Monday, July 01, 2013

 

وقاص


جون تیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
 کالم شمار ایک سو چوالیس
  
وقاص


کوءٹہ میں رہنے والے ہزارہ پہ لشکر جھنگوی کے حملے جاری ہیں۔ پندرہ جون کو طالبات کی بس میں دھماکے اور بولان اسپتال کے قتل عام کے بعد اب تیس جون کو ہزارہ پہ ایک اور خودکش حملہ ہوگیا۔ ریاست ناکام ہے اور حکومت اگر براہ راست اس قتل عام میں ملوث نہیں ہے تو کمزور اور بزدل ضرور ہے کہ  ہر قتل عام کے بعد لشکر جھنگوی سینہ ٹھونک کر ذمہ داری قبول کرتی ہے مگر نہ تو سیاسی حکومت کے کان پہ جوں رینگتی ہے اور نہ ہی فوج ان لوگوں کے خلاف کوءی کارواءی کرتی ہے۔ پاکستان میں دو گروہ خودکش حملوں میں ملوث ہیں۔ اہل تشیع پہ کوءی حملہ ہو تو اس کی ذمہ داری لشکر جھنگوی جماعت قبول کرتی ہے؛ اگر حملہ دیگر پاکستانیوں پہ، سیاسی راہ نماءوں پہ، یا فوج پہ کیا جاءے تو اس کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی ہے۔ ابھی بھی چند نادان لوگ ایسے ہیں جن کا خیال ہے کہ یہ دو جماعتیں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں گروہ شیر و شکر ہیں۔  لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان اتحاد کا ثبوت ایک ایسے نوجوان کی کہانی سے ملتا ہے جسے کچھ عرصہ پہلے کوءٹہ سے گرفتار کیا گیا۔ اس لڑکے کا نام وقاص ہے۔ یہ کراچی کا رہنے والا ہے اور جس روز اسے کوءٹہ سے گرفتار کیا گیا اس روز یہ ہزارہ پہ خودکش حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ کیس دلچسپ اس لیے ہے کیونکہ وقاص کا تعلق نہ تو خیبر پختون خواہ سے ہے اور نہ ہی جنوبی پنجاب سے۔ وقاص کراچی کا رہنے والا مہاجر بچہ ہے۔  وقاص غالبا بارہ جماعتیں پڑھنے کے بعد آءی ٹی کے شعبے میں لگ گیا اور لوگوں کے لیے ویب ساءٹ بنانے لگا۔ اسی درمیان انٹرنیٹ پہ طرح طرح کا مواد پڑھنےپہ وقاص کے دل میں امت مسلمہ کے لیے زوردار ٹھیس اٹھی۔ وہ افغانستان جا کر امریکہ کے خلاف جہاد کرنا چاہتا تھا۔ اسی نیت سے وہ کراچی سے وزیرستان پہنچا۔  وہاں غالبا اس کی ٹریننگ ہوءی مگر اسے یہ کہہ کر واپس کراچی روانہ کردیا گیا کہ وقاص کو نہ تو دری بولنا آتی ہے اور نہ پشتو، اور اس وجہ سے اسے جہاد کے لیے افغانستان نہیں  بھیجا جاسکتا۔ وقاص واپس کراچی چلا آیا۔ مگر پھر کچھ ہی عرصے میں اسے جہاد کے لیے کوءٹہ بلایا گیا۔ وقاص 'اسلام' کی سربلندی کے لیے اپنی جان دینے کو تیارتھا اور اسی وجہ سے فورا کوءٹہ پہنچ گیا۔ وقاص کے کوءٹہ پہنچنے پر اسے بتایا گیا کہ اسے ہزارہ پہ حملہ کرنا ہے۔ وقاص نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ وقاص کا کہنا تھا کہ یہ تو ہمارے پاکستانی مسلمان بھاءی ہیں، ان سے جہاد کے کیا معنی؟  مگر پھر وقاص پہ کام کیا گیا۔ اسے دن رات سمجھایا گیا کہ جن پہ حملہ کرنا ہے وہ لوگ مسلمان ہرگز نہیں ہیں؛ بلکہ یہ لوگ تو مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اصل میں کافر ہیں، یہ لوگ تو مشرک ہیں، وغیرہ، وغیرہ۔ وقاص کا کچا ذہن رفتہ رفتہ شیعہ کے خلاف نفرت سے بھرتا گیا حتی کہ وہ ان پہ خودکش حملے کے لیے تیار ہوگیا۔ یہ کوءٹہ پولیس کی کامیابی ہے کہ اس نے وقاص کو اس کے حملے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا اور یوں نہ جانے کتنے بےگناہ لوگوں کی جان بچا لی گءی۔ وقاص کے بیان سے ثابت ہے کہ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کے کارکنان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔  اس گروہ کے پاس پندرہ سے بیس سال کے لڑکے خودکش حملوں کے لیے تیار ہیں۔ کبھی ان سے حملہ لشکر جھنگوی کے بینر تلے کروایا جاتا ہے اور کبھی طالبان کے پرچم تلے۔
جہاں ایک طرف معصوم لوگوں پہ ان شدت پسندوں کے حملے جاری ہیں وہیں دوسری طرف ملکی سطح پہ ان لوگوں سے نمٹنے کی کوءی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ کسی سیاسی راہ نما نے شدت پسندی سے نبردآزما ہونے کے لیے راءے عامہ ہموار کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔  اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اسلام کا نام سن کر لوگ جذبات میں بہہ جاتے ہیں، ایسی راءے عامہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ لوگوں کو وضاحت سے سمجھانا ضروری ہے کہ ہر وہ شخص جو 'اسلام' کا نام لے رہا ہے مسلمانوں کا دوست ہرگز نہیں ہے؛ کہ 'اسلام' کا نام لے کر کسی شخص پہ حملہ کر کے اسے مارنا اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے؛ کہ 'اسلام' کے نام پہ کسی کا قتل کر کے نعتیں پڑھنے والا شخص اللہ کا محبوب ہرگز نہیں بن جاتا بلکہ ایسا شخص دوزخی ہے اور نفرت کے لاءق ہے۔
قومی راءے عامہ ہموار کرنے کے معاملے میں اگر درج ذیل چار نکات پہ لوگوں کو متفق کرلیا جاءے تو کیا ہی اچھا ہو۔

۱۔ قرآن پہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے مگر قرآن میں موجود اکثر احکامات مبہم ہیں۔ ان احکامات کی تشریح مختلف انداز سے کی جا سکتی ہے، اور کی گءی ہے، اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن نے اپنے علاوہ کسی حدیث کی کتاب کو، کسی مذہبی عالم کی لکھاءی کو مسلمانوں کے لیے ہدایت کا چشمہ قرار نہیں دیا۔ چنانچہ ایک فرقہ اگر قرآن کے علاوہ کسی اسلامی کتاب کو مستند مانتا ہے اور دوسرا نہیں مانتا تو دونوں میں سے کوءی قرآنی احکامات سے منکر نہیں ہورہا۔ اسی بات کو آگے بڑھاءیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جو شخص کہتا ہے کہ وہ 'شریعت' نافذ کرنا چاہتا یا 'اسلامی نظام' کا نفوذ چاہتا ہے وہ شخص دراصل اس نظام کا حصول چاہتا ہے جو اس کے خیال میں یا اس کے فرقے کے خیال میں 'اسلامی نظام' ہے۔ دوسرے مسلمانوں کا اسلام کے اس ٹھیکے دار سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

۲۔ قرآن نے کسی شخص کو،  کسی مذہبی عالم کو، کسی جماعت کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ فیصلہ کرے کہ ایک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہا ہے واقعی مسلمان ہے یا نہیں۔ کسی شخص کے صحیح مسلمان ہونے یا کافر ہونے کا فیصلہ قیامت کے روز ہوگا۔ سب سے قابل مذمت وہ شخص ہے جو دوسروں پہ کفر کے فتوے لگا کر لوگوں میں نفرت کے بیج بورہا ہے۔

۳۔ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مل جل کر فیصلہ کریں کہ وہ کس طرح کے نظام حکومت میں رہنا چاہتے ہیں۔ کسی فرد یا جماعت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دھونس دھڑپے سے اپنی پسند کا نظام لوگوں پہ چلانے کی کوشش کرے۔

۴- ہر ملزم کو عدالت میں اپنی صفاءی پیش کرنے کا حق حاصل ہے چاہے اس شخص پہ کتنے ہی سنگین اور کریہہ جرم کا الزام کیوں نہ ہو۔ ماوراءے عدالت قتل چاہے وہ اسلام کے نام پہ کیا جاءے یا کسی برگزیدہ ہستی کے نام پہ انتہاءی گھٹیا اور قابل مذمت فعل ہے۔
==
اس کالم میں جن خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے انہیں ویڈیو کی شکل میں یہاں دیکھا جاسکتا ہے:



 

Labels: , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?