Sunday, July 28, 2013

 

غریب کی دولت


جولاءی اٹھاءیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
 کالم شمار ایک سو اڑتالیس

غریب کی دولت

کہنے کو تو دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی نظام کی کمر ٹوٹ گءی؛ بہت سے علاقے اس نظام کی غلامی سے آزاد ہوگءے اور نءے ممالک وجود میں آءے۔ مگر آزادی کے بعد بھی ان میں سے بیشتر 'ترقی پذیر' ممالک کی قسمت نہیں بدلی۔ یہ بدحکومت کا شکار ہوءے اور ان ممالک کے عوام بدحالی کی نچلی ترین منزل پہ پہنچ گءے۔
کون کہہ سکتا ہے کہ غربت اور کم علمی ایک ہی سکے کے دو رخ نہیں ہیں؟ غریب کو اپنی دولت کا علم نہیں ہوتا؛ اور غریب کی اسی کم علمی کی وجہ سے غریب کو لوٹ کر اس کی دولت حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔ بین الاقوامی میدان میں اس لوٹ کھسوٹ کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کھیل کو آپ چھوٹی سطح پہ کسی بھی 'ترقی پذیر' ملک کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس 'ترقی پذیر' ملک کے 'ترقی یافتہ' لوگ اسی ملک کے 'پسماندہ' لوگوں کو کس طرح بے وقوف بنا کر لوٹتے ہیں۔  اس لوٹ مار کا مشاہدہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ ان 'پسماندہ' علاقوں میں مقامی لوگوں کی تعلیم کا بندوبست کرنے سے پہلے سڑک لانے کا کام کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا مسءلہ یہ ہے کہ ان کا شہروں سے رابطہ نہیں ہے۔ ان کے علاقے تک سڑک بچھ گءی تو ان کے سارے مساءل حل ہوجاءیں گے۔ مقامی لوگوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان کو نہ تو اپنے وساءل کی قدر ہوتی ہے اور نہ ہی ماحولیاتی مساءل کا ادراک ہوتا ہے۔ چنانچہ سڑک بنتے ہی ان علاقوں میں ایسے لوگ پہنچتے ہیں جو وساءل کی لوٹ مار میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ درختوں کا صفایا کر کے ان کی لکڑی ٹرکوں میں لاد کر علاقے سے باہر منتقل کی جاتی ہے۔ لکڑی کے اونے پونے داموں کی آمدنی سے مقامی لوگ ایسی چیزیں خریدتے ہیں جو بظاہر چکاچوند کرتی نظر آتی ہیں مگر بے مصرف ہوتے ہی ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں علاقے کا نقشہ بدل جاتا ہے۔  جہاں خوب صورت جنگل تھا اور ساتھ ایک صاف ستھرا دریا بہہ رہا تھا وہاں اب ٹنڈ منڈ میدان میں دریا کے گندے پانی کے ساتھ پلاسٹک اور دوسرے کچرے کے ڈھیر نظر آنے لگتے ہیں۔ اور سیانے اس صورتحال کو دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ 'ہاں بھءی، ہو گءی ترقی؟'
اب اسی کھیل کو بین الاقوامی سطح پر دیکھیں۔ یہاں چند امیر 'ترقی یافتہ' ممالک ہیں اور بہت سے غریب 'ترقی پذیر' ممالک۔ ان ترقی یافتہ ممالک نے 'دنیا والوں کی بھلاءی' کے لیے بہت سے بین الاقوامی ادارے بناءے ہوءے ہیں۔  یہ بین الاقوامی ادارے ترقی پذیر ممالک کو باور کراتے ہیں کہ وہ کتنے پسماندہ اور غریب ہیں اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کونسے منصوبوں پہ عمل کرکے ترقی کر سکتے ہیں۔ ان ترقیاتی منصوبوں پہ عمل درآمد کے لیے کثیر سرمایہ چاہیے ہوتا ہے۔ یہ سرمایہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ملک کو 'مناسب' سودی نرخ پہ فراہم کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر مقامی لوگوں کی کم علمی کی وجہ سے ترقیاتی منصوبہ وہ اہداف نہیں حاصل کرپاتا جن کی توقع کی گءی ہوتی ہے اور جن کا وعدہ 'فیسیبلٹی اسٹڈی' میں کیا گیا ہوتا ہے۔ اور یوں یکے بعد دیگرے کیے جانے والے ناکام ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے ملک قرض کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے اور اس ملک کے کم فہم راہ نما ملک کی اگلی چند نسلوں تک کو بین الاقوامی اداروں کا گروی رکھ دیتے ہیں۔
ان مثالوں سے غریب کے لیے سبق واضح ہے۔ اس کی غربت کی اصل وجہ اس کی کم علمی ہے نہ کہ بظاہر چمکتی دمکتی مادی اشیا کی کمی۔ غریب کے اپنے وساءل ہیں مگر ان وساءل کو بھرپور طور سے استعمال کرنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ 'ترقی پذیر' ممالک اور علاقوں کو صرف ان 'ترقیاتی منصوبوں' پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ان ممالک اور علاقوں کے اپنے لوگ تشکیل دے سکیں۔ غریب کی پہلی ترجیح علم کا حصول ہونا چاہیے۔ علم آجاءے گا تو ترقی کے راستے خودبخود کھل جاءیں گے۔
اس کالم میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے انہیں ویڈیو کی شکل میں یہاں دیکھا جاسکتا ہے:


Labels: , , , ,


Friday, July 26, 2013

 

بڑا نظام، چھوٹے لوگ

جولاءی اکیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو سینتالیس

بڑا نظام، چھوٹے لوگ

فیس بک کا یارانہ بھی خوب ہوتا ہے۔ فیس بک پہ بننے والے آپ کے دوست مختلف موضوعات پہ خبریں  لگاتے رہتے ہیں اور اس طرح نہ صرف یہ کہ آپ کو دنیا کی خبر رہتی ہے بلکہ ان دوستوں کے ذہنی رجحانات کا اندازہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں انگریز کے تسلط سے پہلے جو نظام حکومت تھا اس میں مرکز کو بہت کم دخل تھا۔ زیادہ تر فیصلے مقامی ہوتے تھے۔ انگریز کے تسلط کے بعد یہ غیرمرکزی نظام مکمل طور پہ تبدیل ہوگیا۔ اب کیونکہ فاءدہ تاج برطانیہ اور انگریز کاروباری اداروں کو پہنچنا تھا اس لیے ملک کو ایک مرکزی نظام سے چلانا ضروری ہوگیا۔ مرکزی نظام کے ضمن میں ایک دوسرا مشاہدہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کیونکہ یورپ سے شروع ہوا اس لیے یورپ اور یورپ نژاد لوگوں کو ارباناءزیشن کا زیادہ طویل تجربہ ہے۔ انہیں بڑی تعداد کے گروہوں کو چلانا، ان کا انتظام کرنا دوسرے لوگوں سے بہتر آتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے بعد جب انگریز کا جنوبی ایشیا سے جانا ناگزیر ہوگیا تو ہمارے مقامی راہ نماءوں نے مرکزیت کے اسی نظام کو قاءم رہنے دیا جو انگریز کی دین تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سنہ سینتالیس میں انگریز کے جانے پہ ہم دوبارہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ جاتے؛ مقامی راہ نما اپنے اپنے علاقوں کو عمدگی سے چلاتے، اور پھر یہ ریاستیں اپنی مرضی سے دوسری ریاستوں سے معاشی اور سیاسی اتحاد بناتیں۔ مگر مغرب سے پڑھ کر آنے والے ہمارے سیاستدانوں نے مغرب کا راستہ چنا۔ اس خطے میں دو بڑے ملک بن گءے۔ اور آج تک ہمیں اس گناہ کی سزا مل رہی ہے۔ سنہ سینتالیس میں دو بڑے ممالک اور بہت سی چھوٹی ریاستوں کے قیام کے بعد یہ حقیقت سامنے آءی کہ ان دو بڑے ملکوں کو اچھے انداز سے حکومت چلانے کے بجاءے یورپی نوآبادیاتی سوچ کے حساب سے زیادہ سے زیادہ رقبہ اپنے ملک کےاندر شامل کرنے کی ہوس تھی۔ آپ وقتی طور پہ چھوٹی ریاستوں کو ڈرادھمکا کر، ان پہ جنگ مسلط کر کے ان کو اپنے ملک کا حصہ تو بنا سکتے ہیں لیکن اگر عوام مطمءن نہ ہوں تو آپ ملک میں امن قاءم نہیں کر سکتے اور ملک کو ٹوٹنے سے نہیں روک سکتے۔ سنہ اکہتر میں ایسا ہی ہوا اور آج جنوبی ایشیا کے مختلف علاقوں میں چلنے والی آزادی کی تحاریک اسی اصل خرابی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بڑے ملک چلانے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی جنوبی ایشیا کے عوام اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں۔  اور جو گروہ کسی ملک کے وسیع سیاسی نظام کا حصہ نہیں ہیں وہ اور بھی خفا رہتے ہیں اور اپنے "ملک" سے آزادی چاہتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست کو سوشل میڈیا کی آنکھ سے دیکھیے تو آپ کو ہرجگہ تحریک انصاف کے جیالے نظر آءیں گے۔ ایسے ہی چند عمرانی جیالے ہم سے بھی فیس بک کا یارانہ رکھتے ہیں۔ وہ بہت فخر سے ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح اب خیبر پختونخواہ کے اسپتالوں میں مفت دواءیں ملیں گی، وغیرہ، وغیرہ۔ ان خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی حکومت اور ریاست سے توقعات کس قدر عجیب و غریب صورت رکھتی ہیں۔ وہ اس اچھی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں جو ان کو بجلی اور پانی مفت فراہم کرے گی اور ساتھ ہی تعلیم اور علاج معالجے کا انتظام بھی فلاحی طور پہ کرے گی۔  لگتا ہے کہ اس سلسلے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ریاست کی اصل ذمہ داری کیا ہے۔ ریاست کی اصل ذمہ داری معاشرے میں امن قاءم کرنا اور انصاف کرنا ہے۔ ریاست کا کام بجلی اور پانی کی فراہمی نہیں ہے۔ ہاں اس نظام کو منصفانہ رکھنا یقینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایک فلاحی ریاست یقینا ایسا نظام قاءم کرسکتی ہے جہاں ٹیکس کی آمدنی سے معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد ہوسکے مگر ایسا کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری نہیں ہے۔ ریاست کی اول ذمہ داری اپنے عوام کی جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ جو ریاست ایسا کرنے میں ناکام ہے وہ ایک ناکام ریاست ہے۔



Monday, July 15, 2013

 

بارٹ کی ہڑتال، آسیانا حادثہ، تقسیم چوک


 جولاءی چودہ، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
 کالم شمار ایک سو چھیالیس

بارٹ کی ہڑتال، آسیانا حادثہ، تقسیم چوک

اس کالم کا عنوان پڑھ کر آپ خیال کر سکتے ہیں کہ بھلا بارٹ کی ہڑتال، آسیانہ اءیرلاءنز کے حالیہ حادثے، اور استنبول کے تقسیم میدان میں ہونے والے مظاہروں کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ ان تینوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اور وہ تعلق ہے ازالہ حیثیت عرفی کا۔ فرد کی طرح اداروں اور ملکوں کو بھی اپنے نام کی بے حد پرواہ ہوتی ہے اور اگر نہیں ہے تو ہونی چاہیے۔ دنیا میں آپ کو کس طرح کے مواقع میسر آءیں گے، آپ کیا کچھ اپنی مرضی سے کر پاءیں گے، ان سب کا گہرا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کے بارے میں دنیا والوں کی کیا راءے ہے۔ اگر کسی شخص کے بارے میں لوگوں کی یہ راءے قاءم ہوجاءے کہ وہ بے ایمان ہے اور اس پہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو اس شخص کے لیے اس عمومی راءے سے لڑ کر اپنی راہ ہموار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاءے گا۔ یہی کلیہ اداروں پہ لاگو ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اداروں کو اپنی شہرت، اپنی حیثیت عرفی کی بے حد پرواہ ہوتی ہے۔ حال میں ہونے والی بارٹ کی ہڑتال میں یہ نکتہ بھی زیرغور تھا کہ انتظامیہ اور عملے کی لڑاءی اپنی جگہ، کہیں اس لڑاءی میں بارٹ کا نام تو بدنام نہیں ہورہا؛ کہیں لوگوں کا اعتماد بارٹ پہ سے اٹھ تو نہیں جاءے گا؟ اگر صارفین نے بارٹ سے ہٹ کر سفر کے متبادل مستقل انتظامات کر لیے تو پورا ادارہ ان بدلتی ترجیحات سے متاثر ہوگا۔ پھر نہ انتظامیہ کے ہاتھ کچھ آءے گا اور نہ ہی عملے کا بھلا ہوگا۔ ان سب کے معاشی مفادات پہ کاری ضرب لگے گی۔
سنیچر، جولاءی چھ، سان فرانسسکو کے ہواءی اڈے پہ آسیانہ اءیرلاءنز کا جہاز اترتے ہوءے حادثے کا شکار ہوگیا۔ یہاں تین اداروں کو اپنی حیثیت عرفی کی پرواہ تھی۔ بوءنگ کو کہ جس نے وہ جہاز بنایا تھا جو حادثے کا شکار ہوا، آسیانہ اءیرلاءنز کو جو وہ جہاز اڑا رہی تھی، اور سان فرانسسکو ہواءی اڈے کو جہاں یہ جہاز اتر رہا تھا۔ بوءنگ تو پہلے ہی اس جھگڑے سے نکل گیا کہ اس کے بناءے ہوءے بوءنگ سات سات سات جہاز پوری دنیا میں بہت سی اءیرلاءنوں کے تصرف میں ہیں اور بے حد محفوظ خیال کیے جاتے ہیں۔ اب جھگڑا رہ گیا آسیانہ اور سان فرانسسکو ہواءی اڈے کا۔ خبر آءی کہ حادثے والے روز سان فرانسسکو ہواءی اڈے کا برقی انسٹرومینٹ لینڈنگ سسٹم بند تھا۔ کیا یہ لینڈنگ سسٹم بند نہ ہوتا تو جہاز بخیریت اترجاتا؟ کیا اناڑی کپتان کی غلطی انسٹرومینٹ لینڈنگ سسٹم صحیح کردیتا؟ سان فرانسسکو ہواءی اڈے کی انتظامیہ کو یہ اطمینان تھا کہ لینڈنگ سسٹم کے بند ہونے کے باوجود سینکڑوں دوسرے جہاز اس ہواءی اڈے پہ بخیریت اتر گءے اور اترتے رہے۔ جس روز یہ حادثہ ہوا اس دن مطلع صاف تھا اور کسی بھی جہاز کو حفاظت سے اتارنے میں انسٹرومینٹ لینڈنگ سسٹم کی مدد کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ہواءی اڈے کی انتظامیہ  نے اس وقت مزید سکون کا سانس لیا جب حادثے کے کچھ ہی عرصے بعد آسیانہ اءیرلاءنز کے صدر نے مسافروں سے حادثے پہ معافی مانگ لی۔ مگر اس معافی کی بہت زیادہ قانونی حیثیت نہیں ہے۔ حادثے پہ تحقیقات جاری ہیں اور تفصیلی رپورٹ ظاہر کرے گی کہ حادثے کی ذمہ داری کن اشخاص اور اداروں پہ کتنی کتنی لاگو ہوتی ہے۔ اگر تحقیقی رپورٹ میں حادثے کی ذمہ داری پچھتر فی صد کپتان پہ اور پچیس فی صد ہواءی اڈے پہ ڈالی گءی تو مجھے تعجب نہ ہوگا۔
اب آ جاءیے ترکی میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کی طرف۔ استنبول کا میدان تقسیم ان مظاہروں کا خاص مرکز ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی ان مظاہروں کی تشہیر سے اس بات کا امکان پیدا ہوگیا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ترکی کا رخ کرنے والے سیاح ڈر جاءیں گے اور شاءد ترکی جانے کا ارادہ ملتوی کردیں۔ اور واقعی ایسا ہوا ہے۔ استنبول کی ایک ٹریول ایجنسی کے نماءندے نے مجھے بتایا کہ تقسیم میدان کے ہوٹل اس قدر خالی چل رہے ہیں کہ وہاں کمروں کے نرخ پچھتر فی صد تک کم کردیے گءے ہیں۔ استنبول کے سیاحتی مرکز، سلطان احمد، میں بھی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔
دوسری رمضان کو تقسیم پہ ہونے والے مظاہرے کی ویڈیو یہاں ملاحظہ فرماءیے۔ اس ویڈیو کے ساتھ لکھا گیا متن میرے خیالات کا ترجمان ہے۔
یہ ساری مثالیں واضح کرتی ہیں کہ حیثیت عرفی کی کس قدر اہمیت ہے۔ نام بنانے میں ایک طویل عرصہ لگتا ہے، جب کہ نام خراب ہونے میں ذرا وقت نہیں لگتا۔ ایک دفعہ آپ کا نام بدنام ہوجاءے تو آپ مستقل خسارے میں چلے جاءیں گے اور آپ کے لیے اس دلدل سے نکلنا بہت مشکل ہوجاءے گا۔ ان خیالات کے تناظر میں ذرا پاکستان کو دیکھیے جہاں آءے دن دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی ہیں اور حکومت اور فوج کے کان پہ جوں رینگتی نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں کون پاکستان پہ اعتماد کرے گا؟ کون اس ملک کے ساتھ کاروباری معاملہ کرنا چاہے گا؟ کون وہاں کے خوبصورت مقامات کو دیکھنا چاہے گا؟
اس کالم میں جن خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے انہیں ویڈیو کی شکل میں یہاں دیکھا جاسکتا ہے:


Labels: , , , , ,


Monday, July 08, 2013

 

جمعے کی نماز کا ووٹ


جولاءی سات، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو پینتالیس

جمعے کی نماز کا ووٹ

مسلمان پہ نماز فرض ہے مگر یقینا اس کے لیے یہ فیصلہ بھی بہت اہم ہے کہ وہ کس کو اپنا قاءد مان کر اس کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے۔  اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر مسلمان کو دن میں پانچ دفعہ ووٹ دینے کا موقع ملتا ہے۔ فجر سے عشاء تک ہر نماز کے موقع پہ وہ جس امام کا مقتدی ہوتا ہے دراصل اس امام کو اپنے اعتماد کے ووٹ کا حقدار خیال کرتا ہے۔ اور ہفتے میں ایک روز یعنی نماز جمعہ کے موقع پہ ووٹ دینے کا ایک بڑا موقع میسر آتا ہے۔ بہت سے لوگ ووٹ کا یہ حق بغیر سوچے سمجھے استعمال کرتے ہیں؛ جو سینہ ٹھونک کر امام بن گیا، بس اس کے پیچھے خاموشی سے نماز پڑھ لی۔ مگر ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے اس ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہتے ہیں۔ میرا شمار ان دوسری طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس امام کے خیالات جاننا چاہتے ہیں جس کے پیچھے وہ نماز پڑھیں گے۔ وہ شخص کتنا علم رکھتا ہے؟ کیا اس کا علم محض چند مذہبی کتابوں تک محدود ہے یا وہ اسلام کی سچی تعلیمات پہ عمل کرتا ہوا ہر قسم کے علم کی کچھ نہ کچھ شدبد رکھتا ہے؟ کیا وہ بنیادی ساءنس سے واقف ہے؟ کیا اس شخص سے نیوٹن اور آءنسٹاءن کے نظریات پہ بات کی جاسکتی ہے؟  کیا نماز پڑھانے والا شخص جدید دور میں ریاست، حکومت، اور جمہور کے تعلق کو سمجھتا ہے؟ کیا وہ بنیادی سماجی علوم سے واقفیت رکھتا ہے؟ کیا ہم سے نماز جمعہ کی قیادت کا ووٹ مانگنے والے اس شخص کے پاس گہرا تاریخی شعور ہے؟ کیا اس نے اسلامی تاریخ کو ایک عالم کی نظر سے چھان پھٹک کر دیکھا ہے یا وہ اپنے خطبے میں وہی دوچار رٹے رٹاءے قصے سنا کر لوگوں کو چلتا کرنا چاہتا ہے؟
اگر ہم اس شخص سے پوچھیں کہ ہمارے نبی کس مال کی تجارت کرتے تھے، وہ مال کہاں سے آتا تھا، کون انہیں دیتا تھا، مال کی کھپت کہاں تھی، اس عہد میں کونسا سکہ راءج تھا، لوگ کس طرح کے کپڑے پہنتے تھے۔ وہ کس کپڑے کس طرح تیار کیے جاتے تھے، تو کیا یہ شخص ان سوالات کے مدلل جوابات دے پاءے گا؟  یا اس سے معلوم کیا جاءے کہ ہمارے نبی کی ہم عصر تاریخی شخصیات کون تھیں، وہ لوگ دنیا کے کن خطوں سے تعلق رکھتے تھے، اس عہد میں طاقت کے مراکز کونسے تھے اور وہاں کونسے بادشاہ حکومت کرتے تھے، تو اس شخص کے پاس ان سوالات کے جوابات ہوں گے؟  کیا یہ شخص موجودہ دنیا میں راءج  کیلنڈر کے حساب سے انبیا کی حیات مبارکہ کے سنہ پہ نشان لگا سکتا ہے؟ مثلا کیا وہ یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا زمانہ کس سنہ کی بات ہے، اور اسی طرح حضرت آدم کی دنیا میں آمد کس سنہ میں ہوءی؟  کیا نماز جمعے کے لیے بڑا مجمع لگانے والا شخص آرکیالوجی سے واقفیت رکھتا ہے؟  کیا وہ رکاز [فاسلز] کے بارے میں جانتا ہے، ارتقا کے نظریے کو سمجھتا ہے، اور اس نظریے سے فلسفیانہ اختلاف کی طاقت رکھتا ہے؟
جہاد کے متعلق اس کے کیا خیالات ہیں، اعلان جہاد کا حق کسے حاصل ہے، اور اس شخص کے خیال میں جہاد کے کیا قواءد و ضوابط ہیں؟
قصہ مختصر کہ جب تک مساجد میں ایسے امام موجود نہ ہوں گے جو دور حاضر کے علمی شعور سے گہری واقفیت رکھتے ہوں اس وقت تک نماز پڑھانے والے ان قاءدین کو صرف وہی لوگ ملیں گے جو بھیڑ بکریوں کی طرح اندھی تقلید پہ ایمان رکھتے ہوں۔ صاحب الراءے افراد اس مجمع سے دور ہی رہیں گے۔


 

Labels: ,


Monday, July 01, 2013

 

وقاص


جون تیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
 کالم شمار ایک سو چوالیس
  
وقاص


کوءٹہ میں رہنے والے ہزارہ پہ لشکر جھنگوی کے حملے جاری ہیں۔ پندرہ جون کو طالبات کی بس میں دھماکے اور بولان اسپتال کے قتل عام کے بعد اب تیس جون کو ہزارہ پہ ایک اور خودکش حملہ ہوگیا۔ ریاست ناکام ہے اور حکومت اگر براہ راست اس قتل عام میں ملوث نہیں ہے تو کمزور اور بزدل ضرور ہے کہ  ہر قتل عام کے بعد لشکر جھنگوی سینہ ٹھونک کر ذمہ داری قبول کرتی ہے مگر نہ تو سیاسی حکومت کے کان پہ جوں رینگتی ہے اور نہ ہی فوج ان لوگوں کے خلاف کوءی کارواءی کرتی ہے۔ پاکستان میں دو گروہ خودکش حملوں میں ملوث ہیں۔ اہل تشیع پہ کوءی حملہ ہو تو اس کی ذمہ داری لشکر جھنگوی جماعت قبول کرتی ہے؛ اگر حملہ دیگر پاکستانیوں پہ، سیاسی راہ نماءوں پہ، یا فوج پہ کیا جاءے تو اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی ہے۔ ابھی بھی چند نادان لوگ ایسے ہیں جن کا خیال ہے کہ یہ دو جماعتیں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں گروہ شیر و شکر ہیں۔  لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان اتحاد کا ثبوت ایک ایسے نوجوان کی کہانی سے ملتا ہے جسے کچھ عرصہ پہلے کوءٹہ سے گرفتار کیا گیا۔ اس لڑکے کا نام وقاص ہے۔ یہ کراچی کا رہنے والا ہے اور جس روز اسے کوءٹہ سے گرفتار کیا گیا اس روز یہ ہزارہ پہ خودکش حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ کیس دلچسپ اس لیے ہے کیونکہ وقاص کا تعلق نہ تو خیبر پختون خواہ سے ہے اور نہ ہی جنوبی پنجاب سے۔ وقاص کراچی کا رہنے والا مہاجر بچہ ہے۔  وقاص غالبا بارہ جماعتیں پڑھنے کے بعد آءی ٹی کے شعبے میں لگ گیا اور لوگوں کے لیے ویب ساءٹ بنانے لگا۔ اسی درمیان انٹرنیٹ پہ طرح طرح کا مواد پڑھنےپہ وقاص کے دل میں امت مسلمہ کے لیے زوردار ٹھیس اٹھی۔ وہ افغانستان جا کر امریکہ کے خلاف جہاد کرنا چاہتا تھا۔ اسی نیت سے وہ کراچی سے وزیرستان پہنچا۔  وہاں غالبا اس کی ٹریننگ ہوءی مگر اسے یہ کہہ کر واپس کراچی روانہ کردیا گیا کہ وقاص کو نہ تو دری بولنا آتی ہے اور نہ پشتو، اور اس وجہ سے اسے جہاد کے لیے افغانستان نہیں  بھیجا جاسکتا۔ وقاص واپس کراچی چلا آیا۔ مگر پھر کچھ ہی عرصے میں اسے جہاد کے لیے کوءٹہ بلایا گیا۔ وقاص 'اسلام' کی سربلندی کے لیے اپنی جان دینے کو تیارتھا اور اسی وجہ سے فورا کوءٹہ پہنچ گیا۔ وقاص کے کوءٹہ پہنچنے پر اسے بتایا گیا کہ اسے ہزارہ پہ حملہ کرنا ہے۔ وقاص نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ وقاص کا کہنا تھا کہ یہ تو ہمارے پاکستانی مسلمان بھاءی ہیں، ان سے جہاد کے کیا معنی؟  مگر پھر وقاص پہ کام کیا گیا۔ اسے دن رات سمجھایا گیا کہ جن پہ حملہ کرنا ہے وہ لوگ مسلمان ہرگز نہیں ہیں؛ بلکہ یہ لوگ تو مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اصل میں کافر ہیں، یہ لوگ تو مشرک ہیں، وغیرہ، وغیرہ۔ وقاص کا کچا ذہن رفتہ رفتہ شیعہ کے خلاف نفرت سے بھرتا گیا حتی کہ وہ ان پہ خودکش حملے کے لیے تیار ہوگیا۔ یہ کوءٹہ پولیس کی کامیابی ہے کہ اس نے وقاص کو اس کے حملے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا اور یوں نہ جانے کتنے بےگناہ لوگوں کی جان بچا لی گءی۔ وقاص کے بیان سے ثابت ہے کہ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کے کارکنان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔  اس گروہ کے پاس پندرہ سے بیس سال کے لڑکے خودکش حملوں کے لیے تیار ہیں۔ کبھی ان سے حملہ لشکر جھنگوی کے بینر تلے کروایا جاتا ہے اور کبھی طالبان کے پرچم تلے۔
جہاں ایک طرف معصوم لوگوں پہ ان شدت پسندوں کے حملے جاری ہیں وہیں دوسری طرف ملکی سطح پہ ان لوگوں سے نمٹنے کی کوءی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ کسی سیاسی راہ نما نے شدت پسندی سے نبردآزما ہونے کے لیے راءے عامہ ہموار کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔  اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اسلام کا نام سن کر لوگ جذبات میں بہہ جاتے ہیں، ایسی راءے عامہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ لوگوں کو وضاحت سے سمجھانا ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جو 'اسلام' کا نام لے رہا ہے مسلمانوں کا دوست ہرگز نہیں ہے؛ کہ 'اسلام' کا نام لے کر کسی شخص پہ حملہ کر کے اسے مارنا اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے؛ کہ 'اسلام' کے نام پہ کسی کا قتل کر کے نعتیں پڑھنے والا شخص اللہ کا محبوب ہرگز نہیں بن جاتا بلکہ ایسا شخص دوزخی ہے اور نفرت کے لاءق ہے۔
قومی راءے عامہ ہموار کرنے کے معاملے میں اگر درج ذیل چار نکات پہ لوگوں کو متفق کرلیا جاءے تو کیا ہی اچھا ہو۔

۱۔ قرآن پہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے مگر قرآن میں موجود اکثر احکامات مبہم ہیں۔ ان احکامات کی تشریح مختلف انداز سے کی جا سکتی ہے، اور کی گءی ہے، اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی حدیث کی کتاب کو، کسی مذہبی عالم کی لکھاءی کو مسلمانوں کے لیے ہدایت کا چشمہ قرار نہیں دیا۔ چنانچہ ایک فرقہ اگر قرآن کے علاوہ کسی اسلامی کتاب کو مستند مانتا ہے اور دوسرا نہیں مانتا تو دونوں میں سے کوءی قرآنی احکامات سے منکر نہیں ہورہا۔ اسی بات کو آگے بڑھاءیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو شخص کہتا ہے کہ وہ 'شریعت' نافذ کرنا چاہتا یا 'اسلامی نظام' کا نفوذ چاہتا ہے وہ شخص دراصل اس نظام کا حصول چاہتا ہے جو اس کے خیال میں یا اس کے فرقے کے خیال میں 'اسلامی نظام' ہے۔ دوسرے مسلمانوں کا اسلام کے اس ٹھیکے دار سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

۲۔ قرآن نے کسی شخص کو،  کسی مذہبی عالم کو، کسی جماعت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ فیصلہ کرے کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہا ہے واقعی مسلمان ہے یا نہیں۔ کسی شخص کے صحیح مسلمان ہونے یا کافر ہونے کا فیصلہ قیامت کے روز ہوگا۔ سب سے قابل مذمت وہ شخص ہے جو دوسروں پہ کفر کے فتوے لگا کر لوگوں میں نفرت کے بیج بورہا ہے۔

۳۔ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مل جل کر فیصلہ کریں کہ وہ کس طرح کے نظام حکومت میں رہنا چاہتے ہیں۔ کسی فرد یا جماعت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دھونس دھڑپے سے اپنی پسند کا نظام لوگوں پہ چلانے کی کوشش کرے۔

۴- ہر ملزم کو عدالت میں اپنی صفاءی پیش کرنے کا حق حاصل ہے چاہے اس شخص پہ کتنے ہی سنگین اور کریہہ جرم کا الزام کیوں نہ ہو۔ ماوراءے عدالت قتل چاہے وہ اسلام کے نام پہ کیا جاءے یا کسی برگزیدہ ہستی کے نام پہ انتہاءی گھٹیا اور قابل مذمت فعل ہے۔
==
اس کالم میں جن خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے انہیں ویڈیو کی شکل میں یہاں دیکھا جاسکتا ہے:



 

Labels: , , , , , ,


This page is powered by Blogger. Isn't yours?