Sunday, October 13, 2013
انسان نما حیوان
اکتوبر بارہ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو انسٹھ
انسان نما حیوان
انٹرنیٹ کے وسیع تر استعمال کے بعد
یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی ایک موضوع سے دلچسپی رکھنے والے لوگ دنیا بھر میں بکھرے
ہونے کے باوجود اس موضوع سے متعلق انٹرنیٹ پہ موجود کسی تحریر پہ تبادلہ خیال
کریں۔ اور یہ بھی امر ہے کہ انگریزی دنیا بھر میں سب سے کثیرالاستعمال رابطے کی
زبان بن چکی ہے۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ کسی موضوع پہ لوگ انگریزی میں تبادلہ خیال
نہ کررہے ہوں تو دنیا کے بیشتر لوگوں کو اس بحث کی خبر ہی نہ مل پاءے۔ بس یہی
معاملہ چینی زبان کے ساتھ ہے۔ چین کی
آبادی ایک ارب سے اوپر ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی چینی دنیا بھر میں پھیلے ہوءے ہیں۔
چنانچہ چینی زبان میں لکھی جانے والی تحریروں پہ بہت بڑی تعداد میں لوگ تبادلہ
خیال کرتے ہیں، مگر کیونکہ یہ سارا کام چینی زبان میں ہورہا ہوتا ہے اس لیے باقی
دنیا اس بحث سےغافل رہتی ہے۔ اسی مسءلے کو حل کرنے کے لیے ایک ویب ساءٹ چاءنا
اسمیک ڈاٹ کام سامنے آءی ہے۔ یہ ویب ساءٹ مقبول چینی تحریروں اور ان پہ ہونے والی
بحث کا انگریزی ترجمہ کر کے دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ چین میں اسی کی دہاءی کے
بعد آنے والی اقتصادی تبدیلیوں کے بعد چین میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو
مغربی دنیا کے معیار کے حساب سے مالدار ہیں۔ چین کے ایسے مالدار لوگوں میں یقینا
ایسے بھی ہیں جو دنیا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اور اسی لیے وقت کے ساتھ دنیا
میں اور ممالک کے سیاحوں کے ساتھ اب چین کے سیاح بھی خال خال نظر آنے لگے ہیں۔
غالبا سنہ دو ہزار آٹھ میں چین کے ایسے چند
سیاحوں نے ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کیا جنہیں اپنے سفر کا حال انٹرنیٹ پہ
لکھنے کا شوق تھا۔ اس دورے کے بعد ان سیاحوں نے چینی زبان میں ایک باتصویر مضمون
لکھا جس پہ چینی زبان میں ہی خوب بحث ہوءی۔ بقیہ دنیا اس مضمون سے بے خبر ہی رہتی
اگر چاءنا اسمیک ڈاٹ کام اس تحریر اور اس پہ کیے جانے والے تبصروں کا انگریزی ترجمہ
نہ کردیتی۔ اس مضمون کا انگریزی ترجمہ یہاں ملاحظہ فرماءیے [انتباہ- جولوگ گندگی
سے گھن گھاتے ہیں اور سڑی ہوءی لاشیں نہیں دیکھنا چاہتے، وہ براءے مہربانی درج ذیل
ویب صفحے پہ نہ جاءیں]:
اس چینی مضمون کے عنوان کے انگریزی
ترجمے کا اردو ترجمہ ہے: ہندوستان کا ایک سفر—شدید غربت اور گندگی کے درمیان لکھے
گءے مشاہدات۔ اس مضمون کے ساتھ وہ تصاویر ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ ہندوستان
میں کس طرح جا بجا کچرے کے ڈھیر ملتے ہیں اور انسانی فضلہ جگہ جگہ نظر آتا ہے۔
مضمون کے پہلے دو جملے ملاحظہ فرماءیے۔ "میں
نے جن ممالک کا دورہ کیا ہے ان میں ہندوستان
سب سے غلیظ ملک ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ پاکستان جو کہ ہندوستان کے مغرب میں
ہے اور بنگلہ دیش جو کہ مشرق میں ہے، ہندوستان سے بھی زیادہ غلیظ ہیں مگر اتنی
غلاظت کو سمجھنا میری عقل سے باہر ہے۔ "
اس چینی سیاح کو جو بات بتاءی گءی
ہے میں اس بارے میں وثوق سے بیان کرسکتا ہوں کہ میں کراچی میں پلا بڑھا ہوں اور
میں نے ہندوستان اور بنگلہ دیش کا دورہ بھی کیا ہے۔ میں اس کالم کے پڑھنے والوں کو
بہت وضاحت سے بتا سکتا ہوں کہ بلاشبہ پاکستان اور بنگلہ دیش ہندوستان سے زیادہ
غلیظ ممالک ہیں۔ جب میں پاکستان سے باہر
نہیں نکلا تھا تو میرے پاس کوءی پیمانہ نہ تھا کہ میں جانچ سکتا کہ میں کس قدر
غلاظت میں رہ رہا ہوں۔ مگر کچھ عرصہ پاکستان سے باہر گزارنے کے بعد میں واپس ملک
گیا تو میرا سر شرمندگی سے جھک گیا—مجھے اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ باقی دنیا کے
مقابلے میں ہم لوگ کس قدر غلیظ ہیں۔ پھر میں اس بات پہ بھی شرمندہ ہوں کہ ہمارے
لوگوں کو اس غلاظت میں رہنے پہ کوءی اعتراض نہیں ہے۔ ہر بات میں بیرونی سازش تلاش
کرنے والے ہم لوگ کبھی اپنے گریبان میں بھی تو جھانک کر دیکھیں۔ میں بچپن میں دو
بار کاغان گیا۔ کراچی میں پلنے بڑھنے والا لڑکا کاغان جاءے تو اسے ماحول کا کھلا
پن بہت بھاتا ہے۔ پھر اس دل موہنے والے ماحول کے ساتھ تیز رفتار دریاءے کنہار کا
نظارہ آپ پہ جادو کا کام کرتا ہے۔ پاکستان سے باہر کچھ عرصہ گزارنے کے بعد میں
واپس کراچی گیا تو مجھے اپنے شہر کا پاگل پن بالکل نہ بھایا۔ جن لوگوں نے میری
کتابیں پڑھی ہیں وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے اور فرقوں کے مقابلے میں آغاخانی
مجھے زیادہ پسند ہیں۔ کراچی جیسے بے ہنگم شہر میں آغاخان اسپتال نظم و ضبط اور
صفاءی کا اعلی نمونہ پیش کرتا ہے۔ اور اسی وجہ سے کراچی کے قتل و غارت گری کے ماحول
سے بیزار ہوکر میں نے کاغان کا رخ کیا۔ کاغان پہنچ کر اگلی دن میں سویرے دریاءے
کنہار پہ پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ کاغان اور کنہار تو نہ بدلے
تھے، مگر میں بدل گیا تھا۔ وہاں جگہ جگہ پڑی اجابت دیکھ کر میں بجھ گیا۔ میں مکدر
طبیعت کے ساتھ وہاں سے پلٹا تو ایک جگہ بے خیالی میں میرا پاءوں انسانی فضلے پہ
پڑگیا۔ گوہ میرے جوتے کے تلوے پہ لگ گیا۔ اب میرے صبر کا پیمان لبریز ہوچکا تھا۔
میں نے ہوا میں مکے لہرا کر، گلا پھاڑ کر کاغان کے لوگوں کو بالخصوص اور پاکستان
کے لوگوں کو بالعموم خوب برا بھلا کہا۔ ساتھ ہی میں نے پرنس کریم آغاخان کو بھی
خوب کھری کھری سناءی کہ باقی مسلمان تو امام مہدی کے انتظار میں ہیں، تم تو اپنے
فرقے کے حاضر امام ہو، تم اپنے لوگوں کو صفاءی کی بنیادی تعلیم کیوں نہیں دیتے؛ تم
خود تو آرام سے یورپ میں رہتے ہو اور یہاں اپنے ماننے والوں کو جانوروں کے طور پہ
چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ یہ لوگ تو جانور سے بھی
گءے گزرے ہیں۔ کہ اتنی تمیز تو بلی کو بھی ہوتی ہے کہ پہلے گڑھا کھودتی ہے ، پھر اس گڑھے میں فارغ ہونے کے بعد مٹی ڈال
کر گڑھے کو بند کردیتی ہے۔ یہ لوگ انسان نہیں، انسان نما حیوان ہیں۔
Labels: Agha Khanis, bathroom manners, Civilization, Culture, Filthy Pakistan, Garbage, Human waste, Kaghan, Karachi, Price Karim Agha Khan, River Kunhar