Thursday, November 26, 2015

 

مرکز شہر میلبورن





ایک فکر کے سلسلے کا کالم

کالم شمار دو سو چھپن

نومبر بائیس، دو ہزار پندرہ


مرکز شہر میلبورن
 
اگلا دن میلبورن کے نام تھا۔ پرانا میلبورن دریائے یارا کے دونوں طرف جدید اور قدیم چھوٹی بڑی عمارتوں کا شہر ہے۔ دراصل مرکز شہر کی رونق ہی دریائے یارا سے ہے جس کے دونوں کناروں پہ لوگ پیدل چل رہے ہوتے ہیں اور مختلف نوع کے بازی گر لوگوں کو تماشہ دکھا کر مجمع اکھٹا کرتے ہیں۔ کچھ کچھ فاصلے پہ موجود پل سیاحوں کو دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جانے کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔
انگریز اپنے جزیرے سے بحری جہاز سے نکلے اور جہاز کے ذریعے ہی دور دراز مقامات تک پہنچے۔ چنانچہ انگریزوں کو ہر وہ جگہ پسند آئی جہاں مخصوص جغرافیے کی وجہ سے بندرگاہ بنائی جا سکے اور جہاز سمندر کی طغیانی سے دور کھڑے کیے جا سکیں۔ بحری جہاز کو لنگر انداز کرنے کی اسی کسوٹی پہ کراچی پہ پورا اترا، سڈنی بھی، اور میلبورن بھی۔ اب ہم میلبورن بندرگاہ سمیت ان ہی علاقوں کو دیکھنے جا رہے تھے جہاں انگریز کی آمد ہوئی تھی۔ مگر اپنے مسافر خانے سے میلبورن کے مرکز شہر جانے سے پہلے ہمیں ایک اہم کام کرنا تھا۔ ہمیں نقد آسٹریلوی ڈالر حاصل کرنے تھے۔ آسٹریلیا ان مہذب معاشروں میں ہے جہاں آدمی پہ بھروسہ کیا جاتا ہے۔ مالی لین دین میں مستقل یہ وسوسہ نہیں رہتا کہ دوسرا آپ کو دھوکہ دے کر بھاگ جائے گا۔ قانون آپ کے ساتھ ہے۔ قانون آپ کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو ذرا سی دیر میں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ اور اسی وجہ سے آسٹریلیا میں ہرجگہ ہمارا کریڈٹ کارڈ چل رہا تھا اور ہمیں نقد آسٹریلوی ڈالر جیب میں رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر بعض جگہ کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں نقصان ہوتا تھا۔ یہ ایسی جگہیں تھیں جہاں نقد کے مقابلے میں کریڈٹ کارڈ کے استعمال پہ اضافی محصول تھا۔ کم بجٹ مسافر ہونے کے ناتے ہمیں ایسے سودے برے لگتے تھے اور اسی وجہ سے ہم اپنے ساتھ تھوڑی نقدی رکھنا چاہتے تھے۔ آسٹریلوی ڈالر حاصل کرنے کی سعی دراصل چند روز سے جاری تھی۔ سڈنی میں رقم تبدیلی کے بارے میں معلوم کیا تھا مگر نقد امریکی ڈالر سے نقد آسٹریلوی ڈالر کا سودا اچھا معلوم نہ دیا تھا۔ کچھ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اے ٹی ایم سے رقم نکلوانا سب سے زیادہ سودمند ہوگا۔ اس سلسلے میں اس بینک کی تلاش شروع ہوئی جو ہمارے امریکی بینک کا آسٹریلیا میں ساتھی ہو تاکہ آسٹریلیا کا وہ بینک ہم سے اپنے ای ٹی ایم کے استعمال کی اضافی رقم نہ اینٹھے۔ آج کے دور میں ہرقسم کی معلومات انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔ مسافر خانے کا انٹرنیٹ کنکشن تیزرفتار تھا، ذرا سی دیر میں مطلوبہ بینک کے بارے میں معلوم ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس بینک کی ایک اے ٹی ایم اس مسافر خانے سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ بین الاقوامی سفر کرنے والے اکثر مسافروں کو یہ سب باتیں اچھی طرح معلوم ہوں گی۔ اس کے باوجود میں یہ سب کچھ اپنے ان احباب کے لیے لکھ رہا ہوں جو میرے اس طرح کے طویل سفر پہ حیران ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ بیرون ملک سفر بہت مہنگا سودا ہے۔ کم بجٹ مسافر انہیں بتاتے ہیں کہ سفر ایک مہنگا سودا ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو صرف ہفتے بھر کے لیے کہیں جاتے ہیں؛ ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑ کر پہنچتے ہیں، مہنگے ہوٹل میں ٹہرتے ہیں، اور ہر کھانا باہر کھاتے ہیں۔ کم بجٹ مسافر ایسا نہیں کرتے۔ یہ مسافر اپنے سفر کا ہر دن ایک مخصوص بجٹ کے اندر گزارتے ہیں اور اسی وجہ سے کم بجٹ مسافر ہر خرچ سے پہلے خوب سوچتے ہیں۔ اور ایک سفر ہی کیا اگر زندگی ہی ایسے گزاری جائے کہ ہر مالی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے تو شاید لوگ مشکلات میں نہ گھریں کہ موجودہ دنیا میں اکثر مشکلات کی جڑ مالی وسائل اور ان کے موثر استعمال میں ہوتی ہے۔
میلبورن کے مرکز شہر میں کرائون نامی ایک جوا خانہ بڑی جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ میلبورن میں رہنے والے ہمارے ساتھیوں نے مشورہ دیا تھا کہ ہم کرائون جوا خانے کے گیراج میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد پیدل مرکز شہر کی سیر کریں۔ ہم نے ایسا ہی کیا بلکہ اس سے ایک درجہ بہتر کام کیا۔ اور وہ یہ کر ہمیں جواخانے کے باہر روڈ پہ گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ مل گئی۔ اس طرح جواخانے کے گیراج میں گاڑی کھڑی کرنے کی فیس سے بچت ہوئی۔ اب اگر میں آپ کو پیسے بچانے کے سارے قصے بتا ہی رہا ہوں تو یہ بھی بتا دوں کہ اس روز دوپہر کا کھانا کیسے مفت کھایا گیا۔ کہتے ہیں کہ شکرخورے کو شکر ملتی ہے۔ اسی طرح کم بجٹ مسافر کو بھی کفایت شعاری کے مواقع قدرت فراہم کرتی ہے۔ روڈ کے ساتھ گاڑی کھڑی کر کے دریائے یارا کی طرف چلے تو راستے میں لوگوں کی ایک قطار دیکھی اور دیکھا کہ جو قطار سے فارغ ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں کھانے کے ایک پلیٹ ہوتی ہے۔ ہم ٹھٹھکے۔ پوچھا کہ کیا قصہ ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں نئے اپارٹمنٹ بنے ہیں۔ اگر آپ دفتر کے اندر جائیں، اپارٹمنٹ کے بارے میں بازپرس کریں، اور اپنا ای میل ایڈریس اور ٹیلی فون نمبر دفتر والوں کو دیں تو آپ کو مفت کھانے کا کوپن ملے گا۔ قطار میں کھڑے ہوں اور کوپن کی مدد سے مفت کھانا حاصل کریں۔ اس وقت تک صبح کا ناشتہ پیٹ میں تھا اور اگلے کھانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی مگر سوچا کہ کبھی تو بھوک لگے گی، اس وقت تو کھانا پکڑو۔ چنانچہ دفتر کے اندر جا کر نئے اپارٹمنٹ کی قیمت معلوم کی، کھانے کا کوپن حاصل کیا، اور پھرقطار میں لگ کر کھانا لیا۔
ہم صبح سے شام تک میلبورن میں پھرتے رہے۔ میلبورن کے مرکزی حصے میں تمام ٹرام مفت چلتی ہیں۔ ایک ایسی ہی ٹرام میں سوار ہو کر پورے شہر کا چکر لگایا اور مشہور زمانہ میلبورن کرکٹ گرائونڈ یعنی ایم سی جی کے قریب اترے۔ ٹرام اسٹیشن سے میلبورن کرکٹ گرائونڈ کی طرف پیدل چلتے ہم نے ساتھ سڑک پہ دوڑتی گاڑیوں کو دیکھا اورسوچا کہ ایم سی جی جاتے ہوئے ہمارے ملک کے کتنے ہی کھلاڑی اس راستے سے گزرے ہوں گے۔ ہم نے میلبورن کرکٹ گرائونڈ کے اندر داخل ہوکر وہاں کی تصویریں اتاریں اور پھر باہر آگئے۔ اس تاریخی اسٹیڈیم کے باہر مشہور آسٹریلوی بائولر شین وارن کا مجسمہ نصب ہے اور مجسمے کے نیچے لگی تختی میں دعوی کیا گیا ہے کہ شین وارن نے لیگ اسپن کے مردہ فن کو زندہ کیا۔ ہم اس بڑ کو پڑھ کر زیر لب مسکرائے۔ ہمارا خیال تھا کہ لیگ اسپن تو کبھی مردہ فن نہ تھا۔ ہم اپنے عبدالقادر کو شین وارن سے بڑا لیگ اسپن کا جادوگر مانتے ہیں۔ مگر ہمارے ماننے یا نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم اس وقت آسٹریلیا میں تھے اور شین وارن ایک آسٹریلوی کھلاڑی ہے۔ میلبورن شین وارن کی مدح سرائی میں جو کرے تھوڑا ہے۔



Labels: , , , , , , ,


Comments: Post a Comment



<< Home

This page is powered by Blogger. Isn't yours?