Friday, January 15, 2016

 

آسٹریلیا کے آوارہ اونٹ





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو ترسٹھ

جنوری دس، دو ہزار سولہ

آسٹریلیا کے آوارہ اونٹ


اولورو سے واپس ایلس اسپرنگس پہنچ کر کچھ طمانیت کا احساس ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ اولورو میں قیام کے دوران ہم دو ہوٹلوں اور دو گاڑیوں کا کرایہ دے رہے تھے؛ ایک ہوٹل کا کمرہ اولورو میں جو ہمارے زیر استعمال تھا اور دوسرا ایلس اسپرنگس میں جو خالی پڑا تھا مگر معاہدے کی رو سے اس کا کرایہ ہمیں ضرور دینا تھا؛ ایک گاڑی جو اس وقت ہمارے تصرف میں تھی، اور دوسری گاڑی جو ایڈی لیڈ میں کھڑی تھی۔ ہمیں رہ رہ کر یہ خیال ارہا تھا کہ ہمیں ایڈی لیڈ سے ایلس اسپرنگس تک گاڑی ہی سے آنا چاہیے تھا۔ ہم ایسا کرتے تو اس دہرے خرچ سے بچ جاتے۔
اولورو سے ایلس اسپرنگس کے راستے میں ہمیں جگہ جگہ کینگرو نظر آئے تھے مگر ہمیں کوئی آوارہ اونٹ نظر نہیں آیا۔ آوارہ اونٹ؟ وہ کیا ہوتا ہے؟ دراصل آسٹریلیا آمد کے بعد مہم جو انگریز اس بڑے جزیرے کا چپہ چپہ چھاننے کے لیے جنوبی ساحلی پٹی سے اندر کے علاقوں کی طرف نکلے۔ اس وقت تک ہوائی جہاز ایجاد نہیں ہوا تھا۔ آسٹریلیا کے وسط میں جس قسم کا بیابان ہے اس جگہ گھوڑوں کا استعمال بہت کارگر نہ تھا۔ گھوڑا سخت جان جانور ہے مگر محنت کرنے کے بعد خوب پانی مانگتا ہے۔ اور آسٹریلیا کے اس صحرا میں پانی دور دور دستیاب نہ تھا۔ گھوڑے کے مقابلے میں اونٹ صحرا نوردی کے لیے بہت موزوں ہے۔ اونٹ کو صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے۔ آپ اونٹ کو ہفتہ بھر پانی نہ دیں، وہ شکایت کیے بغیر صحرا میں چلتا رہے گا۔ اور اسی وجہ سے انگریز آسٹریلیا میں اونٹ لے کر آئے تاکہ ان اونٹوں پہ سوار ہو کر وہ آسٹریلیا کے وسط کی اچھی طرح چھان بین کرسکیں۔ انگریز دونوں طرح کے اونٹ یعنی ایک کوہان اور دو کوہان والے اونٹ آسٹریلیا لائے تھے۔
ہم نے ایڈی لیڈ کی آرٹ گیلری میں ایک بہت خوب صورت پینٹنگ دیکھی تھی۔ اس پینٹنگ میں اس وقت کی منظر کشی کی گئی تھی جب آسٹریلیا میں اونٹ لائے گئے تھے۔ چونکہ انگریز اونٹ سنبھالنے کے معاملے میں کورے تھے اس لیے وہ ان درآمد شدہ اونٹوں کے ساتھ شتربان بھی لائے۔ اس پینٹنگ میں ایک شتربان دکھایا گیا ہے۔ اس آدمی نے جس قسم کی پگڑی باندھی ہوئی ہے اس کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ اس شتربان کا تعلق سندھ یا راجھستان سے رہا ہوگا۔ اس پینٹنگ کو دیکھ کر میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اس شتربان کی کیا کہانی تھی۔ اسے کیا بتا کر یہاں آسٹریلیا لایا گیا ہوگا۔ کیا وہ کبھی واپس اپنے وطن پہنچا یا ایک دن بوڑھا ہو کر یہیں دفن ہوگیا؟ کیا سندھ یا راجھستان کے کسی خاندان میں ایسی کوئی خاندانی یادداشت موجود ہے جو بتائے کہ کس طرح ان کے جد میں سے ایک شخص انگریزوں کے ساتھ پانی کے جہاز سے آسٹریلیا چلا گیا تھا؟
ہوائی جہاز کی ایجاد کے بعد آسٹریلیا میں اونٹوں کی ضرورت کم سے کم ہوتی گئی اور پھر ایک وقت آیا جب آسٹریلیا لائے جانے والے یہ اونٹ محض بوجھ معلوم دیے۔ اچھا کام یہ کیا گیا کہ ان بے کار اونٹوں کو جان سے نہیں مارا گیا بلکہ انہیں بیاباں میں ہنکا دیا گیا کہ جا بیٹا، تجھے آزاد کیا۔ اب اپنا دانہ پانی خود تلاش کرلے۔ چونکہ آسٹریلیا میں کوئی شیر چیتا نہیں پایا جاتا جو ان اونٹوں کا شکار کرے اس لیے یہ اونٹ آزاد ہونے کے بعد تعداد میں بڑھتے گئے۔ اب ہزاروں کی تعداد میں یہ آوارہ اونٹ آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں۔ میں جان بوجھ کر ان اونٹوں کو آوارہ کہہ رہا ہوں جنگلی نہیں کیونکہ یہ اونٹ اسی طرح آوارہ ہیں جس طرح پاکستان میں آوارہ کتے ہوتے ہیں یعنی ایک جانور جو کسی وقت انسان کا پالتو تھا مگر پھر اسے آزاد چھوڑ دیا گیا۔ دنیا میں یقینا جنگلی اونٹ بھی پائے جاتے ہیں یعنی ایسے اونٹ جو زمانہ قدیم سے آزاد ہی رہے ہیں اور کبھی انسان کے قابو میں نہیں آئے۔ ایسے جنگلی اونٹ چین اور منگولیا کے علاقوں میں ملتے ہیں۔ مگر آسٹریلیا کے اونٹ جنگلی نہیں ہیں بلکہ آوارہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وقت کے ساتھ یہ ایک کوہان اور دو کوہان والے آوارہ اونٹ مل جل کر اونٹوں کی کس قسم کی جدا نسل پیدا کرتے ہیں۔

Labels: , , ,


Comments:
informative.. bht shukria malomat me ezafa krne ka..
 
Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?