Thursday, January 28, 2016
ٹوٹی پہاڑی
۔
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو پینسٹھ
جنوری
بیس، دو ہزار سولہ
ٹوٹی پہاڑی
صبح الارم سے آنکھ کھل گئی مگر سردی کڑاکے
کی تھی اور بستر سے نکلنے کا موڈ نہ تھا۔ ہمارا کمرہ سڑک سے اتنے فاصلے پہ تھا کہ وہاں سڑک کا شور
سنائی نہیں دیتا تھا۔ ہم ایک
روز پہلے ہی ایلس اسپرنگس سے ایڈی لیڈ پہنچے تھے۔ اور وہاں پہنچنا اچھا لگا
تھا۔ اب ہم دوبارہ ایک ہوٹل ایک گاڑی کے فارمولے پہ آگئے
تھے۔ اگلا مرحلہ ایڈی لیڈ سے برسبین پہنچنے کا تھا۔ اس اگلے سفر میں ہمیں کئی
چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزرنا تھا۔ یہی کچھ سوچتے کچھ دیر بعد دوبارہ گھڑی کی طرف دیکھا تو اندازہ ہوا کہ کافی
وقت گزر چکا تھا۔ ہمیں شام ہونے سے پہلے بروکن ہل نامی قصبے تک پہنچنا تھا۔ ہم نے
ہڑبڑا کر بستر چھوڑا اور تیزی تیزی کام نمٹانے شروع کیے۔
کچھ دیر بعد جب چیک آئوٹ کے لیے نیچے گئے تو معلوم ہوا کہ ہم نے رات گاڑی غلط
جگہ کھڑی کر دی تھی۔ بے چارہ اسکاٹ، اس ہوٹل کا مینیجر، اچھا آدمی ہے۔ میں نے اس
سے جھوٹی موٹی شکایت کی کہ اس نے آ کر میرا دروازہ کھٹکھٹایا کر کیوں نہ مجھے
بتایا کہ میں نے گاڑی غلط کھڑی کی تھی۔ اسکاٹ کا کہنا تھا کہ وہ سمجھ نہ پایا تھا
کہ وہ گاڑی کس کی تھی۔ مجھے خیال ہوا کہ وہ لحاظ کررہا ہے کیونکہ وہ گاڑی تو ایک عرصے سے اسی ہوٹل میں کھڑی رہی تھی، خاص
طور پہ اس وقت جب ہم وہاں گاڑی کھڑی کر کے ایلس اسپرنگس روانہ ہوگئے تھے۔
اس وقت تک تجربے سے یہ ثابت ہو چکا تھا کہ
ہمیں جو راہ نما، جی پی ایس، ملا تھا اس پہ مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آلہ
بیشتر وقت راہ کی صحیح نشاندہی کرتا تھا مگر کبھی کبھی یوں ہی چکر دے دیتا تھا۔ اسی
لیے اگلی منزل کے لیے روانہ ہونے سے پہلے ہم کمپیوٹر پہ نقشہ دیکھ کر راستے کا
عمومی تعین کرلیتے تھے اور خاص خاص شاہ راہوں کے نمبر یاد کر لیتے تھے۔ پھر جی پی
ایس کا استعمال اسی خاکے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جاتا تھا۔
ہم شمال کی طرف جارہے تھے۔ ایڈی لیڈ سے نکلتے
ہی ہمیں زرعی قطعات ملے۔ ظاہر ہے کہ انگریزوں کے یہاں آنے سے پہلے اس علاقے میں
زراعت نہیں ہوتی تھی۔ کاشت کاری کا یہ سلسلہ بررا نامی قصبے تک چلا۔ پھر جھاڑیاں
اور بیاباں شروع ہوگیا۔ یہاں روڈ پہ کچھ کچھ فاصلے پہ مرے ہوئے کینگرو بھی ملنے
لگے۔ یہ جانور گاڑی اور ٹرک کی ٹکر سے ہلاک ہوئے تھے۔ کچھ اور آگے چلے تو ہمیں
ٹولیوں کی صورت میں دانہ چگتے ایمو نظر آئے۔ ایمو شترمرغ کا رشتہ دار ہے۔ اتنے
بڑے جثے کے پرندوں کی تقسیم یوں ہے کہ افریقہ میں شترمرغ، جنوبی امریکہ میں رییا، اور آسٹریلیا میں ایمو۔ آج کے دور میں
ان تینوں بڑے پرندوں کی گلہ بانی ہوتی ہے۔ امریکہ میں ان تینوں پرندوں کے انڈے
معمولی کوشش سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ہم نے ایک دفعہ ڈاک سے ایمو کے دو انڈے
منگائے تھے۔ ہر انڈے پہ ایک آملیٹ پارٹی کی گئی اور مہمانوں نے اتنے بڑے انڈے کے
ٹوٹنے کا تماشہ شوق سے دیکھا اور تیار ہونے والے بڑے آملیٹ کا لطف اٹھایا۔ بروکن
ہل کے اس راستے میں ہمیں سڑک کے
ساتھ بکریاں اور بھیڑیں بھی چرتی نظر آئیں۔ خیال ہوا کہ شاید ان جانوروں کو بھی
جنگلی ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔
ہم دن کی روشنی میں برکن ہل پہنچنے میں
کامیاب ہوگئے، مگر کچھ ہی دیر میں سورج غروب ہوگیا۔ بروکن ہل ایسا قصبہ ہے جہاں
شام ہوتے ہی سناٹا ہوجاتا ہے۔ ہم لوگ سارا دن گاڑی میں بیٹھے
بیٹھے تنگ آگئے تھے اس لیے ہوٹل کے کمرے میں سامان رکھ کر اس شہر سے تعارف کے لیے
پیدل نکل پڑے۔ بروکن ہل کے مرکز شہر میں گھومتے پھرتے ہمیں اندازہ ہوا کہ گو کہ
بروکن ہل میں کان کنی کا کام قریبا ختم ہوچکا ہے مگر بروکن ہل اپنے اس ماضی سے
پیسے بنانے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ وہاں جگہ جگہ دلچسپ سائن کی مدد سے اس قصبے کی
تاریخ سمجھائی گئی تھی۔ ان سائن کو پڑھ کر آپ یہ جان سکتے تھے کہ بروکن ہل کے
علاقے سے چاندی، نکل، اور دوسری دھاتوں کی کب اور کس طرح کان کنی کی گئی۔ ایک دن
پہلے ہم نے ٹی وی پہ ایک پروگرام دیکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ایلوس پرسلے
کی بیٹی کس طرح ایلوس پرسلے کی یادداشتوں کو ایک نمائش کی شکل دے کر اس سے رقم
بنائی رہی تھی۔ وہ بھی ماضی سے آمدنی پیدا کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ ہر امریکی صدر
وہائٹ ہائوس سے فارغ ہونے کے بعد ایک کتاب ضرور لکھتا ہے۔ یہ بھی ماضی سے پیسہ
بنانے کی ایک ترکیب ہے۔ اور یہی چیلنج ہم سب کے لیے ہے۔ کیا ہم اپنے ماضی سے رقم
بنانے کا طریقہ جانتے ہیں؟
Labels: Australia, Broken Hill, Elvis Presley Museum, Mining Town
Thursday, January 21, 2016
فاتح اور مفتوح
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو چونسٹھ
جنوری
اٹھارہ، دو ہزار سولہ
فاتح اور
مفتوح
شمالی امریکہ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پھیل جانے والے
انگلستان کے بچے یوں تو ایک دوسرے سے دور دور بسے ہیں مگر اتنی دوری کے باوجود یہ
اپنے درمیان ایک پختہ رشتہ محسوس کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان چاروں میں سے ایک جگہ
فروغ پانے والی ٹیکنالوجی باقی تین جگہوں پہ فورا پہنچ جاتی ہے۔ ہوائی جہاز امریکہ
میں ایجاد ہوا مگر اس کا استعمال فوری طور پہ پوری مغربی دنیا میں شروع ہوگیا۔
سڈنی کا ہوائی اڈہ کنگزفورڈ اسمتھ سے منسوب ہے۔ یہ وہ حضرت ہیں جنہوں نے پہلی بار
امریکہ سے آسٹریلیا کا سفر ہوائی جہاز سے طے کیا تھا۔
آسٹریلیا میں ہوائی سفر کی تاریخ میں ایڈورڈ کونیلن کا نام بہت اہم ہے۔ اس نے کونیلن ائیر ویز یا کون ائیر نامی ادارہ
قائم کیا تھا تاکہ آسٹریلیا کے شمالی علاقوں میں لوگوں کی پہنچ بڑھ سکے۔
ہم ایلس اسپرنگس میں واقع ہوا پیمائی عجائب گھر پہنچے تو اس کے بند ہونے میں
کچھ ہی دیر رہ گئی تھی۔ وہ عجائب گھر بہت بڑا نہیں تھا مگر اس چھوٹی سی جگہ میں اس
قدر معلومات فراہم کی گئی تھی کہ مجھ جیسا عجائب گھر سے چمٹ جانے والا لیچڑ شخص اس
جگہ پورا دن گزار سکتا تھا۔ وہیں ہماری ملاقات ایک بڑی عمر کے، دھیمے بولنے والے
اہل کار سے ہوئی جس کا کہنا تھا کہ اس نے اس عجائب گھر میں رکھے کون ائیر کے ایک
پرانے جہاز میں مسافر کی حیثیت سے سفر کیا تھا۔ وہ شخص اپنے اندر ہواپیمائی کے
متعلق معلومات کا خزانہ رکھتا تھا۔ عجائب گھر کا وقت ختم ہونے کے باوجود وہ ہمارے
سوالات کے مفصل جوابات دیتا رہا۔ لگتا تھا کہ اس کو خود بھی یہ باتیں بتانے میں
مزا آرہا تھا۔ پھر ہمیں خود ہی خیال ہوا کہ ہم عجائب گھر کے اس نرم خو افسر کی
اچھی طبیعت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور ہم نے اسے اس کے اوقات کار ختم ہونے
کے باوجود الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ ہم اس کا بہت شکریہ ادا کر کے عجائب گھر سے باہر
آگئے۔
یوں تو ہر ایجاد نے کئی مسائل حل کیے اور مزید ایجادات کے ہزار در کھولے مگر
ایندھن سے گاڑی چلانا ایک ایسی ایجاد تھی جو اپنا ایک جدا مقام رکھتی ہے۔ پھر
انسان نے ہوائی جہاز بنایا تو اس نے اچانک ترقی کی بہت ساری منازل ایک چھلانگ میں
ہی طے کرلیں۔ کیا یہ بات قابل تعریف نہیں ہے کہ گاڑی بنانے کے سو سالوں کے اندر
انسان نے نہ صرف ہوائی جہاز بنایا بلکہ چاند تک بھی پہنچ گیا؟ جو لوگ، جو ممالک،
جو قومیں اس قسم کی ایجادات کریں ان کےلیے دوسروں کو، ان لوگوں کو جنہوں نے اس نئے
دور میں ایسی کوئی ایجادات نہیں کی ہیں، اپنا ہم پلہ سمجھنا کتنا مشکل لگتا ہوگا؟
اپنے اندر یہ انکساری پیدا کرنا کہ میں تو اپنی عقل اور محنت سے چاند پہ پہنچ گیا،
اور یہ دوسرے ایسا کچھ نہ کر پائے، مگر اس کے باوجود ہم سب برابر ہیں، یقینا مشکل
کام ہے۔ اس کے باوجود مغربی اقوام میں یہ وصف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی چکاچوند ترقی
کے باوجود دنیا کے باقی لوگوں کو ایسے کھلم کھلا طعنے نہیں دیتے۔ مگر آخرکار وہ
بھی انسان ہیں؛ دل میں تو ایسا سوچتے ہی ہوں گے۔ مجھے ایک پرانا سفر یاد ہے جب میں
ایک آسٹریلوی شخص کے ساتھ افریقہ میں کہیں سفر کررہا تھا۔ وہ شخص مجھے جرمنی میں
اپنے سفر کے واقعات سنا رہا تھا۔ اسے جرمنی میں کچھ ایسے لوگ ملے تھے جو اس مسافر
کے جرمنی میں انگریزی بولنے پہ خوش نہیں ہوئے تھے۔ اور ان المانیوں کی اس ناخوشی
پہ یہ آسٹریلین خوش نہیں ہوا تھا۔ یہ جرمن بھول گئے کہ جنگ ہم نے جیتی تھی، اس نے
مجھ سے کہا۔ وہ دوسری جنگ عظیم کا حوالہ دے رہا تھا۔ اور آج اس پرانے واقعے کو
سوچ کر مجھے خیال ہے کہ مغربی دنیا کے یہ لوگ دل ہی دل میں اقوام اور ممالک کی
فتوحات اور شکست کا حساب ضرور رکھتے ہوں گے۔ دنیا کے مختلف گروہوں نے ایجادات سے
اپنی زندگیوں کو کس طرح سہل بنایا ہے، اس حساب سے ان گروہوں کی درجہ بندی ضرور
کرتے ہوں گے۔ اور مادی ترقی کے اس موازنے میں آسٹریلیا کے قدیم باشندے یورپی
نوواردوں سے یقینا بہت پیچھے ہیں۔ ایلس اسپرنگس میں ایب اورجنی ہمیں کھانے پینے کی جگہوں کے قریب منڈلاتے نظر آئے۔
انگریز کے آسٹریلیا آنے سے پہلے ان قدیم لوگوں کی اول ترجیح پیٹ پوجا کا انتظام
کرنا تھی۔ ان لوگوں کا روایتی انداز زندگی ان سے چھن گیا ہے مگر ان کی ترجیحات
ابھی بھی وہی پرانی والی نظر آتی ہیں۔
۔
Labels: Alice Springs Aviation Museum, Aviation in Australia, Con Air, Edward Connellan
Friday, January 15, 2016
آسٹریلیا کے آوارہ اونٹ
ایک فکر کے
سلسلے کا کالم
کالم شمار دو
سو ترسٹھ
جنوری دس،
دو ہزار سولہ
آسٹریلیا کے
آوارہ اونٹ
اولورو سے واپس ایلس اسپرنگس پہنچ کر کچھ طمانیت کا احساس ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ
اولورو میں قیام کے دوران ہم دو ہوٹلوں اور دو گاڑیوں کا کرایہ دے رہے تھے؛ ایک
ہوٹل کا کمرہ اولورو میں جو ہمارے زیر استعمال تھا اور دوسرا ایلس اسپرنگس میں جو
خالی پڑا تھا مگر معاہدے کی رو سے اس کا کرایہ ہمیں ضرور دینا تھا؛ ایک گاڑی جو اس
وقت ہمارے تصرف میں تھی، اور دوسری گاڑی جو ایڈی لیڈ میں کھڑی تھی۔ ہمیں رہ رہ کر
یہ خیال ارہا تھا کہ ہمیں ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس تک گاڑی ہی سے آنا چاہیے تھا۔
ہم ایسا کرتے تو اس دہرے خرچ سے بچ جاتے۔
اولورو سے ایلس اسپرنگس کے راستے میں ہمیں جگہ جگہ کینگرو نظر آئے تھے مگر
ہمیں کوئی آوارہ اونٹ نظر نہیں آیا۔ آوارہ اونٹ؟ وہ کیا ہوتا ہے؟ دراصل
آسٹریلیا آمد کے بعد مہم جو انگریز اس بڑے جزیرے کا چپہ چپہ چھاننے کے لیے جنوبی
ساحلی پٹی سے اندر کے علاقوں کی طرف نکلے۔ اس وقت تک ہوائی جہاز ایجاد نہیں ہوا
تھا۔ آسٹریلیا کے وسط میں جس قسم کا بیابان ہے اس جگہ گھوڑوں کا استعمال بہت
کارگر نہ تھا۔ گھوڑا سخت جان جانور ہے مگر محنت کرنے کے بعد خوب پانی مانگتا ہے۔
اور آسٹریلیا کے اس صحرا میں پانی دور دور دستیاب نہ تھا۔ گھوڑے کے مقابلے میں
اونٹ صحرا نوردی کے لیے بہت موزوں ہے۔ اونٹ کو صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے۔ آپ اونٹ
کو ہفتہ بھر پانی نہ دیں، وہ شکایت کیے بغیر صحرا میں چلتا رہے گا۔ اور اسی وجہ سے
انگریز آسٹریلیا میں اونٹ لے کر آئے تاکہ ان اونٹوں پہ سوار ہو کر وہ آسٹریلیا
کے وسط کی اچھی طرح چھان بین کرسکیں۔ انگریز دونوں طرح کے اونٹ یعنی ایک کوہان اور
دو کوہان والے اونٹ آسٹریلیا لائے تھے۔
ہم نے ایڈی لیڈ کی آرٹ گیلری میں ایک بہت خوب صورت پینٹنگ دیکھی تھی۔ اس
پینٹنگ میں اس وقت کی منظر کشی کی گئی تھی جب آسٹریلیا میں اونٹ لائے گئے تھے۔
چونکہ انگریز اونٹ سنبھالنے کے معاملے میں کورے تھے اس لیے وہ ان درآمد شدہ
اونٹوں کے ساتھ شتربان بھی لائے۔ اس پینٹنگ میں ایک شتربان دکھایا گیا ہے۔ اس
آدمی نے جس قسم کی پگڑی باندھی ہوئی ہے اس کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ اس شتربان
کا تعلق سندھ یا راجھستان سے رہا ہوگا۔ اس پینٹنگ کو دیکھ کر میں بہت دیر تک سوچتا
رہا کہ اس شتربان کی کیا کہانی تھی۔ اسے کیا بتا کر یہاں آسٹریلیا لایا گیا ہوگا۔
کیا وہ کبھی واپس اپنے وطن پہنچا یا ایک دن بوڑھا ہو کر یہیں دفن ہوگیا؟ کیا سندھ
یا راجھستان کے کسی خاندان میں ایسی کوئی خاندانی یادداشت موجود ہے جو بتائے کہ کس
طرح ان کے جد میں سے ایک شخص انگریزوں کے ساتھ پانی کے جہاز سے آسٹریلیا چلا گیا
تھا؟
ہوائی جہاز کی ایجاد کے بعد آسٹریلیا میں اونٹوں کی ضرورت کم سے کم ہوتی گئی
اور پھر ایک وقت آیا جب آسٹریلیا لائے جانے والے یہ اونٹ محض بوجھ معلوم دیے۔
اچھا کام یہ کیا گیا کہ ان بے کار اونٹوں کو جان سے نہیں مارا گیا بلکہ انہیں
بیاباں میں ہنکا دیا گیا کہ جا بیٹا، تجھے آزاد کیا۔ اب اپنا دانہ پانی خود تلاش
کرلے۔ چونکہ آسٹریلیا میں کوئی شیر چیتا نہیں پایا جاتا جو ان اونٹوں کا شکار کرے
اس لیے یہ اونٹ آزاد ہونے کے بعد تعداد میں بڑھتے گئے۔ اب ہزاروں کی تعداد میں یہ
آوارہ اونٹ آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں۔ میں جان بوجھ کر ان اونٹوں کو آوارہ
کہہ رہا ہوں جنگلی نہیں کیونکہ یہ اونٹ اسی طرح آوارہ ہیں جس طرح پاکستان میں
آوارہ کتے ہوتے ہیں یعنی ایک جانور جو کسی وقت انسان کا پالتو تھا مگر پھر اسے
آزاد چھوڑ دیا گیا۔ دنیا میں یقینا جنگلی اونٹ بھی پائے جاتے ہیں یعنی ایسے اونٹ
جو زمانہ قدیم سے آزاد ہی رہے ہیں اور کبھی انسان کے قابو میں نہیں آئے۔ ایسے
جنگلی اونٹ چین اور منگولیا کے علاقوں میں ملتے ہیں۔ مگر آسٹریلیا کے اونٹ جنگلی
نہیں ہیں بلکہ آوارہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ یہ ایک کوہان اور دو کوہان
والے آوارہ اونٹ مل جل کر اونٹوں کی کس قسم کی جدا نسل پیدا کرتے ہیں۔
Labels: Feral camels of Australia, History of camels in Australia, India and Pakistan, South Asian Camel drivers in Australia