Wednesday, December 25, 2013

 

گریگ گاپمین کو معاف کردو



دسمبر باءیس،  دو ہزار تیرہ 
ایک فکر کے سلسلے کا کالم 
کالم شمار ایک سو اڑسٹھ 

گریگ گاپمین کو معاف کردو

میں باد صحرا نامی ٹرین سے سفر کررہا تھا جو مجھے لاس اینجلس سے ڈینور لے جارہی تھی۔ ٹرین لاس ویگس کے ریلوے اسٹیشن پہ بہت دیر کھڑی رہی۔ میں غور سے پلٹ فارم پہ ادھر ادھر آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہاں سے ویگس کی اسٹرپ تو نظر نہیں آرہی تھی مگر مجھے اندازہ تھا کہ اگر میں ٹرین سے اتر کر ریلوے اسٹیشن سے باہر نکل جاءوں تو ایک چمکدار ماحول میں پہنچ جاءوں گا۔ وہ چوڑی سڑک جس کے دونوں طرف بڑے بڑے جواخانے اور ہوٹل بنے ہیں۔ تیز روشنی، جلتی بجھتی بتیاں، جو آپ کو لبھا رہی ہیں، اپنی قسمت آزمانے کی دعوت دے رہی ہیں۔ پھر ٹرین چلنا شروع ہوءی۔ ارے، یہ کیا ہوا؟ ٹرین ابھی پلیٹ فارم سے تھوڑا ہی آگے بڑھی تھی کہ منظر بالکل بدل گیا۔ اب پٹریوں کے دونوں طرف کارڈبورڈ کی جھگیاں تھیں۔ جو مسافر نظاروں سےلطف اندوز ہونے کے خیال سے ٹرین کی کھڑکیوں سے باہر دیکھ  رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گءے۔ میرے قریب بیٹھی ایک عمر رسیدہ عورت نے اس منظر سے منہ پھیر لیا۔ اس کا سر غیریقینی کے تاثر میں ہل رہا تھا۔ اور یہاں یہ عالم تھا کہ جھگیوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ ان جھونپڑیوں میں یقینا وہ لوگ رہتے تھے جو جوے میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھے تھے۔ ان ہی کی ہاری ہوءی رقم سے لاس ویگس اسٹرپ پہ نءے نءے جوا خانے بن رہے تھے اور یہ پٹے ہوءے جواری چمکدار ماحول سے دور پھینک دیے گءے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ بے گھری امریکہ کا کتنا بڑا مسءلہ ہے۔
بہت سے لوگ گریگ گاپمین نامی ایک ٹیکنالوجسٹ کے سخت خلاف ہیں۔ وہ گریگ پہ لعن طعن کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک گریگ گاپمین ایک برا آدمی ہے کیونکہ  اپنی ایک ٹوءیٹ میں اس نے سان فرانسسکو کے بے گھر لوگوں کو کچرا قرار دیا اور تجویز پیش کی کہ اس کچرے کو شہر کے اچھے علاقوں سے دور ہونا چاہیے۔ میں گریگ گاپمین کو برا آدمی نہیں سمجھتا؛ میں اسے ایک خوشحال مگر اجڈ شخص سمجھتا ہوں جو ابھی بات کرنے کا سلیقہ سیکھ رہا ہے۔ اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ بے گھر لوگوں سے متعلق گریگ نے جو بات کہی وہ کس سوچ کی نشاندہی کرتی ہے اور کس طرح گریگ کی عام تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی ایک واضح مثال ہے۔
سب سے پہلے تو ایک بات واضح ہوجاءے کہ دنیا بھر میں پھیلے نباتاتی اور حیواناتی نمونے زندگی سے پیار کرتے ہیں اور موت سے دور بھاگتے ہیں۔ ہر بو، ہر ذاءقہ، ہر نظارہ، ہر آواز، ہر لمس جو موت کی ترجمان ہے انسان کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ انسان موت کے اس چہرے سے دو بھاگنا چاہتا ہے۔ موت کے ایسے ہرمظہر سے نفرت انسان کی طبیعت میں شامل ہے۔ انسانی فضلے کی بو، گندگی کی بو سے نفرت ہمارے خمیر کا حصہ ہے کیونکہ یہ بو بیماری سے، موت سے متعلق ہے۔ اب آجاءیے گریگ گاپمین کی ٹوءیٹ کی طرف۔ گریگ کو اگر بات کرنے کا سلیقہ ہوتا تو وہ وضاحت سے کہتا کہ 'مجھے بے گھر لوگوں سے بہت ہمدردی ہے مگر ان کے پاس سے آنے والی بو مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔' اگر گریگ بات کو اس طرح سمجھاتا تو یقینا لوگ اس سے ناراض نہ ہوتے۔ لوگ سمجھ جاتے کہ گریگ کو غربت سے نفرت ہے، غریب سے نہیں۔
میرا اکثر سان فرانسسکو جانا ہوتا ہے۔ میں یہ سفر ٹرین سے کرنا پسند کرتا ہوں۔ میں جب سوک سینٹر کے اسٹیشن سے نکل کر باہر شہر کی سڑکوں پہ آتا ہوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ اگر کوءی بے گھر اپنی ریڑھی چلاتا نظر آءے تو میں اس سے اتنے فاصلے سے گزروں کہ اس کے گرد پھیلے بدبو کے ہیولے سے دو رہوں۔ مجھے بے گھر لوگوں سے بہت ہمدردی ہے مگر پسینے اور غلاظت کی بدبو سے کراہیت میری طبیعت میں شامل ہے۔ میں بے گھر لوگوں کا درد سمجھتے ہوءے بھی آپ سے یہ جھوٹ نہیں بول سکتا کہ بے گھر لوگوں سے آنے والی بو مجھے پسند ہے۔ بے گھر لوگوں کے پاس سے بدبو کیوں آتی ہے؟ اس لیے کیونکہ وہ بے گھر ہیں؛ ان کے پاس اپنے آپ کو صاف رکھنے کی سہولت موجود نہیں ہے؛ ان کے پاس نہانے کا کوءی انتظام نہیں ہے۔ اگر آپ سان فرانسسکو لاءبریری کا مشاہدہ اس کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات میں کریں تو آپ کو میری بات اچھی طرح سمجھ آجاءے گی۔ سان فرانسسکو پبلک لاءبریری جب صبح کھلتی ہے تو اس لاءبریری میں سب سے پہلے داخل ہونے والے لوگوں میں یہ بے گھر لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے رات لاءبریری کے آس پاس سڑکوں پہ گزاری ہوتی ہے اور لاءبریری کھلنے پہ یہ لوگ لاءبریری کی ضرورت گاہ استعمال کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔
گریگ گاپمین جیسے بہت سے لوگ ہوں گے جنہیں سان فرانسسکو کی سڑکوں پہ ان بدبودار لوگوں کی موجودگی پسند نہیں ہے۔ بے گھر لوگوں کا مسءلہ بہت بڑا ہے اور اس کو حل کرنے کے لیے بڑے وساءل کی ضرورت ہے۔ مگر بے گھری سے وابستہ بدبو دور کرنے کا مسءلہ نسبتا سادہ ہے۔ سان فرانسسکو میں ایسے غسلخانے کیوں نہیں بناءے جاسکتے جہاں بےگھر لوگ نہا سکیں؟ معاشرے کا متمول طبقہ اگر بے گھر لوگوں کو سرچھپانے کے ٹھکانے نہیں فراہم کرسکتا تو کم از کم ان کی جسمانی صفاءی کا تو انتظام کرسکتا ہے۔

Labels: , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?