Monday, October 21, 2013

 

بے اثر ہوتی ملالہ، بنیادی تعلیم


اکتوبر بیس،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو ساٹھ

بےاثر ہوتی ملالہ، بنیادی تعلیم

ان ہی تحریروں میں کسی نہ کسی طور سے یہ بات بارہا کہی جا چکی ہے کہ اگر خبررساں ادارے لوگوں کے منہ کے سامنے بھونپو ہیں تو سب سے عظیم الجثہ اور طاقتور بھونپو مغرب کے پاس ہیں۔ یہ بھونپو اتنے بڑے ہیں کہ جب ان سے کوءی آواز نکلتی ہے تو ساری دنیا کے بھونپو اس آواز کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔ کونسی خبر قابل توجہ ہے اس کا فیصلہ یہی بھونپو کرتے ہیں۔ اور یہی بھونپو جب کسی شخص کی مدح سراءی پہ اتر آءیں تو آسمان کے ایسے قلابے ملاتے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے بھونپو خود بخود توجہ کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر یہ کس چیز کا اتنا شور ہے۔ مغرب کے باہر اکا دکا ہی ایسے خبررساں ادارے ہیں جو بین القوامی سطح پہ خبر کی کھوج کر سکیں۔ چنانچہ جب مغرب کا میڈیا کوءی بات کہتا ہے تو بہت سی جگہ اس بات کو من و عن تسلیم کر کے آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔
ملالہ یوسف زءی یقینا ایک با ہمت لڑکی ہے۔ ملالہ کو آگے بڑھانے میں اس کے باپ کا بہت ہاتھ ہے جس نے ملالہ کو بی بی سی کے لیے بلاگ لکھنے پہ مجبور کیا اور پھر ملالہ کو سیاست کی طرف دھکیلا۔ ملالہ پہ ایک بزدلانہ حملہ ہوا جس میں وہ لڑکی مرتے مرتے بچی۔ اس واقعے کے بعد مغرب نے ملالہ کو اپنا لیا۔ ملالہ میں مغربی طاقتوں کو ایک ایسی لڑکی نظر آءی جس کے ذریعے وہ طالبان کے خلاف اپنا ایجنڈا آگے بڑھا سکتے تھے۔ اور یہی وہ موقع تھا جب ملالہ پاکستان کی اکثریت کے لیے بے اثر ہوگءی۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی اکثریت مغربی طاقتوں کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ انہیں مغرب کے قول و عمل میں تضاد واضح نظر آتا ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ اپنی ہر خرابی میں مغرب کی سازش تلاش کرتی ہے۔ مغرب پہ اسی عدم اعتماد کی وجہ سے مغرب میں داد و تحسین پانے والی ملالہ کو اب پاکستان میں اپنا اثر قاءم کرنا مشکل ہوجاءے گا۔ اور یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے۔ ملالہ پاکستان میں بالعموم اور خیبر پختون خواہ میں بالخصوص تعلیم کی ضرورت اجاگر کرنے کے معاملے میں بہت کارآمد ثابت ہوسکتی تھی۔ افسوس کہ ملالہ کو مغرب میں اتنی عزت و تکریم ملنے کے بعد اب اس کارخیر کا موقع ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے۔
پچھلے کالم کا عنوان 'انسان نما حیوان' تھا اور موضوع تھا ایسے لوگ جن کو نہ تو گھر پہ اور نہ ہی گھر سے باہر ریاست کی طرف سے اتنی معمولی تعلیم بھی دی گءی ہو کہ وہ موجودہ عہد کے انتہاءی بنیادی معیار کے حساب سے زندگی گزارسکیں۔ موجودہ عہد کے وہ بنیادی معیار کیا ہیں؟ ان معیار میں یقینا آپ صفاءی ستھراءی اور لوگوں سے معاملہ کرنے کے طریقے شامل کر سکتے ہیں۔ انسان اور دوسرے جانوروں کے درمیان یہ ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ انسان اپنے بچے کو بہت زیادہ تعلیم دیتا ہے۔ مگر بعض جگہ ایسا ممکن ہوتا ہے کہ شدید غربت ایسے حالات پیدا کردے کہ بچے کو زیادہ تعلیم تو کیا، ہلکی پھلکی تعلیم بھی حاصل نہ ہو۔ علم سے عاری ایسا بچہ جب وقت کے ساتھ بڑا ہوتا ہے تو وہ انسان کم اور جانور زیادہ نظر آتا ہے۔ ہر مقام پہ ایسے شخص کی حیوانی جبلت تہذیب کی کسی بھی رکاوٹ کے بغیر متحرک ہو جاتی ہے۔ پچھلے کالم میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر تھا جو محض اپنی حیوانی جبلت سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی بہت سی باتوں پہ اعتراض ہے مگر اس اعتراض کے باوجود ہمیں ان سے ہمدردی ہے اور اس بات کا افسوس ہے کہ انہیں وہ بنیادی تعلیم کیوں نہ ملی جو ہر بچے کا حق ہے۔ انہیں بچپن میں ذاتی صفاءی ستھراءی کی باتیں کیوں نہیں بتاءی گءیں؟ انہیں کسی نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ عورت تمھاری طرح کی انسان ہے، اس کی عزت تم پہ فرض ہے؟ انہیں یہ کیوں نہیں سکھایا گیا کہ جب بہت سے لوگ ایک ہی چیز چاہتے ہوں تو نظم و ضبط انصاف کا بہترین راستہ ہے اور یہ راستہ قطار بنانے کے عمل سے شروع ہوتا ہے؟ ان لوگوں کو جانوروں سے شفقت کا برتاءو کرنے کی تربیت کیوں نہیں دی گءی؟
سوال یہ ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک میں جہاں بہت سے لوگ غربت کے اس تنگ داءرے میں پھنسے ہوں جہاں ہر دن زندہ رہنا ایک معجزہ ہو، چنانچہ گھر کی طرف سے بچوں کے لیے تعلیم کے مواقع بہت کم ہوں، اور ساتھ ہی ریاست بھی تعلیم عام کرنے کے عمل میں ناکام ہو وہاں تعلیم سے عاری ان لوگوں کا کیا کیا جاءے؟ جواب یہ ہے کہ کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہوگا۔ پاکستان میں یقینا ایسے فلاحی اداروں کی ضرورت ہے جو اس بنیادی تعلیم پہ کام کریں۔ وہ ٹی وی پہ چلنے والے ویڈیو کے ذریعے لوگوں کو بتاءیں کہ بنیادی صفاءی ستھراءی کا کیا مطلب ہوتا ہے؛ ہاتھ دھونا کیوں ضروری ہے، نہایا کیسے جاتا ہے، فارغ ہونے کے بعد اپنی صفاءی کیسے کی جاتی ہے، قطار کیسے بناءی جاتی ہے، گھر میں اور بازار میں عورتوں سے کیسے برتاءو کرنا چاہیے، وغیرہ، وغیرہ۔ اس کالم کے پڑھنے والے بہت سے لوگوں کو یہ باتیں مضحکہ خیز لگیں گی اور انہی خیال ہوسکتا ہےکہ جس بنیادی تعلیم کی بات یہاں کی جارہی ہے وہ تعلیم تو گھر کی طرف سے مل ہی جاتی ہے۔ میرا ایسے لوگوں کو مشورہ ہوگا کہ وہ پاکستان کے گلی کوچوں میں چل پھر کر دیکھیں تو انہیں بڑی تعداد میں ایسے افراد ملیں گے جو اس بنیادی تعلیم سے بالکل عاری ہیں۔
علمستی نامی ادارے نے اس بنیادی تعلیم کو عام کرنے کے لیے جو دو ویڈیو بناءے ہیں انہیں یہاں ملاحظہ کیجیے۔




Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?