Monday, December 30, 2013
جناح کی سالگرہ، بنگلہ دیش کی پیداءش
دسمبر انتیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو انہتر
جناح کی سالگرہ، بنگلہ دیش
کی پیداءش
یہ مضمون
دسمبر پچیس کو منعقد کی جانے والی ایک محفل میں پڑھا گیا تھا۔
دسمبر کا
مہینہ صرف محمد علی جناح کی پیداءش کا مہینہ ہی نہیں ہے بلکہ سقوط ڈھاکہ کا مہینہ
بھی ہے۔ جہاں جناح کی سالگرہ موجودہ پاکستان کے لیے خوشی کا تہوار ہے وہیں بنگلہ
دیش کی پیداءش پاکستانیوں کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے جس کے تصور ہی سے دل مکدر
ہوجاتا ہے۔ میں بہت عرصے تک اس دشوار حقیقت سے شعوری طور پہ نمٹنے میں ناکام رہا۔
ریاست کیا
ہے، لوگوں کی پہچان کیسے بنتی ہے، اور جدید ریاست کی کامیابی کیا ہے، میں نے ان
موضوعات کے بارے میں سوچا اور انہیں کھنگالا تو میں ہلکا ہوتا گیا۔ دسمبر کا مہینہ
مجھ پہ آسان ہوتا گیا۔ آج کا مختصر مضمون ان ہی خیالات سے متعلق ہے۔
لوگ اپنی
پہچان اپنے رنگ و نسل، اپنے مذہب، اپنی زبان، اپنے جغرافیاءی تعلق سے کرتے ہیں اور
دنیا میں کءی جگہ موجود ایسے درخت جو چار پانچ ہزار سال پرانے ہیں، لوگوں کی اس
پہچان پہ ہنستے ہوں گے۔ اس دنیا میں انسان کی تحریر شدہ تاریخ بمشکل تین ہزار سال
پرانی ہے۔ یہ درخت اس تاریخ سے بہت زیادہ قدیم ہیں۔ لوگوں کی اس پہچان پہ جس پہ یہ
فخر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، ان درختوں نے
اسے اپنے سامنے بنتے، سنورتے، بگڑتے دیکھا ہے۔ اور اس دنیا میں ایسے پہاڑ ہیں
جنہوں نے انسانی ارتقا کی پوری داستان اپنے سامنے رقم ہوتے دیکھی ہے۔ انہوں نے
لوسی کے بچوں کا افریقہ سے نکلنا اور دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جانا دیکھا ہے۔
کچھ لوگوں کا سرد علاقوں میں بس
جانا، اور کچھ کا گرم و مرطوب علاقوں میں رہ جانا۔ اور پھر ان مختلف گروہوں کا ان
جغرافیائی خطوں میں ہزاروں سال رہتے رہنا۔ اور ان جغرافیائی خطوں کی آب و ہوا کا
وہاں رہنے والوں کے جسموں، رنگ و روپ پہ اثرانداز ہونا دیکھا ہے۔ اور یوں چند ہزار
سالوں کے بعد ایک دوسرے سے بچھڑنے پہ لوگوں کا نسلوں میں بٹ جانا۔ اور پھر جب
لوگوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا تو طویل عرصے پہلے اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں
بہنوں کی شکلیں دیکھ کر حیران ہونا۔ یہ پہاڑ نسلی فرق کو لڑائی جھگڑے کا سبب بنانے
والوں کو دیکھ کر یقینا ہنستے ہوں گے۔
اور انہوں نے انسان کا بستیوں کی
صورت میں بسنے کا عمل دیکھا ہے۔ اور انسان کا زراعت دریافت کرنا۔ اور غلہ بانی کے
طریقے جان جانا۔ اور پھر کھانے پینے کا سہارا ہوجانا تو زندگی کا مقصد تلاش کرنا۔
اور پھر اپنی سوچ سے خدا تک پہنچنے کی جستجو کرنا۔ اور سوچ کے ان راستوں کو مختلف
مذاہب کی شکل دینا۔ یہ پہاڑ مذہبی اختلاف پہ ایک دوسرے سے لڑجانے والوں کو دیکھ کر
یقینا ہنستے ہوں گے۔
اور انہوں نے انسان کا دوسرے
جانوروں پہ اس طرح حاوی ہونا کہ منہہ سے نکلنے والی آوازوں کو طرح طرح کی صوتی
شکلیں دینا دیکھا ہے۔ اور پھر انسان کا بولی ایجاد کرنا۔ اور پھر پرتنوع حالات میں
اس ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنا۔ اور پھر ایک انسانی گروہ کا دوسرے انسانی گروہ سے
سامنا ہونا تو زبان کی بنیاد پہ ایک دوسرے سے لڑجانا۔ یہ پہاڑ لسانی معاملات پہ ایک
دوسرے سے لڑجانے والوں کو دیکھ کر یقینا ہنستے ہوں گے۔
اور انہوں نے انسان کو اپنے جسم کو
سردی اور دھوپ سے بچانے کے لیے پتوں سے ڈھانپتے دیکھا ہے۔ اور بزاروں سال کے عمل
سے انسان کا کپڑے ایجاد کرنا۔ اور پھر اپنے اپنے علاقوں کی آب و ہوا کے حساب سے ان
کپڑوں کی تراش خراش کرنا۔ اور پھر اپنے گروہ کو دوسرے گروہ کے حملے سے محفوظ کرنے
کے لیے سیاسی نظام وضع کرنا۔ اور معاشرے میں نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے منفرد
اخلاقی اقدار اختیار کرنا۔ اور پھر زبان، رہن سہن، سیاسی نظام اور اخلاقی اقدار کو
اپنی ثفاقتی پہچان بنا لینا۔ یہ پہاڑ ثقافتی فرق پہ ایک دوسرے سے لڑجانے والوں کو
دیکھ کر یقینا ہنستے ہوں گے۔
ایک اچھی ریاست کیا ہوتی ہے؟ ایک
کامیاب ریاست وہ ہے جہاں لوگ اپنی اپنی منفرد مذہبی، لسانی، علاقاءی پہچان رکھتے
ہوءے امن سے، اچھی زندگی جی سکیں۔ ایک
پسندیدہ ریاست کی شان اس کے چمکدار ہتھیاروں، دلفریب ملی نغموں، اور سجے فوجی دستوں
کی نماءش میں نہیں؛ ایک اچھی ریاست کی شان اس کے پرشکم بچوں اور محفوظ و مطمءن
عوام میں ہے۔ ہم جناح کے پاکستان کے لیے، جو ہمارا وطن ہے، ایسی ہی کامیاب ریاست
کا خواب دیکھتے ہیں۔