Monday, October 21, 2013
بے اثر ہوتی ملالہ، بنیادی تعلیم
اکتوبر بیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو ساٹھ
بےاثر ہوتی ملالہ، بنیادی
تعلیم
ان ہی تحریروں میں کسی نہ کسی طور
سے یہ بات بارہا کہی جا چکی ہے کہ اگر خبررساں ادارے لوگوں کے منہ کے سامنے بھونپو
ہیں تو سب سے عظیم الجثہ اور طاقتور بھونپو مغرب کے پاس ہیں۔ یہ بھونپو اتنے بڑے
ہیں کہ جب ان سے کوءی آواز نکلتی ہے تو ساری دنیا کے بھونپو اس آواز کے سامنے ماند
پڑ جاتے ہیں۔ کونسی خبر قابل توجہ ہے اس کا فیصلہ یہی بھونپو کرتے ہیں۔ اور یہی
بھونپو جب کسی شخص کی مدح سراءی پہ اتر آءیں تو آسمان کے ایسے قلابے ملاتے ہیں کہ
دنیا کے چھوٹے بھونپو خود بخود توجہ کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر یہ کس چیز کا
اتنا شور ہے۔ مغرب کے باہر اکا دکا ہی ایسے خبررساں ادارے ہیں جو بین القوامی سطح
پہ خبر کی کھوج کر سکیں۔ چنانچہ جب مغرب کا میڈیا کوءی بات کہتا ہے تو بہت سی جگہ
اس بات کو من و عن تسلیم کر کے آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔
ملالہ یوسف زءی یقینا ایک با ہمت
لڑکی ہے۔ ملالہ کو آگے بڑھانے میں اس کے باپ کا بہت ہاتھ ہے جس نے ملالہ کو بی بی
سی کے لیے بلاگ لکھنے پہ مجبور کیا اور پھر ملالہ کو سیاست کی طرف دھکیلا۔ ملالہ
پہ ایک بزدلانہ حملہ ہوا جس میں وہ لڑکی مرتے مرتے بچی۔ اس واقعے کے بعد مغرب نے
ملالہ کو اپنا لیا۔ ملالہ میں مغربی طاقتوں کو ایک ایسی لڑکی نظر آءی جس کے ذریعے
وہ طالبان کے خلاف اپنا ایجنڈا آگے بڑھا سکتے تھے۔ اور یہی وہ موقع تھا جب ملالہ
پاکستان کی اکثریت کے لیے بے اثر ہوگءی۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی اکثریت مغربی
طاقتوں کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ انہیں مغرب کے قول و عمل میں تضاد واضح نظر آتا
ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ اپنی ہر خرابی میں مغرب کی سازش تلاش کرتی ہے۔ مغرب پہ اسی
عدم اعتماد کی وجہ سے مغرب میں داد و تحسین پانے والی ملالہ کو اب پاکستان میں
اپنا اثر قاءم کرنا مشکل ہوجاءے گا۔ اور یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے۔ ملالہ
پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختون خواہ میں بالخصوص تعلیم کی ضرورت اجاگر کرنے
کے معاملے میں بہت کارآمد ثابت ہوسکتی تھی۔ افسوس کہ ملالہ کو مغرب میں اتنی عزت و
تکریم ملنے کے بعد اب اس کارخیر کا موقع ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے۔
پچھلے کالم کا عنوان 'انسان نما
حیوان' تھا اور موضوع تھا ایسے لوگ جن کو نہ تو گھر پہ اور نہ ہی گھر سے باہر
ریاست کی طرف سے اتنی معمولی تعلیم بھی دی گءی ہو کہ وہ موجودہ عہد کے انتہاءی
بنیادی معیار کے حساب سے زندگی گزارسکیں۔ موجودہ عہد کے وہ بنیادی معیار کیا ہیں؟
ان معیار میں یقینا آپ صفاءی ستھراءی اور لوگوں سے معاملہ کرنے کے طریقے شامل کر
سکتے ہیں۔ انسان اور دوسرے جانوروں کے درمیان یہ ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ انسان
اپنے بچے کو بہت زیادہ تعلیم دیتا ہے۔ مگر بعض جگہ ایسا ممکن ہوتا ہے کہ شدید غربت
ایسے حالات پیدا کردے کہ بچے کو زیادہ تعلیم تو کیا، ہلکی پھلکی تعلیم بھی حاصل نہ
ہو۔ علم سے عاری ایسا بچہ جب وقت کے ساتھ بڑا ہوتا ہے تو وہ انسان کم اور جانور
زیادہ نظر آتا ہے۔ ہر مقام پہ ایسے شخص کی حیوانی جبلت تہذیب کی کسی بھی رکاوٹ کے
بغیر متحرک ہو جاتی ہے۔ پچھلے کالم میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر تھا جو محض اپنی
حیوانی جبلت سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی
بہت سی باتوں پہ اعتراض ہے مگر اس اعتراض کے باوجود ہمیں ان سے ہمدردی ہے اور اس
بات کا افسوس ہے کہ انہیں وہ بنیادی تعلیم کیوں نہ ملی جو ہر بچے کا حق ہے۔ انہیں
بچپن میں ذاتی صفاءی ستھراءی کی باتیں کیوں نہیں بتاءی گءیں؟ انہیں کسی نے یہ کیوں
نہیں بتایا کہ عورت تمھاری طرح کی انسان ہے، اس کی عزت تم پہ فرض ہے؟ انہیں یہ
کیوں نہیں سکھایا گیا کہ جب بہت سے لوگ ایک ہی چیز چاہتے ہوں تو نظم و ضبط انصاف
کا بہترین راستہ ہے اور یہ راستہ قطار بنانے کے عمل سے شروع ہوتا ہے؟ ان لوگوں کو
جانوروں سے شفقت کا برتاءو کرنے کی تربیت کیوں نہیں دی گءی؟
سوال یہ ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک
میں جہاں بہت سے لوگ غربت کے اس تنگ داءرے میں پھنسے ہوں جہاں ہر دن زندہ رہنا ایک
معجزہ ہو، چنانچہ گھر کی طرف سے بچوں کے لیے تعلیم کے مواقع بہت کم ہوں، اور ساتھ
ہی ریاست بھی تعلیم عام کرنے کے عمل میں ناکام ہو وہاں تعلیم سے عاری ان لوگوں کا
کیا کیا جاءے؟ جواب یہ ہے کہ کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہوگا۔ پاکستان میں
یقینا ایسے فلاحی اداروں کی ضرورت ہے جو اس بنیادی تعلیم پہ کام کریں۔ وہ ٹی وی پہ
چلنے والے ویڈیو کے ذریعے لوگوں کو بتاءیں کہ بنیادی صفاءی ستھراءی کا کیا مطلب
ہوتا ہے؛ ہاتھ دھونا کیوں ضروری ہے، نہایا کیسے جاتا ہے، فارغ ہونے کے بعد اپنی
صفاءی کیسے کی جاتی ہے، قطار کیسے بناءی جاتی ہے، گھر میں اور بازار میں عورتوں سے
کیسے برتاءو کرنا چاہیے، وغیرہ، وغیرہ۔ اس کالم کے پڑھنے والے بہت سے لوگوں کو یہ
باتیں مضحکہ خیز لگیں گی اور انہی خیال ہوسکتا ہےکہ جس بنیادی تعلیم کی بات یہاں
کی جارہی ہے وہ تعلیم تو گھر کی طرف سے مل ہی جاتی ہے۔ میرا ایسے لوگوں کو مشورہ
ہوگا کہ وہ پاکستان کے گلی کوچوں میں چل پھر کر دیکھیں تو انہیں بڑی تعداد میں
ایسے افراد ملیں گے جو اس بنیادی تعلیم سے بالکل عاری ہیں۔
علمستی نامی ادارے نے اس بنیادی تعلیم
کو عام کرنے کے لیے جو دو ویڈیو بناءے ہیں انہیں یہاں ملاحظہ کیجیے۔
Sunday, October 13, 2013
انسان نما حیوان
اکتوبر بارہ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو انسٹھ
انسان نما حیوان
انٹرنیٹ کے وسیع تر استعمال کے بعد
یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی ایک موضوع سے دلچسپی رکھنے والے لوگ دنیا بھر میں بکھرے
ہونے کے باوجود اس موضوع سے متعلق انٹرنیٹ پہ موجود کسی تحریر پہ تبادلہ خیال
کریں۔ اور یہ بھی امر ہے کہ انگریزی دنیا بھر میں سب سے کثیرالاستعمال رابطے کی
زبان بن چکی ہے۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ کسی موضوع پہ لوگ انگریزی میں تبادلہ خیال
نہ کررہے ہوں تو دنیا کے بیشتر لوگوں کو اس بحث کی خبر ہی نہ مل پاءے۔ بس یہی
معاملہ چینی زبان کے ساتھ ہے۔ چین کی
آبادی ایک ارب سے اوپر ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی چینی دنیا بھر میں پھیلے ہوءے ہیں۔
چنانچہ چینی زبان میں لکھی جانے والی تحریروں پہ بہت بڑی تعداد میں لوگ تبادلہ
خیال کرتے ہیں، مگر کیونکہ یہ سارا کام چینی زبان میں ہورہا ہوتا ہے اس لیے باقی
دنیا اس بحث سےغافل رہتی ہے۔ اسی مسءلے کو حل کرنے کے لیے ایک ویب ساءٹ چاءنا
اسمیک ڈاٹ کام سامنے آءی ہے۔ یہ ویب ساءٹ مقبول چینی تحریروں اور ان پہ ہونے والی
بحث کا انگریزی ترجمہ کر کے دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ چین میں اسی کی دہاءی کے
بعد آنے والی اقتصادی تبدیلیوں کے بعد چین میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو
مغربی دنیا کے معیار کے حساب سے مالدار ہیں۔ چین کے ایسے مالدار لوگوں میں یقینا
ایسے بھی ہیں جو دنیا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اور اسی لیے وقت کے ساتھ دنیا
میں اور ممالک کے سیاحوں کے ساتھ اب چین کے سیاح بھی خال خال نظر آنے لگے ہیں۔
غالبا سنہ دو ہزار آٹھ میں چین کے ایسے چند
سیاحوں نے ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کیا جنہیں اپنے سفر کا حال انٹرنیٹ پہ
لکھنے کا شوق تھا۔ اس دورے کے بعد ان سیاحوں نے چینی زبان میں ایک باتصویر مضمون
لکھا جس پہ چینی زبان میں ہی خوب بحث ہوءی۔ بقیہ دنیا اس مضمون سے بے خبر ہی رہتی
اگر چاءنا اسمیک ڈاٹ کام اس تحریر اور اس پہ کیے جانے والے تبصروں کا انگریزی ترجمہ
نہ کردیتی۔ اس مضمون کا انگریزی ترجمہ یہاں ملاحظہ فرماءیے [انتباہ- جولوگ گندگی
سے گھن گھاتے ہیں اور سڑی ہوءی لاشیں نہیں دیکھنا چاہتے، وہ براءے مہربانی درج ذیل
ویب صفحے پہ نہ جاءیں]:
اس چینی مضمون کے عنوان کے انگریزی
ترجمے کا اردو ترجمہ ہے: ہندوستان کا ایک سفر—شدید غربت اور گندگی کے درمیان لکھے
گءے مشاہدات۔ اس مضمون کے ساتھ وہ تصاویر ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ ہندوستان
میں کس طرح جا بجا کچرے کے ڈھیر ملتے ہیں اور انسانی فضلہ جگہ جگہ نظر آتا ہے۔
مضمون کے پہلے دو جملے ملاحظہ فرماءیے۔ "میں
نے جن ممالک کا دورہ کیا ہے ان میں ہندوستان
سب سے غلیظ ملک ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ پاکستان جو کہ ہندوستان کے مغرب میں
ہے اور بنگلہ دیش جو کہ مشرق میں ہے، ہندوستان سے بھی زیادہ غلیظ ہیں مگر اتنی
غلاظت کو سمجھنا میری عقل سے باہر ہے۔ "
اس چینی سیاح کو جو بات بتاءی گءی
ہے میں اس بارے میں وثوق سے بیان کرسکتا ہوں کہ میں کراچی میں پلا بڑھا ہوں اور
میں نے ہندوستان اور بنگلہ دیش کا دورہ بھی کیا ہے۔ میں اس کالم کے پڑھنے والوں کو
بہت وضاحت سے بتا سکتا ہوں کہ بلاشبہ پاکستان اور بنگلہ دیش ہندوستان سے زیادہ
غلیظ ممالک ہیں۔ جب میں پاکستان سے باہر
نہیں نکلا تھا تو میرے پاس کوءی پیمانہ نہ تھا کہ میں جانچ سکتا کہ میں کس قدر
غلاظت میں رہ رہا ہوں۔ مگر کچھ عرصہ پاکستان سے باہر گزارنے کے بعد میں واپس ملک
گیا تو میرا سر شرمندگی سے جھک گیا—مجھے اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ باقی دنیا کے
مقابلے میں ہم لوگ کس قدر غلیظ ہیں۔ پھر میں اس بات پہ بھی شرمندہ ہوں کہ ہمارے
لوگوں کو اس غلاظت میں رہنے پہ کوءی اعتراض نہیں ہے۔ ہر بات میں بیرونی سازش تلاش
کرنے والے ہم لوگ کبھی اپنے گریبان میں بھی تو جھانک کر دیکھیں۔ میں بچپن میں دو
بار کاغان گیا۔ کراچی میں پلنے بڑھنے والا لڑکا کاغان جاءے تو اسے ماحول کا کھلا
پن بہت بھاتا ہے۔ پھر اس دل موہنے والے ماحول کے ساتھ تیز رفتار دریاءے کنہار کا
نظارہ آپ پہ جادو کا کام کرتا ہے۔ پاکستان سے باہر کچھ عرصہ گزارنے کے بعد میں
واپس کراچی گیا تو مجھے اپنے شہر کا پاگل پن بالکل نہ بھایا۔ جن لوگوں نے میری
کتابیں پڑھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے اور فرقوں کے مقابلے میں آغاخانی
مجھے زیادہ پسند ہیں۔ کراچی جیسے بے ہنگم شہر میں آغاخان اسپتال نظم و ضبط اور
صفاءی کا اعلی نمونہ پیش کرتا ہے۔ اور اسی وجہ سے کراچی کے قتل و غارت گری کے ماحول
سے بیزار ہوکر میں نے کاغان کا رخ کیا۔ کاغان پہنچ کر اگلی دن میں سویرے دریاءے
کنہار پہ پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ کاغان اور کنہار تو نہ بدلے
تھے، مگر میں بدل گیا تھا۔ وہاں جگہ جگہ پڑی اجابت دیکھ کر میں بجھ گیا۔ میں مکدر
طبیعت کے ساتھ وہاں سے پلٹا تو ایک جگہ بے خیالی میں میرا پاءوں انسانی فضلے پہ
پڑگیا۔ گوہ میرے جوتے کے تلوے پہ لگ گیا۔ اب میرے صبر کا پیمان لبریز ہوچکا تھا۔
میں نے ہوا میں مکے لہرا کر، گلا پھاڑ کر کاغان کے لوگوں کو بالخصوص اور پاکستان
کے لوگوں کو بالعموم خوب برا بھلا کہا۔ ساتھ ہی میں نے پرنس کریم آغاخان کو بھی
خوب کھری کھری سناءی کہ باقی مسلمان تو امام مہدی کے انتظار میں ہیں، تم تو اپنے
فرقے کے حاضر امام ہو، تم اپنے لوگوں کو صفاءی کی بنیادی تعلیم کیوں نہیں دیتے؛ تم
خود تو آرام سے یورپ میں رہتے ہو اور یہاں اپنے ماننے والوں کو جانوروں کے طور پہ
چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ یہ لوگ تو جانور سے بھی
گءے گزرے ہیں۔ کہ اتنی تمیز تو بلی کو بھی ہوتی ہے کہ پہلے گڑھا کھودتی ہے ، پھر اس گڑھے میں فارغ ہونے کے بعد مٹی ڈال
کر گڑھے کو بند کردیتی ہے۔ یہ لوگ انسان نہیں، انسان نما حیوان ہیں۔
Labels: Agha Khanis, bathroom manners, Civilization, Culture, Filthy Pakistan, Garbage, Human waste, Kaghan, Karachi, Price Karim Agha Khan, River Kunhar
متفرق موضوعات؛ تفلیس
اکتوبر سات، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اٹھاون
متفرق موضوعات؛ تفلیس
پاکستان کا قریبا ہر ٹی وی مبصر
اسی موضوع پہ بات کررہا ہےکہ آیا طالبان سے گفت و شنید ہونی چاہیے یا ریاست کو
طالبان پہ فوج کشی کردینی چاہیے۔ طالبان سے کسی قسم کی رتی بھر ہمدردی نہ رکھنے کے
باوجود مجھے یہ خوف ستاتا ہے کہ طالبان سے جنگ کہیں خانہ جنگی کی شکل نہ اختیار کر
لے کہ طالبان جیسے خیالات رکھنے والے لوگ تو پاکستان میں بڑی تعداد میں پاءے جاتے
ہیں اور ملک کی قیادت نے یہ راءے عامہ ہموار نہیں کی ہے کہ طالبان اسلام کا نام لے
کر جھوٹ بول رہے ہیں اور ان کی سرکشی ضروری ہے۔ اب آءیے امریکہ کی طرف۔ جو کام
القاعدہ اپنے دہشت گردی کے ہتھکنڈوں سے نہ کرسکی وہ ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ کے
باہمی جھگڑے میں ہوگیا۔ اتوار کی رات ہے اور امریکی حکومت کو بند ہوءے ہفتہ بھر
ہوچکا ہے۔ امریکی حکومت کی بندش کا مجھ پہ یا میرے جیسے لاکھوں لوگوں پہ کوءی براہ
راست اثر نہیں ہے، مگر جو ادارے براہ راست وفاقی حکومت کے زیراثر ہیں وہاں کام
کرنے والے لوگ یقینا مصیبت میں ہیں۔
سفرنامہ بغیر کسی خاص ترتیب کے
جاری ہے۔ تفلیس [گرجستان کا دارالحکومت؛ انگریزی میں تبلیسی ] کے پرانے شہر میں
چلتے چلتے بھوک چمک گءی تھی۔ دفعتا نظر پڑی ایک ایسے ریستوراں کے ساءن پہ جس پہ
لکھا تھا 'انڈر کینیڈین مینیجمنٹ' [کینیڈین انتظامیہ کے زیرنگرانی]۔ تجسس ہوا کہ
اندر جا کر تفلیس کے اس ریستوراں کی کینیڈین مینیجمنٹ کو تو دیکھیں۔ ریستوراں کے
اندر جا کر اس بابت معلوم کیا تو آرٹ نامی ایک صاحب سے تعارف ہوا۔ موصوف کا تعلق
دراصل حیاستان [آرمینستان] سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ستر کی دہاءی میں حیاستان
سے کینیڈا منتقل ہوءے تھے۔ دراصل ان کے خاندان کے بہت سے لوگ کینیڈا میں مقیم تھے۔
ان ہی لوگوں نے آرٹ کے لیے امیگریشن ویزے کا انتظام کیا تھا۔ کینیڈا پہنچ کر آرٹ
نے اپنا کاروبار شروع کیا اور ایک اسٹور سے دو، دو سے چار کرتے ہوءے بہت مالدار
ہوگءے۔ جب سوویت یونین ٹوٹا اور گرجستان [جورجیا] ایک الگ ملک بنا تو ایک دفعہ یہ
گھومنے پھرنے گرجستان آءے۔ ان کو تفلیس بہت بھایا چنانچہ یہاں آبسے۔ یہ الگ بات ہے
کہ ان کی بیوی اور بچے اب بھی کینیڈا میں رہتے ہیں۔ کینیڈا میں کاروبار بیگم صاحبہ
چلاتی ہیں اور آرٹ کا کینیڈا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ تفلیس میں آرٹ کے کءی گھر تھے
جو کراءے پہ اٹھے ہوءے تھے۔ ہم جس ریستوراں میں آرٹ سے ملے اس کے ساتھ ہی ایک ہاسٹل
تھا جہاں بجٹ مسافر قیام کرتے تھے۔ ہم کھانا کھانے کے دوران آرٹ سے باتیں کرتے
رہے۔ کچھ کچھ دیر بعد آرٹ کا کوءی نہ کوءی ملاقاتی آجاتا، جس سے آرٹ مختصر بات
کرتا۔ وہ کبھی لوگوں سے روسی زبان میں بات کرتا اور کبھی ایک مقامی خاتون کے توسط
سے گرجستانی میں گفتگو کرتا۔ ہمیں آرٹ ایک شاطر کاروباری شخص معلوم دیا جو پیسے سے
پیسہ بنانے کا ہنر خوب جانتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر آرٹ سے سب کچھ چھین کر اسے
بہت تھوڑا سا سرمایہ دیا جاءے تو وہ اپنے اخراجات بہت کم کر کے اس سرماءے کی پیٹھ
پہ سوار ہوجاءے گا اور سرماءے کو جگہ جگہ دوڑا کر اس کا حجم بڑے سے بڑا کرتا جاءے
گا۔ آرٹ نے پیشکش کی کہ جب ہمارا واپس تفلیس آنا ہو تو ہم یہاں آنے سے پہلے اسے
فون کردیں، وہ ہمارے لیے رہاءش کا اچھا انتظام معقول رقم میں کردے گا۔ ہم نے اس کا
نمبر لے لیا اور کاذبغی سے تفلیس پلٹنے پہ ایسا ہی کیا۔ اس نے فون پہ ہمیں ہدایت
کی کہ ہم تفلیس پہنچ کر اس کے ریستوراں میں اس سے ملیں، وہ دیکھے گا کہ ہمارے لیے
کیا کرسکتا ہے۔ دوسری بار تفلیس پہنچنے پہ ہم تفلیس کو کسی قدر سمجھ چکے تھے،
چنانچہ بس اڈے سے میٹرو لے کر پرانے شہر پہنچ گءے۔ میٹرو اسٹیشن سے آرٹ کا
ریستوراں کچھ فاصلے پہ تھا۔ ہم اپنا سامان پیٹھ پہ ڈھوءے جب اس ریستوراں تک پہنچے
تو کسی قدر تھک چکے تھے۔ آرٹ ہم سے بہت تپاک سے ملا مگر پھر اس نے فورا ہی معذرت
کی کہ اس نے ہم سے جس رہاءشی اپارٹمنٹ کا ذکر کیا تھا اسے وہ ایک دن پہلے ہی مہینے
بھر کے لیے یوکرین کے چند سیاحوں کو دے چکا تھا۔ اس نے اپنی ناءب خاتون سے درخواست
کی کہ وہ ہمیں ریستوراں سے ملحق ہاسٹل کا ایک کمرہ دکھاءے۔ ہم نے کمرہ دیکھا مگر
وہ کمرہ کچھ دل کو نہ بھایا۔ ہم نے آرٹ کو بتایا کہ ہم پرانے شہر میں پیدل پھر کر
اچھی جگہ تلاش کرنے کی قسمت آزماءی کرنا چاہتے ہیں اور ایسا صرف اس صورت میں کر سکتے
ہیں جب ہم اپنا سامان وہاں اس کے پاس رکھوا دیں۔ آرٹ نے بخوشی ایسا کرنے کی اجازت
دے دی۔ ہم آرٹ کے ریستوراں سے نکلے اور اندازے سے ایک طرف چلنا شروع ہوگءے۔ پرانے
شہر میں کءی ہوٹلوں سے معلوم کیا۔ ان ہوٹلوں میں یا تو کمرے خالی نہ تھے یا تھے تو
ان کے نرخ ہمارے بجٹ سے بہت زیادہ تھے۔ آخر میں انٹرنیٹ کی مدد حاصل کرنے کی ضرورت
پڑی۔ یہ بھی اچھا ہے کہ اب دنیا بھر میں جگہ جگہ انٹرنیٹ کی سہولت واءرلیس کے ساتھ
دستیاب ہوتی ہے۔ ہم تفلیس کے پرانے شہر میں ایسی ہی ایک جگہ بیٹھے گءے۔ تب ہی
اندازہ ہوا کہ تفلیس کا پرانا شہر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہم جس جگہ ہوٹل تلاش
کررہے تھے وہ شہر کے درمیان سے گزرنے والے دریاءے کر کے مغرب میں تھا؛ اس پرانے
حصے میں ہی زیادہ تر سیاحتی مقامات ہیں۔ دریا کے مشرق میں سیاحوں کا رش چھٹ جاتا
ہے اور اسی وجہ سے وہاں ہوٹلوں کے نرخ کم ہیں۔ انٹرنیٹ پہ ہمیں مشرقی ساحل کا ایک
ہوٹل ارزاں نرخ پہ مل گیا۔ جھٹ پٹ اس ہوٹل کی بکنگ کروالی۔ اس وقت تک شام ہوچلی
تھی اور پاپی پیٹ ایک بار پھر تنگ کررہا تھا۔ یہ معلوم نہ تھا کہ ہم جس ہوٹل میں
قیام کے لیے جا رہے تھے اس کے آس پاس کھانے پینے کی کس طرح کی جگہیں تھیں۔ بہتر
تھا کہ شہر کے اس مانوس علاقے میں کھانا کھا کر ہوٹل جایا جاءے۔ تفلیس میں پچھلے
قیام کے دوران قازقستان سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ژاندوس مل گیا تھا۔ ژاندوس
کے ساتھ اچھا وقت گزرا تھا اور اس نے ہمیں ایک معیاری مقامی ریستوراں بھی دکھایا تھا۔ یہ اس
طرح کا مقامی ریستوراں تھا جہاں فہرست غذا انگریزی میں ترجمے کے بغیر تھی۔ ہم نے
ژاندوس کے ساتھ وہاں کھانا کھایا تھا اور وہ کھانا ہمیں پسند بھی بہت آیا تھا۔
چنانچہ پیٹ پوجا کے لیے اسی جگہ پہنچ گءے۔ جاری ہے۔
Labels: Art's Cafe Tbilisi, Georgia, Tbilisi, Under Canadian management