Sunday, October 13, 2013

 

متفرق موضوعات؛ تفلیس



اکتوبر سات،  دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو اٹھاون

متفرق موضوعات؛ تفلیس

پاکستان کا قریبا ہر ٹی وی مبصر اسی موضوع پہ بات کررہا ہےکہ آیا طالبان سے گفت و شنید ہونی چاہیے یا ریاست کو طالبان پہ فوج کشی کردینی چاہیے۔ طالبان سے کسی قسم کی رتی بھر ہمدردی نہ رکھنے کے باوجود مجھے یہ خوف ستاتا ہے کہ طالبان سے جنگ کہیں خانہ جنگی کی شکل نہ اختیار کر لے کہ طالبان جیسے خیالات رکھنے والے لوگ تو پاکستان میں بڑی تعداد میں پاءے جاتے ہیں اور ملک کی قیادت نے یہ راءے عامہ ہموار نہیں کی ہے کہ طالبان اسلام کا نام لے کر جھوٹ بول رہے ہیں اور ان کی سرکشی ضروری ہے۔ اب آءیے امریکہ کی طرف۔ جو کام القاعدہ اپنے دہشت گردی کے ہتھکنڈوں سے نہ کرسکی وہ ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ کے باہمی جھگڑے میں ہوگیا۔ اتوار کی رات ہے اور امریکی حکومت کو بند ہوءے ہفتہ بھر ہوچکا ہے۔ امریکی حکومت کی بندش کا مجھ پہ یا میرے جیسے لاکھوں لوگوں پہ کوءی براہ راست اثر نہیں ہے، مگر جو ادارے براہ راست وفاقی حکومت کے زیراثر ہیں وہاں کام کرنے والے لوگ یقینا مصیبت میں ہیں۔
سفرنامہ بغیر کسی خاص ترتیب کے جاری ہے۔ تفلیس [گرجستان کا دارالحکومت؛ انگریزی میں تبلیسی ] کے پرانے شہر میں چلتے چلتے بھوک چمک گءی تھی۔ دفعتا نظر پڑی ایک ایسے ریستوراں کے ساءن پہ جس پہ لکھا تھا 'انڈر کینیڈین مینیجمنٹ' [کینیڈین انتظامیہ کے زیرنگرانی]۔ تجسس ہوا کہ اندر جا کر تفلیس کے اس ریستوراں کی کینیڈین مینیجمنٹ کو تو دیکھیں۔ ریستوراں کے اندر جا کر اس بابت معلوم کیا تو آرٹ نامی ایک صاحب سے تعارف ہوا۔ موصوف کا تعلق دراصل حیاستان [آرمینستان] سے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ستر کی دہاءی میں حیاستان سے کینیڈا منتقل ہوءے تھے۔ دراصل ان کے خاندان کے بہت سے لوگ کینیڈا میں مقیم تھے۔ ان ہی لوگوں نے آرٹ کے لیے امیگریشن ویزے کا انتظام کیا تھا۔ کینیڈا پہنچ کر آرٹ نے اپنا کاروبار شروع کیا اور ایک اسٹور سے دو، دو سے چار کرتے ہوءے بہت مالدار ہوگءے۔ جب سوویت یونین ٹوٹا اور گرجستان [جورجیا] ایک الگ ملک بنا تو ایک دفعہ یہ گھومنے پھرنے گرجستان آءے۔ ان کو تفلیس بہت بھایا چنانچہ یہاں آبسے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی بیوی اور بچے اب بھی کینیڈا میں رہتے ہیں۔ کینیڈا میں کاروبار بیگم صاحبہ چلاتی ہیں اور آرٹ کا کینیڈا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ تفلیس میں آرٹ کے کءی گھر تھے جو کراءے پہ اٹھے ہوءے تھے۔ ہم جس ریستوراں میں آرٹ سے ملے اس کے ساتھ ہی ایک ہاسٹل تھا جہاں بجٹ مسافر قیام کرتے تھے۔ ہم کھانا کھانے کے دوران آرٹ سے باتیں کرتے رہے۔ کچھ کچھ دیر بعد آرٹ کا کوءی نہ کوءی ملاقاتی آجاتا، جس سے آرٹ مختصر بات کرتا۔ وہ کبھی لوگوں سے روسی زبان میں بات کرتا اور کبھی ایک مقامی خاتون کے توسط سے گرجستانی میں گفتگو کرتا۔ ہمیں آرٹ ایک شاطر کاروباری شخص معلوم دیا جو پیسے سے پیسہ بنانے کا ہنر خوب جانتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر آرٹ سے سب کچھ چھین کر اسے بہت تھوڑا سا سرمایہ دیا جاءے تو وہ اپنے اخراجات بہت کم کر کے اس سرماءے کی پیٹھ پہ سوار ہوجاءے گا اور سرماءے کو جگہ جگہ دوڑا کر اس کا حجم بڑے سے بڑا کرتا جاءے گا۔ آرٹ نے پیشکش کی کہ جب ہمارا واپس تفلیس آنا ہو تو ہم یہاں آنے سے پہلے اسے فون کردیں، وہ ہمارے لیے رہاءش کا اچھا انتظام معقول رقم میں کردے گا۔ ہم نے اس کا نمبر لے لیا اور کاذبغی سے تفلیس پلٹنے پہ ایسا ہی کیا۔ اس نے فون پہ ہمیں ہدایت کی کہ ہم تفلیس پہنچ کر اس کے ریستوراں میں اس سے ملیں، وہ دیکھے گا کہ ہمارے لیے کیا کرسکتا ہے۔ دوسری بار تفلیس پہنچنے پہ ہم تفلیس کو کسی قدر سمجھ چکے تھے، چنانچہ بس اڈے سے میٹرو لے کر پرانے شہر پہنچ گءے۔ میٹرو اسٹیشن سے آرٹ کا ریستوراں کچھ فاصلے پہ تھا۔ ہم اپنا سامان پیٹھ پہ ڈھوءے جب اس ریستوراں تک پہنچے تو کسی قدر تھک چکے تھے۔ آرٹ ہم سے بہت تپاک سے ملا مگر پھر اس نے فورا ہی معذرت کی کہ اس نے ہم سے جس رہاءشی اپارٹمنٹ کا ذکر کیا تھا اسے وہ ایک دن پہلے ہی مہینے بھر کے لیے یوکرین کے چند سیاحوں کو دے چکا تھا۔ اس نے اپنی ناءب خاتون سے درخواست کی کہ وہ ہمیں ریستوراں سے ملحق ہاسٹل کا ایک کمرہ دکھاءے۔ ہم نے کمرہ دیکھا مگر وہ کمرہ کچھ دل کو نہ بھایا۔ ہم نے آرٹ کو بتایا کہ ہم پرانے شہر میں پیدل پھر کر اچھی جگہ تلاش کرنے کی قسمت آزماءی کرنا چاہتے ہیں اور ایسا صرف اس صورت میں کر سکتے ہیں جب ہم اپنا سامان وہاں اس کے پاس رکھوا دیں۔ آرٹ نے بخوشی ایسا کرنے کی اجازت دے دی۔ ہم آرٹ کے ریستوراں سے نکلے اور اندازے سے ایک طرف چلنا شروع ہوگءے۔ پرانے شہر میں کءی ہوٹلوں سے معلوم کیا۔ ان ہوٹلوں میں یا تو کمرے خالی نہ تھے یا تھے تو ان کے نرخ ہمارے بجٹ سے بہت زیادہ تھے۔ آخر میں انٹرنیٹ کی مدد حاصل کرنے کی ضرورت پڑی۔ یہ بھی اچھا ہے کہ اب دنیا بھر میں جگہ جگہ انٹرنیٹ کی سہولت واءرلیس کے ساتھ دستیاب ہوتی ہے۔ ہم تفلیس کے پرانے شہر میں ایسی ہی ایک جگہ بیٹھے گءے۔ تب ہی اندازہ ہوا کہ تفلیس کا پرانا شہر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہم جس جگہ ہوٹل تلاش کررہے تھے وہ شہر کے درمیان سے گزرنے والے دریاءے کر کے مغرب میں تھا؛ اس پرانے حصے میں ہی زیادہ تر سیاحتی مقامات ہیں۔ دریا کے مشرق میں سیاحوں کا رش چھٹ جاتا ہے اور اسی وجہ سے وہاں ہوٹلوں کے نرخ کم ہیں۔ انٹرنیٹ پہ ہمیں مشرقی ساحل کا ایک ہوٹل ارزاں نرخ پہ مل گیا۔ جھٹ پٹ اس ہوٹل کی بکنگ کروالی۔ اس وقت تک شام ہوچلی تھی اور پاپی پیٹ ایک بار پھر تنگ کررہا تھا۔ یہ معلوم نہ تھا کہ ہم جس ہوٹل میں قیام کے لیے جا رہے تھے اس کے آس پاس کھانے پینے کی کس طرح کی جگہیں تھیں۔ بہتر تھا کہ شہر کے اس مانوس علاقے میں کھانا کھا کر ہوٹل جایا جاءے۔ تفلیس میں پچھلے قیام کے دوران قازقستان سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ژاندوس مل گیا تھا۔ ژاندوس کے ساتھ اچھا وقت گزرا تھا اور اس نے ہمیں ایک  معیاری مقامی ریستوراں بھی دکھایا تھا۔ یہ اس طرح کا مقامی ریستوراں تھا جہاں فہرست غذا انگریزی میں ترجمے کے بغیر تھی۔ ہم نے ژاندوس کے ساتھ وہاں کھانا کھایا تھا اور وہ کھانا ہمیں پسند بھی بہت آیا تھا۔ چنانچہ پیٹ پوجا کے لیے اسی جگہ پہنچ گءے۔ جاری ہے۔

Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?