Monday, September 10, 2012
دنیا سے عزت کرانے کا طریقہ
ستمبر نو، دو ہزار بارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو دو
دنیا سے عزت
کرانے کا طریقہ
ہندوستان میں ذات کا مسءلہ بہت گھمبیر
ہے۔ ہزاروں سال پہلے کہ جب انسان کی واحد دلچسپی زندہ رہنے میں تھی اکثر لوگ اپنے
آباءی پیشوں سے چمٹے رہتے تھے۔ جولاہے کا
لڑکا جولاہا، موچی کا لڑکا موچی، اور لوہار کا لڑکا لوہار بنتا تھا۔ خاندانی پیشے
سے الگ ہٹ کر کام کرنے کا موقع کم ہی مل پاتا تھا۔ ان قدیم معاشروں میں لوگوں کو
ان کے پیشوں کے حساب سے جانا جاتا تھا۔ پھر ہندوستان میں شمال سے آنے والوں نے بھی
اپنے تعصبات کے حساب سے معاشرے کو چار بڑے خانوں میں تقسیم کیا۔ سب سے اوپر وہ لوگ
تھے جو زبان پہ قدرت رکھتے تھے، لکھنا پڑھنا جانتے تھے؛ لامحالہ یہ لوگ مذہبی راہ
نما تھے؛ دوسرے خانے میں سپاہی اور حکمراں تھے؛ تیسرے خانے میں تجارت کرنے والے
لوگ تھے؛ اور چوتھے خانے میں ہنرمند افراد تھے جو کسی مخصوص پیشے سے وابستہ ہوتے
تھے، مثلا دھوبی، قصاءی، کمہار، وغیرہ۔ اور اس چوتھے خانے سے ہی پانچواں خانہ وجود میں
آیا جو اچھوتوں کا تھا، یعنی وہ لوگ جن کو چھونا بھی قابل نفرت تھا؛ ان لوگوں کو
دوسروں کی گندگی اٹھانے کا کام دیا گیا۔
انگریز کے برصغیر میں آنے کے بعد ذات کے اس فرسودہ نظام کو یورپی نسل پرستی کا
تڑکا لگا اور ذات کو کھال کے رنگ کے حساب سے دیکھا جانے لگا، یعنی اونچی ذات کے لوگ
صاف رنگ والے، اور نچلی ذات کے لوگ گہرے رنگ کے۔ پھر وقت کے ساتھ تعلیم بڑھی اور یہ سمجھ عام ہوءی
کہ ذات پات کی کوءی اہمیت نہیں ہے، ہر انسان قریبا ایک جیسا ذہن رکھتا ہے، اور
لوگوں کو لکھنے پڑھنے کے مواقع دیے جاءیں تو وہ آسمان چھو سکتے ہیں۔ مگر معاشرہ
پرانے طریقے سے چل رہا تھا اور لوگوں کے ذہن ذرا سی دیر میں بدلے نہیں جا سکتے۔
حکومتی سطح پہ کوشش شروع ہوءی کہ نچلی ذات کے لوگوں سے صدیوں پرانے خراب سلوک کا
مداوا کیا جاءے۔ ان لوگوں کو پڑھنے لکھنے اور سرکاری منصب رکھنے کے مواقع دیے
جاءیں۔ اور ان ہی سرکاری کوششوں کی ایک کامیابی یہ تھی کہ کوچرل رامن نارایانن یا
کے آر ناراءن ہندوستان کے پہلے اچھوت صدر بنے۔ تعلیم کے مواقع کسی قدر حاصل ہونے کے اچھوت ان جگہوں سے نکل
پاءے جہاں وہ سینکڑوں سالوں سے جغرافیاءی طور پہ مقید تھے۔ اور اب مغربی دنیا میں
بھی اور ذات کے ہندءوں کے علاوہ اچھوت بھی موجود ہیں۔ واضح رہے کہ اچھوتوں کو
شودھر، دراوڑ، ہریجن اور دلت بھی کہا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کی اخلاقی قیادت مغربی
دنیا کے ہاتھ میں ہے۔ مغرب میں بسنے والے دلت موجودہ دنیا کی اخلاقی اقدار اچھی
طرح سمجھتے ہیں اور ہندوستان میں دلتوں سے ہونے والے امتیازی سلوک پہ احتجاجی آواز
بلند کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں تنموزی سندراراجن نامی ایک خاتون نے آءوٹ لک انڈیا
کے لیے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح امریکہ میں آنے کے بعد بھی
ذات سے متعلق پست خیالات نے ان کے خاندان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ جب کبھی ان کے اہل خانہ
اپنے ہم وطنوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے، ذات کی بات ضرور سامنے آتی اور دلت ہونے کے
ناتے تنموزی سندراراجن کے گھر والے اپنی ذات کا اعلان کرتے ہوءے شرماتے اور ایسی
گفتگو سے بھاگنے کی کوشش کرتے۔ اصل مضمون یہاں ملاحظہ فرماءیں:
مضمون کے آخر میں تنموزی نے لکھا کہ جب سے شو بزنس
میں انہوں نے اپنا نام دلت دیوا رکھا ہے کچھ لوگ ان کو اپنے ساتھ اپنے برتنوں میں
کھانا بھی نہیں کھلانا چاہتے اور تنموزی کو لعن طعن کا سامنا ہے۔ مجھے مضمون پسند آیا اور میں نے تنموزی کی ہمت کی داد دی کہ وہ باتیں جو نجی محفلوں میں سرگوشیوں میں
کی جارہی تھیں تنموزی نے ان باتوں کو لکھ کر اپنے ہم وطنوں کو آءینہ دکھا یا اور
انہیں شرمندہ کر دیا۔
مگر مجھے یہ بات سمجھ میں نہ آءی کہ جب دلت یا اچھوت ہونے کی پہچان تنموزی کی اپنی
نہیں ہے بلکہ دوسروں کی ان پہ ٹھونسی ہوءی ہے تو وہ اس پہچان کو امریکہ میں رہنے
کے باوجود کیوں اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ تنموزی کے مضمون پہ میرا تبصرہ یہاں ملاحظہ
فرماءیں:
اپنے اس تبصرے پہ مجھے اپنے ترقی پسند دوستوں کی طرف سے سخت تنقید کا
سامنا کرنا پڑا۔ میں شرمندہ ہوں کہ میرے تبصرے کو غلط معنوں میں لیا گیا اور
یہ سمجھا گیا کہ میں مصنفہ کا مذاق اڑا رہا ہوں یا دلتوں کے ساتھ ہمدردی نہیں
رکھتا۔ جو لوگ میری تحریریں پڑھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میری بھرپور
ہمدردیاں ان تمام گروہوں کے ساتھ ہیں جن کو زور و زبردستی سے دبایا جا رہا ہے اور
جن پہ ترقی، تعلیم، اور معاشی خوشحالی کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس کے
ساتھ مجھے یہ خیال بھی ہے کہ اگر کوءی دوسرا گروہ آپ کی کوءی ایسی پہچان بناتا ہے
جو آپ کو پسند نہیں ہے اور جو آپ پہ زبردستی تھوپ دی گءی ہے تو آپ کو چاہیے کہ جبر
سے آزاد ہونے کے بعد اپنی اس جھوٹی پہچان سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیں۔
یا شاید میں ہی غلطی پہ ہوں اور جب
لوگوں کو طویل عرصہ محکوم رکھا جاتا ہے اور انہیں مخصوص خراب ناموں سے پکارا جاتا
ہے تو بہت عرصے بعد وہ واقعی ان گالیوں سے محبت کرنے لگتے ہیں اور انہیں اپنا ہی
لیتے ہیں۔ مگر اس صورت میں کیا کیا جاءے جب دوسرے لوگ اس پہچان کو اب بھی حقارت کی
نظر سے دیکھتے ہوں اور آپ کے گروہ نے معاشرے میں اب تک اپنا مضبوط مقام نہ بنایا
ہو؟ پھر اس صورت میں آپ تاریخ کی مالا جپتے جپتے تاریخ کے جبر سے کیسے نکلیں گے؟
تاریخ سے سبق حاصل کرنا تو اچھا ہے مگر تاریخ کو اپنے گلے کا طوق بنا لینا اچھا
سودا نہیں ہے۔ تاریخ مٹاءی نہیں جا سکتی مگر تاریخ کے نءے باب موٹے خط میں لکھ کر
پرانی غیر پسندیدہ تاریخ کو پس پشت ضرور دھکیلا جا سکتا ہے۔ جب روم نے جزیرہ
انگلستان کو اپنے فوجی تسلط میں لیا تو اگلے ایک ہزار سال تک انگریز غلام لڑکے روم
کی غلام منڈیوں میں بکتے رہے اور انگلستان پہ نارمن جارحیت تک یہ سلسلہ چلا۔ انگریزوں
کی غلامی کے اس سلسلے کے رکنے کے قریبا چھ، سات سو سال بعد انگلستان ایک عالمی
طاقت بن چکا تھا۔ انگلستان ایک عالمی طاقت روم کے مظالم کی کہانیاں دہراتے دہراتے
نہیں بنا اور نہ ہی انگلستان میں ہر سال ہفتہ غلامی انگریز فخر اور دھوم دھام سے
منایا جاتا تھا۔ تاریخ کا یہی سبق ہم سب کو سمجھنا ہے۔ جارح اور ظالم کو تقریر اور
تحریر سے شرمندہ کرنا اور اپنی مظلومیت کا اعلان کرنا یقینا اچھا ہے، مگر دنیا کو
اپنے حساب سے بدل دینے کا زیادہ کارگر نسخہ طاقت حاصل کر کے دنیا کے چوتڑوں پہ لات
مارنا ہے۔
ان کالموں میں
جن خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے وہ ویڈیو کی صورت میں درج ذیل ویب ساءٹ پہ بھی
دیکھے جا سکتے ہیں: