Monday, October 07, 2024
بوڑھاپے کے نشے
بوڑھاپے میں درد سے بے آرام لوگ کسی نہ کسی نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ اکثریت مذہب کا انتخاب کرتی ہے۔
Saturday, September 14, 2024
ہمارے بزرگ اور ان کی دانائی
سیانے کہتے ہیں کہ لوگوں کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اسی لیے لوگ، بزرگوں کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور ان باتوں میں حکمت کے موتی تلاش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے خاندان کے بزرگ، نصیحت کے میدان میں صرف ساٹھ سال سے پچھتر سال کی عمر تک کارآمد رہتے ہیں۔ اگر ہمارے بزرگ اس عمر سےآگے نکل جائیں تو دل پذیر لہجے میں عمر بھر کے قیمتی تجربات بیان کرنے کے بجائے گالم گلوچ پہ اتر آتے ہیں۔
چند دن پہلے ہم نے خاندان کے ایک پچاسی سالہ بزرگ سے درخواست کی کہ وہ ہمیں تین نصیحتیں کریں۔ انہوں نے فٹا فٹ تین موٹی موٹی گالیاں دے کر ہمیں رخصت کیا۔
Thursday, September 05, 2024
شادی کا کاروبار
شادی کا کاروبار
آپ کے کتنے بچے ہیں؟
جی، میرے تین مسئلے ہیں۔
کیا عمریں ہیں بچوں کی؟
بڑا مسئلہ چھبیس برس کا ہے۔ منجھلا انٹرمیں ہے۔ اور چھوٹی مسئلی دسویں پڑھ رہی ہے۔
آپ کی بیگم صاحبہ حیات ہیں؟
جی ہاں، ام المسائل بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔
بچے تو آپ کے بڑے ہیں۔ آپ کا بڑا لڑکا کہاں پہنچا؟
میرا بڑا لڑکا چاند پہ پہنچ گیا ہے۔ ابے سلفیٹ، پہنچنا کہاں ہے اسے؟ بی کام کیا تھا، نوکری ملتی ہے پھر ختم ہوجاتی ہے۔ اب کہتا ہے کہ ریٹائرمنٹ چاہتا ہوں، میری شادی کردیں۔
صاحبزادے کی شادی کے لیے کس طرح کا رشتہ درکار ہے؟
ہمیں ایک ایسی خوب صورت، حور، پری، پڑھی لکھی لڑکی کی تلاش ہے جو گھر کا کام کاج کرنے کے علاوہ نوکری کر کے ہمارے پورے گھر کی پرورش کرے۔
ایک لڑکی میں اتنی مختلف اوصاف ملنا تو ممکن نہیں ہے۔
اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو دو شادیاں کر لے۔ ایک گھر کا انتظام سنبھالے اور دوسری نوکری کرے اور گھر کا خرچہ چلائے۔
دو شادیوں کا خرچہ کیسے برداشت کریں گے؟
بات تو صحیح ہے، رقم تو نہیں ہے اتنی، مگر بہرحال اللہ نے دماغ دیا ہے۔ پہلی شادی میں اچھے جہیز کی مانگ کریں گے۔ پھر پہلی شادی کا جہیز بیچ کر دوسری شادی کا خرچہ نکالیں گے۔ نوکری تو کرنہ پایا ہمارا لڑکا، اب شادی کا کاروبار ہی کرے۔
Tuesday, August 27, 2024
خوف کی تفریح
خوف کی تفریح
رولر کوسٹر ایک مزے کی سواری ہے۔ آپ ایک کھٹولے میں سوار ہوتے ہیں اور سواری کا مزا لوٹتے ہیں۔ کھٹولا کبھی اوپر جاتا ہے، کبھی نیچے، یا پھر تیزی سے دائیں یا بائیں مڑ جاتا ہے۔ کب کس موقع پہ کیا ہوگا، یہ آپ نہیں جانتے۔ اور پھر اچانک سواری کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
رولر کوسٹر میں سواری کے دو خراب راستے ہیں۔
اول خراب طریقہ رولر کوسٹر میں سواری سے حفاظت سے متعلق ہے۔ آپ کی حفاظت کے لیے آپ کی نشست پہ ایک پیٹی موجود ہے جسے سواری شروع ہونے سے پہلے باندھنا ہے۔ آپ یوں کرسکتے ہیں کہ سواری کے دوران مستقل اپنی حفاظت سے متعلق پریشان رہیں اور یہ یقین کرتے رہیں کہ آپ کی پیٹی اچھی طرح بندھی ہے، اور اسی پریشانی میں سواری کا وقت ختم ہوجائے۔ یہ یقیناً رولر کوسٹر سے وابستہ تفریح کو خراب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
تفریح سے منہ موڑنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس پس مردگی سے کھٹولے میں سوار ہوں کہ بس تھوڑی سی ہی دیر کی تو بات ہے، سواری کا وقت ختم ہوجائے گا اور سواری سے وابستہ مزا بھی ساتھ ختم ہوجائے گا۔ یہ یقیناً رولر کوسٹر کی تفریح کو خراب کرنے کا دوسرا طریقہ ہے۔
زندگی گزارنے کے دو خراب طریقے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔
Wednesday, August 07, 2024
حال بے حال
جنوبی ہند کے قصبے سری منڈل وینکٹ ناراسمہاراجوواریپیٹا میں ہونے والی عالمی متقین ادیان کانفرینس میں شریک مجوسی جوتشی، اکابرین عقائد ابراہیمی، ویدک واستو شاستری اور آزتیک زائچہ نویس صرف اس ایک بات پہ متفق ہوئے کہ انگریزی شمسی چکر کے تیسرے ماہ کا گیارہواں دن منحوس اور نجس ہے اور جس مقدر ممکن ہو اس دن کی نحوست اور شر سے بچنا چاہیے۔ بس اسی روز میرا اس دنیا میں ظہور ہوا تھا۔ میری پیدائش کے وقت ہی طبیبوں نے جواب دے دیا تھا۔ صاف کہہ دیا تھا کہ یہ سوکھا سڑا بچہ نہیں بچے گا۔ اور ڈاکٹروں کی بات سولہ آنے درست تھی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرا بچنا ناممکن ہے۔ البتہ، وہ دن اور آج کا دن، بچتے بچاتے یہاں تک پہنچا ہوں۔
پیدائش کے فورا بعد میں خوش تھا کہ اب کشادہ جگہ آگیا تھا۔ نو مہینے ایک تنگ جھگی میں رہ کر دل اکتا گیا تھا۔ اس کھلی جگہ پہ میرے ٹھاٹ تھے۔ زیادہ تر سوتا رہتا تھا۔ بیدار ہوتا، تھوڑا سا دودھ پیتا اور پھر سو جاتا۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہیں لیٹے لیٹے بول و براز سے فارغ ہوجاتا۔ صفائی کی ضرورت ہو تو تھوڑا سا رو دیتا۔ صفائی کرنے والے فورا حاضر ہوجاتے اور میرے جسم کی صفائی کرنے کے بعد فضلہ اٹھا کر لے جاتے۔ ہر خواہش کا اظہار گریا سے کرتا تھا۔ غصہ اس وقت آتا تھا جب لوگ سمجھ نہ پاتے تھے کہ میری خواہش کیا ہے۔ حالانکہ میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ بھوک کا رونا ایک طرح کا ہو، اور طلب صفائی کا دوسری طرح کا۔ اب میں بھوک کے لیے رو رہا ہوں اور لوگ میرا پوتڑا دیکھ رہے ہیں تو غصہ تو آئے گا۔
اس موقع پر خدام کی انتھک محنت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت ضروری ہے۔ پیدائش کے فورا بعد ایک عورت اور ایک مرد بہت زیادہ نظر آنے لگے۔ یہ دونوں مستقل میری چاپلوسی میں لگے رہتے تھے۔ جلد یہ عقدہ کھلا کہ یہی ماں باپ ہیں۔
لوگوں کو فخر ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ میری زندگی میں معاملہ الٹا رہا ہے۔ میں ہمیشہ اپنی عمر سے بڑا ہی نظر آیا اور دو چار سال نہیں بلکہ کئی دہائیوں بڑا۔ اس وقت میرا سن بمشکل پچاس برس ہے مگر کسی زاویے سے میں ستر اسی سے کم کا نظر نہیں آتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب داخلے کے لیے اسکول لے جایا گیا تو میں بھاگ کر والدین سے پہلے پرنسپل کے کمرے میں پہنچ گیا۔ پرنسپل مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئیں؛ مسکرا کر مجھے سلام کیا اور پوچھا، ' کیا بچے پیچھے آر ہے ہیں؟'
اسکول میں داخلے کے بعد بھی حالات بہتر نہ ہوئے۔ میرے ہم جماعت مجھے شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور نئے اساتذہ مجھے جماعت میں بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک جاتے تھے۔ ان کو خیال ہوتا تھا کہ شاید بورڈ سے کوئی شخص ان کی تدریسی صلاحیتیں جانچنے کے لیے آیا ہوا ہے۔
میری عمر بڑھتی رہی اور میں پیران سالی کی منازل جست لگا کر عبور کرتا رہا۔ پندرہ سال کی عمر میں سر کے بال جھڑ چکے تھے اور جب انیس سال کی عمر میں موتیا نکالا گیا تو باور کیا گیا کہ میں موتیا نکالے جانے والا دنیا کا سب سے کم سن بڈھا ہوں۔
جیسے تیسے تعلم مکمل کی تو نوکری کی تلاش اور بھی بڑا عذاب ثابت ہوئی۔ اکثر جگہ تو میری شکل دیکھ کر ہی مجھے واپس کردیا جاتا۔ کوئی نیک صفت مل جاتا تو مجھے بازو سے تھام کر مشورہ دیتا، " بڑے صاحب، یہ کوئی عمر ہے کام کرنے کی؟ آپ تو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں، یعنی نماز، روزہ، اور فیس بک۔"
نوکری مل گئی تو گھر بسانے کا خیال آیا۔ یہ بہت دشوار مرحلہ تھا۔ جہاں جاتا یہی سوال ہوتا کہ "خاندان کے سارے بزرگ نظر آرہے ہیں، لڑکا نظر نہیں آرہا۔" جب گھر والوں نے کئی جگہ ایسے طعنے تشنے سننے کے بعد میری سگائی کی کوشش ترک کردی تو میں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ جلدی سے ضرورت رشتہ کا اشتہار تیار کیا۔ ایک خوبرو، اعلی تعلیم یافتہ، ملازم پیشہ نوجوان کے لیے سولہ سے اٹھارہ سالہ لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ درج ذیل نمبر پہ فورا رابطہ کریں ورنہ رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اشتہار کا متن لے کر اپنے محلے دار رفیع صاحب کے پاس پہنچا جو اخبار میں کام کرتے تھے۔ رفیع صاحب نے میری بات غور سے سنی، اشتہار کا متن میرے ہاتھ سے لے کر پڑھا اور اسے پڑھنے کے دوران نظریں اٹھا کر کئی بار مجھے دیکھا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر کاغذ ایک طرف رکھ دیا اور سمجھایا کہ، ' یہ ارادہ دل سے نکال دیجیے، یہ تو آپ کے لیے اللہ اللہ کرنے کا وقت ہے۔' پھر ساتھ ہی جنت کا پرفریب نقشہ کھینچا، حوروں کا لالچ دیا اور بتایا کہ بس یہ مال کچھ ہی دنوں میں میرا ہونے والا ہے۔ بہت سی نیم برہنہ حوروں کا مجھ سے دودھ کی نہر کے قریب اٹھکیلیاں کرنے کا خیال مجھے بہت بھایا۔ رفیع صاحب کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ مگر گھر آتے ہوئے ایک شک نے سر ابھارا کہ مرنے کے بعد نہ جانے جنت پہنچوں گا یا نہیں۔ سوچا کہ محلے کی مسجد کے امام، مولوی عبدالقدوس سے معلوم کرلوں کہ آیا میں جنت میں داخل کیا جائوں گا یا وہاں بھی اسی طرح کی بات سننے کو ملے گی کہ "بڑے میاں، یہاں آپ کا کیا کام؟ اندر والی فلم صرف مسٹنڈے بالغان کے لیے ہے۔" مولوی عبدلقدوس نے میری بات غور سے سنائی اور پھر استفسار کیا، "میں آپ کو ایک عرصے سے جانتا ہوں مگر میں آپ کی ذاتی زندگی سے نا واقف ہوں۔ کیا آپ سے کچھ گناہ بھی سرزد ہوئے ہیں؟" میں نے کہا، "مولوی صاحب، خطا کا پتلا ہوں۔ آپ پوچھتے ہیں تو بتاتا ہوں کہ کہاں چوک گیا تھا"، اور پھر میں نے اپنا بیان عصیاں شروع کیا۔ مولوی صاحب کچھ دیر تو سر جھکائے خاموشی سے سنتے رہے، پھر سر اٹھا کر بولے، "صاحب اتنی تفصیل میں جا کر ڈینگیں مارنے کا کیا مقصد ہے؟ اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ میں نے ایک بے رنگ زندگی گزاری ہے تو آپ کو آپ کا ہدف حاصل ہوچکا ہے۔ نماز کا وقت ہورہا ہے۔ مجھے جانے دیجیے۔" میں کہاں آسانی سے ہار ماننے والے تھے۔ میں نے کہا، "مولوی صاحب، جاتے ہوئے یہ تو بتا دیجیے کہ آخرت میں میرا ٹھکانہ کہاں ہے۔" مولوی عبدالقدوس بولے، " آخرت میں آپ کا ٹھکانہ بالکل طے ہے۔ یعنی دوزخ۔" ایسا دو ٹوک جواب سن کر میں غصے میں آگیا۔ میں نے پوچھا، "اور جو چھ سال کی عمر سے نمازیں پڑھ رہا ہوں اس کا کیا بنے گا؟" مولوی صاحب نے جواب دیا، "آپ کے گناہ اس قدر بڑے اور وزنی ہیں کہ انہوں نے آپ کی تمام نمازوں کو روند ڈالا ہے۔"
"اور وہ جو بارہ سال کی عمر سے تیرہ سے پندرہ گھنٹے لمبے روزے رکھے ہیں، ان کا ثواب؟" میں نے پوچھا۔
"ان کا کیا ثواب ملنا ہے آپ کو؟ شاید دوزخ میں مارپیٹ کے دوران کبھی کبھار آپ کو روح افزا یا دودھ کی ٹھنڈی بوتل پینے کو مل جائے تو غنیمت جانیے گا۔ اور ہاں، حساب کتاب قبر سے شروع ہوجائے گا ۔ عربی پڑھ لیجیےکیونکہ قبر میں تمام سوالات عربی میں پوچھے جائیں گے۔" یہ کہہ کر مولوی عبدالقدوس چلتے بنے۔
میں نے اسی وقت تہیہ کیا اب منو اور نکے کے ہاتھ نہیں آنا۔ منکر نکیر نامی فرشتوں کو میں پیار سے یوں ہی بلاتا ہوں۔ میں نے گھر پہنچتے ہی وصیت لکھی کہ میرے مرنے کے بعد میری چتا جلائی جائے۔ نہ قبر میں پہنچوں کا اور نہ ان دونوں چغل خوروں کے ہاتھ لگوں گا۔ وصیت میں یہ بھی لکھ دیا کہ میری چتا سے جو راکھ برآمد ہو اسے مولوی عبدالقدوس کے گھر پہ چھڑک دیا جائے۔
Monday, August 05, 2024
دو کارآمد بالٹیاں
دو کارآمد بالٹیاں
میں آج کل جس جگہ رہتا ہوں وہاں پانی کی کوئی قلت نہیں ہے اور یقینا جدید دور کا ٹائلٹ بھی موجود ہے۔ مگر ان سہولیات کے باوجود میں اپنی ماحولیات داں طبیعت سے مجبور ہوں اورکمپوسٹ ٹائلٹ استعمال کرتا ہوں۔ کمپوسٹ ٹائلٹ کے استعمال سے میں پانی بچاتا ہوں اور اپنے باغ کی مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہوں۔
میرا کمپوسٹ ٹائلٹ دراصل ایک پانچ گیلن کی پلاسٹک کی بالٹی ہے۔ اس اہم بالٹی کے ساتھ ہی ایک دوسری پانچ گیلن کی بالٹی پخ کے طور پہ ہے۔ یہ پخ بالٹی مٹی سے بھری ہے۔ ہر دفعہ فارغ ہونے کے بعد اصل بالٹی میں موجود تازہ مال کو دوسری بالٹی سے نکالی جانی والی مٹی کی موٹی تہہ سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اس انتظام سے اصل بالٹی سے کوئی بو نہیں آتی اور مٹی میں موجود حشرات الارض کھاد بنانے کے کام میں جٹ جاتے ہیں۔ اصل بالٹی کو ہر تیسرے چوتھے روز ایک گڑھے میں خالی کیا جاتا ہے اور خالی بالٹی میں مٹی کی تازہ تہہ لگا کر اسے اگلے استعمال کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ جو احباب ٹرین کا سفر کرتے ہیں اور مجھ سے ریل گاڑی کے غلیظ اور بدبو دار بیت الخلا کی شکایت کرتے ہیں، میں ان کو ایسی ہی دو بالٹیاں ساتھ رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ اور ایسی ہی دو بالٹیاں گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر گاڑی کے طویل سفر میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ جب ضرورت محسوس ہوئی، دونوں بالٹیاں نکالیں، پردے کا وقتی انتظام کیا، اور صاف ستھرے طریقے سے ضرورت نمٹا لی۔
Sunday, August 04, 2024
ردی اور تہذیب
مجھے کوڑے کے مقابلے میں لفظ ردی زیادہ پسند ہے۔ ردی یعنی رد کی جانے والی چیز۔ وہ چیز جو آپ کے لیے کارآمد نہیں رہی۔ جو آپ کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ ردی کو صحیح طور سے ٹھکانے لگانا ہی اعلی تہذیب کا پیمانہ ہے۔
آپ ہر روز بہت سی چیزیں استعمال کرتے ہیں اور اس عمل میں ردی پیدا کرتے ہیں۔ اشیا کے استعمال اور ردی بننے کے عمل کو انسانی جسم کے مشاہدے سے شروع کیجیے۔ آپ سانس لیتے ہیں، آپ کھانا کھاتے ہیں، اور پانی پیتے ہیں۔ انسانی جسم کیا رد کرتا ہے؟ اوپر سے نیچے تک جسم کی ردی کی ایک طویل فہرست ہے۔ آپ کی استعمال شدہ سانس، ردی ہے۔ آپ کے پورے جسم سے پسینہ رد ہوتا ہے۔منہ سے اگلی جانے والا دیگر مواد، بلغم، تھوک، قے بھی ردی ہے۔ اور اسی طرح زیریں جسم سے خارج ہونے والے ردی مادے میں، باد اور بول و براز شامل ہیں۔ جو کچھ آپ کا جسم رد کررہا ہے وہ نہ صرف آپ کے لیے ناپسندیدہ ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ناپسندیدہ ہے۔ تہذیب یہ ہے کہ اس ردی کو یوں تلف کیا جائے کہ وہ نہ آپ کو نظر آئے نہ کسی اور۔
اور تہذیب کا یہ پیمانہ انسانی جسم سے رد ہونے والے مواد کے ساتھ ساتھ گھروں سے نکالی جانے والی ردی کے لیے بھی درست ہے۔ آپ کے گھر سے پھینکا جانے والا کوڑا بھلا کسی دوسرے کے لیے کیسے پسندیدہ ہوسکتا ہے؟ اگر آپ گھر سے کوئی ایسی چیز رد کررہے ہیں جو آپ کے خیال میں کسی دوسرے کے کام آسکتی ہے تو اسے اس شخص تک پہنچانے کا موثر طریقہ اختیار کیجیے اور بقیہ کوڑے کو اس احتیاط سے ٹھکانے لگائیے کہ یہ ناپسندیدہ انبار کسی کو نظر نہ آئے اور لوگ جان لیں کہ آپ تہذیب کی سیڑھی چڑھ کر بندروں سے آگے نکل چکے ہیں۔
Thursday, August 01, 2024
بلی جتنی تمیز
فصل دوئم
میری عمر چھ سات برس رہی ہوگی جب میرا جانا اپنے ددھیالی گائوں ہوا۔ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی مجھے بتا دیا گیا تھا کہ گائوں میں جدید فلش ٹائلٹ کی سہولت موجود نہیں ہے بلکہ کھڈیاں ہیں۔ بیت الخلا کا انتظام یہ تھا کہ دالان میں داخلی دروزے کے دائیں جانب ایک مستطیل کمرہ تھا جس میں قطار سے بیرونی دیوار کے ساتھ کھڈیاں بنی تھیں۔ کھڈی سے مراد فارغ ہونے کا یہ انتظام ہے کہ دائیں بائیں اینٹیں رکھ کر یوں جگہ بنائی جائے کہ آپ ایک پائوں ایک طرف رکھیں اور دوسرا دوسری پائوں دوسری طرف، اور اکڑوں بیٹھ کر بیچ کی خالی جگہ کو فارغ ہونے کے لیے استعمال کریں۔ کھڈیوں کی صفائی کے لیے بیرونی دیوار میں ہر کھڈی کے ساتھ سوراخ تھا۔ کھڈیاں بیرونی دیوار کے ساتھ اس لیے بنائی گئیں تھیں تاکہ مہتر، گھر کے باہر سے ہی ان کھڈیوں کی صفائی کرسکیں۔ بیت الخلا کی چھت نہیں تھی اس لیے آپ فارغ ہونے کے دوران دائیں بائِں دوسروں کا کیا دھرا دیکھنے کے بجائے اوپر آسمان میں اڑتے چیل کووں کو دیکھ سکتے تھے۔ اس بیت الخلا کا سرخرو کھلاڑی وہ ہوتا تھا جو بیت الخلا کی صفائی کے بعد کھڈی استعمال کرنے والا پہلا شخص ہو۔ اور اسی طرح بیت الخلا کی صفائی سے پہلے اسے استعمال کرنے والا آخری شخص یقینا اپنی قسمت کو کوستا ہوگا۔ گائوں سے آنے کے بعد مجھے بتایا گیا تھا کہ بیت الخلا میں دروازے کے ساتھ راکھ کا کنستر رکھا تھا۔ فارغ ہونے کے بعد اس راکھ کو اپنا مال ڈھانپنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا مگر وہاں رہتے ہوئے نہ تو مجھے کسی نے ایسا کرنے کی تعلیم دی اور نہ ہی میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ دوسروں نے ایسا کیا ہو۔تو ایسا کیوں تھا؟ ہمیں اتنی تمیز کیوں نہ تھی جتنی بلی کو ہوتی ہے؟
Sunday, July 07, 2024
بلی جتنی تمیز تو سیکھو
بلی جتنی تمیز تو سیکھو
فصل اول
میری آنکھ سویرے کھل گئی۔ کمرے میں اندھیرا تھا مگر کھڑکی سے باہر روشنی نظر آرہی تھی۔ میرے ساتھی مسافر ابھی سو رہے تھے۔ رات بہت دیر تک تاش کی بازی جاری رہی تھی اور اسی وجہ سے وہ دیر سے سوئے تھے۔ میں بستر سے اٹھا اور دبے قدموں چلتا گھر سے باہر آگیا۔ باہر آتے ہی ایک خوشگوار احساس نے میری روح کو مسحور کردیا۔ کراچی کی آلودہ فضا کے مقابلے میں یہاں ہوا میں نکھار تھا۔ دریا کے پانی کا شور یہاں تک سنائی دیتا تھا۔ میں آہستہ قدم اٹھاتا دریا کی طرف چلنا شروع ہوگیا۔ دریا کے پاس پہنچ کر میں دیر تک چنچل دھاروں کا نظارہ کرتا رہا۔ پتھروں اور چٹانوں کے بیچ دریا کا پانی خوبصورتی سے اپنا راستہ بنا رہا تھا۔ مجھے دریا کے کنارے ایک بڑا پتھر نظر آیا۔ اگر اس پتھر پہ بیٹھ کر میں دریا میں اپنے پائوں ڈالوں تو کس قدر مزا آئے۔ اسی ارادے کی تکمیل کے لیے میں نیچےاترنا شروع ہوگیا مگر بڑے پتھر کے قریب پہنچ کر ٹھٹھک گیا۔ وہاں انسانی فضلہ پڑا تھا۔ طبیعت مکدر ہوگئی۔ فرحت بخش ہوا اور مچلتے کنہار کے نظارے کا سحر ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ یہ کون انسان نما جانور تھا جس کو اتنی تمیز بھی نہ تھی جتنی بلی کو ہوتی ہے؟ یہ بات کسی قدر یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مذکورہ حیوان مقامی باشندہ تھا۔ اس مقامی کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ جس نظارے کے مزے لینے سیاح وہاں آتے ہیں اور رقم خرچ کرتے ہیں اور اسی سیاحتی آمدنی سے اس کا بھی روزگار کسی نہ کسی طور سے وابستہ ہے، اس منظر کو پرکشش رکھنے میں اس کا مفاد بھی پوشیدہ ہے۔
Sunday, February 18, 2024
دھاندلی کے الزامات۔ ثبوت ندارد
دھاندلی کے الزامات۔ ثبوت ندارد
آٹھ فروری کو ہونے والے پاکستانی انتخابات کے سلسلے میں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں خدشات وتحفظات ہیں۔ کیا چنائو کے سرکاری نتائج عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور نگراں حکومت/بااثر ادارے اپنی مرضی کے امیدواروں کو جتانے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی انتخابات میں ہارنے والے شور مچا رہے ہیں کہ چنائو میں دھاندلی ہوئی ہے اور ہارنے والے کو زبردستی ہرا گیا ہے۔ مگر دھاندلی کیسے ہوئی ہے، اس کا کیا ثبوت ہے، اس بارے میں دھاندلی کا شور مچانے والے بات نہیں کرتے۔
آئیے پاکستانی انتخابی عمل کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ انتخابات میں دھاندلی کیسے ممکن ہے۔
پاکستانی انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں کئی پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں۔ ہر پولنگ اسٹیشن میں الیکشن کمیشن کے حکام کے علاوہ انتخابی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ بھی موجود ہوتے ہیں۔ حق رائے دہی استعمال کرنے کا عمل ان تمام لوگوں کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ پولنگ کے اختتام پہ تمام پولنگ ایجنٹ کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے، پولنگ اسٹیشن میں موجود الیکشن حکام اس گنتی کو فارم پینتالیس پہ نقل کرتے ہیں، اور ہر انتخابی جماعت کا پولنگ ایجنٹ اس فارم پینتالیس کی نقل حاصل کرسکتا ہے۔
اگلے مرحلے میں حلقے میں موجود تمام پولنگ اسٹیشن سے فارم پینتالیس اکٹھا کیے جاتے ہیں اور ان کی مدد سے فارم سینتالیس بھرا جاتا ہے جس میں موجود گنتی سے واضح ہوتا ہے کہ حلقے سے کونسا امیدوار صوبائی اسمبلی کے لیے اور کونسا امیدوار قومی اسمبلی کے لیے کامیاب ہوا۔
کیونکہ ہر پولنگ اسٹیشن میں موجود کسی بھی سیاسی جماعت کے پولنگ ایجنٹ اپنے پولنگ اسٹیشن کے فارم پینتالیس کی نقل اپنی سیاسی جماعت کو فراہم کرسکتے ہیں اس لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دیکھ سکے کہ آیا الیکشن کمیشن کی طرف سے شائع ہونے فارم سینتالیس میں لکھی گئی ووٹوں کی تعداد صحیح ہے یا نہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ اس انتخابی عمل میں دھاندلی کہاں ممکن ہے؟
۱۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ ممکن ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پولنگ اسٹیشن پہ کسی خاص جماعت کے ووٹروں کو حق رائے دہی استعمال نہ کرنے دیا جائے۔ کیا آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔
۲۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ پولنگ اسٹیشن پہ کسی خاص جماعت کے ایجنٹ کو پولنگ اسٹیشن میں نہ بیٹھنے دیا جائے۔ کیا کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔
۳۔ دھاندلی پولنگ اسٹیشن کی سطح پہ اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ پولنگ کے اختتام پہ کسی خاص جماعت کے ایجنٹ کو یا ایک مخصوص جماعت کے ایجنٹ کے علاوہ باقی سب کو ووٹوں کی گنتی کے عمل میں نہ شامل کیا جائے۔ کیا کہیں ایسا ہوا؟ کیا کسی سیاسی جماعت نے اس بارے میں کوئی احتجاج کیا؟ ہرگز نہیں۔
۴۔ دھاندلی اس طرح سے بھی ممکن ہے کہ ہر پولنگ اسٹیشن سے فارم پینتالیس تو صحیح گنتی سے الیکشن کمیشن تک پہنچائے جائیں مگر فارم سینتالیس میں گڑبڑ کی جائے۔ ایسا ممکن ہے مگر اس سلسلے میں دھاندلی کا شور مچانے والے امیدواروں کو ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ اپنے حلقے سے بھیجے جانے والے تمام فارم پینتالیس کی نقول ہمیں فراہم کرنا ہونگی اور ثابت کرنا ہوگا کہ تمام فارم پینتالیس کے ووٹوں کا حاصل جمع فارم سینتالیس میں دکھائے جانے والے حاصل جمع سے مختلف ہے۔
پاکستان الیکشن کمیشن نے تمام فارم سینتالیس اپنی ویب سائٹ پہ شائع کردیے ہیں۔
https://www.elections.gov.pk/sindh-assembly
اب دھاندلی کا شور مچانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھاندلی کا ثبوت فراہم کریں۔
Wednesday, August 09, 2023
نو آبا دیاتی دور میں ہمارے علاقے میں بنائے جانے والے ادارے
Monday, July 24, 2023
روز کی ٹٹی ٹو ڈو لسٹ میں شامل ہو گئی
گزر گئے وہ دن جب نظام ہاضمہ خودکار تھا۔ اب تو روز کی ٹٹی بھی ٹو ڈو لسٹ میں شامل ہے۔
You know you are old when your daily bowl movement becomes a part of 'Things to do' list
Saturday, June 24, 2023
اوجھڑیاں دفنائیں، زمین زرخیز بنائیں۔
اوجھڑیاں دفنائیں، زمین زرخیز بنائیں۔
مجھے میلے ٹھیلے، تہوار بہت پسند ہیں۔ میں خوشی کے ان موقعوں کو رنگوں اور خوشبوئوں کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ مگر ایک مذہبی تہوار ایسا ہے جسے ہم نے ، اپنی بے وقوفی سے سخت بدبودار بنا دیا ہے اور وہ ہے بقرعید۔ جیسے جیسے عیدالاضحی قریب آرہی ہے میرے اندر ایک خوف بڑھتا جارہا ہے۔ کیا اب کی بار بھی ایسا ہی ہوگا جیسا ہر دفعہ ہوتا ہے؟ کیا اس دفعہ بھی بقرعید پر قربانی کے بعد مذبح جانور کے ناپسندیدہ حصّے گھروں کے سامنے ہی ڈال دیے جائیں گے؟ اس دفعہ تو بقرعید اور بارش کا ساتھ ہوگا۔ سڑنے والی آلائش بارش کے ساتھ مل کر تیزی سے پھیلنے والی وبائی بیماریوں کا سبب نہ بن جائے؟
پاکستان کی اکثر آبادیوں میں عید الاضحی کے بعد تمام اہل محلہ کی ایک اجتماعی قربانی شروع ہوجاتی ہے اور ہم سڑنے اور تعفن پھیلانے والی آلائشوں کو مستقل سونگھتے رہتے ہیں۔ ہماری یہ اجتماعی قربانی چار مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے مرحلے میں فقیر اور خانہ بدوش، اوجھڑیوں اور دوسرے پھینکے جانے والے حصوں میں سے اپنی پسند کا مال نوچ کر لے جاتے ہیں اور باقی ماندہ کو وہیں پھیلا جاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ان ٹکڑوں پہ کتے اور بلیاں حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی رغبت کے حصّے نوچتے ہیں۔ تیسرا مرحلہ سب سے تکلیف دہ ہوتا ہے جس میں مختلف بیکٹیریا ان آلائشوں پہ جھپٹتے ہیں اور پھر سڑنے کی بو چہارسو پھیل جاتی ہے۔ سڑتی ہوئی یہ اوجھڑیاں مختلف خطرناک بیماریوں کے جراثیم کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ جلد یا بدیر یہ جراثیم ہوا میں اڑ کر انسانوں تک پہنچتے ہیں اور ان کو بیمار کردیتے ہیں۔ چوتھے مرحلے میں ہوا سے اڑنے والی گرد کے ساتھ یہ فضلہ ذرہ ذرہ ہر سمت میں اڑتا ہے اور تقریباً محرم کے آخر تک لوگ اس اجتماعی قربانی سے فارغ ہوتے ہیں۔
بقرعید کے بعد تعفن سے بچنے کا ’آسان حل یہ ہے کہ آلائش کو دفن کردیں۔ قربانی سے پہلے ساڑھے تین فٹ قطر کا دو فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔ اگر جانور زیادہ ہوں تو اسی تناسب سے گڑھے کے حجم میں اضافہ کرلیں۔ عید پہ قربانی کے جانور کو گڑھے پہ ذبح کریں تاکہ تمام خون گڑھے میں چلا جائے۔ مذبح جانور کا گوشت بناتے وقت ایک پلاسٹک فرش پر بچھا لیں تاکہ تمام آلائشوں کو صفائی کے ساتھ ایک جگہ جمع کیا جاسکے اور فرش پر خون بھی نہ لگنے پائے۔ ممکن ہو تو یہ کام گڑھے سے قریب کریں۔ آلائشوں کو گڑھے میں ڈال دیں۔ پلاسٹک کو گڑھے کے اوپر دھو لیں۔ [پلاسٹک کو گڑھے میں نہ ڈالیں۔] یہ کام مکمل کرنے کے بعد گڑھے کو پر کردیں اور اضافی مٹی اس کے اوپر ہی ڈھیر کردیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ تمام مدفون آلائشیں بہترین قسم کی کھاد میں تبدیل ہوجائیں گی۔ آلائشوں کا حجم کم ہونے کی وجہ سے مٹی اندر دھنس جائے گی اور اضافی مٹی تقریباً اپنی سطح پہ واپس آجائے گی۔ اس قسم کی ’آلائش قبروں‘ کے اوپر نہایت موئثر طریقے سے درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ آلائشوں کو دفن کرنے کے لیے یہ گڑھے آپ اپنے باغ میں، یا سڑک کے قریب درخت لگانے کی منصوبہ بندی سے کھود سکتے ہیں۔ اس دفعہ بقرعید سے دو روز پہلے ہی یا تو خود ایسے گڑھے کھود لیں یا کسی مزدور کو رقم دے کر یہ کام کروالیں۔
ہوسکتا ہے آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے شہر میں بلدیہ کی کارکردگی بہت بہتر ہوگئی ہے اور علاقے سے اوجھڑیاں فوراً ہی اٹھا لی جاتی ہیں۔ اس صورت میں بھی آلائشوں کو دفن کرنا زیادہ اچھا ہے کیونکہ ایک طرف تو آپ اس طرح اپنی زمین کو زرخیز بنا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بلدیہ کے اخراجات کو بچانے کے علاوہ آپ اپنے ماحول کو بہتر بنا رہے ہوتے ہیں کیونکہ جب کوڑا اٹھانے والا ٹرک کم چلے گا تو کم دھواں آپ کے ماحول میں داخل ہوگا۔ مزید یہ کہ ٹرک کم چلنے کی وجہ سے تیل کی بچت ہوگی اور ملک کا زرمبادلہ بچے گا۔
اوجھڑیاں دفناتے ہوئے آپ کو ہرگز اس شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں اوجھڑی دفن کی جارہی ہے وہاں سے بو آئے گی۔ جس طرح قبرستان میں آپ کو کوئی بو نہیں آتی حالانکہ ہر طرف سینکڑوں لاشیں زمین کے نیچے گل سڑ رہی ہوتی ہیں، اسی طرح اوجھڑی کی ان قبروں سے بھی بدبو آنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔
ہوائی جہاز کا سفر محیر العقل ہے۔ آپ ایک خاص ماحول میں ہوتے ہیں جہاں کی اپنی خوشبو، اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ پھر سفر کے لیے آپ ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہیں۔ اس ہوائی جہاز کا اپنا ایک جدا ماحول ہوتا ہے۔ سفر کے اختتام پہ ہوائی جہاز آپ کو ایک بالکل مختلف جگہ پہنچا دیتا ہے۔ آپ ہوائی اڈے سے نکل کر جب نئی جگہ کو دیکھتے ہیں اور اس نئے ماحول میں سانس لیتے ہیں تو آپ کے لیے اس جگہ کے رنگ و بو کا مقابلہ پچھلی جگہ سے کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے کتنی شرمندگی کی بات ہے کہ جب آپ کراچی ہوائی اڈے سے باہر نکلیں تو شہر سے آپ کا پہلا تعارف بدبو کے زوردار بھبکے کے ذریعے ہوتا ہے۔ فضا میں رچی بسی یہ بدبو ہوائی اڈے کے چاروں طرف موجود کوڑے کے ڈھیروں سے آرہی ہوتی ہے۔
برائے مہربانی اپنے شہر کی اس ناگوار بدبو میں اوجھڑیوں کا تعفن شامل نہ کریں۔ اس بقرعید پہ اوجھڑیوں اور جانوروں کی دیگر آلائشیں قربانی کے فورا بعد زمین میں دفن کردیں۔
دنیا اچھے لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ نیک لوگ کسی کا برا نہیں چاہتے۔ انہیں اگر بتایا جائے کہ ان کے کسی عمل سے دوسروں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو یہ لوگ فورا اپنے عمل میں تبدیلی لانا چاہیں گے۔ اس شہر کے رہنے والے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے عیدالضحی کے موقع پہ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ مگر پھر قربانی کے بعد وہ ایسا کام کرتے ہیں جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ قربانی کے بعد جانور کی آلائشوں کو یوں ہی سڑک کے کنارے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ ہر قسم کے جراثیم کی آماجگاہ بنتا ہے؛ وہ جراثیم جو لوگوں کو بیمار کرنے اور انہیں جان سے مارنے کی سکت رکھتے ہیں۔ یہ کہاں کی نیکی ہے کہ آپ اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے ایک کام کریں اور پھر اس کام کے مضمرات سے لوگوں کو تکلیف پہنچے اور قیمتی جانیں ضائع ہونے کا امکان ہو؟ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔
گوشت اور چھیچھڑے چیلوں اور دوسرے پرندوں کی مرغوب غذا ہیں۔ بڑے پرندے اگر اڑتے ہوئے ہوائی جہاز سے ٹکرائیں تو یہ جہاز کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں اور مسافروں کی ہلاکت کا سبب بن سکتے ہیں۔
کراچی کوڑے کا شہر ہے۔ اس کوڑے میں عیدالاضحی کا کوڑا شامل کرکے جہازوں کے حادثے کا اہتمام نہ کریں۔ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔
حیرت انگیز طور پہ ترقی پذیر ممالک ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ان ممالک کی مشترکہ اقدار میں ایک واضح قدر شہروں میں آوارہ کتوں کی بہتات ہے۔ اور شہروں میں آوارہ کتوں کی فوج اس لیے پائی جاتی ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں کوڑا اٹھانے کا موثر نظام نہیں ہوتا اور آوارہ کتوں کو جگہ جگہ پھیلے کوڑے سے کھانا ملتا رہتا ہے۔
پاکستان کے ہر شہر میں آوارہ کتے پائے جاتے ہیں۔ گاہے بگاہے یہ کتے لوگوں کو کاٹتے ہیں اور ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اس بقرعید پہ اپنے شہر میں موجود کوڑے میں قربانی کے جانور کی آلائشیں مت شامل کریں۔ برائے مہربانی قربانی کرنے سے پہلے آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کریں۔ جانوروں کی آلائش کو تلف کرنے کا سب سے آسان اور مثبت طریقہ اسے زمین میں دفن کرنا ہے۔
Sunday, May 21, 2023
ہمارا سچا قائد، عمران خان
ہمارا سچا قائد، عمران خان
عمران خان کے بدترین دشمن بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ عمران خان مغربی سامراجی طاقتوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکتا ہے۔ مسلمانوں کی قوت سے خوفزدہ، ان طاقتوں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ عمران خان کی قیادت میں اگر مسلم امہ جاگ گئی تو ان کی خیر نہیں۔
کیا عمران خان کی مخافت میں حد سے گر جانے والے لوگوں کو عمران خان کا وہ چار سالہ دور حکومت یاد نہیں جب ملک میں میں مکمل امن و امان تھا؟ یہ وہ سنہری دور تھا جب زیورات سے لدی پھندی ایک عورت سہراب گوٹھ سے حیات آباد تک بے خوف و خطر، تنہا سفر کرتی تھی اور اور کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ اسے میلی آنکھ سے دیکھے۔
یہ وہ قابل رشک زمانہ تھا جب شیر اور بکری حقیقتا ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔
دنیا بھر میں پاکستان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا تھا۔ ملک سے غربت کا خاتمہ ہو چکا تھا تھا اور ڈھونڈ نے سے ایسے ضرورت مند نہ ملتے تھے جنہیں کسی قسم کی مالی مدد درکار ہو اور اسی وجہ سے اس دور میں زکوۃ کی رقم سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک بھیجی جاتی تھی۔
اس عہد بے مثال کے چند نا قابل تردید حقائق ملاحظہ فرمائیے:
پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکے تھے۔
دنیا بھر میں چاول کی پیداوار میں پاکستان پہلے نمبر پہ پہنچ گیا تھا۔
گندم کی برآمد میں پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر تھا۔
گاڑیوں کے ریڈیٹر کی برآمد میں پاکستان پہلے نمبر پہ تھا۔
یوں تو اس دور میں پورا ملک ہی جنت نظیر تھا مگر ہمارے کپتان کی ذاتی توجہ کی وجہ سے خیبر پختونخوا کو الگ ہی مقام حاصل تھا۔
خیبرپختونخوا میں ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ دس دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں۔
نیویارک ٹائمز اور دوسرے بین الاقوامی اخبارات اور جرائد لکھ چکے ہیں کہ کس طرح ہمارے قائد کے سنہری دور میں مغربی دنیا کے ہر ملک میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگتی تھی اور غیر ملکی، پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رقم دینے کو تیار نظر آتے تھے۔ مگر ہمارے کپتان کی ہدایت پہ ہر پاکستانی سفارتخانے نے سیاحتی ویزوں کا کوٹہ مقرر کر دیا تھا کیونکہ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ سیاحتی ویزے پہ پاکستان جانے والے غیر ملکی، غیر قانونی طور پہ ملازمت تلاش کریں گے اور ان کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی طرح پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرلیں۔
ہمارے قائد کے دنیاوی کارنامے تو ضرب المثل ہیں مگر یہ بات بھی لوگوں کے علم میں ہے کہ عمران خان ایک نہایت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں جن کا شجرہ نسب خلفائے راشدین سے ملتا ہے۔
سینکڑوں بے اولاد جوڑے کپتان کی دعاؤں سے اولاد کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔ عمران خان مردے کو زندہ کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔
اور کون بھول سکتا ہے کہ کس طرح ہمارے کپتان کے دور حکومت سے پہلے دریائے سندھ میں مستقل سیلاب آتے تھے؟ یہ سیلاب بہت تباہی مچاتے تھے۔ پھر جب امیر مدینہ ثانی کا دور شروع ہوا تو ہمارے قائد نے ایک خط دریائے سندھ کے نام لکھا اور اس خط کو دریائے سندھ میں ڈال دیا گیا۔ اس خط میں ہمارے کپتان نے لکھا تھا کہ 'اے دریا، تجھے پاک پروردگار کی قسم جو آئندہ تو نے خلق خدا کو تنگ کیا'۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح دریائے سندھ میں سیلاب آنے بند ہوگئے۔
ان اوصاف کے باوجود ہمارے قائد میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ کپتان کے کمرے میں ایک چٹائی پڑی ہے جس پہ بیٹھ کر وہ دن کا بیشتر حصہ عبادت و ریاضت میں گزارتے ہیں۔ تقوی کا یہ عالم ہے کہ عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے ہیں۔
پچھلے رمضان ستائیسویں شب جب ساری رات عبادت کے بعد ہمارے کپتان نے روزہ رکھنے کا قصد کیا تو بی بی بشری نے بتایا کہ گھر میں سوکھی روٹی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ ہمارے قائد نے سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھائی اور روزہ رکھ لیا۔ پھر جب افطار کا وقت آیا تو بی بی بشری نے بتایا کہ اب تو سوکھی روٹی بھی نہیں ہے۔ ہمارے قائد نے نمک سے روزہ کھولا اور رات گئے تک زاروقطارروتے رہے اور کہتے رہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔
عمران خان کے دشمن کان کھول کر سن لیں کہ ہمیں عمران خان پہ مکمل اعتماد ہے۔ اقبال نے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر، مسلم امہ کے جاگنے اور ایک ہونے کا جو خواب دیکھا تھا عمران خان اس کی تعبیر میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب امت مسلمہ عمران خان کی قیادت میں یوں اٹھے گی کہ ہمارے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں ایٹم بم ہوگا، اور دنیا ہماری ہیبت سے کانپ رہی ہوگی۔
Friday, May 05, 2023
کراچی کس نے بنایا؟
کراچی کس نے بنایا؟
کچھ کچھ عرصے بعد سوشل میڈیا پہ یہ بحث دیکھنے میں آتی ہے کہ کراچی کس نے بنایا۔ اس بحث کے پیچھے دو گروہ کارفرما نظر آتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جس کا کہنا ہے کہ کراچی سنہ سینتالیس کے بعد کراچی آنے والوں نے بنایا ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ کراچی سندھ کا ایک پرانا شہر تھا۔ سنہ سینتالیس کے بعد موجودہ بھارت سے آنے والوں نے اس شہر کو تباہ و برباد کردیا۔
کراچی کس نے بنایا؟
مختصر جواب یہ ہے کہ کراچی انگریزوں نے بنایا۔
مفصل جواب طویل ہے۔
یورپی نوآبادیاتی طاقتوں اور بالخصوص انگریز کے آنے سے پہلے ہمارے علاقے میں ساحلی بستیاں زیادہ اہم نہیں خیال کی جاتی تھیں۔ سمندری تجارت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہمارے علاقے یعنی جنوبی ایشیا میں تجارت زمینی راستوں سے ہوتی تھی اور سمندر کے ساتھ بسنے والی آبادیاں ماہی گیر بستیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ رنگون سے لے کلکتہ، بمبئی اور کراچی تک یہی حال تھا۔
زمینی تجارت کے راستے ہمارے علاقوں سے نکل کر، شمال میں جا کر ریشم رستوں سے مل جاتے تھے۔ ریشم راستے تجارتی قافلوں کے وہ راستے تھے جو چین سے مشرق وسطی اور یورپ کے ساتھ تجارت میں استعمال ہوتے تھے۔
یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی آمد سے پہلے ہمارے علاقوں میں وہ بستیاں اہم تھیں جو بڑی زرعی اراضیوں کے ساتھ جڑی ہوتی تھیں اور عموما ایسی ہی کوئی بستی دارالحکومت بنتی تھی اور یوں شہر بننا شروع ہوتے تھے۔ زراعت سے جڑے شہروں کی مثالوں میں موجودہ برما کا قدیم دارالحکومت مانڈلے یا ہندوستان کا دارالحکومت دہلی یا انگریز کے آنے سے پہلے سندھ کا دارالحکومت حیدرآباد شامل ہیں۔
انگریز کیونکہ سمندری راستے سے ہمارے علاقے میں آیا اس لیے انگریز کے لیے ساحلی بستیاں اہم تھیں۔ انہیں اسی راستے سے واپس وطن جانا ہوتا تھا۔ اور اسی وجہ سے نوآبادیاتی طاقتوں نے ساحلی بستیوں کو جدید شہروں کی صورت میں تشکیل دیا اور یہاں ایسی بندرگاہیں بنائیں جہاں بڑے بحری جہازوں کی آمد و رفت ممکن ہوسکی۔
سنہ 1843 میں تالپوروں کو شکست دینے کے بعد انگریزوں نے حیدرآباد کے بجائے کراچی کو سندھ کا درالحکومت بنادیا۔ واضح رہے کہ سنہ 1857 کی جنگ آزادی تک نہر سوئیز تعمیر نہیں ہوئی تھی اور انگریز جہاز پورے افریقہ کا چکر کاٹ کر جنوبی ایشیا پہنچتے تھے۔ سنہ 1869 میں نہر سوئیز کی تعمیر مکمل ہونے پہ صورتحال تبدیل ہوگئی اور انگریزوں کے لیے جنوبی ایشیا کی مغربی بندرگاہیں اہمیت اختیار کر گئیں۔ کراچی کی بندرگاہ جنوبی پنجاب سے حاصل ہونے والی کپاس کی تجارت کے لیے بہت اہم ہوگئی۔ انگریزوں نے کراچی کو ایک جدید شہر کی شکل دی اور کراچی کی بڑھتی اہمیت کی وجہ سے اندرون سندھ اور گجرات سے مخیر تاجر ]جن میں محمد علی جناح کے والد بھی شامل تھے[ وہاں آکر بسنا شروع ہوئے۔
انگریز کی جنوبی ایشیا سے روانگی کے وقت جن علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا وہاں لاہور اور ڈھاکہ دو اہم شہر تھے مگر جناح نے کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے پہ زور دیا اور یوں سنہ سینتالیس میں ننھا شہر کراچی ایک وسیع نوزائیدہ ریاست کا دارالحکومت بن گیا۔
قیام پاکستان کے بعد جو لوگ موجودہ بھارت سے یہاں آئے وہ کراچی کے دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں آئے۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ انیس سو سینتالیس کے بعد پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں اور بھارت کے دارالحکومت دہلی میں آبادی کا تناسب یکسر تبدیل ہو گیا۔ سنہ سینتالیس کےبعد دہلی راتوں رات ایک پنجابی شہر بن گیا کیا جب کہ کراچی میں اترپردیش، سی پی، اور بہار سے لاکھوں کی تعداد میں آنے والوں کی وجہ سے کراچی کے سندھی اور گجراتی بولنے والے شہری اقلیت میں تبدیل ہوگئے۔
دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح کراچی بھی مستقل تبدیل ہورہا ہے۔ آج [سنہ 2023 میں[ کراچی میں اردو کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پشتو ہے ۔
A short history of Karachi
Friday, April 14, 2023
رمضان میں دھونس دھڑپا
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں ریستوراں رمضان میں بھی دن کے وقت کھلے ہوتے اور مسافروں، بیماروں، اور کفار کے لیے کھانے پینے کا سامان کرتے۔ ہر ریستوراں کے باہر ایسا بورڈ لگا ہوتا۔
مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ رمضان میں ریستوراں دن کے وقت بند ہوتے ہیں اور جن کا روزہ نہ بھی ہو انہیں بھوکا رہنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔
Wednesday, October 19, 2022
کارخانے
کارخانے
کیا آپ کسی کارخانے میں کام کرنا پسند کریں گے جہاں کارخانے کے مالک کی کوئی خبر نہ ہو، ایک منتظم [سپروائزر] کارخانے کے سارے معاملات کا ذمہ دار ہو اور منتظم آپ کو بتائے کہ آپ کو کیا کام کرنے ہیں اور یہ بتائے کہ یہ سارے احکامات دراصل منتظم کے نہیں بلکہ کارخانے کے مالک کے ہیں؟ آپ چاہیں کہ مالک سے آپ کی براہ راست بات ہوجائے مگر ایسا ممکن نہ ہو۔ آپ کی بات صرف منتظم سے ہو سکے جو کارخانے کے مالک کی منشا آپ تک پہنچاتا ہو۔
اور ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ ایک ایسے کارخانے میں کام کریں جہاں مالک کی کوئی خبر نہ ہو اور کارخانے میں ایک سے زائد منتظمین ہوں۔ اور ان منتظمین کی آپس میں چپقلش ہو اور ہر منتظم کا دعوی ہو کہ کارخانے میں کام کیسے ہونا ہے اس کے احکامات صرف اسے مالک کی طرف سے موصول ہوئے ہیں۔
اور یوں بھی تو ممکن ہے کہ آپ ایک ایسے کارخانے میں کام کریں جہاں مالک کی کوئی خبر نہ ہو مگر کارخانے میں ایک کتاب موجود ہو جس کے بارے میں منتظم کا کہنا ہو کہ کارخانے کے مالک نے اپنی منشا اس کتاب میں لکھ دی ہے مگر جب آپ کتاب پڑھیں تو سر کھجاتے رہ جائیں کہ کیا احکامات دیے جارہے ہیں اور لامحالہ مالک کی مرضی جاننے کے لیے آپ کو منتظم کی مدد حاصل کرنا پڑَے۔
دنیا کے مذاہب ایسے ہی کارخانے ہیں۔
Saturday, October 08, 2022
سفر ایران کے
اپریل گیارہ،
1995
ہم زاہدان سے کرمان کے لیے روانہ ہوئے تو بس میں گنتی کے پندرہ، بیس مسافر تھے۔
یہ پورے دن کا سفر تھا۔ مجھے بس اور ٹرین کا طویل سفر پسند ہے بشرطکہ وہ سفر دن کی روشنی میں کیا جائے۔ آپ کھڑکی سے لگ کر بیٹھیں اور باہر مستقل بدلتے نظارے سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔
ہم دو دن پہلے زاہدان پہنچے تھے۔ یعنی کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز تربت اور پھر دالبندین اور پھر دالبندین سے ٹیکسی کے طور پہ چلنے والے ٹویوٹا ٹرک کے ذریعے تفتان۔ تفتان پہ موجود پاکستانی چوکی پہ کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد پیدل ایرانی سرحدی چوکی، میرجاوہ، اور وہاں پاسپورٹ میں دخول کی مہر لگوانے کے بعد بس سے زاہدان۔
دالبندین ہوائی اڈے سے تفتان جانے والے ڈرائیور نے ہمیں بتایا تھا کہ اس کے وسیع خاندان کے افراد ایران پاکستان سرحد کے دونوں طرف رہتے تھے اور اسے سرحد عبور کرنے کے لیے پاسپورٹ درکار نہ تھا۔ دالبندین سے تفتان جاتے ہوئے ڈرائیور کا ایک دوست بھی ہمارے ساتھ تھا۔ وہ بنگالی تھا۔ دالبندین سے تفتان کے راستے میں حد نظر کوئی آبادی، کوئی سبزہ نظر نہ آتا تھا۔ جگہ جگہ تپتی مٹی پہ کالے پائوڈر کی ایک تہہ موجود تھی۔ نہ جانے وہ کالا پائوڈر کہاں سے آیا تھا، یا کس قسم کی معدنیات تھیں؟
ہم راستے میں نوک کنڈی میں تھوڑی دیر کے لیے رکے جہاں ڈرائیور اور اس کے دوست نے کھانا کھایا تھا۔ کھانے کا بل ہمارے ذمے تھا۔ نوک کنڈی میں قابل ذکر ہندو آبادی بھی موجود تھی جو دکانوں کے ناموں سے ظاہر تھی۔
پاکستان سے ایران میں داخل ہوں تو آپ کو اچھا احساس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ آپ کسی نسبتاً تمیزدار جگہ آگئے ہیں۔ زاہدان میں ہمارا قیام خاور ہوٹل میں تھا جہاں استقبالیے پہ موجود نوجوان کو انگریزی بولنے کا بہت شوق تھا۔ شاید وہ سیاحوں سے بات کر کے انگریزی کی مشق کررہا تھا۔
زاہدان میں ایک ٹاٹا ٹرک دیکھ کو ہم خوش ہوئے۔ ٹاٹا کے ٹرک افریقہ میں عام طور سے نظر آتے ہیں مگر ہمیں افریقہ سے آئے ایک عرصہ ہو چلا تھا۔ زاہدان میں نل سے آنے والا پانی ذائقے میں کڑوا تھا اور پینے کے قابل نہیں تھا۔ شاید تہذیب کی پہلی سیڑھی یہی ہے کہ ملک وہاں پہنچ جائے کہ اپنے شہریوں کو پینے کے قابل پانی نل سے فراہم کرسکے۔ پھر تہذیب کی ایک اور منزل کا مشاہدہ سڑکوں پہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹریفک کیسے رواں ہے، یہ عام لوگوں کی تعلیم اور سمجھ بوجھ ظاہر کرتی ہے۔ ٹریفک کے معاملے میں زاہدان پاکستان کے شہروں سے مختلف نہ تھا۔ اگر کوئی تبدیلی تھی تو وہ یہ کہ سڑکوں پہ کوئی گھوڑا گاڑی، گدھا گاڑی نظر نہیں آتی تھی۔ مگر ایران اتنا ترقی یافتہ ضرور تھا کہ وہاں سڑک پہ ملنے والی اشیائے خوردونوش صاف ستھری تھیں اور انہیں کھا کر ہم بیمار نہیں پڑے۔
میں ایران کا سفر ایک خاص وجہ سے کررہا تھا۔ میں کراچی سے دور جانا چاہتا تھا۔ دراصل مجھے ساری زندگی یہ گمان رہا ہے کہ میں لطیف بادلوں پہ سوار ہوں، میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کیا ہے، اور مجھے یہ خیال رہا ہے کہ جیسے خدا کی مرضی میری ذات میں، میرے ہر فیصلے میں حلول ہے۔ مگر پچھلے نومبر سے کراچی میں قتل و غارت گری کا جو طوفان آیا تھا اس نے میرے وجود کو بھاری کردیا تھا۔ خوف کے اس ماحول میں مجھے یہ لگنے لگا تھا جیسے میری روح کی آزادی سلب کی جارہی ہو۔ ہر بلکتی ماں کے آنسوئوں کے ساتھ میری آنکھ سے بھی آنسو ٹپکتے۔ میں نے بارہا اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ سب کیوں ہورہا تھا اور کب تک ہوتا رہے گا۔ مگر مجھے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا اور مجھے لگا کہ شہر میں جاری خوں ریزی میرے وجود میں سرائیت کر کے مجھے ایک خونیں درندہ بنا دے گی۔ میں خود اپنے آپ سے بہت دور چلا جائوں گا۔ مجھے یہ دوری گوارا نہ تھی اور ماحول کی تبدیلی کے لیے میں ایران میں سفر کررہا تھا۔
زاہدان سے کرمان کا سات گھنٹے کا سفر چار سو پچپن تومان میں برا سودا نہ تھا اور میں کھڑکی سے لگا بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا۔ بس ابھی دو گھنٹے ہی چلی ہوگی کہ آہستہ ہونا شروع ہوئی اور ایک جگہ پہنچ کر رک گئی۔ وہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی۔ میں نے تجسس میں کھڑکی سے آگے کی طرف دیکھا۔ ہم ایک ناکے پہ پہنچ گئے تھے۔ پاسداران انقلاب کے مسلح جوان بس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ حکم ہوا کہ سارے مسافر مع سامان بس سے اتر جائیں۔ ہم اپنا اپنا سامان لے کر بس سے اتر گئے اور حکم کے مطابق ایک قطار میں کھڑے ہونے لگے۔ ہمارا نامانوس چہرہ دیکھ کر ایک سپاہی نے تعجب سے پوچھا۔
شما بلوچ ہستید؟
ہم نے نفی میں جواب دیا اور وضاحت پیش کی کہ ہم خارجی ہیں، سیاحت کے لیے کرمان جارہے ہیں۔
اب سب لوگوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ سامان کے ساتھ جسمانی بھی۔ باہر مسافروں کی تلاشی ہورہی تھی اور بس کے اندر دو سپاہی نشستوں کے نیچے جھانک رہے تھے اور بالا خانوں میں ہاتھ ڈال کر اطمینان کررہے تھے وہاں کوئی سامان موجود نہیں تھا۔ غیر بلوچ ہونے کی وجہ سے ہماری رسمی تلاشی ہوئی جب کہ بس کے بلوچ مسافر خصوصی تلاشی کا نشانہ بنے۔ مگر اچھا ہوا کہ بس کے تمام مسافر جانچ کا یہ امتحان پاس کرگئے۔ کسی کے پاس سے کوئی اسلحہ، کوئی آتش گیر مواد برآمد نہ ہوا۔ مسافر پھر سے بس میں سوار ہونا شروع ہوئے۔ جن بلوچ نوجوانوں کی زوردار تلاشی ہوئی تھی وہ اس ہتک آمیز سلوک پہ خوش نہ تھے۔ وہ کسی قدر خفت سے، دوسرے مسافروں سے نظریں چراتے ہوئے اپنی سیٹوں پہ بیٹھ گئے۔ بس پھر سے اسٹارٹ ہوئی اور اپنی منزل کی طرف چلنا شروع ہوگئی۔
Thursday, October 06, 2022
سندھی ٹوپی
سندھی ٹوپی وسطی ایشیا سے آنے والے حملہ آوروں کے ساتھ آنے والے طرز تعمیر سے متاثر ہو کر وجود میں آئی ہے۔