Thursday, January 21, 2016

 

فاتح اور مفتوح






ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چونسٹھ

جنوری اٹھارہ، دو ہزار سولہ


فاتح اور مفتوح



شمالی امریکہ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پھیل جانے والے انگلستان کے بچے یوں تو ایک دوسرے سے دور دور بسے ہیں مگر اتنی دوری کے باوجود یہ اپنے درمیان ایک پختہ رشتہ محسوس کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان چاروں میں سے ایک جگہ فروغ پانے والی ٹیکنالوجی باقی تین جگہوں پہ فورا پہنچ جاتی ہے۔ ہوائی جہاز امریکہ میں ایجاد ہوا مگر اس کا استعمال فوری طور پہ پوری مغربی دنیا میں شروع ہوگیا۔ سڈنی کا ہوائی اڈہ کنگزفورڈ اسمتھ سے منسوب ہے۔ یہ وہ حضرت ہیں جنہوں نے پہلی بار امریکہ سے آسٹریلیا کا سفر ہوائی جہاز سے طے کیا تھا۔
آسٹریلیا میں ہوائی سفر کی تاریخ میں ایڈورڈ کونیلن کا نام بہت اہم ہے۔  اس نے کونیلن ائیر ویز یا کون ائیر نامی ادارہ قائم کیا تھا تاکہ آسٹریلیا کے شمالی علاقوں میں لوگوں کی پہنچ بڑھ سکے۔
ہم ایلس اسپرنگس میں واقع ہوا پیمائی عجائب گھر پہنچے تو اس کے بند ہونے میں کچھ ہی دیر رہ گئی تھی۔ وہ عجائب گھر بہت بڑا نہیں تھا مگر اس چھوٹی سی جگہ میں اس قدر معلومات فراہم کی گئی تھی کہ مجھ جیسا عجائب گھر سے چمٹ جانے والا لیچڑ شخص اس جگہ پورا دن گزار سکتا تھا۔ وہیں ہماری ملاقات ایک بڑی عمر کے، دھیمے بولنے والے اہل کار سے ہوئی جس کا کہنا تھا کہ اس نے اس عجائب گھر میں رکھے کون ائیر کے ایک پرانے جہاز میں مسافر کی حیثیت سے سفر کیا تھا۔ وہ شخص اپنے اندر ہواپیمائی کے متعلق معلومات کا خزانہ رکھتا تھا۔ عجائب گھر کا وقت ختم ہونے کے باوجود وہ ہمارے سوالات کے مفصل جوابات دیتا رہا۔ لگتا تھا کہ اس کو خود بھی یہ باتیں بتانے میں مزا آرہا تھا۔ پھر ہمیں خود ہی خیال ہوا کہ ہم عجائب گھر کے اس نرم خو افسر کی اچھی طبیعت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور ہم نے اسے اس کے اوقات کار ختم ہونے کے باوجود الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ ہم اس کا بہت شکریہ ادا کر کے عجائب گھر سے باہر آگئے۔
یوں تو ہر ایجاد نے کئی مسائل حل کیے اور مزید ایجادات کے ہزار در کھولے مگر ایندھن سے گاڑی چلانا ایک ایسی ایجاد تھی جو اپنا ایک جدا مقام رکھتی ہے۔ پھر انسان نے ہوائی جہاز بنایا تو اس نے اچانک ترقی کی بہت ساری منازل ایک چھلانگ میں ہی طے کرلیں۔ کیا یہ بات قابل تعریف نہیں ہے کہ گاڑی بنانے کے سو سالوں کے اندر انسان نے نہ صرف ہوائی جہاز بنایا بلکہ چاند تک بھی پہنچ گیا؟ جو لوگ، جو ممالک، جو قومیں اس قسم کی ایجادات کریں ان کےلیے دوسروں کو، ان لوگوں کو جنہوں نے اس نئے دور میں ایسی کوئی ایجادات نہیں کی ہیں، اپنا ہم پلہ سمجھنا کتنا مشکل لگتا ہوگا؟ اپنے اندر یہ انکساری پیدا کرنا کہ میں تو اپنی عقل اور محنت سے چاند پہ پہنچ گیا، اور یہ دوسرے ایسا کچھ نہ کر پائے، مگر اس کے باوجود ہم سب برابر ہیں، یقینا مشکل کام ہے۔ اس کے باوجود مغربی اقوام میں یہ وصف نظر آتا ہے کہ وہ اپنی چکاچوند ترقی کے باوجود دنیا کے باقی لوگوں کو ایسے کھلم کھلا طعنے نہیں دیتے۔ مگر آخرکار وہ بھی انسان ہیں؛ دل میں تو ایسا سوچتے ہی ہوں گے۔ مجھے ایک پرانا سفر یاد ہے جب میں ایک آسٹریلوی شخص کے ساتھ افریقہ میں کہیں سفر کررہا تھا۔ وہ شخص مجھے جرمنی میں اپنے سفر کے واقعات سنا رہا تھا۔ اسے جرمنی میں کچھ ایسے لوگ ملے تھے جو اس مسافر کے جرمنی میں انگریزی بولنے پہ خوش نہیں ہوئے تھے۔ اور ان المانیوں کی اس ناخوشی پہ یہ آسٹریلین خوش نہیں ہوا تھا۔ یہ جرمن بھول گئے کہ جنگ ہم نے جیتی تھی، اس نے مجھ سے کہا۔ وہ دوسری جنگ عظیم کا حوالہ دے رہا تھا۔ اور آج اس پرانے واقعے کو سوچ کر مجھے خیال ہے کہ مغربی دنیا کے یہ لوگ دل ہی دل میں اقوام اور ممالک کی فتوحات اور شکست کا حساب ضرور رکھتے ہوں گے۔ دنیا کے مختلف گروہوں نے ایجادات سے اپنی زندگیوں کو کس طرح سہل بنایا ہے، اس حساب سے ان گروہوں کی درجہ بندی ضرور کرتے ہوں گے۔ اور مادی ترقی کے اس موازنے میں آسٹریلیا کے قدیم باشندے یورپی نوواردوں سے یقینا بہت پیچھے ہیں۔ ایلس اسپرنگس میں ایب اورجنی ہمیں  کھانے پینے کی جگہوں کے قریب منڈلاتے نظر آئے۔ انگریز کے آسٹریلیا آنے سے پہلے ان قدیم لوگوں کی اول ترجیح پیٹ پوجا کا انتظام کرنا تھی۔ ان لوگوں کا روایتی انداز زندگی ان سے چھن گیا ہے مگر ان کی ترجیحات ابھی بھی وہی پرانی والی نظر آتی ہیں۔


۔

Labels: , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?