Saturday, December 14, 2013
میری کہانی
دسمبر آٹھ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو سرسٹھ
میری کہانی
آج میں آپ کو
اپنی کہانی سنانا چاہوں گا۔ زندگی بھر کی داستان نہیں بلکہ کہانی کا وہ حصہ جو آج
کے موضوع سے متعلق ہے۔
جب میں نے
سنہ ۸۹ میں جنوبی کیلی فورنیا میں ایک جگہ
کام شروع کیا تو میں کریڈٹ کارڈ قرضوں میں جکڑا ہوا تھا۔ مجھ پہ یہ قرضے اس طرح
چڑھے تھے کہ یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر میں ایک سال قیام کے دوران میری آمدنی
واجبی تھی اور اخراجات اس سے کہیں زیادہ۔ میں نے پی ایچ ڈی کا کوالیفاءر پاس کرلیا
تھا اور اپنے میجر پروفیسر ڈاکٹر کراءڈر کے کام کے ساتھ ان کی تسلیوں سے جڑا تھا
کہ اپنی تحقیق کی سرمایہ کاری کے لیے انہوں نے جو درخواستیں مختلف اداروں کو بھیجی
ہیں ان میں سے کوءی نہ کوءی جلد قبول ہوجاءے گی۔ گرانٹ قبول ہونے کی دیر ہے، پیسے
کی ریل پیل ہوگی اور مجھے بھی تحقیق کے کام کے عوض ماہانہ تنخواہ ملنے لگے گی۔ مگر
ایسا نہ ہوا؛ سال بھر گزر گیا اور کراءڈر کے ہاتھ خالی رہے۔ میں اس عرصے میں کریڈٹ
کارڈ پہ خرچہ کرکے اپنا گزر بسر کرتا رہا اور قرض میں دھنستا چلا گیا۔ کریڈٹ کارڈ
کے قرضوں کے علاوہ میرے اوپر گاڑی کا قرضہ بھی تھا جس کی ماہانہ رقم جاتی تھی۔
میری واجبی آمدنی انڈرگریجویٹ طلبا کے امتحانی پرچوں کی جانچ سے ہوتی تھی۔ کراءڈر
اگر کسی کانفرینس کے سلسلے میں جامعہ سے باہر ہوں تو میں ان کی تھرمو یا ہیٹ
ٹرانسفر کی کلاس بھی پڑھا دیا کرتا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ آمدنی کم اور اخراجات
زیادہ تھے۔ کبھی ایسا ہوا کہ میرے پاس گاڑی کی ماہانہ قسط جمع کرانے کے پیسے نہ
ہوءے تو میں نے ایک کریڈٹ کارڈ پہ کیش ایڈوانس لے کر اسے بینک میں جمع کرایا اور
اس میں سے کچھ رقم سے گاڑی کی قسط ، اور دوسرے کریڈٹ کارڈوں کی ماہانہ کم از کم
رقومات ادا کردیں۔ کچھ ہی عرصے میں قرضوں کا داءرہ میرے گرد تنگ ہونے لگا اور واضح
ہوگیا کہ زیادہ دیر اس طرح کام نہ چلے گا۔ میں نے نوکری کی تلاش شروع کردی۔ جنوبی
کیلی فورنیا کی ایک کمپنی نے مجھے انٹرویو کے لیے بلایا مگر کہہ دیا کہ ہم تمھیں
آنے جانے اور قیام کے پیسے نہیں دے سکتے؛ تم آجاءو تو تمھارا انٹرویو کرلیں گے۔
مختصر یہ کہ میرا انٹرویو ہوا اور میں نے اگست ۸۹ سے وہاں کام شروع کردیا۔ ان سارے
حالات سے گزرنے پہ مجھے اندازہ ہوا کہ مالی تنگدستی کیا ہوتی ہے اور وہ انسان کو
کیسے مجبور بنا دیتی ہے۔ میں نے تہیہ کیا کہ نہ صرف یہ کہ مجھے جلد از جلد قرضوں
سے نجات حاصل کرنی ہے بلکہ زندگی میں آءندہ کبھی ایسا وقت نہیں آنے دینا کہ مجھے
قرض لینا پڑے۔ جنوبی کیلی فورنیا میں کام کرنے کے دوران میرا سارا دھیان بچت پہ
تھا۔ میں نوکری کرنے کے ساتھ مستقل اضافی آمدنی کے طریقے ڈھونڈتا۔ ایک دفعہ کمپنی
کی ایک ملازمہ نے مجھے بتایا کہ اس کو اپنی گاڑی کا ہیڈ لمپ بدلوانا تھا کہ پرانا
والا جل گیا تھا۔ میں نے فورا پیشکش کی میں اس کا یہ کام کم قیمت پہ کردوں گا۔ اس
سے پہلے میں نے کبھی کسی گاڑی کا لمپ نہیں بدلا تھا۔ میں نے قریبی لاءبریری جاکر
ایک کتاب پڑھ کر یہ ہنر سمجھا اور خاتون کی گاڑی کا لمپ بدل کر کچھ پیسے بنالیے۔
اپریل قریب آیا تو میں نے ایک ٹیکس سروس شروع کی اور حسن امیگریشن اینڈ ٹیکس نامی
کمپنی کے کارڈ چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کیے۔ اور یوں ہسپانوی تارکین وطن کے ٹیکس فارم
بھر کر اپنے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ پیدا کیا۔ اس کے ساتھ ہی انجینءیرنگ سلوشنز
نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی تاکہ جو کام دن کے وقت اپنی کمپنی کے لیے کروں اسی
طرح کا کام شام کے وقت یا اختتام ہفتہ پہ دوسروں کے لیے کرسکوں۔ اس ساری محنت کا
یہ نتیجہ نکلا کہ میں سال بھر کے اندر قرضوں سے باہر نکل آیا۔ آمدنی کو دانتوں سے
بھینچ کر خرچ کرتا تھا اس لیے اب رقم جڑنا شروع ہوگءی۔ ڈھاءی سال گزر گءے۔ سنہ ۹۲ میرے
لیے ایک اچھا سال تھا۔ پے درپے دو امتحانات میں کامیابی حاصل کر کے میں نے ریاست
کیلی فورنیا کا انجینءیرنگ لاءسینس حاصل کرلیا۔ میں مشاورتی انجینءیرنگ کے جس کام
سے وابستہ ہوں اس کام میں ریاست کے لاءسینس کی بہت اہمیت ہے۔ لاءسینس حاصل کرنے کے
بعد مجھے آزادی کا احساس ہوا۔ اب میں مشاورتی انجینءیرنگ کا اپنا کام کرسکتا تھا۔ آزادی
کے حصول کے ساتھ میری مالی حیثیت بھی مضبوط ہوگءی تھی۔ مستقل ہاتھ بھینچ کر خرچہ کرنے کی وجہ سے میرا
بینک بیلنس بیس ہزار ڈالر سے اوپر ہوگیا تھا۔ سنہ ۹۲ میں یہ اچھی بڑی رقم تھی۔ میں
ساتویں آسمان پہ تھا۔ اب مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ ایک راستہ تو وہ
تھا جو میرے دوسرے ساتھیوں نے اپنایا۔ یعنی پس انداز رقم کو گھر کی ڈاءون پیمینٹ
کے لیے استعمال کیا اور یوں 'اپنے' کشادہ گھروں میں رہنے لگے۔ مگر یہ تو دوبارہ
قرض میں پھنسنے کا راستہ تھا۔ میں اس کے لیے تیار نہ تھا۔ بہت مشکلوں سے تو مجھے
آزادی ملی تھی، میں واپس قید کی زندگی کیسے اختیار کرسکتا تھا؟ میں تو آزادی سے
دنیا کی سیر کرنا چاہتا تھا۔ میں نے لاس اینجلس سے لندن کا یک طرفہ ٹکٹ لیا اور
دنیا دیکھنے کے لیے نکل گیا۔ برطانیہ سے اوپر اسکاٹ لینڈ گیا پھر نیچے آیا، رودبار
انگلستان پار کرکے فرانس چلا گیا، پھر وہاں سے اطالیہ۔ جزیرہ نما اطالیہ میں نیچے
آتے ہوءے باری تک پہنچا اور بحری جہاز لے کر یونان گیا۔ ایتھنز پہنچ کر مشرقی یورپ
کے نءے کھلنے والے ملکوں کے ویزے حاصل کیے اور تھیسالونیکی سے بلغاریہ پہنچا۔ پھر
آگے رومانیہ، ہنگری، چیکوسلاواکیہ [یہ اس وقت تک ایک ہی ملک تھا]، اور پولینڈ۔
گڈانسک سے پھر ایک بحری جہاز میں سوار ہوا اور ہیلسنکی پہنچ گیا۔ فن لینڈ، سوءیڈن،
اور ناروے، تینوں جگہ اوپر نیچے سفر کیا اور کءی بار آرکٹک داءرے میں داخل ہوا۔
ناورے سے ڈنمارک آیا اور پھر وہاں سے جرمنی۔ جرمنی سے ہالینڈ پہنچ کر تھم گیا۔ اب
گھر کا آرام چھوڑَے چھ ماہ گزر چکے تھے۔ امریکہ سے جو رقم لے کر چلا تھا وہ ختم کے
قریب تھی۔ ایمسٹرڈیم میں یہ انتظام کیا کہ امریکہ میں اپنے بینک اکاءونٹ سے مزید
رقم حاصل کی۔ اس وقت جنوبی افریقہ میں سیاسی اتھل پتھل تھی۔ اس تیزی سے بدلتی
سیاسی بساط کو قریب سے دیکھنے کی خواہش میں اڑ کر جوہانسبرگ چلا گیا۔ جوہانسبرگ
میں قیام کے دوران چند ساتھی مل گءے؛ ان لوگوں کے ساتھ کراءے کی گاڑی لے کر سوازی
لینڈ گیا جہاں ایک جگہ ہماری گاڑی سے ہم چاروں کا سارا سامان چوری ہوگیا۔ ہماری
قیمتی اشیا یعنی پاسپورٹ اور رقم کیونکہ ہمارے ساتھ تھیں اس لیے صرف تن کے کپڑوں
کے علاوہ وہ چیزیں بچیں۔ واپس جنوبی افریقہ میں داخل ہونے کے بعد کیپ ٹاءون گیا۔
وہاں سے پلٹا اور زمبابوے میں داخل ہوگیا۔ پھر آگے زیمبیا، ملاوی، اور تنزانیہ کا
زمینی سفر کرتا ہوا کینیا پہنچا۔ اب امریکہ چھوڑے آٹھ ماہ ہونے کو آءے تھے۔ مالی
طور پہ بھی یہ حالت تھی کہ اور خرچہ کرتا تو دوبارہ تنگدستی کے اس مقام پہ پہنچ
جاتا جہاں سمجھوتے کی زندگی گزارنا لازم ہوجاتا ہے۔ میں دودھ کا جلا تھا، عافیت
اسی میں جانی کہ جہاز لے کر کراچی پہنچ جاءوں۔ آٹھ ماہ اور باءیس ممالک کے اس طویل
سفر سے یہ ہوا کہ میرے پاس لوگوں کو سنانے کے لیے بہت سی کہانیاں جمع ہوگءیں۔
لکھنا تو میں نے اوءل عمر میں ہی شروع کردیا تھا مگر سنہ ۹۳ میں کراچی پہنچ کر میں
باقاعدہ طور پہ اخبارات کے لیے لکھنے لگا۔ سفر کے مشاہدات کے ساتھ ہی اپنے ملک کے
حالات بھی میری تحریروں کا موضوع تھے۔ میں وہ شخص نہیں رہا تھا جس نے کءی برس پہلے
پاکستان چھوڑا تھا، اور نہ ہی میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے یا تو پاکستان دیکھا
ہو یا مغربی دنیا۔ میں تو افریقہ سے پلٹا تھا اور دیکھ سکتا تھا کہ نوآبادیاتی
نظام کے خاتمے کے بعد آزاد ہونے والے مختلف ممالک اپنے اپنے مخصوص حالات سے کیسے
نبردآزما ہورہے ہیں۔ میرے اندر موجود کتابیں رفتہ رفتہ باہر آنا شروع ہوءیں۔ پہلی
کتاب ایک ناول تھی جس کا عنوان تھا 'راستہ جو منزل ہے'۔ یہ کتاب مکتبہ دانیال کراچی نے شاءع کی۔ اگلی
کتاب مختصر مضامین اور مشاہدات پہ مبنی تھی؛ اس کا نام 'خیال باری' تھا۔ تیسری
کتاب کا نام 'خشک و تر، ملک و لوگ' تھا۔ اور اس طرح کتابیں لکھنے کا یہ سلسلہ
تاحال جاری ہے۔ حال میں 'خیال باری' طباعت سوءم کے مرحلے سے گزری ہے اور اب یہ آن
لاءن، امیزان ڈاٹ کام پہ دستیاب ہے۔ اگر آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو میں آپ سے
درخواست کروں گا آپ امیزان سے 'خیال باری' ضرور حاصل کریں۔ مجھے یقین ہے کہ نہ صرف
اس کتاب کو پڑھ کر آپ خوش ہوں گے بلکہ آپ کچھ ایسی باتیں بھی سیکھیں گے جن سے آپ
کو اپنی زندگی سلجھانے میں مدد ملے گی۔
کتاب یہاں
دستیاب ہے
Labels: Aag Hawa Mattee Panee, Books by Cemendtaur, Khayal Bari, Khushk-o-tar Mulk-wa-Loag, Rasta Jo Manzil Hai, Rio 47 Din Late, Thoughts & Travels, travelogue, Urdu books