Thursday, March 10, 2016

 

گونڈروونڈی سے برسبین











ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو اکہتر

مارچ چھ، دو ہزار سولہ

گونڈروونڈی سے برسبین


ایسا ممکن تھا کہ ہم برسبین میں جہاں ٹہرے تھے وہاں سے پیدل چلتے چلتے برسبین مرکز شہر پہنچ جائیں مگر ہم نے کبھی ایسا کیا نہیں۔ برسبین مرکز شہر میں کئی جگہ گاڑی ارزاں نرخ پہ کھڑی کی جاسکتی تھی اور اس نئے دور میں ہوٹل کے کمرے میں بیٹھ کر پارکنگ کی جگہ قبل از وقت خریدی جاسکتی تھی اس لیے ہم ہر دفعہ گاڑی ہی سے مرکز شہر پہنچے اور گاڑی ایک جگہ کھڑی کر کے مرکز شہر کی آوارہ گردی کرتے رہے۔ میلبورن کی طرح برسبین کا مرکز شہر بھی ایک دریا کے دونوں کناروں پہ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دریا کا نام کیا ہے؟ جی ہاں، دریائے برسبین۔ اگر زمین اس ان سلے کپڑے کی طرح ہے جسے آپ اپنی مرضی سے تراش خراش کر اپنی پسند کے حساب سے کوئی پہناوا بنا سکتے ہیں، تو یوں سمجھیے کہ برسبین ایک بہت عمدہ تراش خراش کا نفیس لباس ہے۔ دریا کے دونوں پشتوں پہ چوڑی چوبی گزرگاہیں ہیں جن پہ کوئی بھاگ رہا ہوتا ہے، کوئی اسکیٹنگ کررہا ہوتا ہے، اور کوئی یوں ہی چھوٹے قدموں سے چلتا دریا اور شہر کے نظارے آنکھوں میں سمو رہا ہوتا ہے۔ اور اس گزرگاہ سے آگے اونچی اونچی عمارتیں ہیں جن میں کام کرنے والے جب اپنی میکانیکی زندگیوں سے تھک جاتے ہوں گے تو ایک نظر دریا کی طرف ضرور کرتے ہوں گے۔
انگریزوں کے کئی بہت عمدہ شوق ہیں۔ ان شوقوں میں سے ایک کسی بھی نئی جگہ پہ نباتاتی باغ، بوٹینکل گارڈن، لگانے کا کام ہے۔ جس طرح چڑیا گھر میں ہر طرح کے جانور جمع کیے جاتے ہیں تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ یہ زمین انسان کے ساتھ کس کس کے سانجھے میں ہے، اسی طرح نباتاتی باغ میں بھانت بھانت کے پودے اور درخت جمع کرکے لگائے جاتے ہیں کہ انسان دیکھ لے کہ زندگی کے کیسے کیسے عمدہ نمونے ممکن ہیں۔ برسبین کا نباتاتی باغ بہت بڑے رقبے پہ پھیلا ہوا ہے۔
میں برسبین کے نباتاتی باغ میں پہنچ کر اس کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔ وہاں نباتیات کی ساری کتابیں میرے سامنے کھلی رکھی تھیں اور میں جلدی جلدی ان کی ورق گردانی کر کے ان سے سیکھنا چاہتا تھا۔ میں سب سے پہلے باغ کے اس حصے کی طرف گیا جہاں براعظم آسٹریلیا کے مقامی پودے اور درخت تھے۔ میں درختوں کے ساتھ لگی ان کے نام کی تختیاں پڑھ رہا تھا اور ان سے اس پہلی باضابطہ ملاقات میں ان کے نام یاد رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ جہاں پودے ہوں، اور پانی ہو وہاں پرندے خود بخود آجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس باغ میں بہت سے پرندے بھی تھے۔ میں پرندوں اور درختوں کی اس صحبت کے مزے اٹھاتا آگے سے آگے بڑھ رہا تھا کہ میرے قریب ایک گولف کارٹ آکر رکی۔ اس گاڑی سے باغ کا ایک کارندہ اترا۔
’’کیا وہ سرمئی رنگ کی گاڑی تمھاری ہے جو اس جگہ کے قریب ترین پارکنگ لاٹ میں کھڑی ہے۔‘‘ افسر نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔
’’باغ بند ہونے میں صرف تین منٹ رہ گئے ہیں۔ تم فورا اپنی گاڑی باغ سے نکال لو ورنہ تین منٹ کے بعد باغ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔‘‘
یہ پیغام دے کر افسر اپنی چھوٹی سی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگیا۔ یہاں بھگدڑ مچ گئی۔ بھاگم بھاگ گاڑی تک پہنچا اور اسے چلاتا ہوا ٹھیک وقت پہ باغ کے صدر دروازے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ نباتاتی باغ بند ہوچکا تھا مگر میرا من اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا۔ میں نے گاڑی صدر دروازے سے باہر کھڑی کردی۔ باغ کی اصل حدود سے باہر بھی ایک باغ تھا جو ان پودوں کے لیے مختص تھا جو ایب اورجنی کے لیے اہم تھے اور جن میں سے کئی پودے اور بوٹے ادویات بنانے کے کام آتے تھے۔ میں اس باغ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایک ایک پودے کو بغور دیکھتا رہا حتی کہ اندھیرا اتنا بڑھ گیا کہ پودوں کے ساتھ لگی تختیوں کو پڑھنا مشکل ہوگیا۔
میں برسبین کے نباتاتی باغ سے واپس آتے ہوئے آسٹریلیا میں آنے والے یورپی نسل لوگوں کے ایب اورجنی سے امتیازی سلوک کے بارے میں سوچتا رہا۔ نوواردوں کو بہت بعد میں یہ خیال آیا کہ تحریری زبان نہ ہونے کے باوجود، کاشت کاری نہ جاننے کے باوجود، دھات کاری نہ جاننے کے باوجود، ایب اورجنی کے پاس کچھ نہ کچھ ایسا علم تھا جو نوواردوں کے پاس نہیں تھا اور اس ایک علم میں ایب اورجنی کے پاس نوواردوں کو سکھانے کے لیے کچھ تھا۔ اسی باغ میں گھومتے پھرتے مجھے معلوم ہوا تھا کہ ایب اورجنی موسم پہ گہری نظر رکھتے تھے۔ اگر دور کہیں بادل نظر آئیں اور اندازہ ہو کہ دور نظر آنے والی اس جگہ بارش ہوئی ہوگی تو ایب اورجنی اس طرف چل دیتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ جہاں بارش ہوگی وہاں نئے پودے بھی اگیں گے اور پھر وہ اپنی پسند کے پودے چن کر انہیں کھا سکیں گے۔ اسی طرح مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے بھی ایب اورجنی پودے استعمال کرتے تھے۔ ایب اورجنی کو حقیر سمجھ کر دھتکارنے کے بہت دہائیوں بعد یہ بات یورپی نوواردوں کو سمجھ آرہی ہے کہ وہ ایب اورجنی سے علم سیکھ کر ان ہی پودوں کو جدید ادویا کی تیاری میں استعمال کرسکتے ہیں۔
باغ سے واپس آکر رات کے کھانے کا انتظام کرنا چاہا تو رنگلا پنجاب ریستوراں کے سائن پہ نظر پڑی۔ ہم فورا وہاں پہنچ گئے۔ ان کے پاس بکرے کا سالن اچھا معلوم دیا اس لیے وہاں سے یہ کھانا بندھوا لیا۔ دیسی کیشیر خاتون آسٹریلوی لہجے میں رواں انگریزی بولتی تھیں مگر ہم نے ان سے ہندی میں بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ریستوراں سات سال پہلے کھلا تھا۔ پھر انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہمارا تعلق کہاں سے تھا۔ ہم نے کراچی بتایا اور پھر ان سے وہی سوال کیا۔ خاتون نے کچھ جھجھکتے ہوئے امرت سر جواب دیا۔ ہم نے ادھر ادھر سے کھانے پینے کی دوسری چیزیں جمع کیں اور ہوٹل پہنچ کر وہاں کھانے کے کمرے میں خوردونوش کا سارا سامان کھول لیا۔ بکرے کا سالن کھایا تو دل خوش ہوگیا۔ ایک دفعہ پھر امرت سر نے ہمارا دل جیت لیا تھا۔ یاد آیا کہ چند سال پہلے لاہور سے چلے بھوکے پیاسے امرت سر پہنچے تھے تو ایک چھوٹی سی دکان سے روٹی اور ترکاری لے کر کھائی تھی اور دونوں چیزوں میں اس قدر مزا تھا کہ امرت سر کے لیے دل سے دعا نکلی تھی۔


Labels: , , , , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?