Monday, July 08, 2013

 

جمعے کی نماز کا ووٹ


جولاءی سات، دو ہزار تیرہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو پینتالیس

جمعے کی نماز کا ووٹ

مسلمان پہ نماز فرض ہے مگر یقینا اس کے لیے یہ فیصلہ بھی بہت اہم ہے کہ وہ کس کو اپنا قاءد مان کر اس کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے۔  اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر مسلمان کو دن میں پانچ دفعہ ووٹ دینے کا موقع ملتا ہے۔ فجر سے عشاء تک ہر نماز کے موقع پہ وہ جس امام کا مقتدی ہوتا ہے دراصل اس امام کو اپنے اعتماد کے ووٹ کا حقدار خیال کرتا ہے۔ اور ہفتے میں ایک روز یعنی نماز جمعہ کے موقع پہ ووٹ دینے کا ایک بڑا موقع میسر آتا ہے۔ بہت سے لوگ ووٹ کا یہ حق بغیر سوچے سمجھے استعمال کرتے ہیں؛ جو سینہ ٹھونک کر امام بن گیا، بس اس کے پیچھے خاموشی سے نماز پڑھ لی۔ مگر ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے اس ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہتے ہیں۔ میرا شمار ان دوسری طرح کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس امام کے خیالات جاننا چاہتے ہیں جس کے پیچھے وہ نماز پڑھیں گے۔ وہ شخص کتنا علم رکھتا ہے؟ کیا اس کا علم محض چند مذہبی کتابوں تک محدود ہے یا وہ اسلام کی سچی تعلیمات پہ عمل کرتا ہوا ہر قسم کے علم کی کچھ نہ کچھ شدبد رکھتا ہے؟ کیا وہ بنیادی ساءنس سے واقف ہے؟ کیا اس شخص سے نیوٹن اور آءنسٹاءن کے نظریات پہ بات کی جاسکتی ہے؟  کیا نماز پڑھانے والا شخص جدید دور میں ریاست، حکومت، اور جمہور کے تعلق کو سمجھتا ہے؟ کیا وہ بنیادی سماجی علوم سے واقفیت رکھتا ہے؟ کیا ہم سے نماز جمعہ کی قیادت کا ووٹ مانگنے والے اس شخص کے پاس گہرا تاریخی شعور ہے؟ کیا اس نے اسلامی تاریخ کو ایک عالم کی نظر سے چھان پھٹک کر دیکھا ہے یا وہ اپنے خطبے میں وہی دوچار رٹے رٹاءے قصے سنا کر لوگوں کو چلتا کرنا چاہتا ہے؟
اگر ہم اس شخص سے پوچھیں کہ ہمارے نبی کس مال کی تجارت کرتے تھے، وہ مال کہاں سے آتا تھا، کون انہیں دیتا تھا، مال کی کھپت کہاں تھی، اس عہد میں کونسا سکہ راءج تھا، لوگ کس طرح کے کپڑے پہنتے تھے۔ وہ کس کپڑے کس طرح تیار کیے جاتے تھے، تو کیا یہ شخص ان سوالات کے مدلل جوابات دے پاءے گا؟  یا اس سے معلوم کیا جاءے کہ ہمارے نبی کی ہم عصر تاریخی شخصیات کون تھیں، وہ لوگ دنیا کے کن خطوں سے تعلق رکھتے تھے، اس عہد میں طاقت کے مراکز کونسے تھے اور وہاں کونسے بادشاہ حکومت کرتے تھے، تو اس شخص کے پاس ان سوالات کے جوابات ہوں گے؟  کیا یہ شخص موجودہ دنیا میں راءج  کیلنڈر کے حساب سے انبیا کی حیات مبارکہ کے سنہ پہ نشان لگا سکتا ہے؟ مثلا کیا وہ یہ بتا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا زمانہ کس سنہ کی بات ہے، اور اسی طرح حضرت آدم کی دنیا میں آمد کس سنہ میں ہوءی؟  کیا نماز جمعے کے لیے بڑا مجمع لگانے والا شخص آرکیالوجی سے واقفیت رکھتا ہے؟  کیا وہ رکاز [فاسلز] کے بارے میں جانتا ہے، ارتقا کے نظریے کو سمجھتا ہے، اور اس نظریے سے فلسفیانہ اختلاف کی طاقت رکھتا ہے؟
جہاد کے متعلق اس کے کیا خیالات ہیں، اعلان جہاد کا حق کسے حاصل ہے، اور اس شخص کے خیال میں جہاد کے کیا قواءد و ضوابط ہیں؟
قصہ مختصر کہ جب تک مساجد میں ایسے امام موجود نہ ہوں گے جو دور حاضر کے علمی شعور سے گہری واقفیت رکھتے ہوں اس وقت تک نماز پڑھانے والے ان قاءدین کو صرف وہی لوگ ملیں گے جو بھیڑ بکریوں کی طرح اندھی تقلید پہ ایمان رکھتے ہوں۔ صاحب الراءے افراد اس مجمع سے دور ہی رہیں گے۔


 

Labels: ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?