Wednesday, August 07, 2024
حال بے حال
جنوبی ہند کے قصبے سری منڈل وینکٹ ناراسمہاراجوواریپیٹا میں ہونے والی عالمی متقین ادیان کانفرینس میں شریک مجوسی جوتشی، اکابرین عقائد ابراہیمی، ویدک واستو شاستری اور آزتیک زائچہ نویس صرف اس ایک بات پہ متفق ہوئے کہ انگریزی شمسی چکر کے تیسرے ماہ کا گیارہواں دن منحوس اور نجس ہے اور جس مقدر ممکن ہو اس دن کی نحوست اور شر سے بچنا چاہیے۔ بس اسی روز میرا اس دنیا میں ظہور ہوا تھا۔ میری پیدائش کے وقت ہی طبیبوں نے جواب دے دیا تھا۔ صاف کہہ دیا تھا کہ یہ سوکھا سڑا بچہ نہیں بچے گا۔ اور ڈاکٹروں کی بات سولہ آنے درست تھی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرا بچنا ناممکن ہے۔ البتہ، وہ دن اور آج کا دن، بچتے بچاتے یہاں تک پہنچا ہوں۔
پیدائش کے فورا بعد میں خوش تھا کہ اب کشادہ جگہ آگیا تھا۔ نو مہینے ایک تنگ جھگی میں رہ کر دل اکتا گیا تھا۔ اس کھلی جگہ پہ میرے ٹھاٹ تھے۔ زیادہ تر سوتا رہتا تھا۔ بیدار ہوتا، تھوڑا سا دودھ پیتا اور پھر سو جاتا۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہیں لیٹے لیٹے بول و براز سے فارغ ہوجاتا۔ صفائی کی ضرورت ہو تو تھوڑا سا رو دیتا۔ صفائی کرنے والے فورا حاضر ہوجاتے اور میرے جسم کی صفائی کرنے کے بعد فضلہ اٹھا کر لے جاتے۔ ہر خواہش کا اظہار گریا سے کرتا تھا۔ غصہ اس وقت آتا تھا جب لوگ سمجھ نہ پاتے تھے کہ میری خواہش کیا ہے۔ حالانکہ میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ بھوک کا رونا ایک طرح کا ہو، اور طلب صفائی کا دوسری طرح کا۔ اب میں بھوک کے لیے رو رہا ہوں اور لوگ میرا پوتڑا دیکھ رہے ہیں تو غصہ تو آئے گا۔
اس موقع پر خدام کی انتھک محنت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت ضروری ہے۔ پیدائش کے فورا بعد ایک عورت اور ایک مرد بہت زیادہ نظر آنے لگے۔ یہ دونوں مستقل میری چاپلوسی میں لگے رہتے تھے۔ جلد یہ عقدہ کھلا کہ یہی ماں باپ ہیں۔
لوگوں کو فخر ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ میری زندگی میں معاملہ الٹا رہا ہے۔ میں ہمیشہ اپنی عمر سے بڑا ہی نظر آیا اور دو چار سال نہیں بلکہ کئی دہائیوں بڑا۔ اس وقت میرا سن بمشکل پچاس برس ہے مگر کسی زاویے سے میں ستر اسی سے کم کا نظر نہیں آتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب داخلے کے لیے اسکول لے جایا گیا تو میں بھاگ کر والدین سے پہلے پرنسپل کے کمرے میں پہنچ گیا۔ پرنسپل مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئیں؛ مسکرا کر مجھے سلام کیا اور پوچھا، ' کیا بچے پیچھے آر ہے ہیں؟'
اسکول میں داخلے کے بعد بھی حالات بہتر نہ ہوئے۔ میرے ہم جماعت مجھے شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور نئے اساتذہ مجھے جماعت میں بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک جاتے تھے۔ ان کو خیال ہوتا تھا کہ شاید بورڈ سے کوئی شخص ان کی تدریسی صلاحیتیں جانچنے کے لیے آیا ہوا ہے۔
میری عمر بڑھتی رہی اور میں پیران سالی کی منازل جست لگا کر عبور کرتا رہا۔ پندرہ سال کی عمر میں سر کے بال جھڑ چکے تھے اور جب انیس سال کی عمر میں موتیا نکالا گیا تو باور کیا گیا کہ میں موتیا نکالے جانے والا دنیا کا سب سے کم سن بڈھا ہوں۔
جیسے تیسے تعلم مکمل کی تو نوکری کی تلاش اور بھی بڑا عذاب ثابت ہوئی۔ اکثر جگہ تو میری شکل دیکھ کر ہی مجھے واپس کردیا جاتا۔ کوئی نیک صفت مل جاتا تو مجھے بازو سے تھام کر مشورہ دیتا، " بڑے صاحب، یہ کوئی عمر ہے کام کرنے کی؟ آپ تو ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاریں، یعنی نماز، روزہ، اور فیس بک۔"
نوکری مل گئی تو گھر بسانے کا خیال آیا۔ یہ بہت دشوار مرحلہ تھا۔ جہاں جاتا یہی سوال ہوتا کہ "خاندان کے سارے بزرگ نظر آرہے ہیں، لڑکا نظر نہیں آرہا۔" جب گھر والوں نے کئی جگہ ایسے طعنے تشنے سننے کے بعد میری سگائی کی کوشش ترک کردی تو میں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ جلدی سے ضرورت رشتہ کا اشتہار تیار کیا۔ ایک خوبرو، اعلی تعلیم یافتہ، ملازم پیشہ نوجوان کے لیے سولہ سے اٹھارہ سالہ لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ درج ذیل نمبر پہ فورا رابطہ کریں ورنہ رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اشتہار کا متن لے کر اپنے محلے دار رفیع صاحب کے پاس پہنچا جو اخبار میں کام کرتے تھے۔ رفیع صاحب نے میری بات غور سے سنی، اشتہار کا متن میرے ہاتھ سے لے کر پڑھا اور اسے پڑھنے کے دوران نظریں اٹھا کر کئی بار مجھے دیکھا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر کاغذ ایک طرف رکھ دیا اور سمجھایا کہ، ' یہ ارادہ دل سے نکال دیجیے، یہ تو آپ کے لیے اللہ اللہ کرنے کا وقت ہے۔' پھر ساتھ ہی جنت کا پرفریب نقشہ کھینچا، حوروں کا لالچ دیا اور بتایا کہ بس یہ مال کچھ ہی دنوں میں میرا ہونے والا ہے۔ بہت سی نیم برہنہ حوروں کا مجھ سے دودھ کی نہر کے قریب اٹھکیلیاں کرنے کا خیال مجھے بہت بھایا۔ رفیع صاحب کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ مگر گھر آتے ہوئے ایک شک نے سر ابھارا کہ مرنے کے بعد نہ جانے جنت پہنچوں گا یا نہیں۔ سوچا کہ محلے کی مسجد کے امام، مولوی عبدالقدوس سے معلوم کرلوں کہ آیا میں جنت میں داخل کیا جائوں گا یا وہاں بھی اسی طرح کی بات سننے کو ملے گی کہ "بڑے میاں، یہاں آپ کا کیا کام؟ اندر والی فلم صرف مسٹنڈے بالغان کے لیے ہے۔" مولوی عبدلقدوس نے میری بات غور سے سنائی اور پھر استفسار کیا، "میں آپ کو ایک عرصے سے جانتا ہوں مگر میں آپ کی ذاتی زندگی سے نا واقف ہوں۔ کیا آپ سے کچھ گناہ بھی سرزد ہوئے ہیں؟" میں نے کہا، "مولوی صاحب، خطا کا پتلا ہوں۔ آپ پوچھتے ہیں تو بتاتا ہوں کہ کہاں چوک گیا تھا"، اور پھر میں نے اپنا بیان عصیاں شروع کیا۔ مولوی صاحب کچھ دیر تو سر جھکائے خاموشی سے سنتے رہے، پھر سر اٹھا کر بولے، "صاحب اتنی تفصیل میں جا کر ڈینگیں مارنے کا کیا مقصد ہے؟ اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ میں نے ایک بے رنگ زندگی گزاری ہے تو آپ کو آپ کا ہدف حاصل ہوچکا ہے۔ نماز کا وقت ہورہا ہے۔ مجھے جانے دیجیے۔" میں کہاں آسانی سے ہار ماننے والے تھے۔ میں نے کہا، "مولوی صاحب، جاتے ہوئے یہ تو بتا دیجیے کہ آخرت میں میرا ٹھکانہ کہاں ہے۔" مولوی عبدالقدوس بولے، " آخرت میں آپ کا ٹھکانہ بالکل طے ہے۔ یعنی دوزخ۔" ایسا دو ٹوک جواب سن کر میں غصے میں آگیا۔ میں نے پوچھا، "اور جو چھ سال کی عمر سے نمازیں پڑھ رہا ہوں اس کا کیا بنے گا؟" مولوی صاحب نے جواب دیا، "آپ کے گناہ اس قدر بڑے اور وزنی ہیں کہ انہوں نے آپ کی تمام نمازوں کو روند ڈالا ہے۔"
"اور وہ جو بارہ سال کی عمر سے تیرہ سے پندرہ گھنٹے لمبے روزے رکھے ہیں، ان کا ثواب؟" میں نے پوچھا۔
"ان کا کیا ثواب ملنا ہے آپ کو؟ شاید دوزخ میں مارپیٹ کے دوران کبھی کبھار آپ کو روح افزا یا دودھ کی ٹھنڈی بوتل پینے کو مل جائے تو غنیمت جانیے گا۔ اور ہاں، حساب کتاب قبر سے شروع ہوجائے گا ۔ عربی پڑھ لیجیےکیونکہ قبر میں تمام سوالات عربی میں پوچھے جائیں گے۔" یہ کہہ کر مولوی عبدالقدوس چلتے بنے۔
میں نے اسی وقت تہیہ کیا اب منو اور نکے کے ہاتھ نہیں آنا۔ منکر نکیر نامی فرشتوں کو میں پیار سے یوں ہی بلاتا ہوں۔ میں نے گھر پہنچتے ہی وصیت لکھی کہ میرے مرنے کے بعد میری چتا جلائی جائے۔ نہ قبر میں پہنچوں کا اور نہ ان دونوں چغل خوروں کے ہاتھ لگوں گا۔ وصیت میں یہ بھی لکھ دیا کہ میری چتا سے جو راکھ برآمد ہو اسے مولوی عبدالقدوس کے گھر پہ چھڑک دیا جائے۔