Monday, September 24, 2012

 

یوم فساد



ستمبر چوبیس، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو چار


 یوم فساد

 کیا آپ بھی ہر رات سونے سے پہلے اپنی زندگی پہ ایک طاءرانہ نظر ڈالتے ہیں؟  آپ اطمینان کرتے ہیں کہ اگر صبح اٹھنا نصیب نہ ہوا تو کچھ غم نہیں کہ اب تک جو زندگی گزاری بھرپور گزاری، محبت کرنے والوں کا خوب ساتھ رہا، کوشش کی کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، اور دنیا میں بھلاءی کے کاموں میں ہاتھ بٹایا؟ اور کیا ہر صبح جب آپ کی آنکھ کھلتی ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں کہ آپ کو دنیا میں تھوڑی اور مہلت مل گءی؟ جمعہ، ستمبر اکیس کی صبح میرے لیے بھی ایسی ہی تھا۔ پردے کے باہر روشنی پھیلی اور میری آنکھ کھل گءی۔ میں خوش ہوا کہ مجھے زندگی کا ایک اور دن عطا ہوا۔ اس روز کی خاص بات یہ تھی کہ خلاءی جہاز اینڈیور کو لاس اینجلس جانے سے پہلے سان فرانسسکو بے ایریا سے گزرنا تھا۔  خوشی کے ایسے ہی جذبے سے سرشار کمپیوٹر کھولا۔ اس وقت تک پاکستان میں جمعے کی رات ہو چلی تھی۔ یوم عشق رسول کے ہنگاموں میں پندرہ لوگوں کی ہلاکت کی خبر پڑھی۔ دل ڈوب گیا۔
ساءنسداں ایک عرصے سے جانوروں کی ذہانت جانچنے کے لیے تجربات کرتے آ ءے ہیں۔ وہ ایسے تجربات ہوتے ہیں جن میں جانورں  کو کسی خاص عمل پہ انعام دیا جاتا ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ آیا جانور انعام کے لالچ میں وہ عمل دہراتا ہے یا نہیں۔ مثلا اس طرح کا تجربہ کہ چوہے کو ایک تنگ سی جگہ پہ چھوڑا جاءے جہاں سے نکلنے کے دو دروازے ہوں، ایک نیلا، دوسرا ہرا۔  چوہا اگر نیلے دروازے سے گزرے تو اسے انعام کے طور پہ پنیر کا ایک ٹکڑا دیا جاءے، اگر ہرے دروازے سے گزرے تو اسے کچھ نہ ملے۔  پھر دیکھا جاءے کہ یہ عمل کتنی بار دہرایا جاءے کہ چوہے کو یہ بات سمجھ میں آجاءے کہ نیلے دروازے سے گزرنا منفعت رکھتا ہے۔ اور پھر یہ دیکھنا کہ آیا چند دنوں کے وقفے کے بعد یہ تجربہ دہرایا جاءے تو کیا چوہے کو یاد رہے گا کہ نیلے دروازے سے گزرنے پہ اسے پنیر کا انعام ملے گا؟  اسلام اور اسلام کی مقدس ہستیوں کا مذاق اڑانے والے لوگ بھی ایسے ہی چوہے ہیں جو سال ہا سال ہرے دروازے سے گزرتے رہتے ہیں، نہ انہیں کوءی انعام ملتا ہے اور نہ کوءی ان کو پوچھتا ہے۔  پھر وہ اس بے نام و انعام زندگی سے تنگ آ کر، جی کڑا کر کے نیلے دروازے سے گزرجاتے ہیں، یعنی مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ذرا سی دیر میں مسلمان تلملا کر کھڑے ہوجاتے ہیں، خوب ہنگامہ آراءی ہوتی ہے، اور اس طرح دنیا میں اپنا "نام" بنانے پہ یہ لوگ دولت اور شہرت کا انعام پاتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ  جب تک چوہے کو انعام ملتا رہے گا یہ سلسلہ  بھی یوں ہی چلتا رہے گا ۔ جب مسلمان ہر گءے گزرے مصور، کارٹون نویس، اور لکھنے والے کے حملے پہ کان دھرنا چھوڑ دیں گے تو یہ حملے بھی اپنی افادیت کھو بیٹھِیں گے۔
پاکستان کی مذہبی جماعتیں پیپلز پارٹی کو کفر و الحاد کے طعنے دیتی آءی ہیں اور انہی طعنوں کے اثر سے پیپلز پارٹی نے ماضی میں احمقانہ کام کیے ہیں۔ ان قابل مذمت کاموں میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا کام بھی شامل تھا۔ چنانچہ حالیہ بننے والی فلم پہ جب مذہبی حلقوں نے احتجاج شروع کیا تو موجودہ حکومت نے اپنا "اسلام" ثابت کرنے کے لیے جمعے کو عام تعطیل کا اعلان کر دیا۔ اس دن کو یوم عشق رسول کا نام دیا گیا۔ عشق رسول ثابت کرنے کا صحیح طریقہ تو یہ تھا کہ پاکستان کے لوگ ایسے کام کرتے جس سے دنیا میں ان کی واہ واہ ہوتی اور اپنے نبی سے ان کے عشق پہ کفار دنگ رہ جاتے۔ یہ عاشقان رسول ہر شہر میں راتوں رات عشق رسول کتب خانے قاءم کر دیتے؛ ہر محلے میں عشق رسول مکتب کھل جاتے جہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی اور یہ انتظام کیا جاتا کہ پانچ سال کے اندر پاکستان میں شرح خواندگی سو فی صد ہوجاءے ؛ عشق رسول کنویں کھودے جاتے جہاں سے صاف پانی ان علاقوں میں پہنچایا جاتا جہاں پانی دستیاب نہیں ہے۔ مگر افسوس کہ امت رسول تعمیر بھول چکی ہے اور محض تخریب جانتی ہے۔ چنانچہ چھٹی کا یہ روز یوم فساد ثابت ہوا۔ خوب قتل و غارت گری ہوءی۔ بیس لوگ ہلاک ہوءے، دو سو کے لگ بھگ زخمی ہوءے، اور املاک کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔
جب ان جاہلوں کے فتنے پہ دنیا میں ان کی تھو تھو ہوءی تو یہ نام نہاد "عاشق رسول" نءی تاویلیں لے آءے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے کارکن تو تمام مظاہروں میں مکمل پرامن رہے، ہنگامہ آراءی کرنے والے دوسرے لوگ تھے۔ ایک سازشی کہانی یہ ہے کہ کراچی میں لوٹ مار ایم کیو ایم نے کی جب کہ پشاور میں اے این پی کے کارکنوں نے۔ ایک دوسری کہانی یہ ہے کہ فساد کرنے والے ایجنسیوں کے لوگ تھے جو دراصل امریکہ کے کارندے ہیں اور یہ سارا فساد اسی لیے کیا گیا تاکہ مسلمانوں کا نام بدنام ہو۔ یہ لوگ لاکھ بہانے تراشتے رہیں، دنیا کے سامنے ان کی حقیقت کھل کر سامنے آگءی ہے۔ جمعے کے یوم فساد کے بعد کراچی میں ایک صاحب سے فون پہ بات ہورہی تھی۔ یہ صاحب پچھلی چھ دہاءیوں سے کراچی کی سیاست اور کشت و خون کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ ان سے وہی سوال کیا گیا کہ آخر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کرنے والے لوگ کون تھے۔ انہوں نے اطمینان سے جواب دیا کہ جب دیکھو کہ کسی سینما گھر کو آگ لگاءی گءی ہے یا شراب کی دکان کو توڑا گیا ہے تو سمجھ جاءو کہ اس کے پیچھے جماعت اسلامی کا ہاتھ ہے کیونکہ اس کے کارکنوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے کام کر کے یہ براءی کو جڑ سے ختم کردیں گے؛ اور اگر "عشق رسول" میں کوءی بینک لٹتا دیکھو تو اس کے پیچھے دوسری مذہبی جماعتیں کا ہاتھ جان لو؛ ان جماعتوں کو جدید اسلحہ خریدنے کے لیے رقم چاہیے ہوتی ہے جب کہ قربانی کی کھالوں سے ان کی آمدنی محدود ہوتی ہے۔ میں نے اتنے سنجیدہ موضوع پہ اس ظریفانہ بات کو دلچسپی سے سنا مگر سوچا کہ شاید اتنی وضاحت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کس فسادی کارواءی کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے یوم عشق رسول کی تعطیل کا اعلان کر کے فتنہ گروں کو فساد مچانے کا کھلا موقع دیا۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ کسی مذہبی جماعت میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ حالانکہ آگ لگانے اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ہمارے کارکنوں کا کوءی ہاتھ نہ تھا مگر ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی ہے جن کی املاک کو تباہ و 
برباد کیا گیا اور ہمارے کارکن تعمیر کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے حاضر ہیں۔

Labels: , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?