Monday, September 03, 2012
آغا وقار فراڈ نہیں ہیں
ستمبر دو، دو ہزار بارہ
ایک فکر کے سلسلے کا کالم
کالم شمار ایک سو ایک
آغا وقار فراڈ
نہیں ہیں
علی حسن سمندطور
مختصر غیر موجودگی کے بعد آغا وقار اور ان کی بناءی ہوءی محیرالعقل
واٹر کٹ ایک دفعہ پھر پاکستانی میڈیا کی زینت ہیں۔ اپنے حالیہ پروگرام میں حامد میر نے آغا وقار کو غلام اسحق خان
انسٹیوٹ آف انجینءیرنگ کے ڈاکٹر شوکت حمید خان اور معروف تجزیہ کار ڈاکٹر پروفیسر
ہودبھاءی کے سامنے لا کھڑا کیا۔ آغا وقار کا دعوی تھا کہ وہ تین ماہ کے اندر اپنی
واٹر کٹ کو تجارتی شکل دے دیں گے اور پھر پاکستان کی گاڑیاں دھڑادھڑ پانی سے سے
چلا کریں گی۔ اس پروگرام میں پرویز ہودبھاءی نے الزام لگایا کہ آغا وقار ایک فراڈ ہیں
اور انہیں جلد از جلد جیل میں بند کردینا چاہیے۔ پرویز ہودبھاءی سے لاکھوں دیگر
موضوعات پہ اتفاق کے باوجود مجھے اس موضوع پہ ان سے شدید اختلاف ہے۔ اور اس اختلاف
کی وجہ یہ ہے کہ پرویز ہودبھاءی آغا وقار کی ٹیکنالوجی کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔
پرویز ہودبھاءی کا خیال ہے کہ آغا وقار اپنی واٹر کٹ میں پانی کے ذریعے ایسی ٹلین
گیس بنا رہے ہیں جسے وہ ایندھن کی شکل میں گاڑی کے انجن میں استعمال کر رہے ہیں۔ اور کیونکہ پانی سے ایسی ٹلین بنانے کے لیے
کیلشیم کارباءڈ چاہیے اس لیے آغا وقار کا یہ دعوی کہ وہ محض پانی سے گاڑی چلا رہے
ہیں فراڈ ہے۔ آغا وقار ہرگز فراڈ نہیں ہیں۔ آغا وقار پانی سے ایسی ٹلین گیس بنا کر
گاڑی نہیں چلا رہے بلکہ ان کے کہنے کے مطابق وہ پانی کو ہاءڈروجن اور آکسیجن گیس
میں توڑ کر ہاءڈروجن گیس کو ایندھن کے طور پہ استعمال کرتے ہوءے گاڑی چلا رہے ہیں۔
کیمیا سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ پانی ہاءڈروجن اور آکسیجن
گیسوں سے ہی بنا ہے اور پانی کو توڑ کر دوبارہ ہاءڈروجن اور آکسیجن گیسیں بناءی جا
سکتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانی کو ہاءڈروجن اور آکسیجن گیسوں میں توڑنے
کے لیے کتنی تواناءی چاہیے۔ کیا یہ تواناءی اس تواناءی سے کم ہے جو ہاءڈروجن کو
جلا کر حرارت کی صورت میں حاصل کی جاسکتی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے آغا
وقار کی واٹرکٹ ٹاءیں ٹاءیں فش ہونے کا مستقبل رکھتی ہے۔ مگر آغا وقار فراڈ نہیں ہیں۔
آغا وقار نادان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ گاڑی میں لگی بیٹری کی مدد سے پانی کو
توڑ کر ہاءڈروجن بنا سکتے ہیں، ہاءڈروجن جلا کر گاڑی کا انجن چلا سکتے ہیں ، اور
پھر چلتے ہوءے انجن کی مدد سے آلٹرنیٹر کے استعمال سے دوبارہ بیٹری کو چارج کر سکتے
ہیں ، اور یوں اس سلسلے کو لامتناہی طور پہ محض پانی کے مستقل استعمال سے چلا سکتے
ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے اور اس بات کو نہ سمجھنا ہی آغا وقار کی نادانی ہے۔ جب آغا
وقار پانی سے چلنے والی اس گاڑی کو بغیر روکے چلاءیں گے تو کچھ دور چلنے کے بعد یہ
گاڑی کھڑی ہو جاءے گی کیونکہ اس گاڑی کے انجن سے بیٹری اتنی تیزی سے چارج نہیں ہو
رہے ہوگی جتنی پانی کو توڑنے میں استعمال ہورہی ہوگی۔ آغا وقار کی یہ نادانی ہے کہ انہوں نے لامتناہی
چلنے والے ایسے دوسرے انجنوں کے بارے میں نہ تو سوچا ہے اور نہ اس قسم کے کوءی
تجربات طویل دورانیے میں کیے ہیں۔ اکثر
بچے جب ساءیکل کا ڈاءنمو دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آتا ہے۔ وہ
سوال کرتے ہیں کہ اگر ساءیکل کے ڈاءنمو سے ساءیکل کی بتی جلاءی جا سکتی ہے تو اس
کرنٹ سے ایک موٹر کیوں نہیں چلاءی جا سکتی۔ تو ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ ڈاءنمو
ایک موٹر چلاءے، موٹر اب ساءیکل کو چلانے لگے اور یوں یہ سلسلہ لامتناہی طور پہ
چلتا رہے۔ گویا صرف پہلی بار آپ کو ساءیکل کے پیڈل زور زور سے مارنے ہوں، ایک دفعہ
ڈاءنمو بجلی بنانے لگے تو پھر مزے آجاءیں، اب سارا کام خود بخود ہونے لگے۔ مگر
اکثر بچے ذرا سی دیر میں یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ ڈاءنمو سے بجلی بننے میں جو تواناءی
خرچ ہوتی ہے وہ اس تواناءی سے کہیں زیادہ ہے جو اس بجلی سے چلنے والی موٹر سے حاصل
ہوگی۔ مگر افسوس کہ آغا وقار نے اپنے بچپن میں اس قسم کے تجربات نہیں کیے اور اسی
وجہ سے ان کا خیال ہے کہ وہ صرف ایک دفعہ بھری ہوءی بیٹری کی مدد سے پانی کو توڑنے
کا عمل شروع کریں گے اور پھر یہ سلسلہ لامتناہی طور پہ چلتا رہے گا کیونکہ پانی کو
توڑ کر بناءی جانے والی ہاءڈروجن گیس انجن بھی چلاتی رہے گی اور ساتھ ساتھ بیٹری
کو بھی چارج کرتی رہے گی۔ اس کے باوجود آغا وقار فراڈ ہرگز نہیں ہیں۔ وہ محض نادان ہیں کہ بات کو گہراءی سے سمجھ
نہیں رہے۔ آغا وقار کی ٹیکنالوجی کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ
ماءع پانی میں مثبت آءون یعنی ہاءڈراءڈ اور منفی آءون یعنی ہاءڈروآکساءڈ بہت کمزور ہوتے ہیں۔ آغا وقار نےوہ کونسی نءی ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے جو اتنے
کمزور آءونوں کو کھرلہ، یا الیکٹرولسس، کے عمل سے اپنی طرف گھسیٹ لے گی اور آخر
میں ہاءڈروجن گیس حاصل ہوجاءے گی؟ پاکستان میں موجود ساءنسدانوں کو چاہیے کہ وہ آغا
وقار کو ٹی وی پہ جھڑک نہ دیں بلکہ اپنے ساتھ بٹھا کر ان کی ٹیکنالوجی کو سمجھیں
اور پھر ان کو
بہت کچھ سمجھاءیں۔