Friday, July 26, 2013
بڑا نظام، چھوٹے لوگ
جولاءی اکیس، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو سینتالیس
بڑا نظام، چھوٹے لوگ
فیس بک کا یارانہ بھی خوب ہوتا ہے۔
فیس بک پہ بننے والے آپ کے دوست مختلف موضوعات پہ خبریں لگاتے رہتے ہیں اور اس طرح نہ صرف یہ کہ آپ کو
دنیا کی خبر رہتی ہے بلکہ ان دوستوں کے ذہنی رجحانات کا اندازہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں انگریز کے تسلط سے
پہلے جو نظام حکومت تھا اس میں مرکز کو بہت کم دخل تھا۔ زیادہ تر فیصلے مقامی ہوتے
تھے۔ انگریز کے تسلط کے بعد یہ غیرمرکزی نظام مکمل طور پہ تبدیل ہوگیا۔ اب کیونکہ
فاءدہ تاج برطانیہ اور انگریز کاروباری اداروں کو پہنچنا تھا اس لیے ملک کو ایک
مرکزی نظام سے چلانا ضروری ہوگیا۔ مرکزی نظام کے ضمن میں ایک دوسرا مشاہدہ یہ ہے
کہ صنعتی انقلاب کیونکہ یورپ سے شروع ہوا اس لیے یورپ اور یورپ نژاد لوگوں کو
ارباناءزیشن کا زیادہ طویل تجربہ ہے۔ انہیں بڑی تعداد کے گروہوں کو چلانا، ان کا
انتظام کرنا دوسرے لوگوں سے بہتر آتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے بعد جب
انگریز کا جنوبی ایشیا سے جانا ناگزیر ہوگیا تو ہمارے مقامی راہ نماءوں نے مرکزیت
کے اسی نظام کو قاءم رہنے دیا جو انگریز کی دین تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سنہ
سینتالیس میں انگریز کے جانے پہ ہم دوبارہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ جاتے؛ مقامی
راہ نما اپنے اپنے علاقوں کو عمدگی سے چلاتے، اور پھر یہ ریاستیں اپنی مرضی سے
دوسری ریاستوں سے معاشی اور سیاسی اتحاد بناتیں۔ مگر مغرب سے پڑھ کر آنے والے
ہمارے سیاستدانوں نے مغرب کا راستہ چنا۔ اس خطے میں دو بڑے ملک بن گءے۔ اور آج تک
ہمیں اس گناہ کی سزا مل رہی ہے۔ سنہ سینتالیس میں دو بڑے ممالک اور بہت سی چھوٹی
ریاستوں کے قیام کے بعد یہ حقیقت سامنے آءی کہ ان دو بڑے ملکوں کو اچھے انداز سے
حکومت چلانے کے بجاءے یورپی نوآبادیاتی سوچ کے حساب سے زیادہ سے زیادہ رقبہ اپنے
ملک کےاندر شامل کرنے کی ہوس تھی۔ آپ وقتی طور پہ چھوٹی ریاستوں کو ڈرادھمکا کر،
ان پہ جنگ مسلط کر کے ان کو اپنے ملک کا حصہ تو بنا سکتے ہیں لیکن اگر عوام مطمءن
نہ ہوں تو آپ ملک میں امن قاءم نہیں کر سکتے اور ملک کو ٹوٹنے سے نہیں روک سکتے۔
سنہ اکہتر میں ایسا ہی ہوا اور آج جنوبی ایشیا کے مختلف علاقوں میں چلنے والی
آزادی کی تحاریک اسی اصل خرابی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بڑے ملک چلانے کا تجربہ نہ
ہونے کی وجہ سے آج بھی جنوبی ایشیا کے عوام اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں۔ اور جو گروہ کسی ملک کے وسیع سیاسی نظام کا حصہ
نہیں ہیں وہ اور بھی خفا رہتے ہیں اور اپنے "ملک" سے آزادی چاہتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست کو سوشل میڈیا کی
آنکھ سے دیکھیے تو آپ کو ہرجگہ تحریک انصاف کے جیالے نظر آءیں گے۔ ایسے ہی چند
عمرانی جیالے ہم سے بھی فیس بک کا یارانہ رکھتے ہیں۔ وہ بہت فخر سے ہمیں بتاتے ہیں
کہ کس طرح اب خیبر پختونخواہ کے اسپتالوں میں مفت دواءیں ملیں گی، وغیرہ، وغیرہ۔
ان خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی حکومت اور ریاست سے توقعات کس
قدر عجیب و غریب صورت رکھتی ہیں۔ وہ اس اچھی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں جو ان کو
بجلی اور پانی مفت فراہم کرے گی اور ساتھ ہی تعلیم اور علاج معالجے کا انتظام بھی
فلاحی طور پہ کرے گی۔ لگتا ہے کہ اس سلسلے
میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ریاست کی اصل
ذمہ داری کیا ہے۔ ریاست کی اصل ذمہ داری معاشرے میں امن قاءم کرنا اور انصاف کرنا
ہے۔ ریاست کا کام بجلی اور پانی کی فراہمی نہیں ہے۔ ہاں اس نظام کو منصفانہ رکھنا
یقینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایک فلاحی ریاست یقینا ایسا نظام قاءم کرسکتی ہے جہاں
ٹیکس کی آمدنی سے معاشرے کے کمزور طبقات کی مدد ہوسکے مگر ایسا کرنا ریاست کی
اولین ذمہ داری نہیں ہے۔ ریاست کی اول ذمہ داری اپنے عوام کی جان ومال کی حفاظت کو
یقینی بنانا ہے۔ جو ریاست ایسا کرنے میں ناکام ہے وہ ایک ناکام ریاست ہے۔