Monday, September 17, 2012

 

آتش زدگی اور رشدی فارمولا



ستمبر سولہ، دو ہزار بارہ


ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار ایک سو تین



 آتش زدگی اور رشدی فارمولا


خیال ہے کہ آگ گارمنٹ فیکٹری کے کٹنگ ڈیپارٹمنٹ سے شروع ہوءی۔ یہ آگ ذرا سی دیر میں پورے میں پھیل گءی۔ لوگوں کے پاس بھاگنے کے راستے محدود تھے کیونکہ  کارخانے کے مالکان باہر جانے کے دروازے اس خیال سے مقفل رکھتے تھے کہ کہیں کام کرنے والے کارخانے کا سامان نہ چوری کرلیں۔ آگ بجھیے کچھ ہی دیر میں فیکٹری تک پہنچ گءے مگر آگ پہ قابو نہ پایا جا سکا اور آتشزدگی کے اس واقعے میں ایک سو چھیالیس لوگ ہلاک ہوگءے۔ ایک سو چھیالیس؟ مگر آپ نے تو خبروں میں دو سو نواسی لوگوں کے موت کی خبر سنی ہے۔  میں پچھلے ہفتے کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کا ذکر نہیں کر رہا، میں تو آپ کو اس سے زیادہ پرانا واقعہ سنا رہا ہوں۔ ذکر ہورہا ہے سنہ انیس سو گیارہ میں نیویارک کی ٹراءینگل شرٹ ویسٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کا۔ نیویارک کی گارمنٹ فیکٹری کی آگ اور کراچی کی گارمنٹ فیکٹری کی آگ کے حالات و واقعات ایک جیسے ہیں، فرق صرف ایک سو ایک سال کا ہے۔
کیونکہ صنعتی انقلاب یورپ سے شروع ہوا اور اس کے اولین اثرات یورپ میں اور ان جگہوں پہ نمودار ہونا شروع ہوءے جہاں یورپی نقل مکانی کر کے پہنچے تھے، اس لیے اولین صنعتی حادثات بھی ان ہی جگہوں پہ ہوءے اور ان حادثات سے سبق حاصل کر کے آءندہ کے لیے بہتر لاءحہ عمل بنانے کا کام بھی مغرب میں ہی شروع ہوا۔ سنہ انیس سو گیارہ میں نیویارک کے کارخانے والی آگ نے بھی لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور مغربی دنیا نے اس آگ سے بہت سے سبق سیکھے۔
شاید نادان اور دانا میں یہی فرق ہوتا ہے کہ نادان خود اپنے خراب تجربات سے بھی نہیں سیکھتا اور بار بار ایک طرح کی غلطیاں دہراتا ہے، جب کہ دانا دوسروں کے خراب تجربات سے سیکھ جاتا ہے۔ چنانچہ دانا قومیں اور ممالک وہ ہیں جنہوں نے صنعتی انقلاب کے بعد مغرب میں ہونے والے خراب تجربات سے سبق حاصل کر لیے؛ انہوں نے مغرب میں ہونے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا۔ کراچی کی گارمنٹ فیکٹری کی آگ اور آتشزدگی سے ہونے والے بہت بڑے جانی نقصان سے واضح ہے کہ ہم نے دوسری جگہوں پہ ہونے والے صنعتی حادثات سے سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ مگر اب اور بڑی حماقت یہ ہوگی کہ کچھ دنوں بعد ہم کوءی سبق حاصل کیے بغیر، اپنے طور طریقے بدلے بغیر اس واقعے کو بھی بھول جاءیں اور کراچی کی صنعتیں آتشزدگی سے بچنے کی تیاری کے بغیر اسی طرح کام کرتی رہیں جس طرح اب تک کرتی رہی ہیں۔  
رشدی فارمولا دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کا آسان نسخہ بن گیا ہے۔ رشدی فارمولا بہت آسان ہے: اگر آپ ایک گم نام لکھنے والے، آرٹسٹ، یا فلم ساز ہیں تو کچھ ایسا تحریر کیجیے، کوءی تصویر، کوءی کارٹون، کوءی فلم ایسی بناءیے جس سے بہت سے لوگوں کی دل آزاری ہو۔ پھر تماشہ دیکھیے کہ دنیا کس طرح آپ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ دل آزاری کے لیے جتنے بڑے گروہ کا انتخاب کیجیے اتنا اچھا ہے، اور یہ بھی خیال رکھیے کہ کون لوگ کس قدر جذباتی ہیں۔ جس قدر بڑے اور جذباتی گروہ پہ آپ رشدی فارمولے کا استعمال کریں گے، اتنی ہی بڑی کامیابی آپ کو حاصل ہوگی، اور دولت اور شہرت آپ کے قدم چومے گی۔ درج بالا نکات کو ذہن میں رکھتے ہوءے فی زمانہ رشدی فارمولے کے استعمال کے لیے ایک بڑے انسانی گروہ کا انتخاب بہت آسان ہے۔ یہ گروہ مسلمانوں کا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے جس سے مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان تناتنی پہلے ہی موجود ہے۔ ایندھن کے اس ڈھیر پہ رشدی فارمولے کی تیلی دکھانے کی کسر ہے۔
رشدی فارمولے کا نیا ترین استعمال اس فلم کی صورت میں ہے جو ہمارے نبی کی زندگی پہ بناءی گءی ہے۔ اس فلم کا واحد مقصد مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ہے۔ نہ جانے پوری فلم بنی بھی ہے یا نہیں مگر فلم کا تیرہ منٹ کا ٹریلر یوٹیوب پہ موجود ہے۔ اور یہ ٹریلر ہی لوگوں کی دل آزاری کا سبب بنا ہے۔ ٹریلر دیکھنے کے بعد میرا خیال ہے کہ اس فلمساز کو کڑی سزا ملنی چاہیے؛ اس بات پہ نہیں کہ اس کی فلم سے لوگوں کی دل آزاری ہوءی ہے، بلکہ  اس بات پہ کہ اس نالاءق نے ایک کثیر رقم خرچ کرنے کے بعد اس قدر بھدی فلم بناءی ہے۔ بہرحال فلم کسی قدر بھی غیرمعیاری کیوں نہ  ہو، رشدی فارمولا کارگر ثابت ہوا ہے۔  ایک دفعہ پھر "غیرت مند" مسلمان جگہ جگہ اٹھ کھڑے ہوءے ہیں اور جلاءو گھیراءو اور توڑ پھوڑ میں مصروف ہوگءے ہیں۔
اگر ایک طرف رشدی فارمولا ہے تو دوسری طرف خمینی فارمولا ہے۔ خمینی فارمولا یہ ہے کہ نظر رکھو کہ کس بات پہ لوگوں کو جمع کیا جاسکتا ہے اور قیادت کی اپنی دکان چمکاءی جا سکتی ہے۔ جہاں مغرب میں رشدی فارمولا استعمال کرنے والے خبیث ہیں وہیں مسلم دنیا میں خمینی فارمولا استعمال کرنے والے شاطر بھی بہتیرے ہیں۔ مگر خمینی فارمولا استعمال کرنے والوں کو ایک بڑی تعداد میں ایسے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اور جذباتی نعروں کے اثر میں آ کر ان شاطروں کے پیچھے چل پڑیں۔ یہ کالم ان ہی معصوم لوگوں کے لیے ہے۔ ان لوگوں سے صرف ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ کیا اس  جلاءوگھیراءو اور توڑ پھوڑ سے دنیا میں اسلام کا نام بلند ہورہا ہے؟  کیا اس طرح کے فساد سے رشدی فارمولے کی جادوگری اوروں پہ واضح نہیں ہورہی اور اس بات کا امکان نہیں بڑھ رہا کہ مستقبل میں اور لوگ بھی اسلام کی مقدس ہستیوں کی تذلیل کر کے اپنے لیے شہرت اور دولت کمانے کا راستہ تلاش کریں گے؟ کیا احتجاج کے یہ بھونڈے طریقے توہین اسلام اور توہین رسالت کے مزید راستے ہموار نہیں کر رہے؟


Labels: , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?