Wednesday, June 04, 2025
تم واجب القتل تھیں
تم واجب القتل تھیں
تم ایک خوب صورت لڑکی تھیں۔ ایک خوب صورت، سفید کھال والی لڑکی جس کی مانگ دنیا بھر میں اور بالخصوص ہمارے خطے میں بہت زیادہ ہے۔ تم اپنی خوب صورتی دنیا کو دکھا کر دنیا والوں کو اپنے گرد جمع کرسکتی تھیں۔ اور نئے دور میں ایسا ممکن ہے کہ اپنے اطراف مجمع اکٹھا کرلیا جائے مگر خود کو مجمع سے انٹرنیٹ کے ذریعے محفوظ فاصلے پہ رکھا جائے۔ تم نے ویڈیو بنائے۔ تمھاری باتیں سننے کے لیے، تمھارے نت نئے کپڑے، تمھاری ادائیں دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہوگئے۔ اور اس بھیڑ سے فائدہ اٹھانے کے لیے اشتہارات پہنچے اور ذرا سی دیر میں تم پہ پیسوں کی بارش ہونے لگی۔ یہ ایک دم سے آنے والی شہرت اور دولت ایک خطرناک نشہ ہوتی ہے۔ یہ نشہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اور یہ نشہ تم پر بھی سر چڑھ کر بولا۔ تم یہ بھول گئیں کہ تمھارے ملک میں قانون صرف طاقتور کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تمھارے پاس جتنی رقم تھی ان پیسوں کی طاقت بہت کم تھی۔ ایک لاقانون معاشرے میں تمھارا حسن، تمھارا زن ہونا تمھاری سب سے بڑی کمزوری تھی۔
تم نے نادانی میں اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے موت لکھ دی۔
Sana YousafValeria Márquez
Monday, May 05, 2025
پاکستان میں شراب نسبتا آسانی سے دستیاب ہے
سوشل میڈیا پہ کسی نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں شراب اب آسانی سے دستیاب ہے اور مسلمان پی رہے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے
جھوٹ بولنا، وقت کی پابندی نہ کرنا، پورا نہ تولنا، اپنے قدرتی ماحول کو تباہ کرنا، اپنے انفرادی فائدے کو اجتماعی فائدے پہ فوقیت دینا، شراب پینے سے ہزار گنا بڑی خرابیاں ہیں۔ پہلے ان پہ کام کریں۔
غیر ملکی سفارت خانوں کے باہر اپنے لوگوں کی قطاریں دیکھیں۔ لوگ وہاں جانے کے لیے بے تاب ہیں جہاں سچ بولا جاتا ہے، وقت کی پابندی کی جاتی ہے، پورا تولا جاتا ہے، قدرتی ماحول کا خیال کیا جاتا ہے، اور اجتماعی فائدے کو انفرادی فائدے پہ ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسی جگہ اگر لوگ شراب پی رہے ہیں تو اس سے ہمیں کیا نقصان ہے؟
Thursday, April 17, 2025
غزہ احتجاج: کیا نہ کریں۔ کیا کریں۔
غزہ احتجاج: کیا نہ کریں۔ کیا کریں۔
پاکستان کی اکثریت مسلمان ہے۔ یہاں اسرائیلی نہیں رہتے۔ یہاں کے لوگوں کا، کاروباری افراد کا اسرائیلیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں بین الاقوامی برانڈ کی مصنوعات بھی اپنے ہی لوگ بیچ رہے ہیں؛ بین الاقوامی برانڈ کے ریستوراں کے مالکان بھی اپنے ہی لوگ ہیں۔ برائے مہربانی غزہ احتجاج کے نام پہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
یہ نہ کریں
سڑکیں بند نہ کریں
ٹریفک میں خلل نہ ڈالیں
کاروبار بند نہ کریں
ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ، پتھر بازی نہ کریں
کسی کاروبار کو نقصان نہ پہنچائیں
یہ مثبت کام کریں
بہت سے ممالک موجودہ جنگ میں اسرائیل کے حمایتی اور مددگار ہیں۔ ان میں سے اکثر ممالک کے سفارت خانے اور قونصل خانے پاکستان میں موجود ہیں۔ ان سفارت خانوں کے سامنے پرامن احتجاج کریں اور سفیروں کو اپنا احتجاج تحریری صورت میں پیش کریں۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ کوئی بین الاقوامی کاروبار اسرائیل کا مددگار ہے تو اس کاروبار کا بائیکاٹ کریں۔ مگر توڑ پھوڑ، جلائو گھیرائو ہرگز نہ کریں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ وقت جہاد آ پہنچا ہے تو اس سلسلے میں عملی قدم اٹھائیے۔
Saturday, April 05, 2025
جنت کی جنسی بے راہ روی
ہمیں مغرب کی جنسی بے راہ روی پہ یہ سوچ کر غصہ آتا ہے کہ جو کچھ مرنے کے بعد جنت میں ہونا تھا، وہ ابھی سے کیونکر شروع ہوگیا۔
Monday, October 07, 2024
بوڑھاپے کے نشے
بوڑھاپے میں درد سے بے آرام لوگ کسی نہ کسی نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ اکثریت مذہب کا انتخاب کرتی ہے۔
Saturday, September 14, 2024
ہمارے بزرگ اور ان کی دانائی
سیانے کہتے ہیں کہ لوگوں کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی لیے لوگ، بزرگوں کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور ان باتوں میں حکمت کے موتی تلاش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے خاندان کے بزرگ، نصیحت کے میدان میں صرف ساٹھ سال سے پچھتر سال کی عمر تک کارآمد رہتے ہیں۔ اگر ہمارے بزرگ اس عمر سےآگے نکل جائیں تو دل پذیر لہجے میں عمر بھر کے قیمتی تجربات بیان کرنے کے بجائے گالم گلوچ پہ اتر آتے ہیں۔
چند دن پہلے ہم نے خاندان کے ایک پچاسی سالہ بزرگ سے درخواست کی کہ وہ ہمیں تین نصیحتیں کریں۔ انہوں نے فٹا فٹ تین موٹی موٹی گالیاں دے کر ہمیں رخصت کیا۔
Thursday, September 05, 2024
شادی کا کاروبار
شادی کا کاروبار
آپ کے کتنے بچے ہیں؟
جی، میرے تین مسئلے ہیں۔
کیا عمریں ہیں بچوں کی؟
بڑا مسئلہ چھبیس برس کا ہے۔ منجھلا انٹرمیں ہے۔ اور چھوٹی مسئلی دسویں پڑھ رہی ہے۔
آپ کی بیگم صاحبہ حیات ہیں؟
جی ہاں، ام المسائل بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔
بچے تو آپ کے بڑے ہیں۔ آپ کا بڑا لڑکا کہاں پہنچا؟
میرا بڑا لڑکا چاند پہ پہنچ گیا ہے۔ ابے سلفیٹ، پہنچنا کہاں ہے اسے؟ بی کام کیا تھا، نوکری ملتی ہے پھر ختم ہوجاتی ہے۔ اب کہتا ہے کہ ریٹائرمنٹ چاہتا ہوں، میری شادی کردیں۔
صاحبزادے کی شادی کے لیے کس طرح کا رشتہ درکار ہے؟
ہمیں ایک ایسی خوب صورت، حور، پری، پڑھی لکھی لڑکی کی تلاش ہے جو گھر کا کام کاج کرنے کے علاوہ نوکری کر کے ہمارے پورے گھر کی پرورش کرے۔
ایک لڑکی میں اتنی مختلف اوصاف ملنا تو ممکن نہیں ہے۔
اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو دو شادیاں کر لے۔ ایک گھر کا انتظام سنبھالے اور دوسری نوکری کرے اور گھر کا خرچہ چلائے۔
دو شادیوں کا خرچہ کیسے برداشت کریں گے؟
بات تو صحیح ہے، رقم تو نہیں ہے اتنی، مگر بہرحال اللہ نے دماغ دیا ہے۔ پہلی شادی میں اچھے جہیز کی مانگ کریں گے۔ پھر پہلی شادی کا جہیز بیچ کر دوسری شادی کا خرچہ نکالیں گے۔ نوکری تو کرنہ پایا ہمارا لڑکا، اب شادی کا کاروبار ہی کرے۔
Tuesday, August 27, 2024
خوف کی تفریح
خوف کی تفریح
رولر کوسٹر ایک مزے کی سواری ہے۔ آپ ایک کھٹولے میں سوار ہوتے ہیں اور سواری کا مزا لوٹتے ہیں۔ کھٹولا کبھی اوپر جاتا ہے، کبھی نیچے، یا پھر تیزی سے دائیں یا بائیں مڑ جاتا ہے۔ کب کس موقع پہ کیا ہوگا، یہ آپ نہیں جانتے۔ اور پھر اچانک سواری کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
رولر کوسٹر میں سواری کے دو خراب راستے ہیں۔
اول خراب طریقہ رولر کوسٹر میں سواری سے حفاظت سے متعلق ہے۔ آپ کی حفاظت کے لیے آپ کی نشست پہ ایک پیٹی موجود ہے جسے سواری شروع ہونے سے پہلے باندھنا ہے۔ آپ یوں کرسکتے ہیں کہ سواری کے دوران مستقل اپنی حفاظت سے متعلق پریشان رہیں اور یہ یقین کرتے رہیں کہ آپ کی پیٹی اچھی طرح بندھی ہے، اور اسی پریشانی میں سواری کا وقت ختم ہوجائے۔ یہ یقیناً رولر کوسٹر سے وابستہ تفریح کو خراب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
تفریح سے منہ موڑنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس پس مردگی سے کھٹولے میں سوار ہوں کہ بس تھوڑی سی ہی دیر کی تو بات ہے، سواری کا وقت ختم ہوجائے گا اور سواری سے وابستہ مزا بھی ساتھ ختم ہوجائے گا۔ یہ یقیناً رولر کوسٹر کی تفریح کو خراب کرنے کا دوسرا طریقہ ہے۔
زندگی گزارنے کے دو خراب طریقے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔
Wednesday, August 07, 2024
حال بے حال
جنوبی ہند کے قصبے سری منڈل وینکٹ ناراسمہاراجوواریپیٹا میں ہونے والی عالمی متقین ادیان کانفرینس میں شریک مجوسی جوتشی، اکابرین عقائد ابراہیمی، ویدک واستو شاستری اور آزتیک زائچہ نویس صرف اس ایک بات پہ متفق ہوئے کہ انگریزی شمسی چکر کے تیسرے ماہ کا گیارہواں دن منحوس اور نجس ہے اور جس مقدر ممکن ہو اس دن کی نحوست اور شر سے بچنا چاہیے۔ بس اسی روز میرا اس دنیا میں ظہور ہوا تھا۔ میری پیدائش کے وقت ہی طبیبوں نے جواب دے دیا تھا۔ صاف کہہ دیا تھا کہ یہ سوکھا سڑا بچہ نہیں بچے گا۔ اور ڈاکٹروں کی بات سولہ آنے درست تھی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرا بچنا ناممکن ہے۔ البتہ، وہ دن اور آج کا دن، بچتے بچاتے یہاں تک پہنچا ہوں۔
پیدائش کے فورا بعد میں خوش تھا کہ اب کشادہ جگہ آگیا تھا۔ نو مہینے ایک تنگ جھگی میں رہ کر دل اکتا گیا تھا۔ اس کھلی جگہ پہ میرے ٹھاٹ تھے۔ زیادہ تر سوتا رہتا تھا۔ بیدار ہوتا، تھوڑا سا دودھ پیتا اور پھر سو جاتا۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہیں لیٹے لیٹے بول و براز سے فارغ ہوجاتا۔ صفائی کی ضرورت ہو تو تھوڑا سا رو دیتا۔ صفائی کرنے والے فورا حاضر ہوجاتے اور میرے جسم کی صفائی کرنے کے بعد فضلہ اٹھا کر لے جاتے۔ ہر خواہش کا اظہار گریا سے کرتا تھا۔ غصہ اس وقت آتا تھا جب لوگ سمجھ نہ پاتے تھے کہ میری خواہش کیا ہے۔ حالانکہ میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ بھوک کا رونا ایک طرح کا ہو، اور طلب صفائی کا دوسری طرح کا۔ اب میں بھوک کے لیے رو رہا ہوں اور لوگ میرا پوتڑا دیکھ رہے ہیں تو غصہ تو آئے گا۔
اس موقع پر خدام کی انتھک محنت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت ضروری ہے۔ پیدائش کے فورا بعد ایک عورت اور ایک مرد بہت زیادہ نظر آنے لگے۔ یہ دونوں مستقل میری چاپلوسی میں لگے رہتے تھے۔ جلد یہ عقدہ کھلا کہ یہی ماں باپ ہیں۔
لوگوں کو فخر ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ میری زندگی میں معاملہ الٹا رہا ہے۔ میں ہمیشہ اپنی عمر سے بڑا ہی نظر آیا اور دو چار سال نہیں بلکہ کئی دہائیوں بڑا۔ اس وقت میرا سن بمشکل پچاس برس ہے مگر کسی زاویے سے میں ستر اسی سے کم کا نظر نہیں آتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب داخلے کے لیے اسکول لے جایا گیا تو میں بھاگ کر والدین سے پہلے پرنسپل کے کمرے میں پہنچ گیا۔ پرنسپل مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئیں؛ مسکرا کر مجھے سلام کیا اور پوچھا، ' کیا بچے پیچھے آر ہے ہیں؟'
اسکول میں داخلے کے بعد بھی حالات بہتر نہ ہوئے۔ میرے ہم جماعت مجھے شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور نئے اساتذہ مجھے جماعت میں بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک جاتے تھے۔ ان کو خیال ہوتا تھا کہ شاید بورڈ سے کوئی شخص ان کی تدریسی صلاحیتیں جانچنے کے لیے آیا ہوا ہے۔
میری عمر بڑھتی رہی اور میں پیران سالی کی منازل جست لگا کر عبور کرتا رہا۔ پندرہ سال کی عمر میں سر کے بال جھڑ چکے تھے اور جب انیس سال کی عمر میں موتیا نکالا گیا تو باور کیا گیا کہ میں موتیا نکالے جانے والا دنیا کا سب سے کم سن بڈھا ہوں۔
جیسے تیسے تعلم مکمل کی تو نوکری کی تلاش اور بھی بڑا عذاب ثابت ہوئی۔ اکثر جگہ تو میری شکل دیکھ کر ہی مجھے واپس کردیا جاتا۔ کوئی نیک صفت مل جاتا تو مجھے بازو سے تھام کر مشورہ دیتا، " بڑے صاحب، یہ کوئی عمر ہے کام کرنے کی؟ آپ تو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں، یعنی نماز، روزہ، اور فیس بک۔"
نوکری مل گئی تو گھر بسانے کا خیال آیا۔ یہ بہت دشوار مرحلہ تھا۔ جہاں جاتا یہی سوال ہوتا کہ "خاندان کے سارے بزرگ نظر آرہے ہیں، لڑکا نظر نہیں آرہا۔" جب گھر والوں نے کئی جگہ ایسے طعنے تشنے سننے کے بعد میری سگائی کی کوشش ترک کردی تو میں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ جلدی سے ضرورت رشتہ کا اشتہار تیار کیا۔ ایک خوبرو، اعلی تعلیم یافتہ، ملازم پیشہ نوجوان کے لیے سولہ سے اٹھارہ سالہ لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ درج ذیل نمبر پہ فورا رابطہ کریں ورنہ رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اشتہار کا متن لے کر اپنے محلے دار رفیع صاحب کے پاس پہنچا جو اخبار میں کام کرتے تھے۔ رفیع صاحب نے میری بات غور سے سنی، اشتہار کا متن میرے ہاتھ سے لے کر پڑھا اور اسے پڑھنے کے دوران نظریں اٹھا کر کئی بار مجھے دیکھا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر کاغذ ایک طرف رکھ دیا اور سمجھایا کہ، ' یہ ارادہ دل سے نکال دیجیے، یہ تو آپ کے لیے اللہ اللہ کرنے کا وقت ہے۔' پھر ساتھ ہی جنت کا پرفریب نقشہ کھینچا، حوروں کا لالچ دیا اور بتایا کہ بس یہ مال کچھ ہی دنوں میں میرا ہونے والا ہے۔ بہت سی نیم برہنہ حوروں کا مجھ سے دودھ کی نہر کے قریب اٹھکیلیاں کرنے کا خیال مجھے بہت بھایا۔ رفیع صاحب کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ مگر گھر آتے ہوئے ایک شک نے سر ابھارا کہ مرنے کے بعد نہ جانے جنت پہنچوں گا یا نہیں۔ سوچا کہ محلے کی مسجد کے امام، مولوی عبدالقدوس سے معلوم کرلوں کہ آیا میں جنت میں داخل کیا جائوں گا یا وہاں بھی اسی طرح کی بات سننے کو ملے گی کہ "بڑے میاں، یہاں آپ کا کیا کام؟ اندر والی فلم صرف مسٹنڈے بالغان کے لیے ہے۔" مولوی عبدلقدوس نے میری بات غور سے سنائی اور پھر استفسار کیا، "میں آپ کو ایک عرصے سے جانتا ہوں مگر میں آپ کی ذاتی زندگی سے نا واقف ہوں۔ کیا آپ سے کچھ گناہ بھی سرزد ہوئے ہیں؟" میں نے کہا، "مولوی صاحب، خطا کا پتلا ہوں۔ آپ پوچھتے ہیں تو بتاتا ہوں کہ کہاں چوک گیا تھا"، اور پھر میں نے اپنا بیان عصیاں شروع کیا۔ مولوی صاحب کچھ دیر تو سر جھکائے خاموشی سے سنتے رہے، پھر سر اٹھا کر بولے، "صاحب اتنی تفصیل میں جا کر ڈینگیں مارنے کا کیا مقصد ہے؟ اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ میں نے ایک بے رنگ زندگی گزاری ہے تو آپ کو آپ کا ہدف حاصل ہوچکا ہے۔ نماز کا وقت ہورہا ہے۔ مجھے جانے دیجیے۔" میں کہاں آسانی سے ہار ماننے والے تھے۔ میں نے کہا، "مولوی صاحب، جاتے ہوئے یہ تو بتا دیجیے کہ آخرت میں میرا ٹھکانہ کہاں ہے۔" مولوی عبدالقدوس بولے، " آخرت میں آپ کا ٹھکانہ بالکل طے ہے۔ یعنی دوزخ۔" ایسا دو ٹوک جواب سن کر میں غصے میں آگیا۔ میں نے پوچھا، "اور جو چھ سال کی عمر سے نمازیں پڑھ رہا ہوں اس کا کیا بنے گا؟" مولوی صاحب نے جواب دیا، "آپ کے گناہ اس قدر بڑے اور وزنی ہیں کہ انہوں نے آپ کی تمام نمازوں کو روند ڈالا ہے۔"
"اور وہ جو بارہ سال کی عمر سے تیرہ سے پندرہ گھنٹے لمبے روزے رکھے ہیں، ان کا ثواب؟" میں نے پوچھا۔
"ان کا کیا ثواب ملنا ہے آپ کو؟ شاید دوزخ میں مارپیٹ کے دوران کبھی کبھار آپ کو روح افزا یا دودھ کی ٹھنڈی بوتل پینے کو مل جائے تو غنیمت جانیے گا۔ اور ہاں، حساب کتاب قبر سے شروع ہوجائے گا ۔ عربی پڑھ لیجیےکیونکہ قبر میں تمام سوالات عربی میں پوچھے جائیں گے۔" یہ کہہ کر مولوی عبدالقدوس چلتے بنے۔
میں نے اسی وقت تہیہ کیا اب منو اور نکے کے ہاتھ نہیں آنا۔ منکر نکیر نامی فرشتوں کو میں پیار سے یوں ہی بلاتا ہوں۔ میں نے گھر پہنچتے ہی وصیت لکھی کہ میرے مرنے کے بعد میری چتا جلائی جائے۔ نہ قبر میں پہنچوں کا اور نہ ان دونوں چغل خوروں کے ہاتھ لگوں گا۔ وصیت میں یہ بھی لکھ دیا کہ میری چتا سے جو راکھ برآمد ہو اسے مولوی عبدالقدوس کے گھر پہ چھڑک دیا جائے۔
Monday, August 05, 2024
دو کارآمد بالٹیاں
دو کارآمد بالٹیاں
میں آج کل جس جگہ رہتا ہوں وہاں پانی کی کوئی قلت نہیں ہے اور یقینا جدید دور کا ٹائلٹ بھی موجود ہے۔ مگر ان سہولیات کے باوجود میں اپنی ماحولیات داں طبیعت سے مجبور ہوں اورکمپوسٹ ٹائلٹ استعمال کرتا ہوں۔ کمپوسٹ ٹائلٹ کے استعمال سے میں پانی بچاتا ہوں اور اپنے باغ کی مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہوں۔
میرا کمپوسٹ ٹائلٹ دراصل ایک پانچ گیلن کی پلاسٹک کی بالٹی ہے۔ اس اہم بالٹی کے ساتھ ہی ایک دوسری پانچ گیلن کی بالٹی پخ کے طور پہ ہے۔ یہ پخ بالٹی مٹی سے بھری ہے۔ ہر دفعہ فارغ ہونے کے بعد اصل بالٹی میں موجود تازہ مال کو دوسری بالٹی سے نکالی جانی والی مٹی کی موٹی تہہ سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اس انتظام سے اصل بالٹی سے کوئی بو نہیں آتی اور مٹی میں موجود حشرات الارض کھاد بنانے کے کام میں جٹ جاتے ہیں۔ اصل بالٹی کو ہر تیسرے چوتھے روز ایک گڑھے میں خالی کیا جاتا ہے اور خالی بالٹی میں مٹی کی تازہ تہہ لگا کر اسے اگلے استعمال کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ جو احباب ٹرین کا سفر کرتے ہیں اور مجھ سے ریل گاڑی کے غلیظ اور بدبو دار بیت الخلا کی شکایت کرتے ہیں، میں ان کو ایسی ہی دو بالٹیاں ساتھ رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ اور ایسی ہی دو بالٹیاں گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر گاڑی کے طویل سفر میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ جب ضرورت محسوس ہوئی، دونوں بالٹیاں نکالیں، پردے کا وقتی انتظام کیا، اور صاف ستھرے طریقے سے ضرورت نمٹا لی۔
Sunday, August 04, 2024
ردی اور تہذیب
مجھے کوڑے کے مقابلے میں لفظ ردی زیادہ پسند ہے۔ ردی یعنی رد کی جانے والی چیز۔ وہ چیز جو آپ کے لیے کارآمد نہیں رہی۔ جو آپ کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ ردی کو صحیح طور سے ٹھکانے لگانا ہی اعلی تہذیب کا پیمانہ ہے۔
آپ ہر روز بہت سی چیزیں استعمال کرتے ہیں اور اس عمل میں ردی پیدا کرتے ہیں۔ اشیا کے استعمال اور ردی بننے کے عمل کو انسانی جسم کے مشاہدے سے شروع کیجیے۔ آپ سانس لیتے ہیں، آپ کھانا کھاتے ہیں، اور پانی پیتے ہیں۔ انسانی جسم کیا رد کرتا ہے؟ اوپر سے نیچے تک جسم کی ردی کی ایک طویل فہرست ہے۔ آپ کی استعمال شدہ سانس، ردی ہے۔ آپ کے پورے جسم سے پسینہ رد ہوتا ہے۔منہ سے اگلی جانے والا دیگر مواد، بلغم، تھوک، قے بھی ردی ہے۔ اور اسی طرح زیریں جسم سے خارج ہونے والے ردی مادے میں، باد اور بول و براز شامل ہیں۔ جو کچھ آپ کا جسم رد کررہا ہے وہ نہ صرف آپ کے لیے ناپسندیدہ ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ناپسندیدہ ہے۔ تہذیب یہ ہے کہ اس ردی کو یوں تلف کیا جائے کہ وہ نہ آپ کو نظر آئے نہ کسی اور۔
اور تہذیب کا یہ پیمانہ انسانی جسم سے رد ہونے والے مواد کے ساتھ ساتھ گھروں سے نکالی جانے والی ردی کے لیے بھی درست ہے۔ آپ کے گھر سے پھینکا جانے والا کوڑا بھلا کسی دوسرے کے لیے کیسے پسندیدہ ہوسکتا ہے؟ اگر آپ گھر سے کوئی ایسی چیز رد کررہے ہیں جو آپ کے خیال میں کسی دوسرے کے کام آسکتی ہے تو اسے اس شخص تک پہنچانے کا موثر طریقہ اختیار کیجیے اور بقیہ کوڑے کو اس احتیاط سے ٹھکانے لگائیے کہ یہ ناپسندیدہ انبار کسی کو نظر نہ آئے اور لوگ جان لیں کہ آپ تہذیب کی سیڑھی چڑھ کر بندروں سے آگے نکل چکے ہیں۔
Thursday, August 01, 2024
بلی جتنی تمیز
فصل دوئم
میری عمر چھ سات برس رہی ہوگی جب میرا جانا اپنے ددھیالی گائوں ہوا۔ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مجھے بتا دیا گیا تھا کہ گائوں میں جدید فلش ٹائلٹ کی سہولت موجود نہیں ہے بلکہ کھڈیاں ہیں۔ بیت الخلا کا انتظام یہ تھا کہ دالان میں داخلی دروزے کے دائیں جانب ایک مستطیل کمرہ تھا جس میں قطار سے بیرونی دیوار کے ساتھ کھڈیاں بنی تھیں۔ کھڈی سے مراد فارغ ہونے کا یہ انتظام ہے کہ دائیں بائیں اینٹیں رکھ کر یوں جگہ بنائی جائے کہ آپ ایک پائوں ایک طرف رکھیں اور دوسرا دوسری پائوں دوسری طرف، اور اکڑوں بیٹھ کر بیچ کی خالی جگہ کو فارغ ہونے کے لیے استعمال کریں۔ کھڈیوں کی صفائی کے لیے بیرونی دیوار میں ہر کھڈی کے ساتھ سوراخ تھا۔ کھڈیاں بیرونی دیوار کے ساتھ اس لیے بنائی گئیں تھیں تاکہ مہتر، گھر کے باہر سے ہی ان کھڈیوں کی صفائی کرسکیں۔ بیت الخلا کی چھت نہیں تھی اس لیے آپ فارغ ہونے کے دوران دائیں بائِں دوسروں کا کیا دھرا دیکھنے کے بجائے اوپر آسمان میں اڑتے چیل کووں کو دیکھ سکتے تھے۔ اس بیت الخلا کا سرخرو کھلاڑی وہ ہوتا تھا جو بیت الخلا کی صفائی کے بعد کھڈی استعمال کرنے والا پہلا شخص ہو۔ اور اسی طرح بیت الخلا کی صفائی سے پہلے اسے استعمال کرنے والا آخری شخص یقینا اپنی قسمت کو کوستا ہوگا۔ گائوں سے آنے کے بعد مجھے بتایا گیا تھا کہ بیت الخلا میں دروازے کے ساتھ راکھ کا کنستر رکھا تھا۔ فارغ ہونے کے بعد اس راکھ کو اپنا مال ڈھانپنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا مگر وہاں رہتے ہوئے نہ تو مجھے کسی نے ایسا کرنے کی تعلیم دی اور نہ ہی میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ دوسروں نے ایسا کیا ہو۔تو ایسا کیوں تھا؟ ہمیں اتنی تمیز کیوں نہ تھی جتنی بلی کو ہوتی ہے؟
Sunday, July 07, 2024
بلی جتنی تمیز تو سیکھو
بلی جتنی تمیز تو سیکھو
فصل اول
میری آنکھ سویرے کھل گئی۔ کمرے میں اندھیرا تھا مگر کھڑکی سے باہر روشنی نظر آرہی تھی۔ میرے ساتھی مسافر ابھی سو رہے تھے۔ رات بہت دیر تک تاش کی بازی جاری رہی تھی اور اسی وجہ سے وہ دیر سے سوئے تھے۔ میں بستر سے اٹھا اور دبے قدموں چلتا گھر سے باہر آگیا۔ باہر آتے ہی ایک خوشگوار احساس نے میری روح کو مسحور کردیا۔ کراچی کی آلودہ فضا کے مقابلے میں یہاں ہوا میں نکھار تھا۔ دریا کے پانی کا شور یہاں تک سنائی دیتا تھا۔ میں آہستہ قدم اٹھاتا دریا کی طرف چلنا شروع ہوگیا۔ دریا کے پاس پہنچ کر میں دیر تک چنچل دھاروں کا نظارہ کرتا رہا۔ پتھروں اور چٹانوں کے بیچ دریا کا پانی خوبصورتی سے اپنا راستہ بنا رہا تھا۔ مجھے دریا کے کنارے ایک بڑا پتھر نظر آیا۔ اگر اس پتھر پہ بیٹھ کر میں دریا میں اپنے پائوں ڈالوں تو کس قدر مزا آئے۔ اسی ارادے کی تکمیل کے لیے میں نیچےاترنا شروع ہوگیا مگر بڑے پتھر کے قریب پہنچ کر ٹھٹھک گیا۔ وہاں انسانی فضلہ پڑا تھا۔ طبیعت مکدر ہوگئی۔ فرحت بخش ہوا اور مچلتے کنہار کے نظارے کا سحر ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ یہ کون انسان نما جانور تھا جس کو اتنی تمیز بھی نہ تھی جتنی بلی کو ہوتی ہے؟ یہ بات کسی قدر یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ حیوان مقامی باشندہ تھا۔ اس مقامی کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ جس نظارے کے مزے لینے سیاح وہاں آتے ہیں اور رقم خرچ کرتے ہیں اور اسی سیاحتی آمدنی سے اس کا بھی روزگار کسی نہ کسی طور سے وابستہ ہے، اس منظر کو پرکشش رکھنے میں اس کا مفاد بھی پوشیدہ ہے۔
Sunday, February 18, 2024
دھاندلی کے الزامات۔ ثبوت ندارد
دھاندلی کے الزامات۔ ثبوت ندارد
آٹھ فروری کو ہونے والے پاکستانی انتخابات کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں خدشات وتحفظات ہیں۔ کیا چنائو کے سرکاری نتائج عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور نگراں حکومت/بااثر ادارے اپنی مرضی کے امیدواروں کو جتانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی انتخابات میں ہارنے والے شور مچا رہے ہیں کہ چنائو میں دھاندلی ہوئی ہے اور ہارنے والے کو زبردستی ہرا گیا ہے۔ مگر دھاندلی کیسے ہوئی ہے، اس کا کیا ثبوت ہے، اس بارے میں دھاندلی کا شور مچانے والے بات نہیں کرتے۔
آئیے پاکستانی انتخابی عمل کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ انتخابات میں دھاندلی کیسے ممکن ہے۔
پاکستانی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں کئی پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں۔ ہر پولنگ اسٹیشن میں الیکشن کمیشن کے حکام کے علاوہ انتخابی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ بھی موجود ہوتے ہیں۔ حق رائے دہی استعمال کرنے کا عمل ان تمام لوگوں کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ پولنگ کے اختتام پہ تمام پولنگ ایجنٹ کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے، پولنگ اسٹیشن میں موجود الیکشن حکام اس گنتی کو فارم پینتالیس پہ نقل کرتے ہیں، اور ہر انتخابی جماعت کا پولنگ ایجنٹ اس فارم پینتالیس کی نقل حاصل کرسکتا ہے۔
اگلے مرحلے میں حلقے میں موجود تمام پولنگ اسٹیشن سے فارم پینتالیس اکٹھا کیے جاتے ہیں اور ان کی مدد سے فارم سینتالیس بھرا جاتا ہے جس میں موجود گنتی سے واضح ہوتا ہے کہ حلقے سے کونسا امیدوار صوبائی اسمبلی کے لیے اور کونسا امیدوار قومی اسمبلی کے لیے کامیاب ہوا۔
کیونکہ ہر پولنگ اسٹیشن میں موجود کسی بھی سیاسی جماعت کے پولنگ ایجنٹ اپنے پولنگ اسٹیشن کے فارم پینتالیس کی نقل اپنی سیاسی جماعت کو فراہم کرسکتے ہیں اس لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دیکھ سکے کہ آیا الیکشن کمیشن کی طرف سے شائع ہونے فارم سینتالیس میں لکھی گئی ووٹوں کی تعداد صحیح ہے یا نہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس انتخابی عمل میں دھاندلی کہاں ممکن ہے؟
۱۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ ممکن ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پولنگ اسٹیشن پہ کسی خاص جماعت کے ووٹروں کو حق رائے دہی استعمال نہ کرنے دیا جائے۔ کیا آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔
۲۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ پولنگ اسٹیشن پہ کسی خاص جماعت کے ایجنٹ کو پولنگ اسٹیشن میں نہ بیٹھنے دیا جائے۔ کیا کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔
۳۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ پولنگ کے اختتام پہ کسی خاص جماعت کے ایجنٹ کو یا ایک مخصوص جماعت کے ایجنٹ کے علاوہ باقی سب کو ووٹوں کی گنتی کے عمل میں نہ شامل کیا جائے۔ کیا کہیں ایسا ہوا؟ کیا کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔
۴۔ دھاندلی اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ ہر پولنگ اسٹیشن سے فارم پینتالیس تو صحیح گنتی سے الیکشن کمیشن تک پہنچائے جائیں مگر فارم سینتالیس میں گڑبڑ کی جائے۔ ایسا ممکن ہے مگر اس سلسلے میں دھاندلی کا شور مچانے والے امیدواروں کو ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ اپنے حلقے سے بھیجے جانے والے تمام فارم پینتالیس کی نقول ہمیں فراہم کرنا ہونگی اور ثابت کرنا ہوگا کہ تمام فارم پینتالیس کے ووٹوں کا حاصل جمع فارم سینتالیس میں دکھائے جانے والے حاصل جمع سے مختلف ہے۔
پاکستان الیکشن کمیشن نے تمام فارم سینتالیس اپنی ویب سائٹ پہ شائع کردیے ہیں۔
https://www.elections.gov.pk/sindh-assembly
اب دھاندلی کا شور مچانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھاندلی کا ثبوت فراہم کریں۔
Wednesday, August 09, 2023
نو آبا دیاتی دور میں ہمارے علاقے میں بنائے جانے والے ادارے
Monday, July 24, 2023
روز کی ٹٹی ٹو ڈو لسٹ میں شامل ہو گئی
گزر گئے وہ دن جب نظام ہاضمہ خودکار تھا۔ اب تو روز کی ٹٹی بھی ٹو ڈو لسٹ میں شامل ہے۔
You know you are old when your daily bowl movement becomes a part of 'Things to do' list