Sunday, July 28, 2013

 

غریب کی دولت


جولاءی اٹھاءیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
 کالم شمار ایک سو اڑتالیس

غریب کی دولت

کہنے کو تو دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی نظام کی کمر ٹوٹ گءی؛ بہت سے علاقے اس نظام کی غلامی سے آزاد ہوگءے اور نءے ممالک وجود میں آءے۔ مگر آزادی کے بعد بھی ان میں سے بیشتر 'ترقی پذیر' ممالک کی قسمت نہیں بدلی۔ یہ بدحکومت کا شکار ہوءے اور ان ممالک کے عوام بدحالی کی نچلی ترین منزل پہ پہنچ گءے۔
کون کہہ سکتا ہے کہ غربت اور کم علمی ایک ہی سکے کے دو رخ نہیں ہیں؟ غریب کو اپنی دولت کا علم نہیں ہوتا؛ اور غریب کی اسی کم علمی کی وجہ سے غریب کو لوٹ کر اس کی دولت حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔ بین الاقوامی میدان میں اس لوٹ کھسوٹ کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کھیل کو آپ چھوٹی سطح پہ کسی بھی 'ترقی پذیر' ملک کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس 'ترقی پذیر' ملک کے 'ترقی یافتہ' لوگ اسی ملک کے 'پسماندہ' لوگوں کو کس طرح بے وقوف بنا کر لوٹتے ہیں۔  اس لوٹ مار کا مشاہدہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ ان 'پسماندہ' علاقوں میں مقامی لوگوں کی تعلیم کا بندوبست کرنے سے پہلے سڑک لانے کا کام کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا مسءلہ یہ ہے کہ ان کا شہروں سے رابطہ نہیں ہے۔ ان کے علاقے تک سڑک بچھ گءی تو ان کے سارے مساءل حل ہوجاءیں گے۔ مقامی لوگوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان کو نہ تو اپنے وساءل کی قدر ہوتی ہے اور نہ ہی ماحولیاتی مساءل کا ادراک ہوتا ہے۔ چنانچہ سڑک بنتے ہی ان علاقوں میں ایسے لوگ پہنچتے ہیں جو وساءل کی لوٹ مار میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ درختوں کا صفایا کر کے ان کی لکڑی ٹرکوں میں لاد کر علاقے سے باہر منتقل کی جاتی ہے۔ لکڑی کے اونے پونے داموں کی آمدنی سے مقامی لوگ ایسی چیزیں خریدتے ہیں جو بظاہر چکاچوند کرتی نظر آتی ہیں مگر بے مصرف ہوتے ہی ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں علاقے کا نقشہ بدل جاتا ہے۔  جہاں خوب صورت جنگل تھا اور ساتھ ایک صاف ستھرا دریا بہہ رہا تھا وہاں اب ٹنڈ منڈ میدان میں دریا کے گندے پانی کے ساتھ پلاسٹک اور دوسرے کچرے کے ڈھیر نظر آنے لگتے ہیں۔ اور سیانے اس صورتحال کو دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ 'ہاں بھءی، ہو گءی ترقی؟'
اب اسی کھیل کو بین الاقوامی سطح پر دیکھیں۔ یہاں چند امیر 'ترقی یافتہ' ممالک ہیں اور بہت سے غریب 'ترقی پذیر' ممالک۔ ان ترقی یافتہ ممالک نے 'دنیا والوں کی بھلاءی' کے لیے بہت سے بین الاقوامی ادارے بناءے ہوءے ہیں۔  یہ بین الاقوامی ادارے ترقی پذیر ممالک کو باور کراتے ہیں کہ وہ کتنے پسماندہ اور غریب ہیں اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کونسے منصوبوں پہ عمل کرکے ترقی کر سکتے ہیں۔ ان ترقیاتی منصوبوں پہ عمل درآمد کے لیے کثیر سرمایہ چاہیے ہوتا ہے۔ یہ سرمایہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ملک کو 'مناسب' سودی نرخ پہ فراہم کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر مقامی لوگوں کی کم علمی کی وجہ سے ترقیاتی منصوبہ وہ اہداف نہیں حاصل کرپاتا جن کی توقع کی گءی ہوتی ہے اور جن کا وعدہ 'فیسیبلٹی اسٹڈی' میں کیا گیا ہوتا ہے۔ اور یوں یکے بعد دیگرے کیے جانے والے ناکام ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے ملک قرض کے جال میں پھنستا چلا جاتا ہے اور اس ملک کے کم فہم راہ نما ملک کی اگلی چند نسلوں تک کو بین الاقوامی اداروں کا گروی رکھ دیتے ہیں۔
ان مثالوں سے غریب کے لیے سبق واضح ہے۔ اس کی غربت کی اصل وجہ اس کی کم علمی ہے نہ کہ بظاہر چمکتی دمکتی مادی اشیا کی کمی۔ غریب کے اپنے وساءل ہیں مگر ان وساءل کو بھرپور طور سے استعمال کرنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ 'ترقی پذیر' ممالک اور علاقوں کو صرف ان 'ترقیاتی منصوبوں' پہ عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ان ممالک اور علاقوں کے اپنے لوگ تشکیل دے سکیں۔ غریب کی پہلی ترجیح علم کا حصول ہونا چاہیے۔ علم آجاءے گا تو ترقی کے راستے خودبخود کھل جاءیں گے۔
اس کالم میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے انہیں ویڈیو کی شکل میں یہاں دیکھا جاسکتا ہے:


Labels: , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?