Monday, September 24, 2012

 

یوم فساد



ستمبر چوبیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چار


 یوم فساد

 کیا آپ بھی ہر رات سونے سے پہلے اپنی زندگی پہ ایک طاءرانہ نظر ڈالتے ہیں؟  آپ اطمینان کرتے ہیں کہ اگر صبح اٹھنا نصیب نہ ہوا تو کچھ غم نہیں کہ اب تک جو زندگی گزاری بھرپور گزاری، محبت کرنے والوں کا خوب ساتھ رہا، کوشش کی کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، اور دنیا میں بھلاءی کے کاموں میں ہاتھ بٹایا؟ اور کیا ہر صبح جب آپ کی آنکھ کھلتی ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں کہ آپ کو دنیا میں تھوڑی اور مہلت مل گءی؟ جمعہ، ستمبر اکیس کی صبح میرے لیے بھی ایسی ہی تھا۔ پردے کے باہر روشنی پھیلی اور میری آنکھ کھل گءی۔ میں خوش ہوا کہ مجھے زندگی کا ایک اور دن عطا ہوا۔ اس روز کی خاص بات یہ تھی کہ خلاءی جہاز اینڈیور کو لاس اینجلس جانے سے پہلے سان فرانسسکو بے ایریا سے گزرنا تھا۔  خوشی کے ایسے ہی جذبے سے سرشار کمپیوٹر کھولا۔ اس وقت تک پاکستان میں جمعے کی رات ہو چلی تھی۔ یوم عشق رسول کے ہنگاموں میں پندرہ لوگوں کی ہلاکت کی خبر پڑھی۔ دل ڈوب گیا۔
ساءنسداں ایک عرصے سے جانوروں کی ذہانت جانچنے کے لیے تجربات کرتے آ ءے ہیں۔ وہ ایسے تجربات ہوتے ہیں جن میں جانورں  کو کسی خاص عمل پہ انعام دیا جاتا ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ آیا جانور انعام کے لالچ میں وہ عمل دہراتا ہے یا نہیں۔ مثلا اس طرح کا تجربہ کہ چوہے کو ایک تنگ سی جگہ پہ چھوڑا جاءے جہاں سے نکلنے کے دو دروازے ہوں، ایک نیلا، دوسرا ہرا۔  چوہا اگر نیلے دروازے سے گزرے تو اسے انعام کے طور پہ پنیر کا ایک ٹکڑا دیا جاءے، اگر ہرے دروازے سے گزرے تو اسے کچھ نہ ملے۔  پھر دیکھا جاءے کہ یہ عمل کتنی بار دہرایا جاءے کہ چوہے کو یہ بات سمجھ میں آجاءے کہ نیلے دروازے سے گزرنا منفعت رکھتا ہے۔ اور پھر یہ دیکھنا کہ آیا چند دنوں کے وقفے کے بعد یہ تجربہ دہرایا جاءے تو کیا چوہے کو یاد رہے گا کہ نیلے دروازے سے گزرنے پہ اسے پنیر کا انعام ملے گا؟  اسلام اور اسلام کی مقدس ہستیوں کا مذاق اڑانے والے لوگ بھی ایسے ہی چوہے ہیں جو سال ہا سال ہرے دروازے سے گزرتے رہتے ہیں، نہ انہیں کوءی انعام ملتا ہے اور نہ کوءی ان کو پوچھتا ہے۔  پھر وہ اس بے نام و انعام زندگی سے تنگ آ کر، جی کڑا کر کے نیلے دروازے سے گزرجاتے ہیں، یعنی مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ذرا سی دیر میں مسلمان تلملا کر کھڑے ہوجاتے ہیں، خوب ہنگامہ آراءی ہوتی ہے، اور اس طرح دنیا میں اپنا "نام" بنانے پہ یہ لوگ دولت اور شہرت کا انعام پاتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ  جب تک چوہے کو انعام ملتا رہے گا یہ سلسلہ  بھی یوں ہی چلتا رہے گا ۔ جب مسلمان ہر گءے گزرے مصور، کارٹون نویس، اور لکھنے والے کے حملے پہ کان دھرنا چھوڑ دیں گے تو یہ حملے بھی اپنی افادیت کھو بیٹھِیں گے۔
پاکستان کی مذہبی جماعتیں پیپلز پارٹی کو کفر و الحاد کے طعنے دیتی آءی ہیں اور انہی طعنوں کے اثر سے پیپلز پارٹی نے ماضی میں احمقانہ کام کیے ہیں۔ ان قابل مذمت کاموں میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا کام بھی شامل تھا۔ چنانچہ حالیہ بننے والی فلم پہ جب مذہبی حلقوں نے احتجاج شروع کیا تو موجودہ حکومت نے اپنا "اسلام" ثابت کرنے کے لیے جمعے کو عام تعطیل کا اعلان کر دیا۔ اس دن کو یوم عشق رسول کا نام دیا گیا۔ عشق رسول ثابت کرنے کا صحیح طریقہ تو یہ تھا کہ پاکستان کے لوگ ایسے کام کرتے جس سے دنیا میں ان کی واہ واہ ہوتی اور اپنے نبی سے ان کے عشق پہ کفار دنگ رہ جاتے۔ یہ عاشقان رسول ہر شہر میں راتوں رات عشق رسول کتب خانے قاءم کر دیتے؛ ہر محلے میں عشق رسول مکتب کھل جاتے جہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی اور یہ انتظام کیا جاتا کہ پانچ سال کے اندر پاکستان میں شرح خواندگی سو فی صد ہوجاءے ؛ عشق رسول کنویں کھودے جاتے جہاں سے صاف پانی ان علاقوں میں پہنچایا جاتا جہاں پانی دستیاب نہیں ہے۔ مگر افسوس کہ امت رسول تعمیر بھول چکی ہے اور محض تخریب جانتی ہے۔ چنانچہ چھٹی کا یہ روز یوم فساد ثابت ہوا۔ خوب قتل و غارت گری ہوءی۔ بیس لوگ ہلاک ہوءے، دو سو کے لگ بھگ زخمی ہوءے، اور املاک کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔
جب ان جاہلوں کے فتنے پہ دنیا میں ان کی تھو تھو ہوءی تو یہ نام نہاد "عاشق رسول" نءی تاویلیں لے آءے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے کارکن تو تمام مظاہروں میں مکمل پرامن رہے، ہنگامہ آراءی کرنے والے دوسرے لوگ تھے۔ ایک سازشی کہانی یہ ہے کہ کراچی میں لوٹ مار ایم کیو ایم نے کی جب کہ پشاور میں اے این پی کے کارکنوں نے۔ ایک دوسری کہانی یہ ہے کہ فساد کرنے والے ایجنسیوں کے لوگ تھے جو دراصل امریکہ کے کارندے ہیں اور یہ سارا فساد اسی لیے کیا گیا تاکہ مسلمانوں کا نام بدنام ہو۔ یہ لوگ لاکھ بہانے تراشتے رہیں، دنیا کے سامنے ان کی حقیقت کھل کر سامنے آگءی ہے۔ جمعے کے یوم فساد کے بعد کراچی میں ایک صاحب سے فون پہ بات ہورہی تھی۔ یہ صاحب پچھلی چھ دہاءیوں سے کراچی کی سیاست اور کشت و خون کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ ان سے وہی سوال کیا گیا کہ آخر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرنے والے لوگ کون تھے۔ انہوں نے اطمینان سے جواب دیا کہ جب دیکھو کہ کسی سینما گھر کو آگ لگاءی گءی ہے یا شراب کی دکان کو توڑا گیا ہے تو سمجھ جاءو کہ اس کے پیچھے جماعت اسلامی کا ہاتھ ہے کیونکہ اس کے کارکنوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے کام کر کے یہ براءی کو جڑ سے ختم کردیں گے؛ اور اگر "عشق رسول" میں کوءی بینک لٹتا دیکھو تو اس کے پیچھے دوسری مذہبی جماعتیں کا ہاتھ جان لو؛ ان جماعتوں کو جدید اسلحہ خریدنے کے لیے رقم چاہیے ہوتی ہے جب کہ قربانی کی کھالوں سے ان کی آمدنی محدود ہوتی ہے۔ میں نے اتنے سنجیدہ موضوع پہ اس ظریفانہ بات کو دلچسپی سے سنا مگر سوچا کہ شاید اتنی وضاحت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کس فسادی کارواءی کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے یوم عشق رسول کی تعطیل کا اعلان کر کے فتنہ گروں کو فساد مچانے کا کھلا موقع دیا۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ کسی مذہبی جماعت میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ حالانکہ آگ لگانے اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ہمارے کارکنوں کا کوءی ہاتھ نہ تھا مگر ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی ہے جن کی املاک کو تباہ و 
برباد کیا گیا اور ہمارے کارکن تعمیر کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے حاضر ہیں۔

Labels: , , , , ,


Friday, September 21, 2012

 

جھوٹا یوم عشق رسول


کھڑکی سے باہر روشنی پھیلے۔ آپ کی آنکھ کھل جاءے۔ آپ بیدار ہو کر خوش ہوں کہ آپ کو زندگی کا ایک اور دن مل گیا۔ پھر آپ کمپیوٹر کھولیں اور پہلی خبر یہ ہو کہ پاکستان کے مظاہروں میں پندرہ لوگ ہلاک ہو گءے اور آپ کا دل بری طرح خراب ہوجاءے۔
ارے کیا دیوانے ہو گءے ہو؟ اپنے ہی گھر کو توڑ کر، اپنے ہی لوگوں کی ہلاکت کا سبب بن کر تم کونسا عشق رسول دکھا رہے ہو؟


Monday, September 17, 2012

 

آتش زدگی اور رشدی فارمولا



ستمبر سولہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تین



 آتش زدگی اور رشدی فارمولا


خیال ہے کہ آگ گارمنٹ فیکٹری کے کٹنگ ڈیپارٹمنٹ سے شروع ہوءی۔ یہ آگ ذرا سی دیر میں پورے میں پھیل گءی۔ لوگوں کے پاس بھاگنے کے راستے محدود تھے کیونکہ  کارخانے کے مالکان باہر جانے کے دروازے اس خیال سے مقفل رکھتے تھے کہ کہیں کام کرنے والے کارخانے کا سامان نہ چوری کرلیں۔ آگ بجھیے کچھ ہی دیر میں فیکٹری تک پہنچ گءے مگر آگ پہ قابو نہ پایا جا سکا اور آتشزدگی کے اس واقعے میں ایک سو چھیالیس لوگ ہلاک ہوگءے۔ ایک سو چھیالیس؟ مگر آپ نے تو خبروں میں دو سو نواسی لوگوں کے موت کی خبر سنی ہے۔  میں پچھلے ہفتے کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کا ذکر نہیں کر رہا، میں تو آپ کو اس سے زیادہ پرانا واقعہ سنا رہا ہوں۔ ذکر ہورہا ہے سنہ انیس سو گیارہ میں نیویارک کی ٹراءینگل شرٹ ویسٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کا۔ نیویارک کی گارمنٹ فیکٹری کی آگ اور کراچی کی گارمنٹ فیکٹری کی آگ کے حالات و واقعات ایک جیسے ہیں، فرق صرف ایک سو ایک سال کا ہے۔
کیونکہ صنعتی انقلاب یورپ سے شروع ہوا اور اس کے اولین اثرات یورپ میں اور ان جگہوں پہ نمودار ہونا شروع ہوءے جہاں یورپی نقل مکانی کر کے پہنچے تھے، اس لیے اولین صنعتی حادثات بھی ان ہی جگہوں پہ ہوءے اور ان حادثات سے سبق حاصل کر کے آءندہ کے لیے بہتر لاءحہ عمل بنانے کا کام بھی مغرب میں ہی شروع ہوا۔ سنہ انیس سو گیارہ میں نیویارک کے کارخانے والی آگ نے بھی لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور مغربی دنیا نے اس آگ سے بہت سے سبق سیکھے۔
شاید نادان اور دانا میں یہی فرق ہوتا ہے کہ نادان خود اپنے خراب تجربات سے بھی نہیں سیکھتا اور بار بار ایک طرح کی غلطیاں دہراتا ہے، جب کہ دانا دوسروں کے خراب تجربات سے سیکھ جاتا ہے۔ چنانچہ دانا قومیں اور ممالک وہ ہیں جنہوں نے صنعتی انقلاب کے بعد مغرب میں ہونے والے خراب تجربات سے سبق حاصل کر لیے؛ انہوں نے مغرب میں ہونے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا۔ کراچی کی گارمنٹ فیکٹری کی آگ اور آتشزدگی سے ہونے والے بہت بڑے جانی نقصان سے واضح ہے کہ ہم نے دوسری جگہوں پہ ہونے والے صنعتی حادثات سے سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ مگر اب اور بڑی حماقت یہ ہوگی کہ کچھ دنوں بعد ہم کوءی سبق حاصل کیے بغیر، اپنے طور طریقے بدلے بغیر اس واقعے کو بھی بھول جاءیں اور کراچی کی صنعتیں آتشزدگی سے بچنے کی تیاری کے بغیر اسی طرح کام کرتی رہیں جس طرح اب تک کرتی رہی ہیں۔  
رشدی فارمولا دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کا آسان نسخہ بن گیا ہے۔ رشدی فارمولا بہت آسان ہے: اگر آپ ایک گم نام لکھنے والے، آرٹسٹ، یا فلم ساز ہیں تو کچھ ایسا تحریر کیجیے، کوءی تصویر، کوءی کارٹون، کوءی فلم ایسی بناءیے جس سے بہت سے لوگوں کی دل آزاری ہو۔ پھر تماشہ دیکھیے کہ دنیا کس طرح آپ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ دل آزاری کے لیے جتنے بڑے گروہ کا انتخاب کیجیے اتنا اچھا ہے، اور یہ بھی خیال رکھیے کہ کون لوگ کس قدر جذباتی ہیں۔ جس قدر بڑے اور جذباتی گروہ پہ آپ رشدی فارمولے کا استعمال کریں گے، اتنی ہی بڑی کامیابی آپ کو حاصل ہوگی، اور دولت اور شہرت آپ کے قدم چومے گی۔ درج بالا نکات کو ذہن میں رکھتے ہوءے فی زمانہ رشدی فارمولے کے استعمال کے لیے ایک بڑے انسانی گروہ کا انتخاب بہت آسان ہے۔ یہ گروہ مسلمانوں کا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے جس سے مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان تناتنی پہلے ہی موجود ہے۔ ایندھن کے اس ڈھیر پہ رشدی فارمولے کی تیلی دکھانے کی کسر ہے۔
رشدی فارمولے کا نیا ترین استعمال اس فلم کی صورت میں ہے جو ہمارے نبی کی زندگی پہ بناءی گءی ہے۔ اس فلم کا واحد مقصد مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے۔ نہ جانے پوری فلم بنی بھی ہے یا نہیں مگر فلم کا تیرہ منٹ کا ٹریلر یوٹیوب پہ موجود ہے۔ اور یہ ٹریلر ہی لوگوں کی دل آزاری کا سبب بنا ہے۔ ٹریلر دیکھنے کے بعد میرا خیال ہے کہ اس فلمساز کو کڑی سزا ملنی چاہیے؛ اس بات پہ نہیں کہ اس کی فلم سے لوگوں کی دل آزاری ہوءی ہے، بلکہ  اس بات پہ کہ اس نالاءق نے ایک کثیر رقم خرچ کرنے کے بعد اس قدر بھدی فلم بناءی ہے۔ بہرحال فلم کسی قدر بھی غیرمعیاری کیوں نہ  ہو، رشدی فارمولا کارگر ثابت ہوا ہے۔  ایک دفعہ پھر "غیرت مند" مسلمان جگہ جگہ اٹھ کھڑے ہوءے ہیں اور جلاءو گھیراءو اور توڑ پھوڑ میں مصروف ہوگءے ہیں۔
اگر ایک طرف رشدی فارمولا ہے تو دوسری طرف خمینی فارمولا ہے۔ خمینی فارمولا یہ ہے کہ نظر رکھو کہ کس بات پہ لوگوں کو جمع کیا جاسکتا ہے اور قیادت کی اپنی دکان چمکاءی جا سکتی ہے۔ جہاں مغرب میں رشدی فارمولا استعمال کرنے والے خبیث ہیں وہیں مسلم دنیا میں خمینی فارمولا استعمال کرنے والے شاطر بھی بہتیرے ہیں۔ مگر خمینی فارمولا استعمال کرنے والوں کو ایک بڑی تعداد میں ایسے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اور جذباتی نعروں کے اثر میں آ کر ان شاطروں کے پیچھے چل پڑیں۔ یہ کالم ان ہی معصوم لوگوں کے لیے ہے۔ ان لوگوں سے صرف ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ کیا اس  جلاءوگھیراءو اور توڑ پھوڑ سے دنیا میں اسلام کا نام بلند ہورہا ہے؟  کیا اس طرح کے فساد سے رشدی فارمولے کی جادوگری اوروں پہ واضح نہیں ہورہی اور اس بات کا امکان نہیں بڑھ رہا کہ مستقبل میں اور لوگ بھی اسلام کی مقدس ہستیوں کی تذلیل کر کے اپنے لیے شہرت اور دولت کمانے کا راستہ تلاش کریں گے؟ کیا احتجاج کے یہ بھونڈے طریقے توہین اسلام اور توہین رسالت کے مزید راستے ہموار نہیں کر رہے؟


Labels: , , , , , , , , ,


Monday, September 10, 2012

 

دنیا سے عزت کرانے کا طریقہ



ستمبر نو، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو دو



 دنیا سے عزت کرانے کا طریقہ



ہندوستان میں ذات کا مسءلہ بہت گھمبیر ہے۔ ہزاروں سال پہلے کہ جب انسان کی واحد دلچسپی زندہ رہنے میں تھی اکثر لوگ اپنے آباءی پیشوں سے چمٹے رہتے تھے۔  جولاہے کا لڑکا جولاہا، موچی کا لڑکا موچی، اور لوہار کا لڑکا لوہار بنتا تھا۔ خاندانی پیشے سے الگ ہٹ کر کام کرنے کا موقع کم ہی مل پاتا تھا۔ ان قدیم معاشروں میں لوگوں کو ان کے پیشوں کے حساب سے جانا جاتا تھا۔ پھر ہندوستان میں شمال سے آنے والوں نے بھی اپنے تعصبات کے حساب سے معاشرے کو چار بڑے خانوں میں تقسیم کیا۔ سب سے اوپر وہ لوگ تھے جو زبان پہ قدرت رکھتے تھے، لکھنا پڑھنا جانتے تھے؛ لامحالہ یہ لوگ مذہبی راہ نما تھے؛ دوسرے خانے میں سپاہی اور حکمراں تھے؛ تیسرے خانے میں تجارت کرنے والے لوگ تھے؛ اور چوتھے خانے میں ہنرمند افراد تھے جو کسی مخصوص پیشے سے وابستہ ہوتے تھے، مثلا دھوبی، قصاءی، کمہار، وغیرہ۔  اور اس چوتھے خانے سے ہی پانچواں خانہ وجود میں آیا جو اچھوتوں کا تھا، یعنی وہ لوگ جن کو چھونا بھی قابل نفرت تھا؛ ان لوگوں کو دوسروں کی  گندگی اٹھانے کا کام دیا گیا۔ انگریز کے برصغیر میں آنے کے بعد ذات کے اس فرسودہ نظام کو یورپی نسل پرستی کا تڑکا لگا اور ذات کو کھال کے رنگ کے حساب سے دیکھا جانے لگا، یعنی اونچی ذات کے لوگ صاف رنگ والے، اور نچلی ذات کے لوگ گہرے رنگ کے۔ پھر  وقت کے ساتھ تعلیم بڑھی اور یہ سمجھ عام ہوءی کہ ذات پات کی کوءی اہمیت نہیں ہے، ہر انسان قریبا ایک جیسا ذہن رکھتا ہے، اور لوگوں کو لکھنے پڑھنے کے مواقع دیے جاءیں تو وہ آسمان چھو سکتے ہیں۔ مگر معاشرہ پرانے طریقے سے چل رہا تھا اور لوگوں کے ذہن ذرا سی دیر میں بدلے نہیں جا سکتے۔ حکومتی سطح پہ کوشش شروع ہوءی کہ نچلی ذات کے لوگوں سے صدیوں پرانے خراب سلوک کا مداوا کیا جاءے۔ ان لوگوں کو پڑھنے لکھنے اور سرکاری منصب رکھنے کے مواقع دیے جاءیں۔ اور ان ہی سرکاری کوششوں کی ایک کامیابی یہ تھی کہ کوچرل رامن نارایانن یا کے آر ناراءن ہندوستان کے پہلے اچھوت صدر بنے۔ تعلیم کے مواقع  کسی قدر حاصل ہونے کے اچھوت ان جگہوں سے نکل پاءے جہاں وہ سینکڑوں سالوں سے جغرافیاءی طور پہ مقید تھے۔ اور اب مغربی دنیا میں بھی اور ذات کے ہندءوں کے علاوہ اچھوت بھی موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اچھوتوں کو شودھر، دراوڑ، ہریجن اور دلت بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کی اخلاقی قیادت مغربی دنیا کے ہاتھ میں ہے۔ مغرب میں بسنے والے دلت موجودہ دنیا کی اخلاقی اقدار اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ہندوستان میں دلتوں سے ہونے والے امتیازی سلوک پہ احتجاجی آواز بلند کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں تنموزی سندراراجن نامی ایک خاتون نے آءوٹ لک انڈیا کے لیے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح امریکہ میں آنے کے بعد بھی ذات سے متعلق پست خیالات نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ جب کبھی ان کے اہل خانہ اپنے ہم وطنوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے، ذات کی بات ضرور سامنے آتی اور دلت ہونے کے ناتے تنموزی سندراراجن کے گھر والے اپنی ذات کا اعلان کرتے ہوءے شرماتے اور ایسی گفتگو سے بھاگنے کی کوشش کرتے۔ اصل مضمون یہاں ملاحظہ فرماءیں:
مضمون کے آخر میں تنموزی نے لکھا کہ جب سے شو بزنس میں انہوں نے اپنا نام دلت دیوا رکھا ہے کچھ لوگ ان کو اپنے ساتھ اپنے برتنوں میں کھانا بھی نہیں کھلانا چاہتے اور تنموزی کو لعن طعن کا سامنا ہے۔  مجھے مضمون پسند آیا اور میں نے تنموزی کی ہمت کی داد  دی کہ وہ باتیں جو نجی محفلوں میں سرگوشیوں میں کی جارہی تھیں تنموزی نے ان باتوں کو لکھ کر اپنے ہم وطنوں کو آءینہ دکھا یا اور انہیں شرمندہ کر دیا۔ مگر مجھے یہ بات سمجھ میں نہ آءی کہ جب دلت یا اچھوت ہونے کی پہچان تنموزی کی اپنی نہیں ہے بلکہ دوسروں کی ان پہ ٹھونسی ہوءی ہے تو وہ اس پہچان کو امریکہ میں رہنے کے باوجود کیوں اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ تنموزی کے مضمون پہ میرا تبصرہ یہاں ملاحظہ فرماءیں:
اپنے اس تبصرے پہ مجھے اپنے ترقی پسند دوستوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ میں شرمندہ ہوں کہ میرے تبصرے کو غلط معنوں میں لیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ میں مصنفہ کا مذاق اڑا رہا ہوں یا دلتوں کے ساتھ ہمدردی نہیں رکھتا۔ جو لوگ میری تحریریں پڑھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میری بھرپور ہمدردیاں ان تمام گروہوں کے ساتھ ہیں جن کو زور و زبردستی سے دبایا جا رہا ہے اور جن پہ ترقی، تعلیم، اور معاشی خوشحالی کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ مجھے یہ خیال بھی ہے کہ اگر کوءی دوسرا گروہ آپ کی کوءی ایسی پہچان بناتا ہے جو آپ کو پسند نہیں ہے اور جو آپ پہ زبردستی تھوپ دی گءی ہے تو آپ کو چاہیے کہ جبر سے آزاد ہونے کے بعد اپنی اس جھوٹی پہچان سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیں۔
یا شاید میں ہی غلطی پہ ہوں اور جب لوگوں کو طویل عرصہ محکوم رکھا جاتا ہے اور انہیں مخصوص خراب ناموں سے پکارا جاتا ہے تو بہت عرصے بعد وہ واقعی ان گالیوں سے محبت کرنے لگتے ہیں اور انہیں اپنا ہی لیتے ہیں۔ مگر اس صورت میں کیا کیا جاءے جب دوسرے لوگ اس پہچان کو اب بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوں اور آپ کے گروہ نے معاشرے میں اب تک اپنا مضبوط مقام نہ بنایا ہو؟ پھر اس صورت میں آپ تاریخ کی مالا جپتے جپتے تاریخ کے جبر سے کیسے نکلیں گے؟ تاریخ سے سبق حاصل کرنا تو اچھا ہے مگر تاریخ کو اپنے گلے کا طوق بنا لینا اچھا سودا نہیں ہے۔ تاریخ مٹاءی نہیں جا سکتی مگر تاریخ کے نءے باب موٹے خط میں لکھ کر پرانی غیر پسندیدہ تاریخ کو پس پشت ضرور دھکیلا جا سکتا ہے۔ جب روم نے جزیرہ انگلستان کو اپنے فوجی تسلط میں لیا تو اگلے ایک ہزار سال تک انگریز غلام لڑکے روم کی غلام منڈیوں میں بکتے رہے اور انگلستان پہ نارمن جارحیت تک یہ سلسلہ چلا۔ انگریزوں کی غلامی کے اس سلسلے کے رکنے کے قریبا چھ، سات سو سال بعد انگلستان ایک عالمی طاقت بن چکا تھا۔ انگلستان ایک عالمی طاقت روم کے مظالم کی کہانیاں دہراتے دہراتے نہیں بنا اور نہ ہی انگلستان میں ہر سال ہفتہ غلامی انگریز فخر اور دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ تاریخ کا یہی سبق ہم سب کو سمجھنا ہے۔ جارح اور ظالم کو تقریر اور تحریر سے شرمندہ کرنا اور اپنی مظلومیت کا اعلان کرنا یقینا اچھا ہے، مگر دنیا کو اپنے حساب سے بدل دینے کا زیادہ کارگر نسخہ طاقت حاصل کر کے دنیا کے چوتڑوں پہ لات مارنا ہے۔  
ان کالموں میں جن خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے وہ ویڈیو کی صورت میں درج ذیل ویب ساءٹ پہ بھی دیکھے جا سکتے ہیں:

Monday, September 03, 2012

 

آغا وقار فراڈ نہیں ہیں





ستمبر دو، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو ایک


 آغا وقار فراڈ نہیں ہیں

علی حسن سمندطور

مختصر غیر موجودگی  کے بعد آغا وقار اور ان کی بناءی ہوءی محیرالعقل واٹر کٹ ایک دفعہ پھر پاکستانی میڈیا کی زینت ہیں۔  اپنے حالیہ پروگرام  میں حامد میر نے آغا وقار کو غلام اسحق خان انسٹیوٹ آف انجینءیرنگ کے ڈاکٹر شوکت حمید خان اور معروف تجزیہ کار ڈاکٹر پروفیسر ہودبھاءی کے سامنے لا کھڑا کیا۔ آغا وقار کا دعوی تھا کہ وہ تین ماہ کے اندر اپنی واٹر کٹ کو تجارتی شکل دے دیں گے اور پھر پاکستان کی گاڑیاں دھڑادھڑ پانی سے سے چلا کریں گی۔ اس پروگرام میں پرویز ہودبھاءی نے الزام لگایا کہ آغا وقار ایک فراڈ ہیں اور انہیں جلد از جلد جیل میں بند کردینا چاہیے۔ پرویز ہودبھاءی سے لاکھوں دیگر موضوعات پہ اتفاق کے باوجود مجھے اس موضوع پہ ان سے شدید اختلاف ہے۔ اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پرویز ہودبھاءی آغا وقار کی ٹیکنالوجی کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ پرویز ہودبھاءی کا خیال ہے کہ آغا وقار اپنی واٹر کٹ میں پانی کے ذریعے ایسی ٹلین گیس بنا رہے ہیں جسے وہ ایندھن کی شکل میں گاڑی کے انجن میں استعمال کر رہے ہیں۔  اور کیونکہ پانی سے ایسی ٹلین بنانے کے لیے کیلشیم کارباءڈ چاہیے اس لیے آغا وقار کا یہ دعوی کہ وہ محض پانی سے گاڑی چلا رہے ہیں فراڈ ہے۔ آغا وقار ہرگز فراڈ نہیں ہیں۔ آغا وقار پانی سے ایسی ٹلین گیس بنا کر گاڑی نہیں چلا رہے بلکہ ان کے کہنے کے مطابق وہ پانی کو ہاءڈروجن اور آکسیجن گیس میں توڑ کر ہاءڈروجن گیس کو ایندھن کے طور پہ استعمال کرتے ہوءے گاڑی چلا رہے ہیں۔ کیمیا سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ پانی ہاءڈروجن اور آکسیجن گیسوں سے ہی بنا ہے اور پانی کو توڑ کر دوبارہ ہاءڈروجن اور آکسیجن گیسیں بناءی جا سکتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانی کو ہاءڈروجن اور آکسیجن گیسوں میں توڑنے کے لیے کتنی تواناءی چاہیے۔ کیا یہ تواناءی اس تواناءی سے کم ہے جو ہاءڈروجن کو جلا کر حرارت کی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے آغا وقار کی واٹرکٹ ٹاءیں ٹاءیں فش ہونے کا مستقبل رکھتی ہے۔ مگر آغا وقار فراڈ نہیں ہیں۔ آغا وقار نادان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ گاڑی میں لگی بیٹری کی مدد سے پانی کو توڑ کر ہاءڈروجن بنا سکتے ہیں، ہاءڈروجن جلا کر گاڑی کا انجن چلا سکتے ہیں ، اور پھر چلتے ہوءے انجن کی مدد سے آلٹرنیٹر کے استعمال سے دوبارہ بیٹری کو چارج کر سکتے ہیں ، اور یوں اس سلسلے کو لامتناہی طور پہ محض پانی کے مستقل استعمال سے چلا سکتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے اور اس بات کو نہ سمجھنا ہی آغا وقار کی نادانی ہے۔ جب آغا وقار پانی سے چلنے والی اس گاڑی کو بغیر روکے چلاءیں گے تو کچھ دور چلنے کے بعد یہ گاڑی کھڑی ہو جاءے گی کیونکہ اس گاڑی کے انجن سے بیٹری اتنی تیزی سے چارج نہیں ہو رہے ہوگی جتنی پانی کو توڑنے میں استعمال ہورہی ہوگی۔  آغا وقار کی یہ نادانی ہے کہ انہوں نے لامتناہی چلنے والے ایسے دوسرے انجنوں کے بارے میں نہ تو سوچا ہے اور نہ اس قسم کے کوءی تجربات طویل دورانیے میں کیے ہیں۔  اکثر بچے جب ساءیکل کا ڈاءنمو دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آتا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر ساءیکل کے ڈاءنمو سے ساءیکل کی بتی جلاءی جا سکتی ہے تو اس کرنٹ سے ایک موٹر کیوں نہیں چلاءی جا سکتی۔ تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ ڈاءنمو ایک موٹر چلاءے، موٹر اب ساءیکل کو چلانے لگے اور یوں یہ سلسلہ لامتناہی طور پہ چلتا رہے۔ گویا صرف پہلی بار آپ کو ساءیکل کے پیڈل زور زور سے مارنے ہوں، ایک دفعہ ڈاءنمو بجلی بنانے لگے تو پھر مزے آجاءیں، اب سارا کام خود بخود ہونے لگے۔ مگر اکثر بچے ذرا سی دیر میں یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ ڈاءنمو سے بجلی بننے میں جو تواناءی خرچ ہوتی ہے وہ اس تواناءی سے کہیں زیادہ ہے جو اس بجلی سے چلنے والی موٹر سے حاصل ہوگی۔ مگر افسوس کہ آغا وقار نے اپنے بچپن میں اس قسم کے تجربات نہیں کیے اور اسی وجہ سے ان کا خیال ہے کہ وہ صرف ایک دفعہ بھری ہوءی بیٹری کی مدد سے پانی کو توڑنے کا عمل شروع کریں گے اور پھر یہ سلسلہ لامتناہی طور پہ چلتا رہے گا کیونکہ پانی کو توڑ کر بناءی جانے والی ہاءڈروجن گیس انجن بھی چلاتی رہے گی اور ساتھ ساتھ بیٹری کو بھی چارج کرتی رہے گی۔ اس کے باوجود آغا وقار فراڈ ہرگز نہیں ہیں۔  وہ محض نادان ہیں کہ بات کو گہراءی سے سمجھ نہیں رہے۔ آغا وقار کی ٹیکنالوجی کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ماءع پانی میں مثبت آءون یعنی ہاءڈراءڈ اور منفی آءون یعنی  ہاءڈروآکساءڈ بہت کمزور ہوتے ہیں۔ آغا وقار  نےوہ کونسی نءی ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے جو اتنے کمزور آءونوں کو کھرلہ، یا الیکٹرولسس، کے عمل سے اپنی طرف گھسیٹ لے گی اور آخر میں ہاءڈروجن گیس حاصل ہوجاءے گی؟ پاکستان میں موجود ساءنسدانوں کو چاہیے کہ وہ آغا وقار کو ٹی وی پہ جھڑک نہ دیں بلکہ اپنے ساتھ بٹھا کر ان کی ٹیکنالوجی کو سمجھیں اور پھر ان کو 
بہت کچھ سمجھاءیں۔

Labels:


This page is powered by Blogger. Isn't yours?