینچ کر خرچہ کرنے کی وجہ سے میرا
بینک بیلنس بیس ہزار ڈالر سے اوپر ہوگیا تھا۔ سنہ ۹۲ میں یہ اچھی بڑی رقم تھی۔ میں
ساتویں آسمان پہ تھا۔ اب مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ ایک راستہ تو وہ
تھا جو میرے دوسرے ساتھیوں نے اپنایا۔ یعنی پس انداز رقم کو گھر کی ڈاءون پیمینٹ
کے لیے استعمال کیا اور یوں 'اپنے' کشادہ گھروں میں رہنے لگے۔ مگر یہ تو دوبارہ
قرض میں پھنسنے کا راستہ تھا۔ میں اس کے لیے تیار نہ تھا۔ بہت مشکلوں سے تو مجھے
آزادی ملی تھی، میں واپس قید کی زندگی کیسے اختیار کرسکتا تھا؟ میں تو آزادی سے
دنیا کی سیر کرنا چاہتا تھا۔ میں نے لاس اینجلس سے لندن کا یک طرفہ ٹکٹ لیا اور
دنیا دیکھنے کے لیے نکل گیا۔ برطانیہ سے اوپر اسکاٹ لینڈ گیا پھر نیچے آیا، رودبار
انگلستان پار کرکے فرانس چلا گیا، پھر وہاں سے اطالیہ۔ جزیرہ نما اطالیہ میں نیچے
آتے ہوءے باری تک پہنچا اور بحری جہاز لے کر یونان گیا۔ ایتھنز پہنچ کر مشرقی یورپ
کے نءے کھلنے والے ملکوں کے ویزے حاصل کیے اور تھیسالونیکی سے بلغاریہ پہنچا۔ پھر
آگے رومانیہ، ہنگری، چیکوسلاواکیہ [یہ اس وقت تک ایک ہی ملک تھا]، اور پولینڈ۔
گڈانسک سے پھر ایک بحری جہاز میں سوار ہوا اور ہیلسنکی پہنچ گیا۔ فن لینڈ، سوءیڈن،
اور ناروے، تینوں جگہ اوپر نیچے سفر کیا اور کءی بار آرکٹک داءرے میں داخل ہوا۔
ناورے سے ڈنمارک آیا اور پھر وہاں سے جرمنی۔ جرمنی سے ہالینڈ پہنچ کر تھم گیا۔ اب
گھر کا آرام چھوڑَے چھ ماہ گزر چکے تھے۔ امریکہ سے جو رقم لے کر چلا تھا وہ ختم کے
قریب تھی۔ ایمسٹرڈیم میں یہ انتظام کیا کہ امریکہ میں اپنے بینک اکاءونٹ سے مزید
رقم حاصل کی۔ اس وقت جنوبی افریقہ میں سیاسی اتھل پتھل تھی۔ اس تیزی سے بدلتی
سیاسی بساط کو قریب سے دیکھنے کی خواہش میں اڑ کر جوہانسبرگ چلا گیا۔ جوہانسبرگ
میں قیام کے دوران چند ساتھی مل گءے؛ ان لوگوں کے ساتھ کراءے کی گاڑی لے کر سوازی
لینڈ گیا جہاں ایک جگہ ہماری گاڑی سے ہم چاروں کا سارا سامان چوری ہوگیا۔ ہماری
قیمتی اشیا یعنی پاسپورٹ اور رقم کیونکہ ہمارے ساتھ تھیں اس لیے صرف تن کے کپڑوں
کے علاوہ وہ چیزیں بچیں۔ واپس جنوبی افریقہ میں داخل ہونے کے بعد کیپ ٹاءون گیا۔
وہاں سے پلٹا اور زمبابوے میں داخل ہوگیا۔ پھر آگے زیمبیا، ملاوی، اور تنزانیہ کا
زمینی سفر کرتا ہوا کینیا پہنچا۔ اب امریکہ چھوڑے آٹھ ماہ ہونے کو آءے تھے۔ مالی
طور پہ بھی یہ حالت تھی کہ اور خرچہ کرتا تو دوبارہ تنگدستی کے اس مقام پہ پہنچ
جاتا جہاں سمجھوتے کی زندگی گزارنا لازم ہوجاتا ہے۔ میں دودھ کا جلا تھا، عافیت
اسی میں جانی کہ جہاز لے کر کراچی پہنچ جاءوں۔ آٹھ ماہ اور باءیس ممالک کے اس طویل
سفر سے یہ ہوا کہ میرے پاس لوگوں کو سنانے کے لیے بہت سی کہانیاں جمع ہوگءیں۔
لکھنا تو میں نے اوءل عمر میں ہی شروع کردیا تھا مگر سنہ ۹۳ میں کراچی پہنچ کر میں
باقاعدہ طور پہ اخبارات کے لیے لکھنے لگا۔ سفر کے مشاہدات کے ساتھ ہی اپنے ملک کے
حالات بھی میری تحریروں کا موضوع تھے۔ میں وہ شخص نہیں رہا تھا جس نے کءی برس پہلے
پاکستان چھوڑا تھا، اور نہ ہی میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے یا تو پاکستان دیکھا
ہو یا مغربی دنیا۔ میں تو افریقہ سے پلٹا تھا اور دیکھ سکتا تھا کہ نوآبادیاتی
نظام کے خاتمے کے بعد آزاد ہونے والے مختلف ممالک اپنے اپنے مخصوص حالات سے کیسے
نبردآزما ہورہے ہیں۔ میرے اندر موجود کتابیں رفتہ رفتہ باہر آنا شروع ہوءیں۔ پہلی
کتاب ایک ناول تھی جس کا عنوان تھا 'راستہ جو منزل ہے'۔ یہ کتاب مکتبہ دانیال کراچی نے شاءع کی۔ اگلی
کتاب مختصر مضامین اور مشاہدات پہ مبنی تھی؛ اس کا نام 'خیال باری' تھا۔ تیسری
کتاب کا نام 'خشک و تر، ملک و لوگ' تھا۔ اور اس طرح کتابیں لکھنے کا یہ سلسلہ
تاحال جاری ہے۔ حال میں 'خیال باری' طباعت سوءم کے مرحلے سے گزری ہے اور اب یہ آن
لاءن، امیزان ڈاٹ کام پہ دستیاب ہے۔ اگر آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو میں آپ سے
درخواست کروں گا آپ امیزان سے 'خیال باری' ضرور حاصل کریں۔ مجھے یقین ہے کہ نہ صرف
اس کتاب کو پڑھ کر آپ خوش ہوں گے بلکہ آپ کچھ ایسی باتیں بھی سیکھیں گے جن سے آپ
کو اپنی زندگی سلجھانے میں مدد ملے گی۔
کتاب یہاں
دستیاب ہے
Labels: Aag Hawa Mattee Panee, Books by Cemendtaur, Khayal Bari, Khushk-o-tar Mulk-wa-Loag, Rasta Jo Manzil Hai, Rio 47 Din Late, Thoughts & Travels, travelogue, Urdu books
Tuesday, December 03, 2013
مصیبت کو نعمت بنانے کا فن
دسمبر ایک، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو چھیاسٹھ
مصیبت کو نعمت بنانے کا فن
زندگی غیریقینی سے بھری ہے۔ یہ پل بھر میں آپ کو ایک جگہ سے
دوسری یکسر مختلف جگہ پہنچا دیتی ہے۔ انسان سکون سے ہوتا ہے کہ اچانک زندگی پینترا
بدلتی ہے اور انسان مشکل میں گھر جاتا ہے۔ میں بھی زندگی کے مختلف داءو پیچ سے
نبردآزما رہتا ہوں۔ مگر اچھا ہوا کہ بہت سے لوگوں کی زندگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد،
کءی داناءوں کی نصیحتیں سننے کے بعد، اور زندگی سے اتنی دیر تک جوجنے کے بعد مجھے
ایک سبق بہت اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہے۔ اور وہ یہ کہ جب کبھی مصیبت آءے تو یہ غور
کرو کہ اس مصیبت کو پلٹ کر اپنے لیے نعمت کیسے بنا سکتے ہو۔ راحت کی گھڑی کی نعمت
کو سمجھنا تو سب کے لیے آسان ہے؛ اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اپنے فاءدے کے لیے
استعمال کرنا اصل کمال ہے۔ اورجس نے ایسا کرلیا وہ جیت گیا۔ پچھلے بدھ کو میرے
ساتھ ایسا ہی واقعہ ہوا۔ میں نے سارا دن مرینا نامی قصبے میں ایک دفتری مصروفیت
میں لگایا تھا۔ اب شام ہوچلی تھی اور ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔مصروفیت ختم ہونے
کے بعد میں گاڑی میں آکر بیٹھا اور چابی اگنیشن میں لگا کر گھماءی تو محض ایک ٹک
کی آواز آءی اور انجن بالکل بے جان رہا۔ گاڑی کی بیٹری بیٹھ گءی تھی۔ میں نے فورا
گاڑی کی بتی کے سوءچ کو دیکھا۔ گاڑی کی بتی جل رہی تھی۔ واضح تھا کہ جب میں اپنی کاروباری مصروفیت سے
گیا تو گاڑی کی بتی کھلی چھوڑ گیا تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ مجھے آخر دن میں گاڑی
کے لمپ جلانے کی ضرورت کیوں پیش آءی۔ ہوا یوں کہ میں سلیناز نامی شہر سے مرینا آیا
تھا۔ اس راستے میں ایک جگہ سڑک دورویہ ٹریفک کی وجہ سے خطرناک ہے۔ وہاں روڈ کے
ساتھ تاکیدی ساءن لگا ہے کہ گاڑی کی بتی کھول لی جاءے۔ میں نے ایسا ہی کیا مگر
مرینا پہنچ کر بتی کو بند کرنا بھول گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ پانچ گھنٹے بعد گاڑی کی
بیٹری بیٹھ چکی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ جن لوگوں سے مل کر نکلا تھا ان کے پاس واپس جاءوں
اور تلاش کروں کہ ان میں سے کسی سے جمپر کیبل مل جاءے۔ مگر پھر میں نے ایسا کرنا
مناسب خیال نہ کیا کہ ان لوگوں سے کاروباری رشتہ تھا اور اس رشتے میں یوں سوالی
بننا اچھا نہ تھا۔ میں نے گاڑی کی انشورینس کمپنی کو فون کردیا۔ انہوں نے ساری
تفصیلات لینے کے بعد مجھے بتایا کہ میری مدد کے لیے ایک ٹرک چالیس منٹ میں آءے گا۔
مجھے سلیناز واپس پہنچنے کی جلدی تھی اور یہ لوگ مجھے چالیس منٹ انتظار کرنے کو
کہہ رہے تھے۔ میں نے فون تو رکھ دیا مگر میرے اندر اس ناگہانی مصیبت پہ ایک غصہ
امڈنے لگا۔ اچھا ہوا کہ اسی وقت مجھے وہ پرانا سبق یاد آگیا۔ مصیبت کو پلٹ کر اپنے
لیے نعمت بنا لو۔ میں نے سوچا کہ میں ان چالیس منٹوں میں کیا تعمیری کام کرسکتا
تھا۔ میرا لیپ ٹاپ چارج حالت میں تھا اور میں اس پہ کام کرسکتا تھا۔ جو بہت سے
دفتری کام مجھے کرنے تھے ان میں پہلا کام کیمرے سے تصویروں کو کمپیوٹر پہ ڈاءون
لینڈ کرنے کا تھا۔ میں نے لیپ ٹاپ نکالا، کیمرے اور لیپ ٹاپ کو یو ایس بی سے جوڑا
اور کیمرے سے تصویریں کمپیوٹر میں ڈاءون لوڈ کرنے لگا۔ میں نے ابھی یہ کام شروع ہی
کیا تھا کہ فون کی گھنٹی بج گءی۔ دوسری طرف موجود خاتون نے بتایا کہ میری مدد کے
لیے آنے والا ٹرک میرے پتے کے بالکل قریب تھا؛ انہیں معلوم کرنا تھا کہ میری گاڑی
اندر پارکنگ لاٹ میں کہاں کھڑی ہے۔ میں نے گاڑی کی جگہ انہیں بتانے کے بعد فون بند
کردیا۔ کہاں یہ ٹرک چالیس منٹ میں آرہا تھا اور کہاں اب یہ پانچ منٹ میں ہی پہنچا
جارہا تھا۔ اب مجھے جلدی ہوءی کہ ٹرک کے آنے سے پہلے کیمرے سے کمپیوٹر میں تصاویر
کی منتقلی کا کام مکمل ہوجاءے۔ میں نے کچھ ہی دیر میں ٹرک کو پارکنگ لاٹ کے اندر
آتے دیکھا تو گاڑی سے باہر نکل کر کھڑا ہوگیا اور زور زور سے ہاتھ ہلا کر اسے اپنی
طرف متوجہ کیا۔ ٹرک والے نے میری گاڑی کو جمپ اسٹارٹ دیا اور ذرا سی دیر میں وہاں
سے روانہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد جب میں دوبارہ روڈ پہ تھا تو میں ترون تیجپال کے
متعلق سوچ رہا تھا۔ اس وقت تک ترون گرفتار نہیں ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا
ترون کو بھی زندگی کا یہ اہم سبق ازبر ہے۔ اور ترون کے لیے ضروری تھا کہ اس نے
داناءوں کی یہ نصیحت گرہ سے باندھ لی ہو
کیونکہ ایک ہفتے پہلے ترون تیج پال کی شہرت محض ایک خاص حلقے میں تھی۔ مگر اس پہ
لگنے والے حالیہ الزامات کے بعد ترون کا نام بھارت میں ہرعام و خاص کی زبان پہ اور
جنوبی ایشیا میں دلچسپی رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کی گفتگو میں آگیا تھا۔ ہاں، یہ
شدید مصیبت کا وقت ہے ترون پہ، مگر ترون یہ بھی تو دیکھے کہ وہ کس طرح راتوں رات
بہت زیادہ بدنام [مشہور] ہوگیا ہے۔ اگر اس
کے ساتھی صحافی، ترون کا تہلکہ میگزین چھوڑ کر جابھی رہے ہیں تو کیا ہوا، ترون کو
چاہیے کہ تہلکہ کا اگلا شمارہ ضرور نکالے۔ اور اگلا شمارہ اس شان سے نکالے کے خود
پیچھے ہٹ کر کسی دوسرے صحافی کو ترون سے متعلق خبر بیان کرنے دے۔ یہ تو وہ ساری
باتیں تھیں جو مرینا سے سلیناز جاتے ہوءے میں سوچ رہا تھا۔ مگر ترون ایسا نہ
کرپایا۔ یہ سیلاب ترون کے حوصلے سے کہیں بڑا تھا۔ دوسرے صحافیوں کے علاوہ ترون کی
ساتھی ایڈیٹر شمع چوہدری نے بھی تہلکہ سے استعفی دے دیا۔ اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ
ترون کی عبوری ضمانت کی مدت ختم ہونے پہ ترون کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ترون اس
وقت جیل میں ہے۔ مگر جیل میں ترون کو یہ پیغام ضرور پہنچنا چاہیے کہ اس پہ آنے
والا یہ مشکل وقت بھی گزر جاءے گا؛ اب بھی ترون یہی سوچے کہ اس مصیبت کو پلٹ کر اس
سے اپنی مستقبل کی راحت کا انتظام کیسے کرے۔
Labels: California, Goa, India, Salinas, sexual harassment, Tarun Tejpal, Tehelka editor arrested, Turning around a misery, women's rights